شکایتیں مطالبات تنازعات

مردم شماری کے حوالے سے ملک کے چاروں صوبوں اور مختلف علاقوں سے اُٹھتی آوازیں

مردم شماری کے حوالے سے ملک کے چاروں صوبوں اور مختلف علاقوں سے اُٹھتی آوازیں ۔ فوٹو : فائل

کراچی کسی کے لیے تنگ نہیں پڑا۔ اس نے ہمیشہ دل کشادہ کیا، آنے والوں کے لیے بانہیں پھیلائیں، خوش آمدید کہا۔ اس ساحلی شہر نے قیامِ پاکستان کے بعد جہاں مہاجرین کو بسایا، وہیں اس کی بندر گاہ پر تجارتی سرگرمیوں اور بعد کے برسوں میں تیزی سے پنپتی صنعتوں نے ملک کے کونے کونے میں بسے لوگوں کو یہاں روزگار کے لیے کھینچا۔ کراچی کسی کا عارضی ٹھکانہ بنا تو کسی نے یہاں مستقل قیام کرلیا۔ جو آیا وہ یہیں بَس گیا اور یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔ کراچی میں صرف ہندوستان سے آنے والے مہاجر اور سندھی نہیں بلکہ پشتون، پنجابی اور بلوچ عوام کے علاوہ مختلف دوسرے لسانی گروہ بھی مستقل آباد ہیں۔ صوبۂ سندھ کے دارالحکومت کا درجہ رکھنے والے اس شہر میں تارکینِ وطن بھی ہیں جن کی قانونی اور غیرقانونی حیثیت پر مباحث ہم سنتے رہتے ہیں۔

قیامِ پاکستان کے بعد مہاجرین نے صوبۂ سندھ میں کراچی کے علاوہ حیدرآباد، میرپورخاص، سکھر، ٹنڈو جام، ٹنڈوالہ یار، ٹنڈوآدم اور شہداد پور جیسے شہروں میں سکونت اختیار کی۔ یہ اردو بولتے تھے جب کہ مقامی لوگوں کی زبان سندھی تھی۔ بندرگاہ کی وجہ سے کراچی تجارتی اہمیت کا حامل تھا اور آج ملک کا معاشی مرکز مانا جاتا ہے۔ کراچی کی صنعتی و تجارتی سرگرمیاں اور روزگار کے زیادہ اور بہتر مواقع دیگر صوبوں کے لوگوں کو یہاں لاتے رہے جو وقت کے ساتھ ساتھ وسائل اور آبادی کے توازن پر اثرانداز ہوئے۔ پھر یوں ہوا کہ شہر کے مسائل بڑھ گئے۔ انتظامی ادارے اور اسمبلی میں سیاسی نمائندے بھی اس شہر کے لیے نئی منصوبہ بندی کے ساتھ وسائل اور مالی طور پر توجہ دینے کی بات کرنے لگے۔ اس عرصے میں بھی شہر کی آبادی اور ساتھ ہی معاشی سرگرمیوں کی رفتار بھی کم نہیں ہوئی، لیکن یہ ہر طرح سے برباد ہوتا نظر آنے لگا۔

اس شہر میں لسانی، ثقافتی، مذہبی اور سیاسی اعتبار سے الگ الگ نظریات اور فکر کے لوگ بستے ہیں اور زندگی کے ہر شعبے میں ان کا گہرا اثر اور عمل دخل نظر آتا ہے۔ بدقسمتی سے انہی مختلف گروہوں میں باہمی کھنچاؤ یا سرد جنگ کی وجہ سے کراچی نے خوں ریزی بھی دیکھی، یہاں پُرتشدد واقعات عام تھے اور خوف کی فضا تھی اور یہ سب بے سبب نہیں تھا۔ صوبۂ سندھ میں سیاسی مفادات کی دوڑ نے لسانیت اور تعصب کو خوب پروان چڑھایا۔ اس صوبے میں شہری سندھ اور دیہی سندھ کی تفریق کا انتظامی امور میں تو آج تک کوئی فائدہ نظر نہیں آتا، لیکن یہ تقسیم سیاسی مفادات کی تکمیل ضرور کرتی رہی۔ مقامی اور غیرمقامی کا تنازعہ فسادات تک لے گیا۔ ایک طرف سندھی بولنے والے تھے اور دوسری جانب اردو بولنے مہاجر اور دیگر قومیتیں جو کراچی کے علاوہ بھی دیگر شہروں میں روزگار کی غرض سے ٹھکانا کرچکی تھیں۔ مردم شماری ہوئی تو آبادیوں میں تعداد کم ظاہر کرنے کا الزام سنائی دیا اور دوریاں بڑھتی چلی گئیں۔ کوٹا سسٹم کی بنیاد رکھی گئی تو اسے ایک بڑی آبادی نے تعصب اور حقوق سلب کرنے سے تعبیر کیا۔ محرومیوں اور ناانصافیوں کے خلاف آوازیں بلند ہونے لگیں۔

1970ء کی دہائی سے بات کریں تو وفاق اور سندھ میں پیپلزپارٹی نے واضح کام یابی حاصل کی تھی۔ کراچی کے شہری علاقوں میں اُس وقت جماعتِ اسلامی اور مذہبی جماعتوں کے اتحاد کام یاب رہے تھے۔ بعد میں یہاں مہاجر قومی موومنٹ کا قیام عمل میں آیا جو اردو بولنے والوں کی نمائندہ جماعت تھی اور شہری سندھ کی انتخابی سیاست میں کام یاب ہوتی رہی۔ مخالفین کہتے ہیں کہ وفاق اور سندھ میں حکومت میں آنے کے بعد پیپلزپارٹی نے کراچی کو اہمیت نہیں دی اور دیہی اور شہری آبادی میں تفریق نے محرومیوں کو جنم دیا۔ اس کی ایک مثال کوٹا سسٹم کا نفاذ تھا۔ یوں پہلی بار سندھ کو عملی طور پر تقسیم کرکے اربن سندھ اور رورل سندھ کی بنیاد رکھی گئی۔ مہاجروں کی بڑی تعداد کراچی کے علاوہ حیدرآباد، میرپورخاص، سکھر، ٹنڈوالہ یار اور دیگر علاقوں میں آباد تھی جس نے ملازمتوں اور سہولیات میں خود کو محروم پایا اور دیگر اقدامات نے بھی اسے مقامی لوگوں سے دور کردیا۔ سیاسی مفادات نے سندھ میں لسانی فسادات اور تعصب کو خوب ہوا دی اور کراچی مقتل بن گیا۔ 1977ء میں مارشل لا لگا، لیکن کوٹا سسٹم برقرار رہا۔ بلدیاتی اداروں سے بھی شہری علاقوں کی مہاجر آبادی کو سہولیات کی عدم فراہمی اور ترقیاتی منصوبوں میں حصہ نہ دینے کی شکایت رہی۔ بعد میں ایم کیو ایم نے انہی محرومیوں اور ناانصافیوں کی بنیاد پر اردو بولنے والوں کی بھرپور حمایت سے 1987ء میں بلدیاتی اور 1988ء میں پارلیمانی محاذ پر کام یابی حاصل کی۔ بے نظیر بھٹو وزیراعظم بنیں تو ایم کیو ایم کو صوبائی حکومت میں بھی شامل کیا، مگر شہری اور دیہی آبادی میں دوریاں کم نہ ہوسکیں۔ ایم کیو ایم نے متعدد بار سندھ کی تقسیم کا مطالبہ کیا تو پی پی پی نے اس کی سخت مخالفت کرتے ہوئے ایک خواب قرار دیا۔

اس وقت ملک بھر میں مردم شماری کا چرچا ہے۔ قومی اور سندھ کی علاقائی سیاسی جماعتوں نے مردم شمار کو یہاں بسنے والوں کی بقا اور سلامتی کا مسئلہ قرار دیا ہے۔ وفاق پر وسائل اور فنڈز کی تقسیم میں ناانصافی اور حق تلفی کا الزام لگانے والی جماعتیں مردم شماری کے نتائج کے حوالے سے بھی خدشات کا اظہار کررہی ہیں۔ سندھ میں برسوں سے شہری اور دیہی آبادی میں منقسم ہے۔ کراچی کی بات کی جائے تو آج یہاں مقامی لوگوں کے ساتھ دیگر صوبوں کے پاکستانی اور سندھ بھر میں تارکینِ وطن بھی بڑی تعداد میں موجود ہیں۔


ان میں افغانی، بنگالی اور برمی بھی شامل ہیں۔ اندرونِ سندھ چھوٹے بڑے شہروں میں سندھیوں کے علاوہ اردو بولنے والے بھی بستے ہیں جو پاکستان پیپلزپارٹی اور متحدہ قومی موومنٹ کے علاوہ جماعتِ اسلامی، تحریکِ انصاف، پاک سرزمین پارٹی اور مختلف مذہبی اور قوم پرست جماعتوں کے ووٹر ہیں۔ قوم پرست جماعتوں میں سندھ ترقی پسند پارٹی، قومی عوامی تحریک، سندھ یونائیٹڈ پارٹی، جیے سندھ قومی محاذ وغیرہ شامل ہیں۔ مردم شماری کے حوالے سے یہ جماعتیں اپنے خدشات کا اظہار بھی کررہی ہیں اور اسے خوش آئندہ بھی قرار دے رہی ہیں۔ اصل بات درست نتائج سامنے لانا اور اس کی بنیاد پر وسائل کی تقسیم اور حق دینا ہے۔

مردم شماری نہ ہونے سے عام انتخابات اور بلدیاتی الیکشن کے بعد بھی عوام کو ان کے جائز حقوق نہیں مل پاتے اور شہری اور دیہی آبادی کا فرق نمایاں ہوجاتا ہے۔ شہری آبادی کی نمائندہ جماعتوں کا کہنا ہے کہ مردم شماری نہ ہونے سے ایوان میں نمائندگی اور مقامی نظام کے تحت شہری سہولیات اور اپنے دوسرے جائز حق سے محروم ہیں، جب کہ کراچی سمیت اندرونِ سندھ کئی اضلاع میں آبادی اور ووٹرز کی بنیاد پر حقیقی معنوں میں حلقہ بندیاں اور وسائل کی تقسیم عمل میں نہیں لائی جاسکی ہے۔ اسی طرح قومی اور صوبائی حلقوں کی تعداد بھی نہیں بڑھائی جاسکی جس کی وجہ سے مالیاتی تقسیم اور وسائل کا مسئلہ پیدا ہوا ہے۔ اس حوالے سے محرومیوں کا ازالہ کرنا ہو گا۔ اسی طرح دیہی آبادی کی نمائندہ جماعتیں صوبے سے تارکینِ وطن کی واپسی کے لیے اقدامات پر اصرار کرتے ہوئے وفاق سے مالی اور وسائل میں جائز حق کا مطالبہ کررہی ہیں۔ سنجیدہ حلقوں کا حکومت سے مطالبہ ہے کہ سندھ سے کوٹا سسٹم کا خاتمہ کرتے ہوئے آبادی کی بنیاد پر سرکاری ملازمتوں، وسائل اور ترقیاتی فنڈز کی تقسیم کی جائے۔ اسی طرح مردم شماری کے نتائج کے بعد نئی انتخابی حلقہ بندیوں میں بھی تاخیر نہیں کی جانی چاہیے۔ اس کا فائدہ عوام کو عام انتخابات اور بلدیاتی نظام کی صورت میں بھی ہو گا۔

صوبۂ سندھ میں خاص طور پر پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کا مردم شماری اور اس کی بنیاد پر وسائل کی تقسیم کے حوالے سے مؤقف اہم ہے۔ متحدہ قومی موومنٹ (پاکستان) نے تو مردم شماری کے پہلے مرحلے سے قبل ہی مبینہ دھاندلی کے خلاف سپریم کورٹ میں درخواست جمع کرا دی تھی۔ ایم کیو ایم کے سربراہ فاروق ستار کا کہنا ہے کہ مردم شماری بلاکس میں شدید ضابطگیاں کی گئی ہیں، جو دھاندلی کے منصوبے کا حصہ ہیں۔ انہوں نے خدشہ ظاہر کیا کہ شہری آبادی کو نتائج میں کم ظاہر کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ صوبائی حکومت شہری کے بجائے دیہی سندھ کی آبادی بڑھا کر اپنے ووٹرز میں اضافہ کرنا چاہتی ہے۔ دوسری جانب پاکستان پیپلزپارٹی نے اپنے خدشات اور تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ماضی میں جو غلطیاں ہوئیں، وہ اب نہیں ہونی چاہییں اور درست اعدادوشمار ریکارڈ کروا کے عوام کو ان کے حقوق دیے جاسکتے ہیں۔ پی پی پی کے سینیٹر تاج حیدر نے مردم شماری کے حوالے سے کہا کہ قومی آبادی کا 30 فی صد سندھ میں رہتا ہے، جب کہ سندھ وسائل میں اپنا حصہ 1998ء میں کرائی گئی مردم شماری کے تحت حاصل کر رہا ہے، اس وقت کے ریکارڈ میں سندھ کی آبادی 23 فی صد تھی۔ تاج حیدر کے مطابق سندھ کی آبادی روز بروز بڑھ رہی ہے، کیوں کہ یہاں روزگار کے زیادہ مواقع دوسرے صوبوں کے لوگوں راغب کررہے ہیں جب کہ دوسرے صوبوں میں ایسا نہیں ہے۔ لہٰذا وسائل سے مناسب حصہ لینے کے لیے اسے بھی مدنظر رکھنا ہو گا۔

مردم شماری سے قبل پاکستان پیپلزپارٹی کے صوبائی صدر نثار کھوڑو نے کہا کہ سندھ کے 30 فی صد شہریوں کے پاس شناختی کارڈز نہیں ہیں اور نادرا نے اس حوالے سے کوئی مہم شروع نہیں کی جس پر احتجاج بھی ریکارڈ کرایا ہے۔ تھرپارکر ایک اہم ضلع ہے جہاں پی پی پی کے مطابق ایک طرف تو 25 فی صد افراد کے پاس شناختی کارڈز نہیں ہیں، دوسری طرف یہاں سے 35 سے 40 فی صد لوگ روزگار اور فصل کی کٹائی کی غرض سے بیراجی علاقوں میں قیام پزیر ہیں۔ اسی طرح مختلف علاقوں کی دیہی آبادی کے حوالے سے خدشہ ظاہر کیا گیا ہے کہ اگر مردم شماری میں نصف آبادی رجسٹرڈ نہ ہوئی تو ان علاقوں کے مسائل برسوں تک حل نہیں ہوسکیں گے۔ دوسری طرف قوم پرست جماعتوں کی جانب حالیہ دنوں میں یہ مطالبہ زور پکڑ گیا کہ تارکینِ وطن کی باعزت واپسی کے لیے اقدامات کیے جائیں جب کہ سندھ بھر میں موجود غیرملکیوں کو بھی رجسٹرڈ نہ کیا جائے۔
Load Next Story