لوڈشیڈنگ آخر کب تک
پاکستان میں کرپشن ہماری استطاعت، ہماری قوت برداشت اور ہماری بقا کے لیے خطرناک صورت اختیار کر چکی ہے۔
کراچی سمیت ملک کے دیگر چھوٹے بڑے شہروں میں تعطیلات کے ایام میں بھی لوڈشیڈنگ کا سلسلہ جاری ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے لوڈشیڈنگ قوم کی قسمت میں لکھ دی گئی ہے۔ بجلی کی لوڈشیڈنگ کا سبب بجلی کی کمیابی اور طلب میں اضافہ بتایا جاتا ہے، توانائی کے بحران نے تو ملکی معیشت کی کمر ہی توڑ کر رکھ دی ہے اس سبب سے ہی بیروزگاری اور جرائم میں بے تحاشا اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔
پاکستان میں کرپشن ہماری استطاعت، ہماری قوت برداشت اور ہماری بقا کے لیے خطرناک صورت اختیار کر چکی ہے۔ ہمارا کروڑوں ڈالر کا جو زرمبادلہ تیل اور گیس کی درآمد پر صرف ہوتا ہے، اس سے نہ صرف بیرونی کمپنیوں کی جیبیں بھرتی ہیں بلکہ ہمارے ملک کے اندر پالیسیاں بنانے اور چلانے والے بھی اس سے مستفید ہوتے ہیں اور یہ رقم کھربوں روپے تک جا پہنچتی ہے، یہ لوگ اس لوٹ مار سے پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں۔ اسی لوٹ مار نے ہمارا کاروبار تباہ کر دیا، معاشرتی زندگی کو تہہ و بالا کر کے رکھ دیا، عوام کا جینا دوبھر کر دیا۔ لوڈ شیڈنگ سے نہ صرف صنعتی پیداوار رک گئی ہے بلکہ برآمد کنندگان آرڈر بھی وقت مقررہ پر پورا نہیں کر پا رہے، صنعتیں بند ہو رہی ہیں، لاکھوں مزدور بے روزگار ہو رہے ہیں، اسپتالوں اور کلینکس جہاں جنریٹرز کا مناسب بندوبست نہیں ہے وہاں مریضوں کو سخت پریشانی کا سامنا ہے۔
غیر علانیہ لوڈ شیڈنگ سے واٹر بورڈ کے پمپنگ اسٹیشنوں سے پانی کی سپلائی نہیں ہو رہی جس سے متعدد علاقوں میں پانی کی قلت پیدا ہو گئی ہے۔ پی ایم ٹیز کی خرابی، گرنے والے تار یا کیبل فالٹس کی شکایات کا ازالہ بھی تاخیر سے ہوتا ہے، فالٹس کے باعث بند ہونے والی بجلی دو سے تین روز تک بحال نہیں ہو پاتی اور کم زیادہ وولٹیج کے باعث عوام کے قیمتی برقی آلات اور مشینری جل جانا روز کا معمول بن گیا ہے، اس پر طرہ یہ کہ صارفین کو بغیر ریڈنگ ہزاروں روپے کے اوسط بل بھیجے جا رہے ہیں۔ یہی نہیں بلکہ شہر کے اکثر علاقوں میں بلز موصول ہی نہیں ہو رہے۔ اتوار کو ہونے والی غیر اعلانیہ لوڈ شیڈنگ سے شہریوں کے آرام کا ایک دن بھی عذاب بن جاتا ہے۔ بجلی کی قیمتوں میں مسلسل اضافے نے صارفین کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے۔
گزشتہ برس بھی بجلی کے صارفین کے لیے یہ انکشاف ایک المیہ ہی تھا کہ یہ محکمہ 64 ارب روپے سے زائد کی اوور بلنگ کی انتہائی غلط اور مجرمانہ حرکت میں ملوث ہے۔ پیپکو نے اپنی کارکردگی ظاہر کرنے اور مصنوعی طریقے سے نقصان کو پورا کرنے کے لیے 64 ارب ایک کروڑ 50 لاکھ روپے کی اوور بلنگ کی تھی۔ دس فیصد ماہانہ زائد میٹر ریڈنگ ظاہر کرنے میں بعض الیکٹرک ڈسٹری بیوشن کمپنیاں اور ان کے اعلیٰ حکام بھی ملوث پائے گئے تھے۔ اوور بلنگ کی مد میں ایسی بدعنوانی سب سے زیادہ بجلی کے بلوں میں دیکھنے میں آتی ہے۔ پچھلے دنوں کراچی میں لائن لاسز کو پورا کرنے کے لیے ہر حلقے کے صارفین پر اوور بلنگ کا بوجھ ڈالنے کی ہدایت کی خفیہ ای میل بھی منظر عام پر آ چکی ہے۔ محکمہ بجلی کے بعض بدعنوان اہلکار اور بعض افسران بھی بجلی چوری کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں، ریڈنگ کی تاریخ سے پہلے میٹر کو گھما کر پیچھے کر دیا جاتا ہے۔
لیکن اس بدعنوانی اور کرپشن پر قابو پانے والا کوئی نہیں۔ یہ صورتحال گھریلو صارفین کے لیے انتہائی اذیت ناک ہے۔ غریب عوام پہلے ہی گرانی کے طوفان کی اذیت کا شکار ہیں۔ گرانی نے ان کی قوت خرید ختم کر دی ہے، اس پر بھاری بھرکم بغیر ریڈنگ کے اوسط بلوں کی ادائیگی ان کے لیے ایک اذیت ناک مسئلہ بن چکی ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ محکمے کے بدعنوان افسران کا کڑا محاسبہ کیا جائے اور عوام سے وصول کیے گئے زائد بلوں کو آنے والے بلوں کی ادائیگی میں ایڈجسٹ کر کے ان کی حق تلفی کا ازالہ کیا جائے تا کہ عوام کو کچھ ریلیف حاصل ہو مگر بدقسمتی سے صورتحال یہ ہے کہ تمام تر حکومتی دعوئوں اور یقین دہانیوں کے باوجود بجلی کا بحران اور بغیر ریڈنگ اوسط بلنگ کا طوفان روز بروز شدت اختیار کرتا جا رہا ہے اور بجلی کا شارٹ فال چھ ہزار میگاواٹ تک پہنچ گیا ہے جس کے نتیجے میں غیر اعلانیہ لوڈ شیڈنگ کے دورانیے میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔
توانائی کے اس بحران نے گھریلو صارفین کے لیے ہی مشکلات پید ا نہیں کیں بلکہ پوری قومی معیشت کو بھی متزلزل کر کے رکھ دیا ہے۔ بجلی کی قیمتوں میں اضافے کے بعد پاکستان کی مصنوعات کے لیے دوسرے ملکوں کی مصنوعات کا مقابلہ کرنا ممکن نہیں رہا جس سے تجارتی خسارہ خوفناک حد تک بڑھ چکا ہے اور حکومت بجٹ کے علاوہ تجارتی خسارہ پورا کرنے کے لیے کرنسی نوٹ چھاپ چھاپ کر افراط زر کی شرح میں اضافے کا سبب بن چکی ہے جس سے مہنگائی کے ایک ایسے طوفان نے جنم لیا ہے جس نے غریب عوام کی کمر و ہمت توڑ کر رکھ دی ہے۔
پاکستان وسائل سے مالامال ملک ہے لیکن اس کے باوجود اس کا توانائی کے بحران سے مسلسل دوچار رہنا اس بات کی علامت ہے کہ ملک میں توانائی کی ضروریات پوری کرنے کے لیے ضروری منصوبہ بندی نہیں کی جا رہی ہے۔ پاکستان میں پانی، کوئلے اور ہوا سے بجلی پیدا کرنے کے وسیع تر مواقع موجود ہیں لیکن ہمارے حکمرانوں نے ایک طویل عرصے تک محض اپنی کم کوشی کی وجہ سے ان وسائل سے فائدہ نہیں اٹھایا۔ جو وقت ضایع ہوا اس کا ہاتھ آنا تو ممکن نہیں لیکن اگر اب بھی ہماری قیادت غلطیوں کا عملی اعتراف کر کے ان کا ازالہ کرنے پر توجہ دے، کرپشن اور بدعنوانی کے راستے بند کرے، توانائی کے بحران پر قابو پانے کی مخلصانہ کوشش کرے تو چند ہی برسوں میں صورتحال کو تبدیل کیا جا سکتا ہے۔
ملک بھر میں بڑے ڈیموں کے بجائے چھوٹے چھوٹے آبی ذخائر میں پانی کو محفوظ کیا جائے تو ان سے مقامی سطح پر پیدا ہونے والی بجلی سستی بھی ہو گی اور اس سے نیشنل گرڈ پر پڑنے والا بوجھ بڑی حد تک کم کیا جا سکتا ہے۔ تھر کول کے ذخائر سے آیندہ پانچ سو سال تک بیس ہزار کلو واٹ بجلی پیدا کی جا سکتی ہے۔ اسی طرح سندھ اور بلوچستان کے ساحلی علاقوں کے علاوہ چولستان میں بھی ونڈ ملز لگا کر قابل ذکر حد تک بجلی پیدا کی جا سکتی ہے، ان علاقوں میں مسلسل ہوائیں چلتی رہتی ہیں جن کو اگر استعمال میں لایا جائے تو ہم جرمنی جیسے ملک کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہوائی بجلی پیدا کرنے کے قابل بن سکتے ہیں۔ جرمنی اس وقت صرف اس ذریعے سے 21000 میگاواٹ بجلی حاصل کر رہا ہے۔ ہم بھی اگر اپنے ملک کو ترقی اور عوام کو ریلیف فراہم کرنے کے لیے ٹھوس منصوبہ بندی کریں تو تھوڑے ہی عرصے میں توانائی کے اس سنگین بحران پر قابو پانے کے قابل ہو سکتے ہیں۔ کے ای ایس سی کا ڈھانچہ بہت بوسیدہ ہو چکا ہے اور اس کے اندر گزشتہ تیس برسوں سے کوئی سرمایہ کاری نہیں ہوئی۔
کراچی میں بجلی کی مانگ 2200 میگا واٹ کے لگ بھگ ہے اور کارپوریشن کو اسی مقدار میں بجلی دستیاب ہے، 1600 میگا واٹ وہ خود پیدا کرتی ہے جب کہ 600 میگا واٹ واپڈا سے لیتی ہے، مگر ایک بڑا مسئلہ یہ ہے کہ اس کے دو آئی پی پیز پلانٹس فرنس آئل پر چلتے ہیں جس کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ ہو چکا ہے، اس خسارے کو پورا کرنے کے لیے مہنگے پلانٹ بند کر دیے جاتے ہیں جو سات آٹھ گھنٹے یا اس سے بھی زیادہ کی لوڈ شیڈنگ کا باعث بنتے ہیں۔ حکومت کو ان معاملات پر کامل سنجیدگی سے غور و خوض اور کراچی کے عوام کی مشکلات کو اپنی ترجیحات میں اولیت کا درجہ دینا چاہیے۔ بالادست طبقوں نے اپنے آرام و آسائش کی خاطر عوام کو شدید مشکلات میں دھکیل دیا ہے۔ ارزاں نرخوں پر فرنس آئل کی فراہمی، آئی پی پیز کے واجبات کی ادائیگی اور توانائی کے شعبے بالخصوص ہائیڈل پاور جنریشن میں بھرپور سرمایہ کاری سے بحران کا ایک مستقل حل تلاش کیا جا سکتا ہے۔