ایک زیرِ تکمیل دیوار
ملک کا ہر طبقہ اپنے حق کے لیے سراپا احتجاج ہے
SYRIA:
جب ناانصافی اس حد تک بڑھ جائے دادرسی کی کوئی صورت نظر نہ آئے اور انصاف کرنے والے ہی اس سے انکار کر دیں تو پھر عوام احتجاج کا راستہ اختیار کرتے ہیں۔ بدقسمتی سے ہمارے ملک کی صورتحال کچھ ایسی بن گئی ہے کہ گھی صرف ٹیڑھی انگلی سے ہی نکلنے لگا ہے۔ ہماری اشرافیہ نے اتنا بگاڑ پیدا کر دیا ہے کہ عوام کی داد رسی کے تمام راستے بند کر دئے گئے ہیں اور جو چند ایک بچ گئے ہیں لیکن ان کے لیے بے شمار وسائل اور صبر چاہیے کیونکہ انصاف کا حصول اس قدر پیچیدہ بنا دیا گیا ہے کہ سالہا سال تک مقدمات چلتے ہیں اور فیصلہ ہونے تک اگلی نسل جوان ہو جاتی ہے۔
اس کی تازہ ترین مثال سپریم کورٹ کا وہ فیصلہ ہے جو کہ ایک تہرے قتل کے مقدمہ میں 16 سال بعد سنایا گیا ہے اور تمام ملزمان کو 16 سال ناکردہ جرم کی سزاکے بعد باعزت بری کر دیا گیا ہے۔ سپریم کورٹ کے معزز جج صاحبان نے اپنے فیصلے میں ہائی کورٹ کے فیصلے پر بھی حیرت کا اظہار کیا ہے۔ مسئلہ یہ نہیں کہ کوئی کتنی دیر کے بعد سزا و جزاء کے عمل سے گزر رہا ہے بلکہ مسئلہ ناانصافی کو ختم کرنا اور انصاف کی فراہمی کو یقینی اور تیز تر بنانا ہے۔ وطن عزیز کی صورتحال کچھ ایسی ہو چکی ہے کہ اس کا ہر ادارہ اپنے سے منسلک لوگوں کو چاہے وہ اس کے ملازمین ہوں یا اس کے ساتھ وابستہ کاروباری افراد،ان کے ساتھ زیادتیاں کی جا رہی ہیں اورانصاف ناپید اور ندارد ہو چکا ہے۔ اس کے نتیجہ میں آئے دن کسی نہ کسی ادارے یا شعبہ کے لوگ اپنے حق کو حاصل کرنے کے لیے احتجاج کا راستہ اختیار کر رہے ہیں جس کے ذریعے وہ اپنے حقوق کے حصول کے لیے جدوجہد کرتے نظر آتے ہیں۔
ملک کا ہر طبقہ اپنے حق کے لیے سراپا احتجاج ہے چاہے وہ ڈاکٹر ہوں یا پیرا میڈیکل اسٹاف، استاد ہوں یا مختلف سرکاری محکموں کے کلرک، کسان ہوں یا دوائیاں بنانے والی کمپنیاں، فیکٹریوں کے مالکان ہوں یا سامان درآمد کرنے والے درآمدکنگان، کار ڈیلرز ہوں یا پراپرٹی ڈیلرز، اس طرز کی کئی مثالیں دی جا سکتی ہیں ۔ عوام حکومت اور اشرافیہ سے مایوس ہو کر احتجاجی راستہ اختیار کر رہے ہیں اور اپنے حقوق کا فیصلہ سڑکوں پر کرا رہے ہیں کیونکہ شرافت کی زبان کوئی سننے کو تیار نہیں ۔ ہمارے میڈیا نے بھی اس احتجاجی جدوجہد میں کلیدی کردار ادا کرنا شروع کر دیا ہے۔ عوام الناس اپنی بات ارباب اختیار تک پہنچانے کے لیے میڈیا کا سہارا لیتے ہیں اور آج کل حالات یہ بن گئے ہیں کہ جب تک سڑکوں پر احتجاج نہ کیا جائے اور میڈیا اس کی کوریج نہ کرے تب تک ہماری حکومت، افسر شاہی کے کانوں پر جوں نہیں رینگتی۔
وعدے وعید کرنا اور ان پر عمل نہ کرنا سیاست کا حصہ سمجھا جاتا ہے ، پاکستان کے قیام سے لے کر آج تک اگر عوام سے کیے گئے آدھے وعدوں پر بھی عمل درآمد ہو جاتا تو ہم کہیں کے کہیں پہنچ چکے ہوتے۔وعدے کیے ہی توڑنے کے لیے جاتے ہیں اور ہماری سیاست تو جھوٹے وعدوں سے لبریز ہے لیکن ہماری معصوم عوام بار بار ان ہی سیاستدانوں سے ڈسی جا رہی ہے اور اپنے بھولپن میں ہر بار ان کے خوش کن وعدوں پر اعتبار کر لیا جاتا ہے۔
داغ دہلوی کے بقول
''غضب کیا ترے وعدے پہ اعتبار کیا
تمام رات قیامت کا انتظار کیا''
ہمارے حکمرانوں کو عوام سے کیے گئے وعدے نبھانے ہوں گے نہ کہ قیامت کا انتظار ہو کہ جس میں سب کچھ جل جائے۔ احتجاجی طریقہ اختیار کرنے کو رواج دینے کے پیچھے وہ اشرافیہ ہے جو کہ عوام کے حقوق کی غاصب ہے اور صرف اپنے مفادکو ترجیح دیتی ہے اور عوام کو ان کے حالات پر چھوڑ دیا گیا۔ یہ احتجاجی جلسے و جلوس کبھی کبھار خطرناک صورتحال میں بھی تبدیل ہو جاتے ہیں اور حکومت کے لیے امن و امان برقرار رکھنا مشکل ہو جاتا ہے ۔
کہا جاتا ہے کہ ہر مسئلے کا حل مذاکرات کے ذریعے ہی نکلتا ہے اور باہمی گفت وشنید سے ان مسائل کا تدارک کیا جاتا ہے لیکن مذاکرات کی نوبت تو تب آتی ہے جب پانی سر سے اونچا ہونے لگتا ہے اور کوئی راہ نہ پا کر انتظامیہ مذاکرات کا راستہ اختیار کرتی ہے۔ کیا ہم اس قدر پستیوں میں گر چکے ہیں کہ ایک جائز اور قابل عمل کام بھی احتجاج کے بعد حل کرنے پر آمادہ ہیں۔ ہماری انتظامیہ اور اشرافیہ اس بات پر متفق نظر آتی ہے کہ عوام کو ان کے حقوق سے محروم رکھا جائے ۔ یہ صورتحال ملک اور ملکی اداروں کی بقاء کے لیے انتہائی مہلک اور اس سے بچنے کی اشد ضرورت ہے ۔ وہ وقت دور نہیں جب عوام اپنے جائز حقوق کے حصول کے لیے ہڑتالوں اور دھرنوں کے بجائے ان کو اشرافی طبقے سے چھین لیں گے کیونکہ ہم ملک میں جس کلچر کو فروغ دے رہے ہیں کہ خود ہی سب کچھ کھا جاؤ، چاہیے اس کے لیے عوام کی قربانی ہی کیوںنہ دینی پڑے یہ خطرناک ہے اور خدا نہ کرے کہ ہمارا ملک اور عوام اس کو بھگتیں۔
جس طرح ہم نے ہندوستان میں سامراجیوں سے اپنا حق لیا تھا اور پاکستان بنایا تھا اسی طرح ہمیں پاکستان کو اپنے خوابوں کا پاکستان بنانے کے لیے بھی ایک انقلابی کوشش کرنی ہے اور اس کے بغیر اب کوئی چارہ نہیں ۔ پاکستان کو پاکستان نہ بنایا گیا تو یہ اس خطے کے مسلمانوں کے ساتھ بہت بڑی بے وفائی ہو گی جسے جدید اصطلاح میں اسے غداری بھی کہا جاتا ہے۔ ہمیں پاکستان کو اپنے خوابوںکا پاکستان بنانے کے علاوہ اب کو ئی اور صورت نہیں ورنہ یہ بنا بنایا پاکستان بھی خطرے میں پڑ جائے گا۔ اس کا جغرافیائی اور سیاسی محل وقوع شاید اس کے طاقت ور حریفوں کو قبول نہ ہو اس لیے ہم پاکستانی ایک لمحے کی غفلت بھی قبول نہیں کر سکتے ۔ ہمیں کھلی آنکھوں سے جاگتے رہنا ہوگا۔ ایک فارسی کلاسیکل شاعرکے بقول ''یک لمحہ غافل بودم و صدسالہ راہم دُور شد''
یعنی ایک لمحہ غافل رہا تو قافلہ بہت دور نکل گیا اور میں نہ جانے کتنی منزلیں دور رہ گیا۔ پاکستان اس خطے کے مسلمانوں کی پہلی اینٹ ہے اور جس دیوار کی یہ اینٹ ہے وہ ابھی نامکمل ہے اس دیوار کو مکمل کرنے میں ہی ہماری زندگی ہے۔
جب ناانصافی اس حد تک بڑھ جائے دادرسی کی کوئی صورت نظر نہ آئے اور انصاف کرنے والے ہی اس سے انکار کر دیں تو پھر عوام احتجاج کا راستہ اختیار کرتے ہیں۔ بدقسمتی سے ہمارے ملک کی صورتحال کچھ ایسی بن گئی ہے کہ گھی صرف ٹیڑھی انگلی سے ہی نکلنے لگا ہے۔ ہماری اشرافیہ نے اتنا بگاڑ پیدا کر دیا ہے کہ عوام کی داد رسی کے تمام راستے بند کر دئے گئے ہیں اور جو چند ایک بچ گئے ہیں لیکن ان کے لیے بے شمار وسائل اور صبر چاہیے کیونکہ انصاف کا حصول اس قدر پیچیدہ بنا دیا گیا ہے کہ سالہا سال تک مقدمات چلتے ہیں اور فیصلہ ہونے تک اگلی نسل جوان ہو جاتی ہے۔
اس کی تازہ ترین مثال سپریم کورٹ کا وہ فیصلہ ہے جو کہ ایک تہرے قتل کے مقدمہ میں 16 سال بعد سنایا گیا ہے اور تمام ملزمان کو 16 سال ناکردہ جرم کی سزاکے بعد باعزت بری کر دیا گیا ہے۔ سپریم کورٹ کے معزز جج صاحبان نے اپنے فیصلے میں ہائی کورٹ کے فیصلے پر بھی حیرت کا اظہار کیا ہے۔ مسئلہ یہ نہیں کہ کوئی کتنی دیر کے بعد سزا و جزاء کے عمل سے گزر رہا ہے بلکہ مسئلہ ناانصافی کو ختم کرنا اور انصاف کی فراہمی کو یقینی اور تیز تر بنانا ہے۔ وطن عزیز کی صورتحال کچھ ایسی ہو چکی ہے کہ اس کا ہر ادارہ اپنے سے منسلک لوگوں کو چاہے وہ اس کے ملازمین ہوں یا اس کے ساتھ وابستہ کاروباری افراد،ان کے ساتھ زیادتیاں کی جا رہی ہیں اورانصاف ناپید اور ندارد ہو چکا ہے۔ اس کے نتیجہ میں آئے دن کسی نہ کسی ادارے یا شعبہ کے لوگ اپنے حق کو حاصل کرنے کے لیے احتجاج کا راستہ اختیار کر رہے ہیں جس کے ذریعے وہ اپنے حقوق کے حصول کے لیے جدوجہد کرتے نظر آتے ہیں۔
ملک کا ہر طبقہ اپنے حق کے لیے سراپا احتجاج ہے چاہے وہ ڈاکٹر ہوں یا پیرا میڈیکل اسٹاف، استاد ہوں یا مختلف سرکاری محکموں کے کلرک، کسان ہوں یا دوائیاں بنانے والی کمپنیاں، فیکٹریوں کے مالکان ہوں یا سامان درآمد کرنے والے درآمدکنگان، کار ڈیلرز ہوں یا پراپرٹی ڈیلرز، اس طرز کی کئی مثالیں دی جا سکتی ہیں ۔ عوام حکومت اور اشرافیہ سے مایوس ہو کر احتجاجی راستہ اختیار کر رہے ہیں اور اپنے حقوق کا فیصلہ سڑکوں پر کرا رہے ہیں کیونکہ شرافت کی زبان کوئی سننے کو تیار نہیں ۔ ہمارے میڈیا نے بھی اس احتجاجی جدوجہد میں کلیدی کردار ادا کرنا شروع کر دیا ہے۔ عوام الناس اپنی بات ارباب اختیار تک پہنچانے کے لیے میڈیا کا سہارا لیتے ہیں اور آج کل حالات یہ بن گئے ہیں کہ جب تک سڑکوں پر احتجاج نہ کیا جائے اور میڈیا اس کی کوریج نہ کرے تب تک ہماری حکومت، افسر شاہی کے کانوں پر جوں نہیں رینگتی۔
وعدے وعید کرنا اور ان پر عمل نہ کرنا سیاست کا حصہ سمجھا جاتا ہے ، پاکستان کے قیام سے لے کر آج تک اگر عوام سے کیے گئے آدھے وعدوں پر بھی عمل درآمد ہو جاتا تو ہم کہیں کے کہیں پہنچ چکے ہوتے۔وعدے کیے ہی توڑنے کے لیے جاتے ہیں اور ہماری سیاست تو جھوٹے وعدوں سے لبریز ہے لیکن ہماری معصوم عوام بار بار ان ہی سیاستدانوں سے ڈسی جا رہی ہے اور اپنے بھولپن میں ہر بار ان کے خوش کن وعدوں پر اعتبار کر لیا جاتا ہے۔
داغ دہلوی کے بقول
''غضب کیا ترے وعدے پہ اعتبار کیا
تمام رات قیامت کا انتظار کیا''
ہمارے حکمرانوں کو عوام سے کیے گئے وعدے نبھانے ہوں گے نہ کہ قیامت کا انتظار ہو کہ جس میں سب کچھ جل جائے۔ احتجاجی طریقہ اختیار کرنے کو رواج دینے کے پیچھے وہ اشرافیہ ہے جو کہ عوام کے حقوق کی غاصب ہے اور صرف اپنے مفادکو ترجیح دیتی ہے اور عوام کو ان کے حالات پر چھوڑ دیا گیا۔ یہ احتجاجی جلسے و جلوس کبھی کبھار خطرناک صورتحال میں بھی تبدیل ہو جاتے ہیں اور حکومت کے لیے امن و امان برقرار رکھنا مشکل ہو جاتا ہے ۔
کہا جاتا ہے کہ ہر مسئلے کا حل مذاکرات کے ذریعے ہی نکلتا ہے اور باہمی گفت وشنید سے ان مسائل کا تدارک کیا جاتا ہے لیکن مذاکرات کی نوبت تو تب آتی ہے جب پانی سر سے اونچا ہونے لگتا ہے اور کوئی راہ نہ پا کر انتظامیہ مذاکرات کا راستہ اختیار کرتی ہے۔ کیا ہم اس قدر پستیوں میں گر چکے ہیں کہ ایک جائز اور قابل عمل کام بھی احتجاج کے بعد حل کرنے پر آمادہ ہیں۔ ہماری انتظامیہ اور اشرافیہ اس بات پر متفق نظر آتی ہے کہ عوام کو ان کے حقوق سے محروم رکھا جائے ۔ یہ صورتحال ملک اور ملکی اداروں کی بقاء کے لیے انتہائی مہلک اور اس سے بچنے کی اشد ضرورت ہے ۔ وہ وقت دور نہیں جب عوام اپنے جائز حقوق کے حصول کے لیے ہڑتالوں اور دھرنوں کے بجائے ان کو اشرافی طبقے سے چھین لیں گے کیونکہ ہم ملک میں جس کلچر کو فروغ دے رہے ہیں کہ خود ہی سب کچھ کھا جاؤ، چاہیے اس کے لیے عوام کی قربانی ہی کیوںنہ دینی پڑے یہ خطرناک ہے اور خدا نہ کرے کہ ہمارا ملک اور عوام اس کو بھگتیں۔
جس طرح ہم نے ہندوستان میں سامراجیوں سے اپنا حق لیا تھا اور پاکستان بنایا تھا اسی طرح ہمیں پاکستان کو اپنے خوابوں کا پاکستان بنانے کے لیے بھی ایک انقلابی کوشش کرنی ہے اور اس کے بغیر اب کوئی چارہ نہیں ۔ پاکستان کو پاکستان نہ بنایا گیا تو یہ اس خطے کے مسلمانوں کے ساتھ بہت بڑی بے وفائی ہو گی جسے جدید اصطلاح میں اسے غداری بھی کہا جاتا ہے۔ ہمیں پاکستان کو اپنے خوابوںکا پاکستان بنانے کے علاوہ اب کو ئی اور صورت نہیں ورنہ یہ بنا بنایا پاکستان بھی خطرے میں پڑ جائے گا۔ اس کا جغرافیائی اور سیاسی محل وقوع شاید اس کے طاقت ور حریفوں کو قبول نہ ہو اس لیے ہم پاکستانی ایک لمحے کی غفلت بھی قبول نہیں کر سکتے ۔ ہمیں کھلی آنکھوں سے جاگتے رہنا ہوگا۔ ایک فارسی کلاسیکل شاعرکے بقول ''یک لمحہ غافل بودم و صدسالہ راہم دُور شد''
یعنی ایک لمحہ غافل رہا تو قافلہ بہت دور نکل گیا اور میں نہ جانے کتنی منزلیں دور رہ گیا۔ پاکستان اس خطے کے مسلمانوں کی پہلی اینٹ ہے اور جس دیوار کی یہ اینٹ ہے وہ ابھی نامکمل ہے اس دیوار کو مکمل کرنے میں ہی ہماری زندگی ہے۔