چھٹی ملک گیر مردم شماری۔۔۔15مارچ تا 15مئی
الزامات اور تنازعات کی بنیاد کیا ہے؟،سرکاری اہل کاروں کا ایک اور امتحان شروع ہوتا ہے
KABIRWALA:
مردم شماری کسی بھی ملک کی معاشی اور سماجی بہتری کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے۔ دنیا بھر میں حکومتیں عوام کو بہتر سے بہتر سہولیات فراہم کرنے کے لیے مردم شماری کے نتائج کو مدنظر رکھتے ہوئے ہی مستقبل کی منصوبہ بندی کرتی ہیں۔
مردم شماری کے اعدادوشمار پر ہی حکومتیں آمدنی کی تقسیم، تعلیم، روزگار، قدرتی وسائل کی تقسیم کے منصفانہ فیصلے کرتی ہیں۔ تاہم پاکستان میں مردم شماری کا عمل اور اس کے نتائج ہمیشہ سے ہی شکوک و شبہات کا شکار رہے ہیں۔ پاکستان میں مردم شماری ایک ایسا پیچیدہ عمل ہے، جس پر ملک کی تمام تر جماعتوں کو ایک نکتے پر متفق کرنا مشکل ترین کام رہا ہے۔ پاکستان میں آخری بار 1998میں مردم شماری کی گئی جو کہ سات سال تاخیر کے بعد کی گئی تھی۔ اس کے بعد کئی مرتبہ ملک بھر میں مردم شماری کرانے کے اعلانات کیے گئے۔
تاہم اس میں دانستہ اور نادانستہ طور پر مختلف رکاوٹیں حائل ہوتی رہیں اور بالآخر وفاقی وزیراطلاعات مریم اورنگزیب نے پندرہ مارچ سے ملک بھر میں فوج کی زیرنگرانی چھٹی مردم شماری کرانے کا اعلان کردیا۔ انیس سال کے وقفے کے بعد ہونے والی یہ مردم شماری دو مرحلوں میں مکمل کی جائے گی، جس میں 15 مارچ کو شروع ہونے والا پہلا مرحلہ 15 اپریل تک مکمل کرلیا جائے گا، جب کہ دوسرا مرحلہ 25اپریل سے شروع ہوکر 25مئی کو ختم ہوگا۔ بارہ مارچ کو اسلام آباد میں ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل آصف غفور کے ساتھ پریس کانفرنس کرتے ہوئے مریم اورنگزیب نے بتایا کہ پاکستان کی چھٹی مردم شماری کے لیے ساڑھے اٹھارہ ارب روپے کا بجٹ مختص کیا گیا ہے، جس میں سے چھے ارب روپے دفاعی بجٹ سے اور بقیہ رقم سویلین بجٹ سے لی جائے گی۔ ملک کی تاریخ میں پہلی بار بے گھر افراد اور تیسری صنف کو بھی مردم شماری کا حصہ بنایا جائے گا۔
فوج کی نگرانی میں ہونے والی مردم شماری کا عمل تمام صوبوں میں بیک وقت مکمل کیا جائے گا۔ مردم شماری کے عمل کو سرانجام دینے کے لیے سوا لاکھ سے زاید تربیت یافتہ سرکاری ملازمین اپنی خدمات سرانجام دیں گے۔ اس بابت ان کا کہنا تھا کہ 'ہر پاکستانی شہری اور پاکستان میں موجود دہری شہریت کے حامل ہر فرد کا اندراج کیا جائے گا، جب کہ سفارتی خدمات سرانجام دینے والے افراد کی معلومات وزارت خارجہ فراہم کرے گی۔'' آئی ایس پی آر کے ترجمان میجر جنرل آصف غفور نے گزشتہ مردم شماری کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ پانچویں مردم شماری میں یہ عمل 19دن میں ایک ہی مرحلے میں مکمل کیا گیا، تاہم اب سیکیوریٹی وجوہات کی بنا پر اسے دو مرحلوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔
اس پورے عمل کی گرانی کے لیے ہم نے مردم شماری کو پُرامن اور شفاف طریقے سے سرانجام دینے کے لیے دو لاکھ فوجیوں کو تعینات کیا گیا ہے، جو قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ مل کر اس عمل کو سرانجام دیں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ مردم شماری کے کسی بھی مرحلے پر غلط یا گمراہ کُن معلومات دینا جرم تصور کیا جائے گا اور چھے ماہ قید اور 50ہزار روپے جرمانہ بھی عاید کیا جائے گا۔
٭مردم شماری پر سیاسی جماعتوں کے تحفظات
پاکستان کی سیاسی جماعتوں نے حکومت کی جانب سے مردم شماری کروانے کے اعلان کا خیر مقدم کرتے ہوئے اس عمل کو شفاف بنانے اور نتائج کی بنیاد پر وسائل کی منصفانہ تقسیم کا بھی مطالبہ کیا ہے۔ پاکستان تحریک انصاف سے تعلق رکھنے والے رکن صوبائی اسمبلی خیبرپختونخوا شوکت علی یوسف زئی کا کہنا ہے کہ ' وسائل کی شفاف طریقے سے تقسیم کے لیے مردم شماری ضروری ہے اور یہ ہمارا دیرینہ مطالبہ تھا۔ ہم فوج کی نگرانی میں اس عمل کو خوش آمدید کہتے ہیں۔ ایم کیو ایم پاکستان کے راہ نما فیصل سبزواری نے مردم شماری کے انعقاد کو خوش آئند قرار دیتے ہوئے امید ظاہر کی کہ اس بار ہماری خواہش ہے کی جو بے ضابطگیاں گذشتہ مردم شماری میں دیکھنے میں آئی تھی وہ اس بار نہ ہوں۔
ان کا کہنا ہے کہ 1998میں ہونے والی مردم شماری بھی فوج کی نگرانی میں کی گئی تھی، تاہم اس کے باوجود کراچی کے شہریوں اور سندھ کے شہری علاقوں کا یہ شکوہ بلکل جائز تھا کہ اردو بولنے والوں کی تعداد کم ظاہر کی گئی، کیوں کہ مردم شماری کی بنیاد پر ہی قومی مالیاتی کمیشن کے وسائل کی تقسیم اور حدبندیاں ہوتی ہیں۔ ہمیں امید ہے کہ اس مردم شماری کے بعد نہ صرف ہماری نشستوں میں اضافہ ہوگا بلکہ ہمیں وسائل میں سے زیادہ حصہ بھی ملے گا۔ اگر یہ تمام عمل شفاف طریقے سے مکمل ہوا تو اس سے شہری سندھ کی سیاسی اساس مستحکم ہوگی بلکہ شہریوں کی مجموعی زندگی میں بھی بہتری آئے گی۔
پاکستان پیپلزپارٹی کے راہ نما سینیٹر سلیم مانڈوی والا کا اس بابت کچھ یوں کہنا ہے: ہم نے سینیٹ میں ایک قرارداد پیش کی تھی جس میں ایک کمیٹی کی تشکیل کا مطالبہ کیا تھا جو مردم شماری کے انتظامی ڈھانچے طریقۂ کار اور اس کے قانون پر ایک نظر ڈالے۔ ہمارے تحفظات یہ ہیں کہ اس سارے عمل میں تمام ارکان، بورڈ، فنکشنل ممبران کا تعین وفاقی حکومت کرتی ہے اور اس میں صوبائی حکومتوں کا کوئی عمل دخل نہیں ہوتا۔ مردم شماری ہمارے صوبے میں ہونی ہے تو اس میں ہمارے ارکان بھی شامل ہونے چاہیے اور ان کی غیرموجودگی اس انتظامی ڈھانچے میں بہت بڑی خامی ہے۔ ہمارا یہی مطالبہ ہے کہ شماریات ڈویژن کو خودمختار ادارہ بنایا جائے اور اس میں شفافیت، خودمختاری اور آئینی تحفظ دیا جائے، اور سیاسی اثرورسوخ سے پاک رکھا جائے۔ پختونخواملی عوامی پارٹی کے عثمان خان کاکڑ کا کہنا ہے کہ مردم شماری صوبوں اور وفاق کے درمیان بنیادی مسئلہ ہے۔
تاہم یہ تمام عمل اور حالیہ حکومتی اعلان خوش آئند ہے تاہم یہ تمام عمل صاف شفاف اور حقائق کی بنیاد پر ہونا چاہیے۔ بلوچستان میں بلوچ پشتون مسئلہ اسی مردم شماری کی وجہ سے ہے۔ انھوں نے دعویٰ کیا کہ قیام پاکستان سے قبل بلوچستان میں پشتونوں اور بلوچوں کی آبادی برابر تھی، لیکن 1972 کی مردم شماری میں بلوچوں کی تعداد پشتونوں سے زیادہ ظاہر کی گئی جو کہ شفاف مردم شماری میں ہونا ممکن نہیں۔ بلوچستان نیشنل پارٹی مینگل گروپ کے سینیٹر جہانزیب جمالدینی نے مردم شماری کے فیصلے کو خوش آئند قرار دیتے ہوئے کہا کہ تقریباً 40 لاکھ افغان پناہ گزیں پاکستانی معاشرے کا حصہ بن چکے ہیں اور بعض سیاسی جماعتیں انہیں بہ طور پاکستانی رجسٹرڈ کرانے کی کوشش میں ہیں اور اگر ایسا ہوا تو یقیناً مردم شماری کے نتائج پر منفی اثرات مرتب ہوں گے اور ایک طرح سے یہ بلوچوں کو اقلیت میں بدلنے کی کوشش ہی ہوگی۔
انہوں نے کہا کہ فوجی آپریشن کی وجہ سے بلوچستان کے مختلف علاقوں سے بلوچ نقل مکانی کرچکے ہیں۔ خصوصاً آوران، ڈیرہ بگٹی، اور مکران کے بعض علاقوں سے لوگ دیگر علاقوں میں منتقل ہوچکے ہیں، جب کہ بلوچستان کے ایسے علاقے جہاں امن و امان کی صورت حال مخدوش ہے وہاں مردم شماری کا کام کرنے والے عملے کو بھی تحفظات ہیں۔ حکومت کو چاہیے کہ مردم شماری سے پہلے صوبے میں بلوچوں کی دوبارہ آبادکاری، افغان پناہ گزینوں کے انخلا کے ساتھ ساتھ صوبے میں جاری شورش کے خاتمے کے لیے ٹھوس اقدامات کرے ورنہ اس کے بغیر بغیر بلوچستان میں شفاف مردم شماری کرانا ناممکن ہے۔
یاد رہے کہ رقبے کے اعتبار سے ملک کے سب سے بڑے صوبے میں بعض بلوچ اور پشتون قوم پرست جماعتوں کے درمیان ہمیشہ اکثریت اور اقلیت میں ہونے کا تنازعہ رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ماضی میں ہونے والی مردم شماریوں کے نتائج پشتون قوم پرستوں نے تسلیم نہیں کیے جب کہ حالیہ مردم شماری کے بارے میں بلوچ قوم پرست جماعتوں کو تحفظات ہیں کہ سازگار حالات کے بغیر مردم شماری کے نتائج کو وہ تسلیم نہیں کریں گے۔ بلوچستان کی قوم پرست جماعتیں اس وقت دو واضح حصوں میں تقسیم ہوگئی ہیں۔ ایک وہ بلوچ قوم پرست ہیں جو کہ خود کو علیحدگی پسند کہتے ہیں اور وہ نہ صرف مردم شماری سے لاتعلق ہیں بل کہ اس کی مخالفت بھی کر رہے ہیں۔ دوسری طرف پارلیمانی سیاست کرنے والی بلوچ اور پشتون قوم پرست جماعتیں مردم شماری کی تو حامی ہیں لیکن بلوچ قوم پرستوں کا کہنا ہے کہ بلوچستان کے موجودہ حالات مردم شماری کے لیے سازگار نہیں۔
گذشتہ ہفتے کوئٹہ میں بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ سردار اختر مینگل نے ایک پریس کانفرنس سے خطاب میں بلوچستان میں مردم شماری کے لیے تین مطالبات پیش کیے، انہوں نے کہا کہ امن و امان کی مخدوش صورت حال کی وجہ سے بلوچستان کے بلوچ آبادی والے بہت سارے علاقوں سے لوگ نقل مکانی کرچکے ہیں۔ جب تک بلوچستان میں امن و امان کا قیام، نقل مکانی کرنے والوں کی ان کے آبائی علاقوں میں دوبارہ آباد کاری اور اور تمام غیرملکیوں کی باعزت طریقے سے ان کے ملکوں میں واپسی نہیں ہوتی، اس وقت تک وہ کسی بھی مردم شماری کو تسلیم نہیں کریں گے۔
انہوں نے کہا کہ سخت سیکیوریٹی کے باوجود صوبے میں انتخابی عمل بھی بری طرح متاثر ہوا تھا تو پھر ان حالات میں مردم شماری کیسے ممکن ہے؟ بلوچ قوم پرستوں کو ایک شکایت یہ بھی ہے کہ اس وقت لاکھوں کی تعداد میں افغان مہاجرین بلوچستان میں آباد ہیں اور ان کی بڑی تعداد نے پاکستانی شہریت بھی حاصل کر رکھی ہے۔ یاد رہے کہ 1998میں ہونے والی مردم شماری میں سردار اختر مینگل اقتدار میں تھے اور پشتون قوم پرست جماعت پشتونخوا ملی عوامی پارٹی نے مردم شماری کا بائیکاٹ کیا تھا۔
پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے صوبائی صدر سینیٹر عثمان کاکڑ کا کہنا ہے کہ گذشتہ مردم شماری میں پشتونوں کو اقلیت میں تبدیل کیا گیا۔ پہلے بلوچستان میں پشتونوں اور بلوچوں کی آبادی مساوی تھی لیکن 1971 میں اقتدار بلوچ اکابرین کے پاس تھا، جنہوں نے صوبے میں پشتونوں کی آبادی کو اقلیت میں تبدیل کردیا۔ 1971ء کی مردم شماری میں پشتونوں کی آبادی کو 50فی صد سے کم کر کے 30فی صد جب کہ بلوچوں کی آبادی کو 50فی صد سے بڑھاکر70فی صد کردیا گیا تھا۔ انہوں نے کہا بلوچ قوم پرستوں کی جانب سے افغان مہاجرین کی موجودگی میں مردم شماری کی مخالفت محض ایک بہانہ ہے۔
دوسری طرف حکم راں جماعت کے راہ نما اور پنجاب حکومت کے ترجمان زعیم قادری نے مردم شماری کروانے میں تاخیر کا ذمے دار دھرنوں کو قرار دیتے ہوئے کہا کہ ہماری حکومت تو شروع دن سے ہی اس کام کو کرنے کے لیے تیار تھی لیکن ہمیں پہلے دن سے ہی کبھی دھرنے اور کبھی دوسرے ہتھکنڈے استعمال کرکے اہم حکومتی امور کو سرانجام دینے سے روکا جاتا رہا ہے۔
مردم شماری ایک قومی معاملہ ہے اور اس میں کسی قسم کی ہیر پھیر وفاق اور صوبوں دونوں کے لیے زہرقاتل ثابت ہوگی۔ ہمیں امید ہے کہ مردم شماری کا عمل شفاف طریقے سے پایۂ تکیمل تک پہنچایا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ دی گئی ٹائم لائن پر ہر کام کو مکمل کیا جائے گا اور اس کے نتائج کی بنیاد پر صوبوں میں وسائل کی تقسیم، مسائل و ضروریات کے بارے میں اعدادوشمار حاصل کرنے میں مدد ملے گی، کیوں کہ صوبوں میں پانی کی تقسیم، ٹیکس کا حصول، بے روزگاری، بجلی اور رہائش جیسے اہم مسائل کا حل مردم شماری سے حاصل ہونے والے اعداد وشمار کے بنا ممکن نہیں ہے۔
٭مردم شماری کے عمل میں شامل عملہ
چھٹی مردم شماری کے لیے عارف انوربلوچ کو پروونشل سینسس کمشنر لاہور، عبدل علیم میمن کو پروونشل سینسس کمشنر کراچی، ممتاز علی خان کو پروونشل سینسس کمشنر پشاور، محمد یحییٰ اخونزادہ کو پروونشل سینسس کمشنر گلگت بلتستان، پاسند خان بلیدی کو پروونشل سینسس کمشنر کوئٹہ، راجا طارق محمود کو سینسس کمشنر مظفر آباد ، آزاد جموں کشمیر مقرر کیا گیا ہے۔ چھٹی مردم شماری کے لیے صوبہ پنجاب کو نو ڈویژنز راولپنڈی، سرگودھا، فیصل آباد، گوجرانوالہ، لاہور، ساہیوال ، ملتان ، ڈیرہ غازی خان اور بھاولپور ڈیویژن میں تقسیم کرکے 93797 انومینیٹرز (شمار کنندہ)، 13439سینسز سپروائزر اور 1715چارجز سپرنٹنڈنٹ تعینات کیے گئے ہیں۔
خیبر پختون خوا کو سات ڈویژنز مالاکنڈ، ہزارہ، مردان، پشاور، کوہاٹ، بنو اور ڈیرہ اسمعٰیل خان میں تقسیم کیا ہے۔ جس کے لیے 22165انومینیٹرز (شمار کنندہ)، 2521سینسز سپروائزر اور 371چارجز سپرنٹنڈنٹ تعینات کیے گئے ہیں۔ صوبہ سندھ کو چھے ڈویژنز لاڑکانہ، سکھر ، شہید بے نظیر آباد، حیدرآباد، میرپورخاص اور کراچی ڈویژن میں تقسیم کیا ہے۔ جہاں42379انومینیٹرز (شمار کنندہ)، 5379سینسز سپروائزر اور 974چارجز سپرنٹنڈنٹ اپنے فرائض سر انجام دیں گے۔ صوبہ بلوچستان کو چھے ڈویژن کوئٹہ، ژوب، سبی، نصیر آباد، قلات اور مکران ڈویژن میں تقسیم کیا ہے، جس کے لیے 10923انومینیٹرز (شمار کنندہ)، 800 سینسز سپروائزر اور290 چارجز سپرنٹنڈنٹ ڈیوٹی کریں گے۔
فاٹا کو ایجنسی کی بنیاد پر تقسیم کیا گیا ہے جس میں باجوڑ، مہمند، خیبر، کُرم ، اورکزئی، شمالی اور جنوبی وزیرستان ایجنسی شا مل ہیں، جس کے لیے4179انومینیٹرز (شمار کنندہ)، 317سینسز سپروائزر اور 53چارجز سپرنٹنڈنٹ تعینات کیے گئے ہیں۔ آزاد جموں و کشمیر کو تین ڈویژن مظفرآباد، راولا کوٹ اور میر پور ڈویژن میں تقسیم کر کے 4414انومینیٹرز (شمار کنندہ)، 492سینسز سپروائزر اور 98چارجز سپرنٹنڈنٹ تعینات کیے گئے ہیں۔ گلگت بلتستان کو بھی تین ڈویژن گلگت، بلتستان اور استور میں تقسیم کیا گیا ہے۔ جہاں1371انومینیٹرز (شمار کنندہ)، 155سینسز سپروائزر اور 39چارجز سپرنٹنڈنٹ اپنی خدمات سر انجام دیں گے، جب کہ پورے اسلام آباد کو ایک ڈسٹرکٹ بنایا گیا ہے، جس کے لیے1233انومینیٹرز (شمار کنندہ)، 118سینسز سپروائزر اور15چارجز سپرنٹنڈنٹ تعینات کیے گئے ہیں۔
فارم میں معذور افراد کا کالم نہ ہونے پر عدالت کا اظہار برہمی
گذشتہ روز سندھ ہائی کورٹ میں مردم شماری فارم میں معذور افراد کے لیے کالم نہ ہونے کی درخواست کی سماعت کی گئی۔ عدالت نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ مردم شماری شروع ہونے والی ہے اور شیڈول جاری ہوچکا ہے۔
معذور افراد بھی اس معاشرے کا حصہ ہیں اور حکومت کو اس بات کا خیال رکھنا چاہیے تھا۔ جب 1988کی مردم شماری میں معذور افراد کے لیے کالم موجود تھا تو اب کیوں نہیں ہے؟ جسٹس منیب اختر نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ اس میں کسی قسم کی کوتاہی کو معذور افراد کے حقوق سلب کرنے کی کوشش سمجھا جائے گا۔ عدالت نے فریقین کے دلائل سننے کے بعد حکومت کو مردم شماری فارم میں معذور افراد کے لیے کالم شامل کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے وفاقی اور صوبائی حکومت سے 17مارچ تک جواب طلب کر لیا ہے۔
معذور افرا اپنی معذوری کے باوجود زندگی کے تمام شعبہ جات میں اپنی خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ لیکن بدقسمتی سے پاکستان میں معذور افراد کا ہر سطح پر معاشی اور معاشرتی استحصال جاری ہے، جس کی واضح مثال حالیہ مردم شماری ہے جس کے موجودہ فارم 2 میں معذور افراد کے بارے میں معلومات کے اندراج کا خانہ سرے سے غائب ہے۔ آج سے شروع ہونے والی چھٹی مردم شماری میں دو فارم شامل کیے گئے ہیں۔
فارم 2 تمام گھرانوں سے پُر کروایا جائے گا، جس میں معذور افراد کے بارے میں معلومات کے اندراج کا خانہ موجود ہی نہیں ہے، جب کہ فارم 2A جس میں 33 مدات شامل ہیں، اس فارم میں معذور افراد کے بارے میں معلومات کے اندراج کا خانہ موجود ہے۔ فارم 2A ہر گھرانے سے پر نہیں کروایا جائے گا بلکہ اس کے اعداد و شمار نمونہ بندی کے طریقۂ کار (sampling method) کے ذریعے حاصل کیے جائیں گے۔ فارم 2A کے ذریعے معذور افراد کی کل آبادی کا تخمینہ لگانا ممکن نہیں ہوپائے گا۔
(ب۔ع)
مردم شماری کسی بھی ملک کی معاشی اور سماجی بہتری کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے۔ دنیا بھر میں حکومتیں عوام کو بہتر سے بہتر سہولیات فراہم کرنے کے لیے مردم شماری کے نتائج کو مدنظر رکھتے ہوئے ہی مستقبل کی منصوبہ بندی کرتی ہیں۔
مردم شماری کے اعدادوشمار پر ہی حکومتیں آمدنی کی تقسیم، تعلیم، روزگار، قدرتی وسائل کی تقسیم کے منصفانہ فیصلے کرتی ہیں۔ تاہم پاکستان میں مردم شماری کا عمل اور اس کے نتائج ہمیشہ سے ہی شکوک و شبہات کا شکار رہے ہیں۔ پاکستان میں مردم شماری ایک ایسا پیچیدہ عمل ہے، جس پر ملک کی تمام تر جماعتوں کو ایک نکتے پر متفق کرنا مشکل ترین کام رہا ہے۔ پاکستان میں آخری بار 1998میں مردم شماری کی گئی جو کہ سات سال تاخیر کے بعد کی گئی تھی۔ اس کے بعد کئی مرتبہ ملک بھر میں مردم شماری کرانے کے اعلانات کیے گئے۔
تاہم اس میں دانستہ اور نادانستہ طور پر مختلف رکاوٹیں حائل ہوتی رہیں اور بالآخر وفاقی وزیراطلاعات مریم اورنگزیب نے پندرہ مارچ سے ملک بھر میں فوج کی زیرنگرانی چھٹی مردم شماری کرانے کا اعلان کردیا۔ انیس سال کے وقفے کے بعد ہونے والی یہ مردم شماری دو مرحلوں میں مکمل کی جائے گی، جس میں 15 مارچ کو شروع ہونے والا پہلا مرحلہ 15 اپریل تک مکمل کرلیا جائے گا، جب کہ دوسرا مرحلہ 25اپریل سے شروع ہوکر 25مئی کو ختم ہوگا۔ بارہ مارچ کو اسلام آباد میں ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل آصف غفور کے ساتھ پریس کانفرنس کرتے ہوئے مریم اورنگزیب نے بتایا کہ پاکستان کی چھٹی مردم شماری کے لیے ساڑھے اٹھارہ ارب روپے کا بجٹ مختص کیا گیا ہے، جس میں سے چھے ارب روپے دفاعی بجٹ سے اور بقیہ رقم سویلین بجٹ سے لی جائے گی۔ ملک کی تاریخ میں پہلی بار بے گھر افراد اور تیسری صنف کو بھی مردم شماری کا حصہ بنایا جائے گا۔
فوج کی نگرانی میں ہونے والی مردم شماری کا عمل تمام صوبوں میں بیک وقت مکمل کیا جائے گا۔ مردم شماری کے عمل کو سرانجام دینے کے لیے سوا لاکھ سے زاید تربیت یافتہ سرکاری ملازمین اپنی خدمات سرانجام دیں گے۔ اس بابت ان کا کہنا تھا کہ 'ہر پاکستانی شہری اور پاکستان میں موجود دہری شہریت کے حامل ہر فرد کا اندراج کیا جائے گا، جب کہ سفارتی خدمات سرانجام دینے والے افراد کی معلومات وزارت خارجہ فراہم کرے گی۔'' آئی ایس پی آر کے ترجمان میجر جنرل آصف غفور نے گزشتہ مردم شماری کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ پانچویں مردم شماری میں یہ عمل 19دن میں ایک ہی مرحلے میں مکمل کیا گیا، تاہم اب سیکیوریٹی وجوہات کی بنا پر اسے دو مرحلوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔
اس پورے عمل کی گرانی کے لیے ہم نے مردم شماری کو پُرامن اور شفاف طریقے سے سرانجام دینے کے لیے دو لاکھ فوجیوں کو تعینات کیا گیا ہے، جو قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ مل کر اس عمل کو سرانجام دیں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ مردم شماری کے کسی بھی مرحلے پر غلط یا گمراہ کُن معلومات دینا جرم تصور کیا جائے گا اور چھے ماہ قید اور 50ہزار روپے جرمانہ بھی عاید کیا جائے گا۔
٭مردم شماری پر سیاسی جماعتوں کے تحفظات
پاکستان کی سیاسی جماعتوں نے حکومت کی جانب سے مردم شماری کروانے کے اعلان کا خیر مقدم کرتے ہوئے اس عمل کو شفاف بنانے اور نتائج کی بنیاد پر وسائل کی منصفانہ تقسیم کا بھی مطالبہ کیا ہے۔ پاکستان تحریک انصاف سے تعلق رکھنے والے رکن صوبائی اسمبلی خیبرپختونخوا شوکت علی یوسف زئی کا کہنا ہے کہ ' وسائل کی شفاف طریقے سے تقسیم کے لیے مردم شماری ضروری ہے اور یہ ہمارا دیرینہ مطالبہ تھا۔ ہم فوج کی نگرانی میں اس عمل کو خوش آمدید کہتے ہیں۔ ایم کیو ایم پاکستان کے راہ نما فیصل سبزواری نے مردم شماری کے انعقاد کو خوش آئند قرار دیتے ہوئے امید ظاہر کی کہ اس بار ہماری خواہش ہے کی جو بے ضابطگیاں گذشتہ مردم شماری میں دیکھنے میں آئی تھی وہ اس بار نہ ہوں۔
ان کا کہنا ہے کہ 1998میں ہونے والی مردم شماری بھی فوج کی نگرانی میں کی گئی تھی، تاہم اس کے باوجود کراچی کے شہریوں اور سندھ کے شہری علاقوں کا یہ شکوہ بلکل جائز تھا کہ اردو بولنے والوں کی تعداد کم ظاہر کی گئی، کیوں کہ مردم شماری کی بنیاد پر ہی قومی مالیاتی کمیشن کے وسائل کی تقسیم اور حدبندیاں ہوتی ہیں۔ ہمیں امید ہے کہ اس مردم شماری کے بعد نہ صرف ہماری نشستوں میں اضافہ ہوگا بلکہ ہمیں وسائل میں سے زیادہ حصہ بھی ملے گا۔ اگر یہ تمام عمل شفاف طریقے سے مکمل ہوا تو اس سے شہری سندھ کی سیاسی اساس مستحکم ہوگی بلکہ شہریوں کی مجموعی زندگی میں بھی بہتری آئے گی۔
پاکستان پیپلزپارٹی کے راہ نما سینیٹر سلیم مانڈوی والا کا اس بابت کچھ یوں کہنا ہے: ہم نے سینیٹ میں ایک قرارداد پیش کی تھی جس میں ایک کمیٹی کی تشکیل کا مطالبہ کیا تھا جو مردم شماری کے انتظامی ڈھانچے طریقۂ کار اور اس کے قانون پر ایک نظر ڈالے۔ ہمارے تحفظات یہ ہیں کہ اس سارے عمل میں تمام ارکان، بورڈ، فنکشنل ممبران کا تعین وفاقی حکومت کرتی ہے اور اس میں صوبائی حکومتوں کا کوئی عمل دخل نہیں ہوتا۔ مردم شماری ہمارے صوبے میں ہونی ہے تو اس میں ہمارے ارکان بھی شامل ہونے چاہیے اور ان کی غیرموجودگی اس انتظامی ڈھانچے میں بہت بڑی خامی ہے۔ ہمارا یہی مطالبہ ہے کہ شماریات ڈویژن کو خودمختار ادارہ بنایا جائے اور اس میں شفافیت، خودمختاری اور آئینی تحفظ دیا جائے، اور سیاسی اثرورسوخ سے پاک رکھا جائے۔ پختونخواملی عوامی پارٹی کے عثمان خان کاکڑ کا کہنا ہے کہ مردم شماری صوبوں اور وفاق کے درمیان بنیادی مسئلہ ہے۔
تاہم یہ تمام عمل اور حالیہ حکومتی اعلان خوش آئند ہے تاہم یہ تمام عمل صاف شفاف اور حقائق کی بنیاد پر ہونا چاہیے۔ بلوچستان میں بلوچ پشتون مسئلہ اسی مردم شماری کی وجہ سے ہے۔ انھوں نے دعویٰ کیا کہ قیام پاکستان سے قبل بلوچستان میں پشتونوں اور بلوچوں کی آبادی برابر تھی، لیکن 1972 کی مردم شماری میں بلوچوں کی تعداد پشتونوں سے زیادہ ظاہر کی گئی جو کہ شفاف مردم شماری میں ہونا ممکن نہیں۔ بلوچستان نیشنل پارٹی مینگل گروپ کے سینیٹر جہانزیب جمالدینی نے مردم شماری کے فیصلے کو خوش آئند قرار دیتے ہوئے کہا کہ تقریباً 40 لاکھ افغان پناہ گزیں پاکستانی معاشرے کا حصہ بن چکے ہیں اور بعض سیاسی جماعتیں انہیں بہ طور پاکستانی رجسٹرڈ کرانے کی کوشش میں ہیں اور اگر ایسا ہوا تو یقیناً مردم شماری کے نتائج پر منفی اثرات مرتب ہوں گے اور ایک طرح سے یہ بلوچوں کو اقلیت میں بدلنے کی کوشش ہی ہوگی۔
انہوں نے کہا کہ فوجی آپریشن کی وجہ سے بلوچستان کے مختلف علاقوں سے بلوچ نقل مکانی کرچکے ہیں۔ خصوصاً آوران، ڈیرہ بگٹی، اور مکران کے بعض علاقوں سے لوگ دیگر علاقوں میں منتقل ہوچکے ہیں، جب کہ بلوچستان کے ایسے علاقے جہاں امن و امان کی صورت حال مخدوش ہے وہاں مردم شماری کا کام کرنے والے عملے کو بھی تحفظات ہیں۔ حکومت کو چاہیے کہ مردم شماری سے پہلے صوبے میں بلوچوں کی دوبارہ آبادکاری، افغان پناہ گزینوں کے انخلا کے ساتھ ساتھ صوبے میں جاری شورش کے خاتمے کے لیے ٹھوس اقدامات کرے ورنہ اس کے بغیر بغیر بلوچستان میں شفاف مردم شماری کرانا ناممکن ہے۔
یاد رہے کہ رقبے کے اعتبار سے ملک کے سب سے بڑے صوبے میں بعض بلوچ اور پشتون قوم پرست جماعتوں کے درمیان ہمیشہ اکثریت اور اقلیت میں ہونے کا تنازعہ رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ماضی میں ہونے والی مردم شماریوں کے نتائج پشتون قوم پرستوں نے تسلیم نہیں کیے جب کہ حالیہ مردم شماری کے بارے میں بلوچ قوم پرست جماعتوں کو تحفظات ہیں کہ سازگار حالات کے بغیر مردم شماری کے نتائج کو وہ تسلیم نہیں کریں گے۔ بلوچستان کی قوم پرست جماعتیں اس وقت دو واضح حصوں میں تقسیم ہوگئی ہیں۔ ایک وہ بلوچ قوم پرست ہیں جو کہ خود کو علیحدگی پسند کہتے ہیں اور وہ نہ صرف مردم شماری سے لاتعلق ہیں بل کہ اس کی مخالفت بھی کر رہے ہیں۔ دوسری طرف پارلیمانی سیاست کرنے والی بلوچ اور پشتون قوم پرست جماعتیں مردم شماری کی تو حامی ہیں لیکن بلوچ قوم پرستوں کا کہنا ہے کہ بلوچستان کے موجودہ حالات مردم شماری کے لیے سازگار نہیں۔
گذشتہ ہفتے کوئٹہ میں بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ سردار اختر مینگل نے ایک پریس کانفرنس سے خطاب میں بلوچستان میں مردم شماری کے لیے تین مطالبات پیش کیے، انہوں نے کہا کہ امن و امان کی مخدوش صورت حال کی وجہ سے بلوچستان کے بلوچ آبادی والے بہت سارے علاقوں سے لوگ نقل مکانی کرچکے ہیں۔ جب تک بلوچستان میں امن و امان کا قیام، نقل مکانی کرنے والوں کی ان کے آبائی علاقوں میں دوبارہ آباد کاری اور اور تمام غیرملکیوں کی باعزت طریقے سے ان کے ملکوں میں واپسی نہیں ہوتی، اس وقت تک وہ کسی بھی مردم شماری کو تسلیم نہیں کریں گے۔
انہوں نے کہا کہ سخت سیکیوریٹی کے باوجود صوبے میں انتخابی عمل بھی بری طرح متاثر ہوا تھا تو پھر ان حالات میں مردم شماری کیسے ممکن ہے؟ بلوچ قوم پرستوں کو ایک شکایت یہ بھی ہے کہ اس وقت لاکھوں کی تعداد میں افغان مہاجرین بلوچستان میں آباد ہیں اور ان کی بڑی تعداد نے پاکستانی شہریت بھی حاصل کر رکھی ہے۔ یاد رہے کہ 1998میں ہونے والی مردم شماری میں سردار اختر مینگل اقتدار میں تھے اور پشتون قوم پرست جماعت پشتونخوا ملی عوامی پارٹی نے مردم شماری کا بائیکاٹ کیا تھا۔
پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے صوبائی صدر سینیٹر عثمان کاکڑ کا کہنا ہے کہ گذشتہ مردم شماری میں پشتونوں کو اقلیت میں تبدیل کیا گیا۔ پہلے بلوچستان میں پشتونوں اور بلوچوں کی آبادی مساوی تھی لیکن 1971 میں اقتدار بلوچ اکابرین کے پاس تھا، جنہوں نے صوبے میں پشتونوں کی آبادی کو اقلیت میں تبدیل کردیا۔ 1971ء کی مردم شماری میں پشتونوں کی آبادی کو 50فی صد سے کم کر کے 30فی صد جب کہ بلوچوں کی آبادی کو 50فی صد سے بڑھاکر70فی صد کردیا گیا تھا۔ انہوں نے کہا بلوچ قوم پرستوں کی جانب سے افغان مہاجرین کی موجودگی میں مردم شماری کی مخالفت محض ایک بہانہ ہے۔
دوسری طرف حکم راں جماعت کے راہ نما اور پنجاب حکومت کے ترجمان زعیم قادری نے مردم شماری کروانے میں تاخیر کا ذمے دار دھرنوں کو قرار دیتے ہوئے کہا کہ ہماری حکومت تو شروع دن سے ہی اس کام کو کرنے کے لیے تیار تھی لیکن ہمیں پہلے دن سے ہی کبھی دھرنے اور کبھی دوسرے ہتھکنڈے استعمال کرکے اہم حکومتی امور کو سرانجام دینے سے روکا جاتا رہا ہے۔
مردم شماری ایک قومی معاملہ ہے اور اس میں کسی قسم کی ہیر پھیر وفاق اور صوبوں دونوں کے لیے زہرقاتل ثابت ہوگی۔ ہمیں امید ہے کہ مردم شماری کا عمل شفاف طریقے سے پایۂ تکیمل تک پہنچایا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ دی گئی ٹائم لائن پر ہر کام کو مکمل کیا جائے گا اور اس کے نتائج کی بنیاد پر صوبوں میں وسائل کی تقسیم، مسائل و ضروریات کے بارے میں اعدادوشمار حاصل کرنے میں مدد ملے گی، کیوں کہ صوبوں میں پانی کی تقسیم، ٹیکس کا حصول، بے روزگاری، بجلی اور رہائش جیسے اہم مسائل کا حل مردم شماری سے حاصل ہونے والے اعداد وشمار کے بنا ممکن نہیں ہے۔
٭مردم شماری کے عمل میں شامل عملہ
چھٹی مردم شماری کے لیے عارف انوربلوچ کو پروونشل سینسس کمشنر لاہور، عبدل علیم میمن کو پروونشل سینسس کمشنر کراچی، ممتاز علی خان کو پروونشل سینسس کمشنر پشاور، محمد یحییٰ اخونزادہ کو پروونشل سینسس کمشنر گلگت بلتستان، پاسند خان بلیدی کو پروونشل سینسس کمشنر کوئٹہ، راجا طارق محمود کو سینسس کمشنر مظفر آباد ، آزاد جموں کشمیر مقرر کیا گیا ہے۔ چھٹی مردم شماری کے لیے صوبہ پنجاب کو نو ڈویژنز راولپنڈی، سرگودھا، فیصل آباد، گوجرانوالہ، لاہور، ساہیوال ، ملتان ، ڈیرہ غازی خان اور بھاولپور ڈیویژن میں تقسیم کرکے 93797 انومینیٹرز (شمار کنندہ)، 13439سینسز سپروائزر اور 1715چارجز سپرنٹنڈنٹ تعینات کیے گئے ہیں۔
خیبر پختون خوا کو سات ڈویژنز مالاکنڈ، ہزارہ، مردان، پشاور، کوہاٹ، بنو اور ڈیرہ اسمعٰیل خان میں تقسیم کیا ہے۔ جس کے لیے 22165انومینیٹرز (شمار کنندہ)، 2521سینسز سپروائزر اور 371چارجز سپرنٹنڈنٹ تعینات کیے گئے ہیں۔ صوبہ سندھ کو چھے ڈویژنز لاڑکانہ، سکھر ، شہید بے نظیر آباد، حیدرآباد، میرپورخاص اور کراچی ڈویژن میں تقسیم کیا ہے۔ جہاں42379انومینیٹرز (شمار کنندہ)، 5379سینسز سپروائزر اور 974چارجز سپرنٹنڈنٹ اپنے فرائض سر انجام دیں گے۔ صوبہ بلوچستان کو چھے ڈویژن کوئٹہ، ژوب، سبی، نصیر آباد، قلات اور مکران ڈویژن میں تقسیم کیا ہے، جس کے لیے 10923انومینیٹرز (شمار کنندہ)، 800 سینسز سپروائزر اور290 چارجز سپرنٹنڈنٹ ڈیوٹی کریں گے۔
فاٹا کو ایجنسی کی بنیاد پر تقسیم کیا گیا ہے جس میں باجوڑ، مہمند، خیبر، کُرم ، اورکزئی، شمالی اور جنوبی وزیرستان ایجنسی شا مل ہیں، جس کے لیے4179انومینیٹرز (شمار کنندہ)، 317سینسز سپروائزر اور 53چارجز سپرنٹنڈنٹ تعینات کیے گئے ہیں۔ آزاد جموں و کشمیر کو تین ڈویژن مظفرآباد، راولا کوٹ اور میر پور ڈویژن میں تقسیم کر کے 4414انومینیٹرز (شمار کنندہ)، 492سینسز سپروائزر اور 98چارجز سپرنٹنڈنٹ تعینات کیے گئے ہیں۔ گلگت بلتستان کو بھی تین ڈویژن گلگت، بلتستان اور استور میں تقسیم کیا گیا ہے۔ جہاں1371انومینیٹرز (شمار کنندہ)، 155سینسز سپروائزر اور 39چارجز سپرنٹنڈنٹ اپنی خدمات سر انجام دیں گے، جب کہ پورے اسلام آباد کو ایک ڈسٹرکٹ بنایا گیا ہے، جس کے لیے1233انومینیٹرز (شمار کنندہ)، 118سینسز سپروائزر اور15چارجز سپرنٹنڈنٹ تعینات کیے گئے ہیں۔
فارم میں معذور افراد کا کالم نہ ہونے پر عدالت کا اظہار برہمی
گذشتہ روز سندھ ہائی کورٹ میں مردم شماری فارم میں معذور افراد کے لیے کالم نہ ہونے کی درخواست کی سماعت کی گئی۔ عدالت نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ مردم شماری شروع ہونے والی ہے اور شیڈول جاری ہوچکا ہے۔
معذور افراد بھی اس معاشرے کا حصہ ہیں اور حکومت کو اس بات کا خیال رکھنا چاہیے تھا۔ جب 1988کی مردم شماری میں معذور افراد کے لیے کالم موجود تھا تو اب کیوں نہیں ہے؟ جسٹس منیب اختر نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ اس میں کسی قسم کی کوتاہی کو معذور افراد کے حقوق سلب کرنے کی کوشش سمجھا جائے گا۔ عدالت نے فریقین کے دلائل سننے کے بعد حکومت کو مردم شماری فارم میں معذور افراد کے لیے کالم شامل کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے وفاقی اور صوبائی حکومت سے 17مارچ تک جواب طلب کر لیا ہے۔
معذور افرا اپنی معذوری کے باوجود زندگی کے تمام شعبہ جات میں اپنی خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ لیکن بدقسمتی سے پاکستان میں معذور افراد کا ہر سطح پر معاشی اور معاشرتی استحصال جاری ہے، جس کی واضح مثال حالیہ مردم شماری ہے جس کے موجودہ فارم 2 میں معذور افراد کے بارے میں معلومات کے اندراج کا خانہ سرے سے غائب ہے۔ آج سے شروع ہونے والی چھٹی مردم شماری میں دو فارم شامل کیے گئے ہیں۔
فارم 2 تمام گھرانوں سے پُر کروایا جائے گا، جس میں معذور افراد کے بارے میں معلومات کے اندراج کا خانہ موجود ہی نہیں ہے، جب کہ فارم 2A جس میں 33 مدات شامل ہیں، اس فارم میں معذور افراد کے بارے میں معلومات کے اندراج کا خانہ موجود ہے۔ فارم 2A ہر گھرانے سے پر نہیں کروایا جائے گا بلکہ اس کے اعداد و شمار نمونہ بندی کے طریقۂ کار (sampling method) کے ذریعے حاصل کیے جائیں گے۔ فارم 2A کے ذریعے معذور افراد کی کل آبادی کا تخمینہ لگانا ممکن نہیں ہوپائے گا۔
(ب۔ع)