بنتا ہوا پاکستان بِگڑتا ہوا سندھ
بہت سا خَلاء جو سندھ میں بھرنا ہے،کون بھرے گا یہ خلاء یہ ایک کروڑکا سوال ہے
کرنے دیجیے مجھے دل سے اقرارکہ میں آج کے پاکستان سے قدرے مطمئن ہوں ہم نے ہوش کے ناخن تھام لیے ہیں،ادارے بہترکام کررہے ہیں، چیزیں بنتی نظرآرہی ہیں۔ یہ نوازشریف ہیں جنہوں نے سیاسی کیریئرکا آغاز ایک آمر جنریل کی سرپرستی میں کیا اورآج وہ اْس کے فلسفے سے کوسوں دور نظر آرہے ہیں۔ آج ہم مردم شماری کروا رہے ہیں، وہ جو بہت ناممکن سا ہوگیا تھا۔کراچی کیا تھا اور اب کیا ہے۔میں اسٹاک مارکیٹ کو ملکی معاشی صحت کا بیرومیٹر نہیں سمجھتا مگر دیکھ لیجیے اس کو بھی کہ کہاں کھڑی ہے۔شرح نَمو کئی سال کے بعد پانچ فیصد پرآ ہی گئی ہے۔
میاں صا حب کو راستے بنانے کی جو روش باعث تنقید بنتی رہی کہ پیسے اسکولوں اور اسپتالوں پر کیوں خرچ نہیں کیے جاتے لیکن پھر راستے کمال کے بنے ہیں اور بن رہے ہیں۔ ہمارا میڈیا اب اْن چونکا دینے والی خبروں سے چھکے چھْڑانے سنسنی خیزخبروں، اینکروں،دنگا فساد وغیرہ وغیرہ سے اگر نِکلا نہیں ہے تو نِکلتا ہوا نظر آرہا ہے۔ طالبان کا ڈروخوف تاریخ کا حصہ ہوا مگر اس کی باقیات ابھی بھی باقی ہیں اور اِس پر بھی بہت سا کام ہونا ہے۔
کل میاں صاحب نے ہندوکمیونٹی کو خطاب کرتے ہوئے قائد اعظم کی گیارہ ستمبر والی تقریرکو یوں اْجاگر کیاکہ جا کر اس کی لڑیاں علامہ اقبال کی تقریر سے مِلا دیں۔جناح صاحب کی گیارہ ستمبر والی تقریر کا تو ریڈیو پاکستان سے ریکارڈ بھی غائب کروا دیا۔ قراردادِ مقاصدآئین کا پری ایمبلPreamble تو بنی اور زبردستی بالآخر جنرل ضیاء نے اسے آئین کے اندر بھی ڈال دیا مگر وہ سْپر کانسٹیٹیوشن نہ بن سکی چاہے لاہور ہائیکورٹ نے اس کے حق میں فیصلہ کیوں نہ دیا مگر سپریم کورٹ نسیم حسن شاہ کی بینچ نے اْسے رد کر دیا۔
میں نے کہا نہ ہم نے ہوش کے ناخن لے لیے ہیں! اب یہ پاکستان ایک شرفاؤں والا پاکستان ہے اور دوسری طرف اِداروں والا پاکستان ۔ اب یہ دنگل نئی منزل کی طرف جاتا ہوا دنگل ہے ۔ہم سب کو اس میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیناہے۔اس کی تعمیرکے لیے،اس کی تشریح کے لیے،اس کی ترقی وتعظیم کے لیے،اس کا مہذب ملکوں میںشمارہونے کے لیے۔
وہ پاکستان جو ہم بنانے جارہے تھے ہم تو اپنے دشمنوں کا کام کرنے جارہے تھے کہ اْس سے پاکستان ٹوٹتا جا رہا تھا، وہ دنیا میں اکیلا ہوتا جا رہا تھا، یہ کثیرالقوم،یہ کثیر المذاہب و فرقے والا پاکستان وادیء مہران والا پاکستان کل میاں صاحب کے ہندوکمیونٹی کے خطاب میں نظرآرہا تھا اور بہت دورتک نظر آرہا تھا میاں نواز شریف اب اس امیج کو ختم کرنا چاہ رہے ہیں کہ وہ صِرف سینٹرل پنجاب کے پرائم منسٹر ہیں۔کہ وہ صِرف سینٹرل پنجاب کے بعد خیبر پختونخوا کے ہزارہ ڈویژن کے پرائم منسٹر ہیں مگر وہ اِس تعصب کو مٹانا چاہتے ہیں۔ وہ لاڑ کانہ کے وزیراعظم اورلاہورکے وزیر اعظم کی اصطلاح کو بھی ختم کرنا چاہتے ہیں۔
بہت سا خَلاء جو سندھ میں بھرنا ہے،کون بھرے گا یہ خلاء یہ ایک کروڑکا سوال ہے، اب کون بنے گا کروڑ پتی عمران یا میاں نواز شریف۔ یوں کہیئے کہ آصف زرداری سے اورالطاف بھائی سے، یوں کہیے سندھ رْورل یا سندھ اربن اب کون بھرے گا یہ خلا؟
2018ء کی دہلیز پر الیکشن کھڑے ہیں۔اس سے اتنی دراڑیںواضح نہ ہوں یا شاید اَب کی بارکچھ نیا نیا سا ہونے جارہا ہے۔ خان صاحب کو موقعہ مِلا وہ اَربن سندھ میںمتحدہ کے لیے چیلنج بن کر اْبھرے مگر دیر پا ثابت نہیں ہوئے۔ اب کی بار سندھ رْورل میں معاملہ کچھ اورہے وہ بھٹوکا رومانس، وہ جیالے!کل کی بات ہے اب وڈیروں کو زرداری کی بیساکھیاں ملی ہیں۔
زرداری اِن کی مجبوری نہیں ہے اور نہ ہی اْن کو اِن سے اْنسیت یامحبت ہے بس ایک ضرورت ہے۔ نظریہ ضرورت کے تحت ۔ بہت بد نصیب ہیں بے چارے سندھی سن 1947ء سے 1970ء تک یہ اقتدار سے بہت بہت دوررہے، جی ایم سید، جناح سے رْوٹھ گئے عین اْن دنوں میں جب بنا کر رکھنی تھی۔ یہ بھٹو تھے جو ْروٹھے ہوئے سندھیوں کو وفاق میں واپس لے کرآئے اورسارے وڈیروں کو بھی۔ یوں کہیے کہ پیپلزپارٹی کے اور بہت خدوخال ہیں جیسے کہ ووٹ کا شعور، مڈل کلاس کی ترتیب بھٹوکا پاپولر سندھی لیڈرہو کر اْبھرنا اورپنجاب میں بھی اپنا لوہا منوانا ایک طرف، مگر جو سندھ کے وڈیروںمیں جان ڈالی ان کو بہ حیثیت اِدارہ ترتیب دی وہ ایک طرف۔
1983ء ایم آر ڈی کی تحریک کے اور بہت سے زاویے ہونگے مگر وہ بنیادی جوہر میں سندھ کے شرفاء یا وڈیرے کی قیادت میں سندھ کے عوام کی چلائی ہوئی تحریک تھی۔ غلام مصطفٰی جتوئی اس تحریک کے رہبرِاعظم تھے۔بڑے بڑے تونگر جیلوں میں گئے۔ تو ساتھ اْن کے کارکْن اور جیالے بھی گئے۔یوں کہیے کہ ''ایک ہی صف میں کھڑے ہو گئے محمود وایاز'' والا منظر تھا۔پھر بینظیر آئیں جِلا وطنی ختم کر کے ، بڑے بڑے سندھ کے زمیندار ایک طرف اور بینظیر ایک طرف جیالوں کے قریب ہوگئیں اور پارٹی کے انکل دورہوگئے۔
مجھے یہ نہیں لگتا کہ بینظیرکو زرداری صاحب نے Replace کیا ہے۔ سچ تو یہ بھی ہے کہ پابند سلاسل ہونے میں زرداری اپنا نام رکھتے ہیں، مگر وہ سب تو جب بینظیر تھی تب تھا اوراب اس بار بینظیرکی برسی پر جب یہ اعلان کیا کہ وہ نوابشاہ سے الیکشن میں کھڑے ہونگے اور بلاول لاڑکانہ سے اور پھر حلفیہ بیان اوروعدے سے ہٹ گئے۔ بینظیر اور بھٹوکی قبر پر دی ہوئی قسم سے مْکرگئے۔ وہ اِس لیے نہیں کہ وہ یا اْن کا بیٹا الیکشن ہارجاتے یہ اس طرح تھا کہ اگرایم کیو ایم کے مخالف نائن زیروکے حلقے سے روایت کے برعکس ڈھیروںووٹ لیتے تو ایم کیو ایم کا بھرم ٹوٹتا۔ جس طرح عمران خان نے2013ء کی الیکشن میں لیے تھے۔ لاڑ کانہ سے یا نوابشاہ سے اب کی بار زرداری کا پیپلزپارٹی کا اس مقبولیت سے ووٹ لینا تاریخ ہوا۔
سندھ ادارے مانگتا ہے، پاکستان کو ادارے تو مل رہے ہیں مگر سندھ کے ادارے اور زوال پذیر ہورہے ہیں، اتنے زوال پذیرکے جس کی کوئی حد ہی نہیں۔اس کی وجہ یہی ہے کہ زمیندارشرفاء اوراس کی نمایندہ جماعت پیپلزپارٹی کی نفسیات میں اداروں کو تباہ کرنا ہے۔بدنصیبی سے یہ کام اربن سندھ میں خوب کیا حالانکہ مڈل کلاس کی نفسیات میں اداروں کو برباد کرنا نہیں ہے۔ یہ کام زمیندار شرفاء کے لاشعور میں موجود ہے۔لْبِ لباب یہ ہے کہ جس طرح مْنیر نیازی ؔکہتے ہیں۔
کج شہر دے لوگ وی ظالم سن
کج سانوں مرن دا شوق وی سی
کچھ تو وفاق نے سندھ کے ساتھ ستم کیے ہیں اورکچھ اپنوں نے بھی کسر نہیں چھوڑی۔