قاضی حسین احمد

ان کے قول و فعل میں رتی برابر فرق نہیں تھا اور انھیں اس بات پر ہمیشہ فخر رہا

S_afarooqi@yahoo.com

دسمبر 2012 کا اختتام اور جنوری 2013 کا آغاز دو عظیم سانحات سے عبارت ہے۔ پروفیسر غفور احمد کی رحلت اور اس کے چند روز بعد قاضی حسین احمد کا داغ مفارقت۔ یہ بھی کیا عجب اتفاق ہے کہ غفور صاحب کے تعاقب میں قاضی صاحب جلد ہی ملک عدم روانہ ہوگئے۔ یہ دونوں حضرات جماعت اسلامی کے ستون اور پورے پاکستان کا سرمایہ تھے۔6 جنوری کو صبح سویرے قاضی صاحب کے انتقال کی خبر سنی تو تھوڑی دیر کے لیے سکتہ سا طاری ہوگیا۔

1938 میں 12 تاریخ کو جب انھوں نے اس دار فانی میں آکر آنکھ کھولی تو وہ بھی جنوری کا ہی مہینہ تھا، اسے محض اتفاق ہی کہا جاسکتا ہے۔ قاضی صاحب جیسے لوگ صدیوں میں پیدا ہوا کرتے ہیں۔ انھوں نے دیوبندی عقائد کے پیروکار ایک دین دار گھرانے میں آنکھ کھولی، جہاں جید عالم دین حضرت مولانا حسین احمد مدنیؒ سے قلبی عقیدت کی بنا پر ان کے والد نے ان کا نام بڑی چاؤ کے ساتھ حسین احمد رکھ دیا اور یوں دین داری ان کی گھٹی میں شامل ہوگئی۔دیوبندی مسلک سے وابستگی کے باوجود انھوں نے خود کو کبھی مسلکی حدود میں مقید نہیں کیا کیونکہ تمام مکاتب فکر کا احترام انھیں دل و جان سے عزیز تھا۔

انھوں نے ایک دوسرے کی امامت میں نماز ادا کرنے کی روایت کو عام کرکے اخوت بین المسلمین کے درس کو نہ صرف نذر عوام کیا بلکہ اسے عملی جامہ بھی پہنایا۔ اسی بنا پر پاکستان میں ایران کے سابق سفیر سید سراج الدین موسوی نے انھیں داعی اتحاد بین المسلمین قرار دیا ہے۔ ان کی دلی خواہش تھی کہ مذہبی انتہاپسندی، فروعی اختلافات اور مسلکی ولسانی تعصبات کا خاتمہ ہو اور دین اسلام کا امن و آشتی کے مذہب کے طور پر دنیا بھر میں بول بالا ہو۔ وہ اسلام کے سچے پیروکار اور سیاست میں شرافت کے چلن کے علم بردار تھے۔ وہ دین اور سیاست کو الگ الگ خانوں میں بانٹنے کے قائل نہیں تھے ۔

ان کے قول و فعل میں رتی برابر فرق نہیں تھا اور انھیں اس بات پر ہمیشہ فخر رہا کہ انھوں نے زہر ہلاہل کو کبھی قند نہیں کہا۔ اسی بنا پر بعض حلقے انھیں سخت گیر سمجھتے تھے مگر درحقیقت یہ ان کی سخت گیری نہیں بلکہ منافقت سے شدید نفرت تھی۔ اپنے پیش رو کے برعکس وہ جنرل ضیاء الحق کے ریفرنڈم کے حامی تھے۔ ان کا خیال یہ بھی تھا کہ اگر حزب اسلامی اور جمعیت اسلامی نے آپس میں تصادم سے گریز کیا ہوتا تو طالبان فیکٹر معرض وجود میں نہ آیا ہوتا۔ یہ قاضی حسین احمد کے ایما پر مولانا فضل الرحمن کی مشترکہ کوششوں کا ہی نتیجہ تھا کہ مولانا شاہ احمد نورانی کی قیادت میں متحدہ مجلس عمل (ایم ایم اے) کے نام سے دینی جماعتوں کا ایک اتحاد وجود میں آیا جو مولانا نورانی کی وفات کے بعد زیادہ دیر تک قائم نہ رہ سکا۔


قاضی صاحب نے 1970 میں جماعت اسلامی جوائن کی اور 1987 میں جماعت کی امارت کا منصب سنبھالا جس پر وہ تقریباً 22 سال تک فائز رہے جوکہ ایک غیر معمولی بات ہے۔ 2008 میں انھیں دوبارہ امیر بنانے پر اصرار کیا گیا، لیکن انھوں نے معذرت کرلی۔ ان کے دور امارت میں کئی اہم تبدیلیاں واقع ہوئیں مثلاً انھوں نے مسلکی ہم آہنگی کو فروغ دیا اور جماعت اسلامی کو ایک عوامی جماعت بنانے کی مخلصانہ کوشش کی۔ اس اعتبار سے اگر انھیں انقلابی کہا جائے تو شاید یہ مبالغہ نہ ہوگا۔ قاضی صاحب کی ایک اور نمایاں خوبی یہ تھی کہ وہ دوسروں کی طرح محض زاہد خشک نہیں تھے۔ شعروشاعری سے انھیں گہرا شغف تھا اور علامہ اقبال ان کے مرشد تھے جن کے اشعار وہ اپنی تقریروں اور تحریروں میں برمحل اور بے تکان استعمال کیا کرتے تھے ۔

جس سے ان کے کہے اور لکھے کا مزہ دوآتشہ ہوجاتا تھا۔ اقبال کے اردو اور فارسی کے اشعار انھیں زبانی یاد تھے۔ اس حوالے سے اگر انھیں حافظ کلام اقبال کہا جائے تو شاید بے جانہ ہوگا۔ اقبال کے علاوہ فیضؔ کی شاعری کے بھی قاضی صاحب بڑے دلدادہ تھے اور ان کے بھی بہت سے اشعار انھیں ازبر تھے۔ اس کے علاوہ قاضی صاحب اور احمد فرازؔ کے درمیان بھی ایک ادبی رشتہ تھا، اگرچہ یہ بعدالقطبین والا معاملہ تھا کیونکہ دونوں کے خیالات اور نظریات میں زمین و آسمان کا فرق تھا۔ دراصل قاضی صاحب کو فرازؔ کی شاعری اچھی لگتی تھی جبکہ فرازؔ ان کی کشادہ دلی کے قائل تھے۔ قاضی صاحب نہ صرف بذات خود نرم خو اور لچک دار مزاج کے حامل تھے بلکہ وہ جماعت اسلامی کا ایک سافٹ امیج بھی پیش کرنا چاہتے تھے۔ ممکن ہے کہ نومبر 2012 میں ان کے قافلے پر مہمند ایجنسی میں جو ناکام خودکش حملہ کیا گیا تھا اس کا سبب بھی یہی ہو۔

قاضی صاحب نے جس دینی گھرانے میں آنکھ کھولی اس کا تعلق ایک متوسط طبقے سے تھا۔ یہ ایک سفید پوش خاندان تھا جس سے تعلق رکھنے والے تمام ممبران کو زندگی میں بڑی جدوجہد کرنی پڑی۔ خود قاضی صاحب ایک سیلف میڈ قسم کے آدمی تھے جنہوں نے تادم آخر اپنے مرشد اقبالؔ کی اس نصیحت پر حرف بہ حرف عمل کیا کہ ''اپنی دنیا آپ پیدا کر اگر زندوں میں ہے''۔ پشاور یونیورسٹی سے جغرافیہ کے مضمون میں ایم۔ایس۔سی کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد انھوں نے جہاں زیب کالج، سیدو شریف میں تقریباً تین سال تک بحیثیت لیکچرار ملازمت کی، مگر جماعتی سرگرمیوں میں مصروفیت اور اپنے فطری رجحان کے باعث انھوں نے نوکری چھوڑ کر ذاتی کاروبار کو ترجیح دی اور کچھ عرصہ تک سرحد چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے نائب صدر بھی رہے۔

ہمارا قیاس ہے کہ ملازمت پر ذاتی کاروبار کو ترجیح دینا بھی قاضی صاحب کے نزدیک پیروی رسولؐ کا ایک حصہ تھا۔ اپنے بدترین مخالفین کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آنا قاضی صاحب کی شخصیت کا ایک نمایاں وصف تھا جو انھیں دیگر ہم خیالوں سے ممتاز کرتا ہے۔ یہ وہی خوبی ہے جو ان کے علاوہ جماعت کے نائب امیر پروفیسر غفور احمد میں بھی بدرجہ اتم موجود تھی۔ کراچی میں لسانی تعصبات کی آگ بھڑکی تو آپ پشاور سے ''کاروان دعوت و محبت'' کو لے کر نکلے اور پورے ملک کا دورہ کرتے ہوئے کراچی اور پھر اس کے بعد پشاور واپس پہنچے۔ انھوں نے بکھری ہوئی متحدہ مجلس عمل کو سمیٹنے کی تادم آخر مقدور بھر کوشش کی لیکن افسوس کہ اختلافات کی خلیج اتنی وسیع ہوچکی تھی کہ اسے پاٹنے میں کامیاب نہ ہوسکے۔
Load Next Story