جنسی جرائم۔حقائق اور وجوہات
ایشیائی ممالک میں بھارت خواتین پولیس افسران کی تعداد کے حوالے سے بہت سے پیچھے ہے۔
بھارت کے دارالحکومت نئی دہلی میں گزشتہ دنوں میڈیکل کی طالبہ سے ہونے والی اجتماعی زیادتی جہاں بھارت میںایک شدید احتجاج کا باعث بنی ہے وہیں سماجی حلقوں میں اس بات پر بھی مسلسل بحث جاری ہے کہ وہ کون سی وجوہات ہیں جن کی وجہ سے ملک بھر میں جنسی جرائم کی شرح میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے اور نئی دہلی میں جنسی جرائم کی شرح اس قدر زیادہ ہے کہ اسے ریپ کیپیٹل کے نا م سے جانا جاتا ہے ۔اس موضوع پہ کافی کچھ لکھا جا چکا ہے لیکن یہاں ہم ان وجوہات کا ذکر کرینگے جن کے باعث بھارت جنسی جرائم کا گڑھ بن چکا ہے۔کم و بیش یہی صورتحال پاکستان میں بھی پیدا ہو رہی ہے۔
ایشیائی ممالک میں بھارت خواتین پولیس افسران کی تعداد کے حوالے سے بہت سے پیچھے ہے۔ نئی دہلی میں پولیس افسران میں خواتین کا تناسب صرف سات فیصد ہے۔دہلی کے 161 ڈسٹرکٹ پولیس اسٹیشنز میں سے صر ف ایک میں لیڈی ایس ایچ اوتعینات ہے۔ خواتین افسران نہ ہونے کے باعث بہت کم متاثرہ خواتین مقدمات کے اندراج کے لیے تھانے کا رخ کرتی ہیں ۔دوسری جانب مرد پولیس افسران ایف آئی آر درج کرنے میں دلچسپی نہیں لیتے۔ مرد پولیس افسران کا اندازِ گفتگو بھی اس قدر ذلت آمیز ہوتا ہے کہ کچھ خواتین پولیس اسٹیشن سے واپسی کے بعد خودکشی کر لیتی ہیں۔اس لیے مجرمان گرفتار نہیں ہو پاتے اور یہ صورتحال جرائم میں مزید اضافے کی وجہ بنتی ہے۔
پولیس افسران کی مجموعی تعداد کے حوالے سے نئی دہلی دنیا کے بڑے شہروں میں شامل ہے۔اس شہر میں چوراسی ہزار پولیس افسران موجود ہیں لیکن ان میں سے صرف ایک تہائی ہی اپنے اصل فرائض سرانجام دے رہے ہیں۔جب کہ دوتہائی افسران سیاستدانوں،بیورو کریٹس اور سفارتی شخصیات کی حفاظت پر مامور ہیں۔ دو سو افراد کے لیے صرف ایک پولیس افسر دستیاب ہے جب کہ ایک وی آئی پی کے لیے بیس پولیس افسران مختص ہیں۔
مغربی کلچر کی نقالی کے باعث بھارتی معاشرے میں خواتین میں مختصر اور چست لباس پہننے کا رجحان تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ چونکہ بھارتی اسکولوں میں اسکرٹ یونیفارم کا حصہ ہے اس لیے یہ بے حیائی اسکول اور کالجوں میں عام ہے۔مخلوط نظام تعلیم کے باعث ایسی لڑکیاں مجر موں کو اپنی جانب مائل کرنے کا خود سبب بنتی ہیں اور یوں جنسی حملوں میں اضافہ ہوتا ہے۔
عالمی خبر رساں ادارے رائٹر کے ٹرسٹ لاء گروپ نے انڈیا کو خواتین کے حوالے سے بد ترین ملک قرار دیا ہے۔ عالمی ادارے یونیسیف کی 2012 کی ایک رپورٹ کے مطابق 55 فیصد سے زائد نوجوان لڑکے لڑکیوں نے خواتین کے حوالے سے گھریلو تشدد کا اعتراف کیا ہے۔خواتین پر تشدد بھارتی معاشرے کا جز بن چکا ہے جس نے مردوں کو ظلم کرنے اور عورتوں کو ظلم سہنے کا عادی بنا دیا ہے۔یہ طرزِ عمل بھی جنسی جرائم میں اضافے کی ایک اہم وجہ ہے۔
بھارتی معاشرے میں خواتین کے حوالے سے سماجی تحفظ کا فقدان ہے۔جہالت، غربت اور پست معیار ِزندگی نے عورتوں کو سما ج کا بے توقیر حصہ بنا دیا ہے۔خواتین کی اکثریت غربت کے باعث کام کے لیے گھر سے با ہر نکلتی ہیں۔ جہاں وہ ناکافی معاوضہ اور مرد ورکرز کے نازیبا رویے کے باوجود کام کرنے پر مجبور ہیں۔ٹوائلٹس کی ناکافی تعداد بھارتی معاشرے کا شرمناک پہلو ہے۔ جب کہ خواتین کے لیے علیحدہ ٹوائلٹس نہ ہونے کے برابر ہیں جس کی وجہ سے عورتیں جنسی حملوں کا زیادہ شکار ہوتی ہیں۔عوامی مقامات پر خواتین کو ہراساں کیا جانا بہت عام ہے۔نام نہاد سماجی آزادی کے نام پر آس پاس موجود افراد ہراساں کرنے والے کو اس عمل سے باز رکھنے کے لیے مداخلت نہیں کرتے اور اس عمل سے عام طور پر لا تعلق رہتے ہیں جس سے ہراساں کرنے والے افراد کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے جس کے نتیجے میں ایسے جرائم کی شرح تیزی سے بڑھ رہی ہے۔
موبائل کے بے تحاشا اور غلط استعمال نے بھی بے راہ روی میںاضافہ کیا ہے۔موبائل کے ذریعے انجان لوگوں سے دوستی اور ان پر اعتماد بعد ازاں بڑے نقصان کا باعث بن جاتا ہے۔سیاسی شخصیات کا ایسے ظالم اور گمراہ لوگوں کو تحفظ دینا اور خود بھی ایسی مذموم کاروائیوں میں ملوث ہونا بھی ایسے جرائم میں اضافہ کی اہم وجہ ہے۔پولیس افسران جنسی جرائم میں ملوث افراد کو کیفرِ کردار تک پہنچانے کے بجائے اس ظلم کا شکار خواتین پر رپورٹ درج نہ کروانے یا کیس واپس لینے کے لیے مسلسل دبائو ڈالتے ہیں۔ پولیس متاثرہ خواتین کو انھی افراد سے شادی کرنے پر بھی مجبور کرتی ہے جن کے ظلم کے خلاف کارروائی کے لیے وہ پولیس اسٹیشن کا رخ کرتی ہیں۔ پولیس کے شرمناک کردار کا اندازہ ان واقعات سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔گزشتہ دنوں بھی ایک سترہ سالہ لڑکی نے بھی اس لیے خود کشی کی کہ پولیس اس پر اس شخص سے شادی کرنے کے لیے دبائو ڈال رہی تھی جس نے اسے اپنی ہوس کا نشانہ بنایا۔گزشتہ سال 14 سالہ سونم کو اتر پردیش کے ایک پولیس اسٹیشن کے اندر ہی زیادتی کر کے قتل کر دیا گیا تھا۔ سنہ دو ہزار دو میں گجرات میں ہونے والے فسادات کے دوران کئی مسلمان خواتین کے ساتھ اجتماعی زیادتی کی گئی تھی۔
بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں اس سلسلے میں کئی تنظیمیں بار بار کہتی رہی ہیں کہ سکیورٹی اہلکار خواتین کے ساتھ زیادتی کرتے ہیں۔ ساتھ ہی ملک کے شمال مشرقی علاقوں میں خواتین کے ساتھ زیادتی کو اجتماعی سزا کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔گزشتہ مئی دو ہزار نو میں کشمیر کے قصبے شوپیاں میں دو لڑکیوں کے ساتھ زیادتی اور پھر قتل کی وجہ سے سنتالیس روز تک مظاہرے ہوئے۔ اس واقعے میں بھی الزام مقامی پولیس پر ہی تھا۔بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق خواتین کے خلاف تشدد بھارتی سماج کا ایک حصہ بن گیا ہے ۔ان جرائم کے حوالے سے ایک انتہائی دردناک اور نہ ختم ہوتی کہانی ممبئی کی ایک نرس ارونا شانباگ کی ہے۔
ستائیس نومبر انیس سو تہتر کو اس پچیس سالہ خاتون کو اپنے ہی اسپتال میں صفائی کرنے والے ایک ملازم سوہن لال بھارتہ نے ریپ کیا اور زنجیروں کی مدد سے اس کا گلا گھونٹ کر مرنے کے لیے چھوڑ دیا۔ اس واقعے نے ارونا شانباگ کی جان تو نہ لی مگر اس کی زندگی ضرور چھن گئی۔ گزشتہ انتالیس برس سے وہ اسپتال میں کومے کی حالت میں ہے۔ نہ وہ کسی کو پہچان سکتی ہے اور نہ ہی بول سکتی ہے۔
اس کی کہانی پر کتاب لکھنے والی صحافی اور مصنفہ پنکی ویرانی بتاتی ہیں کہ 'سوہن لال پر ریپ کی فردِ جرم بھی عائد نہیں کی گئی تھی۔'سوہن لال پر چوری اور قتل کی کوشش کا مقدمہ چلایا گیا اور سات سال قید دی گئی۔ایک طرف ارونا اسپتال میں پڑی ہے اور دوسری طرف اس پر حملہ کرنے والا آزاد گھوم رہا ہے۔
عدالتوں میں ججوں کی ناکافی تعداد بھی درج مقدمات کے فیصلے کرنے میں بڑی رکاوٹ ہے۔دس لاکھ افراد کے لیے صرف ایک جج دستیاب ہے۔دہلی ہائی کورٹ ہی کے ایک جج نے اپنے ایک بیان میں میں کہا تھا کہ یہی صورتِ حال رہی تو صرف دارالحکومت دہلی میں مقدمات نمٹانے میں 466 سال کا عرصہ درکار ہوگا۔بھارتی معاشرے میں لڑکیوں کو صرف ایک بوجھ سے تعبیر کیا جاتا ہے۔یوں وہ ایک حقیر جنس کے طور پر ایک ایسے معاشرے میں مسلسل بے توقیری اور خفت کا باعث سمجھی جاتی ہے جہاں وہ جہیز نہ ہونے کی وجہ سے یا تو ماں باپ کے در پر پڑی بوڑھی ہو جاتی ہے یا شادی کے بعد سسرال سے دھکے دے کر سڑک پر پھینک دی جاتی ہے یا زندہ جلا دی جاتی ہے۔سسرال سے نکال دیے جانے کی صورت میں اسے جنسِ بازار سمجھ کے لوٹا جاتا ہے۔
مذکورہ حقائق اور وجوہات نہ صرف بھارت بلکہ پاکستانی معاشرے کی بھی عکاس ہیں ۔خواتین کو ان جنسی درندوں سے محفوظ رکھنے کے لیے بیان کردہ وجوہات کا سدِباب ضروری ہے۔
ایشیائی ممالک میں بھارت خواتین پولیس افسران کی تعداد کے حوالے سے بہت سے پیچھے ہے۔ نئی دہلی میں پولیس افسران میں خواتین کا تناسب صرف سات فیصد ہے۔دہلی کے 161 ڈسٹرکٹ پولیس اسٹیشنز میں سے صر ف ایک میں لیڈی ایس ایچ اوتعینات ہے۔ خواتین افسران نہ ہونے کے باعث بہت کم متاثرہ خواتین مقدمات کے اندراج کے لیے تھانے کا رخ کرتی ہیں ۔دوسری جانب مرد پولیس افسران ایف آئی آر درج کرنے میں دلچسپی نہیں لیتے۔ مرد پولیس افسران کا اندازِ گفتگو بھی اس قدر ذلت آمیز ہوتا ہے کہ کچھ خواتین پولیس اسٹیشن سے واپسی کے بعد خودکشی کر لیتی ہیں۔اس لیے مجرمان گرفتار نہیں ہو پاتے اور یہ صورتحال جرائم میں مزید اضافے کی وجہ بنتی ہے۔
پولیس افسران کی مجموعی تعداد کے حوالے سے نئی دہلی دنیا کے بڑے شہروں میں شامل ہے۔اس شہر میں چوراسی ہزار پولیس افسران موجود ہیں لیکن ان میں سے صرف ایک تہائی ہی اپنے اصل فرائض سرانجام دے رہے ہیں۔جب کہ دوتہائی افسران سیاستدانوں،بیورو کریٹس اور سفارتی شخصیات کی حفاظت پر مامور ہیں۔ دو سو افراد کے لیے صرف ایک پولیس افسر دستیاب ہے جب کہ ایک وی آئی پی کے لیے بیس پولیس افسران مختص ہیں۔
مغربی کلچر کی نقالی کے باعث بھارتی معاشرے میں خواتین میں مختصر اور چست لباس پہننے کا رجحان تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ چونکہ بھارتی اسکولوں میں اسکرٹ یونیفارم کا حصہ ہے اس لیے یہ بے حیائی اسکول اور کالجوں میں عام ہے۔مخلوط نظام تعلیم کے باعث ایسی لڑکیاں مجر موں کو اپنی جانب مائل کرنے کا خود سبب بنتی ہیں اور یوں جنسی حملوں میں اضافہ ہوتا ہے۔
عالمی خبر رساں ادارے رائٹر کے ٹرسٹ لاء گروپ نے انڈیا کو خواتین کے حوالے سے بد ترین ملک قرار دیا ہے۔ عالمی ادارے یونیسیف کی 2012 کی ایک رپورٹ کے مطابق 55 فیصد سے زائد نوجوان لڑکے لڑکیوں نے خواتین کے حوالے سے گھریلو تشدد کا اعتراف کیا ہے۔خواتین پر تشدد بھارتی معاشرے کا جز بن چکا ہے جس نے مردوں کو ظلم کرنے اور عورتوں کو ظلم سہنے کا عادی بنا دیا ہے۔یہ طرزِ عمل بھی جنسی جرائم میں اضافے کی ایک اہم وجہ ہے۔
بھارتی معاشرے میں خواتین کے حوالے سے سماجی تحفظ کا فقدان ہے۔جہالت، غربت اور پست معیار ِزندگی نے عورتوں کو سما ج کا بے توقیر حصہ بنا دیا ہے۔خواتین کی اکثریت غربت کے باعث کام کے لیے گھر سے با ہر نکلتی ہیں۔ جہاں وہ ناکافی معاوضہ اور مرد ورکرز کے نازیبا رویے کے باوجود کام کرنے پر مجبور ہیں۔ٹوائلٹس کی ناکافی تعداد بھارتی معاشرے کا شرمناک پہلو ہے۔ جب کہ خواتین کے لیے علیحدہ ٹوائلٹس نہ ہونے کے برابر ہیں جس کی وجہ سے عورتیں جنسی حملوں کا زیادہ شکار ہوتی ہیں۔عوامی مقامات پر خواتین کو ہراساں کیا جانا بہت عام ہے۔نام نہاد سماجی آزادی کے نام پر آس پاس موجود افراد ہراساں کرنے والے کو اس عمل سے باز رکھنے کے لیے مداخلت نہیں کرتے اور اس عمل سے عام طور پر لا تعلق رہتے ہیں جس سے ہراساں کرنے والے افراد کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے جس کے نتیجے میں ایسے جرائم کی شرح تیزی سے بڑھ رہی ہے۔
موبائل کے بے تحاشا اور غلط استعمال نے بھی بے راہ روی میںاضافہ کیا ہے۔موبائل کے ذریعے انجان لوگوں سے دوستی اور ان پر اعتماد بعد ازاں بڑے نقصان کا باعث بن جاتا ہے۔سیاسی شخصیات کا ایسے ظالم اور گمراہ لوگوں کو تحفظ دینا اور خود بھی ایسی مذموم کاروائیوں میں ملوث ہونا بھی ایسے جرائم میں اضافہ کی اہم وجہ ہے۔پولیس افسران جنسی جرائم میں ملوث افراد کو کیفرِ کردار تک پہنچانے کے بجائے اس ظلم کا شکار خواتین پر رپورٹ درج نہ کروانے یا کیس واپس لینے کے لیے مسلسل دبائو ڈالتے ہیں۔ پولیس متاثرہ خواتین کو انھی افراد سے شادی کرنے پر بھی مجبور کرتی ہے جن کے ظلم کے خلاف کارروائی کے لیے وہ پولیس اسٹیشن کا رخ کرتی ہیں۔ پولیس کے شرمناک کردار کا اندازہ ان واقعات سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔گزشتہ دنوں بھی ایک سترہ سالہ لڑکی نے بھی اس لیے خود کشی کی کہ پولیس اس پر اس شخص سے شادی کرنے کے لیے دبائو ڈال رہی تھی جس نے اسے اپنی ہوس کا نشانہ بنایا۔گزشتہ سال 14 سالہ سونم کو اتر پردیش کے ایک پولیس اسٹیشن کے اندر ہی زیادتی کر کے قتل کر دیا گیا تھا۔ سنہ دو ہزار دو میں گجرات میں ہونے والے فسادات کے دوران کئی مسلمان خواتین کے ساتھ اجتماعی زیادتی کی گئی تھی۔
بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں اس سلسلے میں کئی تنظیمیں بار بار کہتی رہی ہیں کہ سکیورٹی اہلکار خواتین کے ساتھ زیادتی کرتے ہیں۔ ساتھ ہی ملک کے شمال مشرقی علاقوں میں خواتین کے ساتھ زیادتی کو اجتماعی سزا کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔گزشتہ مئی دو ہزار نو میں کشمیر کے قصبے شوپیاں میں دو لڑکیوں کے ساتھ زیادتی اور پھر قتل کی وجہ سے سنتالیس روز تک مظاہرے ہوئے۔ اس واقعے میں بھی الزام مقامی پولیس پر ہی تھا۔بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق خواتین کے خلاف تشدد بھارتی سماج کا ایک حصہ بن گیا ہے ۔ان جرائم کے حوالے سے ایک انتہائی دردناک اور نہ ختم ہوتی کہانی ممبئی کی ایک نرس ارونا شانباگ کی ہے۔
ستائیس نومبر انیس سو تہتر کو اس پچیس سالہ خاتون کو اپنے ہی اسپتال میں صفائی کرنے والے ایک ملازم سوہن لال بھارتہ نے ریپ کیا اور زنجیروں کی مدد سے اس کا گلا گھونٹ کر مرنے کے لیے چھوڑ دیا۔ اس واقعے نے ارونا شانباگ کی جان تو نہ لی مگر اس کی زندگی ضرور چھن گئی۔ گزشتہ انتالیس برس سے وہ اسپتال میں کومے کی حالت میں ہے۔ نہ وہ کسی کو پہچان سکتی ہے اور نہ ہی بول سکتی ہے۔
اس کی کہانی پر کتاب لکھنے والی صحافی اور مصنفہ پنکی ویرانی بتاتی ہیں کہ 'سوہن لال پر ریپ کی فردِ جرم بھی عائد نہیں کی گئی تھی۔'سوہن لال پر چوری اور قتل کی کوشش کا مقدمہ چلایا گیا اور سات سال قید دی گئی۔ایک طرف ارونا اسپتال میں پڑی ہے اور دوسری طرف اس پر حملہ کرنے والا آزاد گھوم رہا ہے۔
عدالتوں میں ججوں کی ناکافی تعداد بھی درج مقدمات کے فیصلے کرنے میں بڑی رکاوٹ ہے۔دس لاکھ افراد کے لیے صرف ایک جج دستیاب ہے۔دہلی ہائی کورٹ ہی کے ایک جج نے اپنے ایک بیان میں میں کہا تھا کہ یہی صورتِ حال رہی تو صرف دارالحکومت دہلی میں مقدمات نمٹانے میں 466 سال کا عرصہ درکار ہوگا۔بھارتی معاشرے میں لڑکیوں کو صرف ایک بوجھ سے تعبیر کیا جاتا ہے۔یوں وہ ایک حقیر جنس کے طور پر ایک ایسے معاشرے میں مسلسل بے توقیری اور خفت کا باعث سمجھی جاتی ہے جہاں وہ جہیز نہ ہونے کی وجہ سے یا تو ماں باپ کے در پر پڑی بوڑھی ہو جاتی ہے یا شادی کے بعد سسرال سے دھکے دے کر سڑک پر پھینک دی جاتی ہے یا زندہ جلا دی جاتی ہے۔سسرال سے نکال دیے جانے کی صورت میں اسے جنسِ بازار سمجھ کے لوٹا جاتا ہے۔
مذکورہ حقائق اور وجوہات نہ صرف بھارت بلکہ پاکستانی معاشرے کی بھی عکاس ہیں ۔خواتین کو ان جنسی درندوں سے محفوظ رکھنے کے لیے بیان کردہ وجوہات کا سدِباب ضروری ہے۔