کہتی ہے تجھ کو خلق خدا
میتھیوز تو مر گیا لیکن اس نے بھارتی عوام کے سامنے بہت سے سوال کھڑے کر دیے
ISLAMABAD:
بھارتی افواج جس طرح کشمیر کی سرزمین پر نہتے معصوم شہریوں کے ساتھ سلوک کر رہی ہے اس سے جہاں مظلوموں کی آہ بلند ہوتی ہے وہیں اس گھناؤنے عمل کے نتیجے میں بھارتی فوجیوں میں نفسیاتی الجھنیں پیدا ہو رہی ہیں۔ بالکل اس طرح جیسے ہر عمل کا ایک ردعمل ہوتا ہے، بھارتی افواج کے اندر کیا پک رہا ہے لیکن ایک جوان کے احتجاج کی ویڈیو نے ساری دنیا پر عیاں کر دیا کہ بڑے بڑے دعوے کرنے والے بہادرخود اپنوں کے ساتھ کیا کھیل کرتے ہیں۔
ایسے لوگ جو خود اعلیٰ پکوان کے مزے اڑائیں اور اپنے سپاہیوں کے لیے پتلی ہلدی والی دال، جلے ہوئے پراٹھے اور ناکافی غذا۔ یہ ایک ہلکا پھلکا سا احتجاج تھا شاید۔ میتھیوز معصوم کو بھی اس ویڈیو سے آگ بھڑکنے کا علم نہ تھا لیکن یہ تیر جا کر سیدھا ان کے دل پر لگا جو اپنے اپنے خزانوں کو ان معصوم سپاہیوں کے حصے کی روٹی بیچ کر بھر رہے تھے، یہاں تک کہ پہلے بات گمشدگی اور پھر اس کی موت تک جا پہنچی اور سوائے اس کے وہ کر بھی کیا سکتے تھے۔ میتھیوز تو مر گیا لیکن اس نے بھارتی عوام کے سامنے بہت سے سوال کھڑے کر دیے۔
میتھیوز کو دیکھتے ہوئے ایک اور جوان تیج بہادر بھی جوش میں آ گیا اور اس نے ماضی میں خود صفر سے سفر کرتے وزیر اعظم کی کرسی تک پہنچنے والے نریندر مودی کو ہی چیلنج کر دیا، بات وہی دو وقت کی روٹی کی تھی۔ بھارت میں ابھی تک فوج کے اعلیٰ طبقے پر انگریزی سامراج کی طرح کا سلوک روا ہے گھروں سے ہنکا کر جوانوں کو فوج میں بھرتی کیا کرتے تھے لیکن انگریزوں سے نجات حاصل کرنے کے بعد بھی وہ بھوت ان کے سر پر سوار ہے، جہاں کم تر فوجی جوانوں کو اعلیٰ افسران اپنا غلام سمجھتے ہیں۔
بات کو کچھ برسوں پہلے تک لے کر جاتے ہیں جب 31 مئی 2006ء میں مقبوضہ کشمیرکا ضلع بارہ مولہ میں وولر جھیل جس کی لمبائی بیس میل اور چوڑائی چھ میل ہے، یہ ایشیا کی میٹھے پانی کی اہم جھیل ہے یہ مقبوضہ کشمیر کا اہم شناختی مقام ہے۔ دریائے جہلم سوپور کے مقام پر ہوتا ہوا اسی جھیل سے آزاد کشمیر میں داخل ہوتا ہے، برننگ کینڈل اسکول کے بچے اور بچیاں اس جھیل میں سیر کے لیے آئے، وہ کشتی پر سوار تھے کہ وہاں بھارتی بحریہ کے درندوں نے بچیوں کے ساتھ دست درازی کی کوشش کی جس سے کشتی کا توازن بگڑ گیا اور تئیس بچے اور بچیاں موت کا نوالہ بن گئے یہ ایک سانحہ تھا یا بھارتی فوج کے منہ پر ایک تھپڑ۔ فوج جسے ہر ملک کے عوام اپنا محافظ سمجھتے ہیں اور جس قوم کے محافظ ان کی عزتوں سے کھیلنے لگیں تو ملک کے محافظ کا کیا کردار رہ جاتا ہے۔
کشمیرکے بچے اور بچیاں جو 2006ء میں لقمہ اجل بنے مظلوم تھے، مسلمان تھے لیکن حال ہی میں ایک ایسا سانحہ ہوا جس نے بھارتی افواج کے اعلیٰ پنڈتوں اور حکومت وقت کو بھی سوچنے پر مجبورکر دیا۔ وہ ایک تیس سالہ خاتون تھی جسے بھارتی فوج نے قید کر رکھا تھا اس پر الزام تھا کہ اس کے ان لوگوں سے تعلقات ہیں جس کی وجہ سے کئی بھارتی جوانوں کی ہلاکت ہوئی۔ یہ محض الزام تھا یا اس میں کسی حد تک کوئی بھی سچائی تھی لیکن وہ ایک ہندو خاتون تھی۔
اس خاتون کو اعلیٰ اقدار کی حامل بھارتی افواج کے جوانوں نے اپنی ہوس کا نشانہ بنایا بعدازاں اسے جان سے مار دیا گیا۔ بات اگر محض اتنی ہوتی کہ دوران قید وہ خاتون مر گئی یا اسے مار دیا گیا اتنی گھناؤنی نہ محسوس ہوتی جتنی اس خبر کے ساتھ جڑی عصمت دری کی خبر بھی نہ ہوتی یہ کیسا اندھیر ہے، یہ کیا افتاد پڑی ہے کہ اپنے ہی محافظ اپنے ہی ملک کی خواتین کو بری نظروں سے دیکھنے لگے انھیں بے عزت کرنے لگے۔ اس سے پہلے بھی اکثر لوگوں نے اس ویڈیو کو انٹرنیٹ کے ذریعے دیکھا ہو گا کہ جس میں ایک بھارتی خاتون ایک بھارتی فوجی کو اس کے چھیڑنے پر اس طرح لعن طعن کر رہی تھی کہ جیسے وہ فوجی جوان بس اسٹاپ پر کھڑا ایک عام سا غنڈہ ہو، جو آتی جاتی لڑکیوں کو چھیڑتا ہو۔
صرف یہی نہیں بلکہ ٹرین میں سوار ایک لڑکی کے ساتھ زیادتی کی کوشش میں ایک بھارتی فوجی جوان کو پولیس نے ہتھکڑیاں بھی پہنا دی تھیں۔ بھارتی افواج کے اس طرز عمل نے ان کی عوام کے لیے بہت سے تحفظات پیدا کر دیے ہیں۔ کیا بھارتی عوام اپنی افواج پر اعتماد کرے، کیا وہ اعتماد کے قابل ہیں۔ اور کیا ملک میں ہونے والے کسی بھی سیاسی یا بیرونی ردعمل کے بغیر کسی بنا پر بھارتی افواج ملک کی باگ ڈورکو ذمے داری سے سنبھالنے کی اہل ہے؟
دنیا بھر میں بھارتی فوج کے اعلیٰ پنڈتوں اور مودی حکومت کو اس وقت سخت شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا جب اس بتیس سالہ خاتون کی ہلاکت کے خلاف خواتین نے احتجاج ایسا انوکھا انداز اختیار کیا کہ جس سے ایشیائی خواتین کے حقوق کی علمبردار خواتین بھی دنگ رہ گئیں لیکن اس برے ردعمل کی وجہ وہ گھناؤنا عمل تھا جو اس مظلوم خاتون کے ساتھ روا رکھا گیا تھا۔ اور یہ کسی اور ملک کی فوج نے نہیں بلکہ ان کے اپنے ملک کی فوج نے کیا تھا۔ ساٹھ سے ستر سال کی ان آٹھ سے نو خواتین کے گروپ نے ان اونچے مضبوط ایوانوں کے سامنے احتجاجاً اپنے آپ کو برہنہ کر لیا ان کے جسموں پر کپڑے کے بڑے بینرزگویا ان کی ستر پوشی کر رہے تھے۔
جس پر تحریر تھا ''بھارتی آرمی ہمارا ریپ کرو'' یہ ایک طمانچہ تھا جو ان بزرگ خواتین نے انڈین آرمی کے چہرے پر رسید کیا تھا۔ یہ خواتین جن کی عمریں اپنے بچوں کے بچے کھلانے کی تھیں لیکن احساس محرومی اور شکایت اس حد تک بڑھی تھی کہ انھوں نے اپنا آپ بھی پیش کر دیا تھا، سراپا احتجاج بھی اپنوں سے۔ وہ بھی اس قدر شدید کہ ایوان اقتدار لرز اٹھے، کیا مستقبل میں اس احتجاج کا کوئی نتیجہ برآمد ہو سکتا ہے اس بارے میں کچھ کہنا درست نہیں اس لیے کہ درجات میں بٹے ہر بھارتی سطح کے افراد نچلے درجوں سے پہلو تہی کرتے آئے ہیں چاہے وہ عوام ہوں یا فوجی جوان۔ استحصال صرف غریب عوام کا ہو رہا ہے۔ ہمیں خدا کا لاکھ لاکھ شکر ادا کرنا چاہیے کہ انھوں نے ہمیں ایک آزاد ملک میں پیدا کیا، جہاں ابھی رشتوں کا تقدس برقرار ہے۔
بھارتی افواج جس طرح کشمیر کی سرزمین پر نہتے معصوم شہریوں کے ساتھ سلوک کر رہی ہے اس سے جہاں مظلوموں کی آہ بلند ہوتی ہے وہیں اس گھناؤنے عمل کے نتیجے میں بھارتی فوجیوں میں نفسیاتی الجھنیں پیدا ہو رہی ہیں۔ بالکل اس طرح جیسے ہر عمل کا ایک ردعمل ہوتا ہے، بھارتی افواج کے اندر کیا پک رہا ہے لیکن ایک جوان کے احتجاج کی ویڈیو نے ساری دنیا پر عیاں کر دیا کہ بڑے بڑے دعوے کرنے والے بہادرخود اپنوں کے ساتھ کیا کھیل کرتے ہیں۔
ایسے لوگ جو خود اعلیٰ پکوان کے مزے اڑائیں اور اپنے سپاہیوں کے لیے پتلی ہلدی والی دال، جلے ہوئے پراٹھے اور ناکافی غذا۔ یہ ایک ہلکا پھلکا سا احتجاج تھا شاید۔ میتھیوز معصوم کو بھی اس ویڈیو سے آگ بھڑکنے کا علم نہ تھا لیکن یہ تیر جا کر سیدھا ان کے دل پر لگا جو اپنے اپنے خزانوں کو ان معصوم سپاہیوں کے حصے کی روٹی بیچ کر بھر رہے تھے، یہاں تک کہ پہلے بات گمشدگی اور پھر اس کی موت تک جا پہنچی اور سوائے اس کے وہ کر بھی کیا سکتے تھے۔ میتھیوز تو مر گیا لیکن اس نے بھارتی عوام کے سامنے بہت سے سوال کھڑے کر دیے۔
میتھیوز کو دیکھتے ہوئے ایک اور جوان تیج بہادر بھی جوش میں آ گیا اور اس نے ماضی میں خود صفر سے سفر کرتے وزیر اعظم کی کرسی تک پہنچنے والے نریندر مودی کو ہی چیلنج کر دیا، بات وہی دو وقت کی روٹی کی تھی۔ بھارت میں ابھی تک فوج کے اعلیٰ طبقے پر انگریزی سامراج کی طرح کا سلوک روا ہے گھروں سے ہنکا کر جوانوں کو فوج میں بھرتی کیا کرتے تھے لیکن انگریزوں سے نجات حاصل کرنے کے بعد بھی وہ بھوت ان کے سر پر سوار ہے، جہاں کم تر فوجی جوانوں کو اعلیٰ افسران اپنا غلام سمجھتے ہیں۔
بات کو کچھ برسوں پہلے تک لے کر جاتے ہیں جب 31 مئی 2006ء میں مقبوضہ کشمیرکا ضلع بارہ مولہ میں وولر جھیل جس کی لمبائی بیس میل اور چوڑائی چھ میل ہے، یہ ایشیا کی میٹھے پانی کی اہم جھیل ہے یہ مقبوضہ کشمیر کا اہم شناختی مقام ہے۔ دریائے جہلم سوپور کے مقام پر ہوتا ہوا اسی جھیل سے آزاد کشمیر میں داخل ہوتا ہے، برننگ کینڈل اسکول کے بچے اور بچیاں اس جھیل میں سیر کے لیے آئے، وہ کشتی پر سوار تھے کہ وہاں بھارتی بحریہ کے درندوں نے بچیوں کے ساتھ دست درازی کی کوشش کی جس سے کشتی کا توازن بگڑ گیا اور تئیس بچے اور بچیاں موت کا نوالہ بن گئے یہ ایک سانحہ تھا یا بھارتی فوج کے منہ پر ایک تھپڑ۔ فوج جسے ہر ملک کے عوام اپنا محافظ سمجھتے ہیں اور جس قوم کے محافظ ان کی عزتوں سے کھیلنے لگیں تو ملک کے محافظ کا کیا کردار رہ جاتا ہے۔
کشمیرکے بچے اور بچیاں جو 2006ء میں لقمہ اجل بنے مظلوم تھے، مسلمان تھے لیکن حال ہی میں ایک ایسا سانحہ ہوا جس نے بھارتی افواج کے اعلیٰ پنڈتوں اور حکومت وقت کو بھی سوچنے پر مجبورکر دیا۔ وہ ایک تیس سالہ خاتون تھی جسے بھارتی فوج نے قید کر رکھا تھا اس پر الزام تھا کہ اس کے ان لوگوں سے تعلقات ہیں جس کی وجہ سے کئی بھارتی جوانوں کی ہلاکت ہوئی۔ یہ محض الزام تھا یا اس میں کسی حد تک کوئی بھی سچائی تھی لیکن وہ ایک ہندو خاتون تھی۔
اس خاتون کو اعلیٰ اقدار کی حامل بھارتی افواج کے جوانوں نے اپنی ہوس کا نشانہ بنایا بعدازاں اسے جان سے مار دیا گیا۔ بات اگر محض اتنی ہوتی کہ دوران قید وہ خاتون مر گئی یا اسے مار دیا گیا اتنی گھناؤنی نہ محسوس ہوتی جتنی اس خبر کے ساتھ جڑی عصمت دری کی خبر بھی نہ ہوتی یہ کیسا اندھیر ہے، یہ کیا افتاد پڑی ہے کہ اپنے ہی محافظ اپنے ہی ملک کی خواتین کو بری نظروں سے دیکھنے لگے انھیں بے عزت کرنے لگے۔ اس سے پہلے بھی اکثر لوگوں نے اس ویڈیو کو انٹرنیٹ کے ذریعے دیکھا ہو گا کہ جس میں ایک بھارتی خاتون ایک بھارتی فوجی کو اس کے چھیڑنے پر اس طرح لعن طعن کر رہی تھی کہ جیسے وہ فوجی جوان بس اسٹاپ پر کھڑا ایک عام سا غنڈہ ہو، جو آتی جاتی لڑکیوں کو چھیڑتا ہو۔
صرف یہی نہیں بلکہ ٹرین میں سوار ایک لڑکی کے ساتھ زیادتی کی کوشش میں ایک بھارتی فوجی جوان کو پولیس نے ہتھکڑیاں بھی پہنا دی تھیں۔ بھارتی افواج کے اس طرز عمل نے ان کی عوام کے لیے بہت سے تحفظات پیدا کر دیے ہیں۔ کیا بھارتی عوام اپنی افواج پر اعتماد کرے، کیا وہ اعتماد کے قابل ہیں۔ اور کیا ملک میں ہونے والے کسی بھی سیاسی یا بیرونی ردعمل کے بغیر کسی بنا پر بھارتی افواج ملک کی باگ ڈورکو ذمے داری سے سنبھالنے کی اہل ہے؟
دنیا بھر میں بھارتی فوج کے اعلیٰ پنڈتوں اور مودی حکومت کو اس وقت سخت شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا جب اس بتیس سالہ خاتون کی ہلاکت کے خلاف خواتین نے احتجاج ایسا انوکھا انداز اختیار کیا کہ جس سے ایشیائی خواتین کے حقوق کی علمبردار خواتین بھی دنگ رہ گئیں لیکن اس برے ردعمل کی وجہ وہ گھناؤنا عمل تھا جو اس مظلوم خاتون کے ساتھ روا رکھا گیا تھا۔ اور یہ کسی اور ملک کی فوج نے نہیں بلکہ ان کے اپنے ملک کی فوج نے کیا تھا۔ ساٹھ سے ستر سال کی ان آٹھ سے نو خواتین کے گروپ نے ان اونچے مضبوط ایوانوں کے سامنے احتجاجاً اپنے آپ کو برہنہ کر لیا ان کے جسموں پر کپڑے کے بڑے بینرزگویا ان کی ستر پوشی کر رہے تھے۔
جس پر تحریر تھا ''بھارتی آرمی ہمارا ریپ کرو'' یہ ایک طمانچہ تھا جو ان بزرگ خواتین نے انڈین آرمی کے چہرے پر رسید کیا تھا۔ یہ خواتین جن کی عمریں اپنے بچوں کے بچے کھلانے کی تھیں لیکن احساس محرومی اور شکایت اس حد تک بڑھی تھی کہ انھوں نے اپنا آپ بھی پیش کر دیا تھا، سراپا احتجاج بھی اپنوں سے۔ وہ بھی اس قدر شدید کہ ایوان اقتدار لرز اٹھے، کیا مستقبل میں اس احتجاج کا کوئی نتیجہ برآمد ہو سکتا ہے اس بارے میں کچھ کہنا درست نہیں اس لیے کہ درجات میں بٹے ہر بھارتی سطح کے افراد نچلے درجوں سے پہلو تہی کرتے آئے ہیں چاہے وہ عوام ہوں یا فوجی جوان۔ استحصال صرف غریب عوام کا ہو رہا ہے۔ ہمیں خدا کا لاکھ لاکھ شکر ادا کرنا چاہیے کہ انھوں نے ہمیں ایک آزاد ملک میں پیدا کیا، جہاں ابھی رشتوں کا تقدس برقرار ہے۔