بھوک اور خوف کا منطقی انجام پہلا حصہ
یہ ایک انتہائی طویل سفر ہے، جو ہمیں انسان کے ارتقائی عمل سے آگاہ کرتا ہے۔
دنیا کی معلوم تاریخ سے قبل یہ دنیا کیسی تھی ؟ انسان کے سماجی رویے ایک دوسرے کے ساتھ کس قسم کے تھے؟ اور بحیثیت مجموعی انسانی عقل و شعور، ارتقا کے کن مراحل سے، کیسے کیسے گزرا؟ اِن سوالوں کے جواب میں سماجیات کے ماہرین نے مختلف نظریات قائم کیے، اور اِن سب نظریات کی بنیاد فطرت کو بنایا گیا۔ انسانی ارتقا کے یہ مراحل ہمیں پتھر کے زمانے سے لے کر آگ کی دریافت اور پتوں سے انسانی جسم ڈھانپنے تک کی کہانیاں سناتے ہیں، پھر ہم جنگل کا قانون یعنی ''جس کی لاٹھی اس کی بھینس'' سے لے کر موجودہ جدید ترین طرزِ حکومت ''جمہوریت'' اور قانون کی حکمرانی تک پہنچتے ہیں۔
یہ ایک انتہائی طویل سفر ہے، جو ہمیں انسان کے ارتقائی عمل سے آگاہ کرتا ہے۔ اِس ارتقائی عمل میں سب سے زیادہ مضبوط اور فیصلہ کن کردار مختلف مذاہب کا ہے، جو خالقِ کائنات نے مختلف ادوار میں اپنے انبیا اکرام کے ذریعے انسانوں کی فلاح و بہبود کی غرض سے اتارے۔ اِن تمام مذاہب کا بنیادی مقصد انسان کی ذاتی اور اجتماعی کردار سازی تھا اور اب بھی ہے۔ لیکن قبل از تاریخ جتنے بھی نظریات ماہرین سماجیات نے قائم کیے ان کی بنیاد مذہب نہیں بلکہ فطرت کو بنایا گیا۔ فطرت یعنی قانونِ قدرت جو کل تھا وہ آج بھی ہے۔ اِس میں تبدیلی ناممکن ہے، کم سے کم اس وقت تک ناممکن ہے، جب تک اِس کائنات کا خالق خود نہ چاہے۔ سورج آج بھی مشرق سے نکل کر مغرب میں ہی غروب ہوتا ہے۔
کائنات کے تمام سیارے ایک مخصوص محور پر حرکت پذیر ہیں اور اپنے اپنے مقررہ مدار میں گھوم رہے ہیں۔ اسی طرح پتھر کے زمانے میں انسان کی جو فطرت تھی وہی آج بھی ہے۔ عقل، علم، اخلاق اور شعور نے انسان کو بے پناہ آگاہی تو بخشی، لیکن انسان کا بنیادی اسٹرکچر وہی ہے جو پتھر کے زمانے میں تھا۔ ماہرین سماجیات اس سلسلے میں ایک تھیوری قائم کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ، انسان کو اﷲ تعالیٰ نے جب زمین پر اتارا تو اس کی سب سے پہلے جس احساس سے ملاقات ہوئی، اس احساس یا تکلیف کا نام تھا ''بھوک''۔ یہ پیٹ کی ایسی آگ تھی جسے اگر نہ بجھایا جاتا تو اس کی تپش مسلسل بڑھتی ہی رہتی تھی، اس تکلیف سے فرار ناممکن تھا، اس تکلیف نے انسان کو خوراک حاصل کرنے کے لیے حرکت میں آنے پر مجبور کیا۔ جب انسان خوراک کے حصول میں کامیاب ہوگیا تو اس کی دوسری ملاقات جس احساس سے ہوئی اس کا نام تھا ''خوف''۔
خیال کیا جاتا ہے کہ جب کسی انسان نے سخت جدوجہد کے بعد خوراک حاصل کرلی ہوگی تو کسی طاقتور فرد نے اپنی جسمانی طاقت کے زور پر اس کمزور فرد کو اس خوراک سے محروم کردیا ہوگا۔ اسی مقام پر انسان کا تعارف خوف کے ساتھ ساتھ ''طاقت'' سے بھی ہوگیا، جس کی فیصلہ کُن اہمیت تھی اور کمزور افراد کے پاس اس کا کوئی علاج نہ تھا۔ یعنی انسان کو اپنے ابتدائی دور میں جو پہلا مسئلہ درپیش تھا، وہ تھا خوراک کا حصول، دوسرا مرحلہ خوراک کے حصول کے بعد شروع ہوتا تھا، جس کا تعلق خوف سے تھا۔ ایک مرتبہ پیٹ بھرلینے کے بعد، دوسری مرتبہ خوراک نہ ملنے کا خوف یا پھر خوراک مل جانے کے بعد کسی طاقتور فرد کے ہاتھوں اس خوراک کے چھن جانے کا خوف۔ ان ہی دو بنیادی عوامل یعنی بھوک اور خوف نے باہم مل کر انسانی ارتقا کے سفر میں بنیادی کردار ادا کیا۔ اسی بھوک اور خوف نے انسانی معاشرے کے کمزور افراد کو طاقتور افراد کے خلاف باہم متحد ہو کر معاشرے کی سب سے بڑی طاقت میں ڈھل جانے پر مجبور کیا۔
اسی بھوک اور خوف نے انسان کو طاقتور فرد کی حکمرانی کے مقابلے میں قانون کی حکمرانی قائم کرنے کا راستہ دکھایا اور اسی بھوک اور خوف نے انسان کو یہ شعور عطا کیا کہ بجائے فرد کے اگر اداروں کو مضبوط بنایا جائے تو انسانی معاشرے کے ہر فرد کو جان و مال کا تحفظ ہوجاتا ہے۔ کسی بھی معاشرے میں جب ریاستی ادارے، عوام کو روزگار اور امن مہیا کردیتے ہیں یعنی بھوک اور خوف سے عوام کو نجات دلا دیتے ہیں تو ایسے معاشروں یا ریاستوں میں انسان کی تخلیقی صلاحیتیں خود بخود بیدار ہوکر ترقی کا سفرطے کرنا شروع کردیتی ہیں اور ایسی ہی ریاستیں طاقتور اقوام کی شکل میں ڈھل کر دنیا پر راج کرتی ہیں۔
اس کے برعکس اگر کسی ریاست کے عوام روٹی کے حصول اور اپنی جان و مال کو لاحق شدید خطرات سے نمٹنے میں دن رات مصروف رہیں، یعنی بھوک اور خوف سے نجات حاصل نہ کر پائیں تو ایسے معاشروں میں ہر قسم کی ترقی رک جاتی ہے، گویا ایک جمود طاری ہوجاتا ہے۔ عموماً جمود کی یہ کیفیت اُن معاشروں میں پیدا ہوتی ہے، جب کچھ طاقتور افراد معاشرے کے زیادہ تر وسائل پر قابض ہو کر کمزور اکثریت کا استحصال کرنا شروع کردیتے ہیں، جس کے نتیجے میں جمود کا دورانیہ بڑھنے لگتا ہے اور معاشرہ دو انتہاؤں میں تقسیم ہوجاتا ہے۔ ایک انتہا پر بھوکے اور ننگے لوگوں کا ہجوم جمع ہوجاتا ہے اور دوسری انتہا پر وہ لوگ ہوتے ہیں جو روٹی کی جگہ کیک کھا کر ڈکاریں لے رہے ہوتے ہیں۔ ننگے بھوکے لوگوں کی اکثریت میں رفتہ رفتہ معاشرے کے وسائل پر قابض اقلیت کے خلاف ایک لاوا پکنے لگتا ہے اور کسی بھی وقت یہ لاوا جب پھٹتا ہے تو تاریخ میں کہیں اسے انقلاب فرانس، کہیں روس کا انقلاب، کہیں انقلاب ایران اور کہیں خانہ جنگی لکھا جاتا ہے۔ یعنی تاریخ کے سارے انقلاب دماغ سے زیادہ پیٹ کے بطن سے پیدا ہوتے ہیں۔
(جاری ہے)