وجدان
انسان کے حواس خمسہ مکمل طور پہ احساس اور زندگی کا احاطہ کیے ہوئے ہیں
انسان کے حواس خمسہ مکمل طور پہ احساس اور زندگی کا احاطہ کیے ہوئے ہیں۔ سوچ، سمجھ، مشاہدہ، تجربہ اوردھیان کے رنگوں سے مزین یہ حسیاتی محرک، سوچ کی وحدت کہلاتا ہے۔ وجدان، ادراک یا غیرمعمولی سوچ کا تعلق پانچ حسوں سے نہیں ہے،گوکہ یہ تمام ترحسیں مشاہدات و تجربات کی مربوط کڑی ہیں۔ وجدان یا وجدانی سوچ کا تعلق باطن کی آنکھ سے ہے۔
جس کے مطابق وجدان ماضی کے تجربات، حال کے معاملات اور فطری رغبت سے جڑا ہوا ہے۔ یہ قدرتی صلاحیت ہے۔اس کا تعلق کسی مذہب یا عبادت سے ہرگز نہیں ہے، اگر مزاج میں یکسوئی، ربط یا ہم آہنگی نہیں ہے تو عبادت بھی میکانیکی عمل بن جاتی ہے۔ وجدان کا پہلا زینہ دھیان (غور و فکر) ہے۔ یہ سمجھ کی وہ مسند ہے جس پر بیٹھ کر اندرکی آنکھ سے دنیا کا مشاہدہ کیا جاتا ہے۔
یہ آنکھ جوکچھ دیکھتی ہے وہ ہم نہیں دیکھ پاتے۔آنکھیں روشنی پرلینز کے ذریعے مرکوز ہوتی ہیں۔ لہٰذا ایک لرزتا ہوا تصور Retina تک پہنچتا ہے جوآنکھ کے پیچھے واقع ہے، جب کہ ایک چھوٹا نقطہ جسے Fovea کہا جاتا ہے جو روشنی کے حساس خلیوں کو تحرک عطا کرکے ایک مکمل تصور بناتا ہے، جب کہ باقی ماندہ آنکھ دھندلی تصویردیکھتی ہے۔ آنکھ کی تیز حرکت اس معلومات کو مزید واضح کرتی ہے۔ جب یہ تصور ذہن کی طرف سفرکرتا ہے تو یہ معلومات مزید واضح ہوجاتی ہے۔ لہٰذا بائیں آنکھ ذہن کے دائیں ہمسفر کی طرف حرکت کرتی ہے۔
دوسری جانب ذہن اس تصور کی وضاحت برقی نسوں کے تحرک کے تحت کرتے ہوئے اسے واضح کرتا ہے۔ اس کے بعد شناسا شکل، مظہر یا اشیا سے تعلق کی صورت جڑتی ہے۔جس کے بعد خیال کے زاویے ترتیب پاتے ہیں۔ جو ہمارے لاشعور میں منتقل ہوتے رہتے ہیں۔ ذہن اس بصری تاثر سے معلومات کو سمجھتا اور ترتیب دیتا ہے۔ لہٰذا ہم دیکھنے اور سمجھنے کے مراحل سے گزرتے ہیں۔ جسے Perception (خیال) کہا جاتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں خیال ایک فن ہے جوانتشار سے سوچ کو ترتیب میں لے کر آتا ہے۔
آنکھ اشیا کو ذہن تک منتقل کرتی ہے اور ذہن اس معلومات سے نتائج اخذ کرتا ہے۔خلیاتی عمل فقط ایک میکانیکی طریقہ کار ہے۔ جب کہ خیال کی ترتیب اور روح کی دریافت، لاشعورکرتا ہے۔ ذہن کا ایک گوشہ جو Reptilian Brain کہلاتا ہے، اسے وجدان و روحانیت کا مرکز سمجھا جاتا ہے۔ ذہن کے اس حصے کی زبان تمثیل واستعارات ہیں۔ یہ ماحول سے تحرک حاصل کرتا ہے۔ یہ تجدیدی سوچ کا حامل ہے اور تخلیقی صلاحیت کو بیرونی عوامل سے متحرک کرتا ہے۔
باطن کی آنکھ کو تیسری آنکھ ہی کہا جاتا ہے۔ انڈیا میں Brow Chakra کے نام سے اس کی تشریح کی جاتی ہے، چاکرا سنسکرت کا لفظ ہے، جس کا مطلب پہیہ یا چرخا ہے۔ زندگی رخ بدلتی ہے۔ گہما گہمی میں ہم حقیقت تک رسائی حاصل نہیں کرسکتے جب کہ خاموشی اور لاتعلقی سے باطن تحرک حاصل کرتا ہے۔ مشاہدے کے وقت غیر جانبدار آنکھ کی ضرورت ہوتی ہے۔ بصورت دیگر ذہن واضح تصور نہیں بنا پاتا۔ یا واہموں کا شکار ہوجاتا ہے۔
وجدان کی وضاحت کرنا مشکل ہے، لیکن شعوری سمجھ کا دائرہ وسیع کرتے ہوئے لاشعور تک رسائی حاصل کی جاسکتی ہے۔ وجدان، مکمل تصویر، جائزہ یا سوجھ بوجھ ہے جو آنکھ سے خود فراموشی کے پردے ہٹا دیتا ہے اورانسانی سوچ دائمی حقیقت کے قریب ہوجاتی ہے۔ کئی ان کہے راز منکشف ہونے لگتے ہیں۔
وجدان، خداداد صلاحیت ہے، جس کے مختلف زینے ہیں۔ یکسوئی اور مراقبہ اس صلاحیت کو جلا بخشتے ہیں۔ عبادت بھی دھیان اوریکسوئی کا ثمر ہے۔ لہٰذا ریاضت، تپسیا، سوچ و سمجھ کا دائرہ وسیع کردیتے ہیں، اگر دیکھا جائے تو صوفی ازم اور ایکی کے اصول ایک سے ہیں۔ صوفی ازم کو روحانیت سے منسوب کیا جاتا ہے۔ لیکن یہ ایک محبت بھرا رویہ بھی ہے۔ بالکل اسی طرح ایکی کے بنیادی اصولوں میں محبت اور ربط باہمی کو اہمیت حاصل ہے، ایکی کا تعلق لاشور سے ہے۔ جہاں خیال کو مرکزیت حاصل ہے۔
یہ مرکزیت وجدانی صلاحیت کو جلا بخشتی ہے۔ ایکی شفا بخش ہنر ہے۔ جس کا مذہب سے تعلق نہیں۔ کسی بھی مذہب سے تعلق رکھنے والا ایکی سیکھ سکتا ہے لہٰذا جب بھی وجدان کا ذکر آتا ہے تو جدید فکر کی حامل سوچ ایک دم سے تنگ نظری کا شکار ہونے لگتی ہے۔ وہ اس موضوع کی وسعت کو سائنسی، نفسیاتی اور روحانی تناظر میں نہیں سمجھ سکتے۔ مگر یہ کوئی تھیوری نہیں ہے جسے سبب اور حقائق کے پس منظر پر پرکھا جاسکے۔ کیونکہ تجزیہ یا پرکھ ایک مشروط رویہ ہے۔ اس کا دائرہ محدود اورخارجی عوامل سے تعلق رکھتا ہے، جب کہ ذہنی و روحانی علوم داخلی سوچ و خیال سے جنم لیتے ہیں۔ سائنس اور منطق ان دیکھی سوچ وہ مشاہدے کی نفی کرتے ہیں۔ حالانکہ سائنس ودیگر طبعی علوم کا مشاہدہ بھی فطرت کے عوامل پر انحصار کرتا ہے۔
فطرت کی کھوج کا سائنسی رویہ خارجی پہلو سے نتائج اخذ کرتا ہے جب کہ داخلی رویہ ذہن وروح کی مخفی دنیا کو دریافت کرتا ہے۔ روح کی حقیقت لاشعور سے جڑی ہوئی ہے، اگر ذہن، جسم کے ہر خلیے میں سانس لیتا ہے تو روح بھی اسی ذہن کا ایک اہم حصہ ہے۔ شعور اگر منطق اور سائنس کو دریافت کرتا ہے تو اس میں کسی حد تک لاشعورکا حصہ بھی شامل ہے، مگر لاشعور فقط مخفی علوم کا ادراک کرتا ہے۔ جس کے مشاہدات، شعوری کوشش کا نتیجہ ہیں۔ وجدان کی وضاحت مابعداز نفسیات کے توسط سے کسی حد تک ممکن ہے۔
کائنات میں ایک بے ساختہ خوشی مستقل محو سفر ہے۔ یہ خوشی غیر مشروط اور لازوال ہے۔ یہ بلا سبب ہے۔ اس کی ایک وجہ لاتعلقی ہے۔ جب کہ تعلق، دکھ، خود فریبی اور تنگ نظری کی علامت بن جاتا ہے۔ تعلق کی گہرائی، باطن کی تیسری آنکھ کو آلودہ کردیتی ہے۔ پرکھ، شفاف ذہن اور سمجھ یکسوئی کی مرہون منت ہے۔ دیکھنے کے عمل کو بصیرت نہیں کہا جاسکتا ہے۔ بصیرت میں باطن کا مشاہدہ شامل ہوتا ہے۔ وجدان، سمجھ کا وہ عرفان ہے جب انسان بغیرکوشش کے راز ازل کے قریب ہو جاتا ہے۔ اس کے لیے ہر چہرہ آئینہ بن جاتا ہے اور سوچ زماں ومکاں کی قید سے آزادی حاصل کرلیتی ہے۔کئی مخفی علوم باطن کی گہرائی کا سرچشمہ ہیں۔
جس کے مطابق وجدان ماضی کے تجربات، حال کے معاملات اور فطری رغبت سے جڑا ہوا ہے۔ یہ قدرتی صلاحیت ہے۔اس کا تعلق کسی مذہب یا عبادت سے ہرگز نہیں ہے، اگر مزاج میں یکسوئی، ربط یا ہم آہنگی نہیں ہے تو عبادت بھی میکانیکی عمل بن جاتی ہے۔ وجدان کا پہلا زینہ دھیان (غور و فکر) ہے۔ یہ سمجھ کی وہ مسند ہے جس پر بیٹھ کر اندرکی آنکھ سے دنیا کا مشاہدہ کیا جاتا ہے۔
یہ آنکھ جوکچھ دیکھتی ہے وہ ہم نہیں دیکھ پاتے۔آنکھیں روشنی پرلینز کے ذریعے مرکوز ہوتی ہیں۔ لہٰذا ایک لرزتا ہوا تصور Retina تک پہنچتا ہے جوآنکھ کے پیچھے واقع ہے، جب کہ ایک چھوٹا نقطہ جسے Fovea کہا جاتا ہے جو روشنی کے حساس خلیوں کو تحرک عطا کرکے ایک مکمل تصور بناتا ہے، جب کہ باقی ماندہ آنکھ دھندلی تصویردیکھتی ہے۔ آنکھ کی تیز حرکت اس معلومات کو مزید واضح کرتی ہے۔ جب یہ تصور ذہن کی طرف سفرکرتا ہے تو یہ معلومات مزید واضح ہوجاتی ہے۔ لہٰذا بائیں آنکھ ذہن کے دائیں ہمسفر کی طرف حرکت کرتی ہے۔
دوسری جانب ذہن اس تصور کی وضاحت برقی نسوں کے تحرک کے تحت کرتے ہوئے اسے واضح کرتا ہے۔ اس کے بعد شناسا شکل، مظہر یا اشیا سے تعلق کی صورت جڑتی ہے۔جس کے بعد خیال کے زاویے ترتیب پاتے ہیں۔ جو ہمارے لاشعور میں منتقل ہوتے رہتے ہیں۔ ذہن اس بصری تاثر سے معلومات کو سمجھتا اور ترتیب دیتا ہے۔ لہٰذا ہم دیکھنے اور سمجھنے کے مراحل سے گزرتے ہیں۔ جسے Perception (خیال) کہا جاتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں خیال ایک فن ہے جوانتشار سے سوچ کو ترتیب میں لے کر آتا ہے۔
آنکھ اشیا کو ذہن تک منتقل کرتی ہے اور ذہن اس معلومات سے نتائج اخذ کرتا ہے۔خلیاتی عمل فقط ایک میکانیکی طریقہ کار ہے۔ جب کہ خیال کی ترتیب اور روح کی دریافت، لاشعورکرتا ہے۔ ذہن کا ایک گوشہ جو Reptilian Brain کہلاتا ہے، اسے وجدان و روحانیت کا مرکز سمجھا جاتا ہے۔ ذہن کے اس حصے کی زبان تمثیل واستعارات ہیں۔ یہ ماحول سے تحرک حاصل کرتا ہے۔ یہ تجدیدی سوچ کا حامل ہے اور تخلیقی صلاحیت کو بیرونی عوامل سے متحرک کرتا ہے۔
باطن کی آنکھ کو تیسری آنکھ ہی کہا جاتا ہے۔ انڈیا میں Brow Chakra کے نام سے اس کی تشریح کی جاتی ہے، چاکرا سنسکرت کا لفظ ہے، جس کا مطلب پہیہ یا چرخا ہے۔ زندگی رخ بدلتی ہے۔ گہما گہمی میں ہم حقیقت تک رسائی حاصل نہیں کرسکتے جب کہ خاموشی اور لاتعلقی سے باطن تحرک حاصل کرتا ہے۔ مشاہدے کے وقت غیر جانبدار آنکھ کی ضرورت ہوتی ہے۔ بصورت دیگر ذہن واضح تصور نہیں بنا پاتا۔ یا واہموں کا شکار ہوجاتا ہے۔
وجدان کی وضاحت کرنا مشکل ہے، لیکن شعوری سمجھ کا دائرہ وسیع کرتے ہوئے لاشعور تک رسائی حاصل کی جاسکتی ہے۔ وجدان، مکمل تصویر، جائزہ یا سوجھ بوجھ ہے جو آنکھ سے خود فراموشی کے پردے ہٹا دیتا ہے اورانسانی سوچ دائمی حقیقت کے قریب ہوجاتی ہے۔ کئی ان کہے راز منکشف ہونے لگتے ہیں۔
وجدان، خداداد صلاحیت ہے، جس کے مختلف زینے ہیں۔ یکسوئی اور مراقبہ اس صلاحیت کو جلا بخشتے ہیں۔ عبادت بھی دھیان اوریکسوئی کا ثمر ہے۔ لہٰذا ریاضت، تپسیا، سوچ و سمجھ کا دائرہ وسیع کردیتے ہیں، اگر دیکھا جائے تو صوفی ازم اور ایکی کے اصول ایک سے ہیں۔ صوفی ازم کو روحانیت سے منسوب کیا جاتا ہے۔ لیکن یہ ایک محبت بھرا رویہ بھی ہے۔ بالکل اسی طرح ایکی کے بنیادی اصولوں میں محبت اور ربط باہمی کو اہمیت حاصل ہے، ایکی کا تعلق لاشور سے ہے۔ جہاں خیال کو مرکزیت حاصل ہے۔
یہ مرکزیت وجدانی صلاحیت کو جلا بخشتی ہے۔ ایکی شفا بخش ہنر ہے۔ جس کا مذہب سے تعلق نہیں۔ کسی بھی مذہب سے تعلق رکھنے والا ایکی سیکھ سکتا ہے لہٰذا جب بھی وجدان کا ذکر آتا ہے تو جدید فکر کی حامل سوچ ایک دم سے تنگ نظری کا شکار ہونے لگتی ہے۔ وہ اس موضوع کی وسعت کو سائنسی، نفسیاتی اور روحانی تناظر میں نہیں سمجھ سکتے۔ مگر یہ کوئی تھیوری نہیں ہے جسے سبب اور حقائق کے پس منظر پر پرکھا جاسکے۔ کیونکہ تجزیہ یا پرکھ ایک مشروط رویہ ہے۔ اس کا دائرہ محدود اورخارجی عوامل سے تعلق رکھتا ہے، جب کہ ذہنی و روحانی علوم داخلی سوچ و خیال سے جنم لیتے ہیں۔ سائنس اور منطق ان دیکھی سوچ وہ مشاہدے کی نفی کرتے ہیں۔ حالانکہ سائنس ودیگر طبعی علوم کا مشاہدہ بھی فطرت کے عوامل پر انحصار کرتا ہے۔
فطرت کی کھوج کا سائنسی رویہ خارجی پہلو سے نتائج اخذ کرتا ہے جب کہ داخلی رویہ ذہن وروح کی مخفی دنیا کو دریافت کرتا ہے۔ روح کی حقیقت لاشعور سے جڑی ہوئی ہے، اگر ذہن، جسم کے ہر خلیے میں سانس لیتا ہے تو روح بھی اسی ذہن کا ایک اہم حصہ ہے۔ شعور اگر منطق اور سائنس کو دریافت کرتا ہے تو اس میں کسی حد تک لاشعورکا حصہ بھی شامل ہے، مگر لاشعور فقط مخفی علوم کا ادراک کرتا ہے۔ جس کے مشاہدات، شعوری کوشش کا نتیجہ ہیں۔ وجدان کی وضاحت مابعداز نفسیات کے توسط سے کسی حد تک ممکن ہے۔
کائنات میں ایک بے ساختہ خوشی مستقل محو سفر ہے۔ یہ خوشی غیر مشروط اور لازوال ہے۔ یہ بلا سبب ہے۔ اس کی ایک وجہ لاتعلقی ہے۔ جب کہ تعلق، دکھ، خود فریبی اور تنگ نظری کی علامت بن جاتا ہے۔ تعلق کی گہرائی، باطن کی تیسری آنکھ کو آلودہ کردیتی ہے۔ پرکھ، شفاف ذہن اور سمجھ یکسوئی کی مرہون منت ہے۔ دیکھنے کے عمل کو بصیرت نہیں کہا جاسکتا ہے۔ بصیرت میں باطن کا مشاہدہ شامل ہوتا ہے۔ وجدان، سمجھ کا وہ عرفان ہے جب انسان بغیرکوشش کے راز ازل کے قریب ہو جاتا ہے۔ اس کے لیے ہر چہرہ آئینہ بن جاتا ہے اور سوچ زماں ومکاں کی قید سے آزادی حاصل کرلیتی ہے۔کئی مخفی علوم باطن کی گہرائی کا سرچشمہ ہیں۔