خواتین سے زیادتی کے بڑھتے ہوئے واقعات
وجوہات کیا ہیں؟ کون سے اقدامات کر کے خواتین کی زندگی محفوظ بنائی جا سکتی ہے ؟
SWAT:
خواتین کے ساتھ زیادتی اور اجتماعی زیادتی کے واقعات دنیا بھر میں ایک بڑے المیے کا روپ دھارتے جارہے ہیں۔
پاکستان جیسا اسلامی ملک ہو یا سیکولر امریکا یا بھارت جیسا مشرقی روایات کا حامل معاشرہ ، ہر جگہ خواتین بالخصوص وہ خواتین جو گھروں سے باہر جاکر ملازمت یا کوئی اور کام کرنے پر مجبور ہوتی ہیں، انھیں جنسی طور پر ہراساں کیے جانے یا زیادتی کے واقعات عام ہوتے جارہے ہیں۔
پاکستان میں آئے روز خواتین سے زیادتی کے واقعات کی خبریں میڈیا کے ذریعے سامنے آتی رہتی ہیں جبکہ ان سے بھی زیادہ واقعات وہ ہوتے ہیں جو رپورٹ ہی نہیں کیے جاتے جس کی وجہ بدنامی کا خوف یا دوسری وجوہات ہوتی ہیں۔
گذشتہ دنوں ہمسایہ ملک بھارت میں ایک المناک واقعہ پیش آیا جس نے لوگوں کو تڑپا کر رکھ دیا۔ظلم کا شکار لڑکی جسے میڈیا کی طرف سے ''دامنی'' کا فرضی نام دیاگیا ہے، اپنے منگیتر کے ساتھ سینما میں فلم دیکھ کر واپس جارہی تھی۔ وہ نئی دہلی کی ایک شاہراہ پر کھڑے بس کاانتظار کررہے تھے۔ایک بس ان کے قریب آکر رکی اور'' کنڈکٹر'' نے ان سے پوچھا کہ انھیں کہاں جانا ہے؟ انھوں نے اسے اپنی منزل کے بارے میں بتایا تو ''کنڈکٹر'' نے انھیں بس میں سوار ہونے کے لیے کہا۔وہ بس میں سوار ہوگئے جس میں صرف چھ مسافر سوار تھے اور وہ سب مرد تھے۔ لڑکی کے منگیتر کو شک گذرا لیکن وہ خاموش بیٹھا رہا۔
اس دوران وہ مرد لڑکی سے مذاق کرنے لگے۔منگیتر نے انھیں روکنا چاہا تو وہ غصے میں آگئے اور لوہے کے راڈ مار کر اسے بے ہوش کردیا۔اس کے بعد ان تمام مردوں نے لڑکی کے ساتھ اجتماعی زیادتی کی۔انھوں نے اس پر بس نہ کیا اور اجتماعی زیادتی کے بعد اس پر وہ بھیانک تشدد کیا جسے الفاظ میں بیان کرنا بھی مشکل ہے۔
اس تشدد کے بعد لڑکی کی حالت خراب ہوگئی تو انھوں نے اسے اور اس کے منگیتر کو بے ہوشی کی حالت میں بس سے باہر پھینک دیا۔اس کے بعد جو کچھ ہوا، وہ پوری دنیا جانتی ہے، ملزموں کو گرفتار کرلیا گیا۔بھارت بھر میں اس واقعے کے خلاف مظاہرے شروع ہوگئے جو ایک موقع پر پرتشدد شکل اختیار کرگئے۔لڑکی اسپتال میں زیر علاج رہنے کے بعد انتقال کرگئی۔اب ملزموں کے خلاف مقدمہ چل رہا ہے اور عوام کا مطالبہ ہے کہ انھیں پھانسی دی جائے۔
اس لڑکی کے ساتھ جو کچھ ہوا ، وہ ایک بھیانک واقعہ تھا۔لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ واقعہ کیوں ہوا اور تیسری دنیا کے ملکوں میں اس طرح کے واقعات اس قدر عام کیوں ہوتے جارہے ہیں۔ ملزموں کو اس قسم کا سنگین جرم کرنے کی ہمت کیونکر ہوتی ہے۔بھارت کی حکومت کے مرکز نئی دہلی میں تو اس قسم کے واقعات اس قدر عام ہوچکے ہیں کہ طویل عرصے سے نئی دہلی کو بھارت کا''ریپ کیپیٹل'' کہا جارہا تھا لیکن کسی کے کانوں پر جوں نہیں رینگ رہی تھی لیکن ''دامنی'' کے ساتھ پیش آنے والے واقعے کے بعد یہ معاملہ فوکس میں آچکا ہے۔
خواتین کے ساتھ زیادتی کے واقعات کو روکنے کے لیے قانون سازی سخت کرنے کی باتیں ہورہی ہیں۔اس قسم کے واقعات کے نتائج و عواقب پر بحث ہورہی ہے۔حال ہی میں بھارت میں ایک رپورٹ شائع ہوئی جس میں بتایا گیاکہ وہ کیا وجوہات ہیں کہ خواتین سے زیادتی کے واقعات تھمنے میں نہیں آرہے اور مردوں کوایسے جرائم میں ملوث ہونے کی ہمت پڑ رہی ہے۔اس رپورٹ میں بہت سی چیزیں بھارت کا مسئلہ تو ہیں ہی لیکن یہ مسائل پاکستان اور تیسری دنیا کے دیگر ملکوں کے لیے بھی مشترک ہیں۔وہ کون سے اقدامات ہیں جن کو اٹھا کر خواتین کے ساتھ زیادتی کے واقعات پر قابو پایا جاسکتا ہے، آئیے ان کے بارے میں پڑھتے ہیں:
خاتون پولیس اہلکاروں کی کم تعداد:
جرائم کے حوالے سے اسٹڈیز سے پتہ چلتا ہے کہ اگر خواتین پولیس اہلکار دستیاب ہوں تو اس بات کا امکان بڑھ جاتا ہے کہ جنسی جرائم کا شکار خواتین ان کی رپورٹ درج کرائیں گی۔ایشیا کے دیگر ممالک کے برعکس بھارت میں خواتین پولیس اہلکاروں کی تعداد بہت کم ہے۔دہلی میں خواتین پولیس اہلکاروں کی شرح صرف سات فیصد ہے اور ان میں سے اکثریت کو زیادہ تر دفاتر میں ہی ڈیوٹی دی جاتی ہے اور شاذونادر وہ گشت کے لیے جاتی ہیں۔رپورٹ کے مطابق دہلی کے 161 پولیس اسٹیشنوں میں صرف ایک کی انچارج خاتون ہے۔دہلی زیادتی کیس کے بعد پولیس حکام نے بیان دیا کہ پولیس میں مزید خواتین کو بھرتی کیا جائے گا، جس پر کہاں تک عمل ہوگا یہ کسی کو معلوم نہیں۔
چرن جیت کور نامی ایک لڑکی کی بہن سے زیادتی ہوئی جس نے بعدازاں خودکشی کرلی۔چرن جیت کور نے بعدازاں ''واشنگٹن پوسٹ'' سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ پولیس نے اس کی بہن سے زیادتی کی رپورٹ درج کرنے سے انکار کردیا۔ وہ اس کی بہن سے اس قسم کے سوال پوچھتے تھے جیسے اس کے ساتھ ایک بار پھر زیادتی کی جارہی ہو۔تھانے میںکوئی خاتون پولیس اہلکار نہ تھی اور سب مرد تھے۔اس کی بہن ان کے سامنے روپڑی اور یہ پوچھنے پر مجبور ہوگئی کہ اگر وہ ان کی اپنی بیٹی ہوتی تو کیا تب بھی وہ ایسے ہی سوال پوچھتے۔
پولیس فورس کی مجموعی کمی:
بروکنگز کی ایک رپورٹ کے مطابق بھارت اور تیسری دنیا کے زیادہ تر ملکوں میں شہریوں کی حفاظت کے لیے پولیس کی تعداد کم ہے اور زیادہ تر پولیس بااثر لوگوں کی حفاظت پر مامور ہے۔جو پولیس اہلکار موجود ہیں، وہ شواہد جمع کرنے اور تفتیش کی بہتر تربیت سے محروم ہیں۔
مثال کے طور پر دہلی دنیا میں سب سے زیادہ میٹروپولیٹن پولیس رکھنے والا شہر ہے جس کی تعداد 84000 پولیس اہلکار پر مشتمل ہے لیکن ان میں سے صرف ایک تہائی حقیقی پولیس ڈیوٹی دے رہے ہیں جبکہ باقی بڑے لوگوں کی حفاظت میں مصروف ہیں جن میں سیاست دان ، سینئر بیوروکریٹس ، سفارت کار اور دیگر اشرافیہ شامل ہے۔''ٹائمز آف انڈیا'' کی رپورٹ کے مطابق دہلی میں فی دوسو شہری ایک پولیس اہلکار جبکہ ہر ایک وئی آئی پی کے لیے بیس پولیس اہلکار ہیں۔ جو پولیس ڈیوٹی دے رہی ہے اس میں سے بھی زیادہ تر عام لوگوں کو ڈرانے دھمکانے ، مجرموں کو تحفظ دینے اور دیگر کاموں میں ملوث ہیں۔
خواتین کے لباس کو الزام دینا:
پولیس حکام اور انتظامیہ یہاں تک کہ عدالتیں بھی بعض اوقات یہ کہہ کر زیادتی کی ذمے داری مظلوم عورتوں پر ڈال دیتی ہیں کہ انھوں نے اشتعال انگیز لباس پہن رکھا تھا جس کی وجہ سے ان کے ساتھ زیادتی ہوئی۔1996ء میں ججوں کے حوالے سے کیے گئے ایک سروے میں 58 فیصد نے رائے دی کہ اشتعال انگیزلباس زیادتی کو دعوت دیتا ہے ۔دہلی زیادتی کیس کے بعد گذشتہ دنوں راجستھان میں ایک قانون ساز نے رائے دی کہ پرائیویٹ اسکولوں میں لڑکیوں کے اسکرٹ پہننے پر پابندی عائد کی جائے اور کہا کہ ایسے لباسوں کی وجہ سے بھی زیادتی کے واقعات عام ہورہے ہیں۔
گھریلو تشدد پر خاموشی:
رائٹر ٹرسٹ گروپ نے بھارت کو ایسے ممالک کی فہرست میں شامل کیا ہے جو خواتین کے لیے بدترین ہیں جس کی ایک وجہ بھارت میں خواتین کے خلاف گھریلو تشدد بھی ہے۔یونیسف کی 2012 ء کی رپورٹ کے مطابق پندرہ سے انیس سال عمر کے ستاون فیصد بھارتی لڑکوں اور ترپن فیصدبھارتی لڑکیوں کا خیال ہے کہ بیویوں کی مارپیٹ درست اقدام ہے۔ ایک حالیہ قومی خاندانی صحت کے سروے کے مطابق خواتین کی ایک بڑی تعداد سمجھتی ہے کہ خاوندوں کے ہاتھوں پٹائی کی ذمے دار وہ خود ہیں۔
انورادھا گپتا جو مشن ڈائریکٹر برائے نیشنل رورل ہیلتھ مشن ہیں، ان کا کہنا ہے کہ جب ایک لڑکا دیکھتا ہے کہ اس کے باپ کے ہاتھوں اس کی ماں کی پٹائی ہورہی ہے تو وہ اس رویے کو نہ صرف قبول کرنے لگتا ہے بلکہ اس کو دہراتا بھی ہے۔ان کا کہنا ہے کہ خواتین کو تشدد سے محفوظ رکھنے کے لیے ہمیں اپنے سماجی رویوں کو درست کرنا ہوگا۔
پبلک سیفٹی کی کمی:
عام طور پر گھر سے باہر عورتوں کو تحفظ نہیں ملتا۔نئی دہلی میں خاتون کے ساتھ بس کے اندر گینگ ریپ کا جو واقعہ ہوا اس پر بھارتی حکام بھی یہ کہنے پر مجبور ہوگئے کہ ملک کے عوامی مقامات خواتین کے لیے محفوظ نہیں۔بھارت کی گلیوں میں روشنی کا انتظام موجود نہیں۔اسی طرح خواتین کے لیے عوامی مقامات پر ٹوائلٹ موجود نہیں۔ اس طرح بھارت سمیت تیسری دنیا کے ممالک خواتین کے لیے فرینڈلی نہیں۔
بھارت میں جو خواتین شراب نوشی ، سگریٹ نوشی کرتی ہیں یا پب وغیرہ جاتی ہیں ، ان کو معاشرے میں اچھی نظر سے نہیں دیکھا جاتا اور انھیں اخلاقی طورپر کرپٹ سمجھا جاتا ہے۔ دیہاتوں کے سربراہوں یا مکھیا ئوں کا کہنا ہے کہ موبائل فون پر رابطوں اور بازاروں میں بہت زیادہ جانے کے باعث بھی خواتین سے زیادتی کے واقعات میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔
مظلوم خواتین کو بدنام کرنا:
زیادتی کی شکار خواتین کو مجرم سمجھنے کارویہ بھی ایسے حالات پیدا کرتا ہے کہ اصل مجرموں کوسزا نہیں مل پاتی۔اگر کسی جگہ پر کسی خاتون پر آوازے کسے جارہے ہوں یا اسے تنگ کیا جارہا ہو تو کوئی اس کی مدد کو نہیں آتا، جس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ لوگ جھگڑے میں نہیں پڑنا چاہتے اور اس کے علاوہ کسی سطح پر وہ لڑکی کو بھی اس صورت حال کا زمہ دار سمجھتے ہیں۔ مرد سیاست دان بھی معاملے کو الجھاتے ہیں اورایسے بیان دیتے ہیں جن میں زیادتی کے واقعات کی سنگینی کو کم کیا جاتا ہے اور الٹا زیادتی کی شکار خواتین کی حمایت کرنے والوں کو بدنام کیا جاتا ہے۔
گذشتہ دنوں بھارت کے ایک علاقائی سیاست دان نے ایک خاتون وزیر سے پوچھا کہ ریپ ہونے کے لیے اس کی ''فیس'' کیا ہے۔بھارتی صدر کے بیٹے نے حال ہی میں اپنے اس بیان پر معافی مانگی جس میں اس نے کہا تھا کہ دہلی گینگ ریپ کے خلاف مظاہرے کرنیوالی عورتوں نے بہت ''شاندارمیک اپ'' کررکھا تھا جو شاید ڈسکو سے فوراً مظاہرے میں آگئی تھیں۔
متاثر ہ خواتین کو صلح پر مجبور کرنا:
کچھ عرصہ قبل ایک سترہ سالہ لڑکی کے ساتھ اجتماعی زیادتی کاواقعہ پیش آیا جس نے بعدازاں خودکشی کرلی۔ اس کی وجہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ پولیس اس پر دبائو ڈال رہی تھی کہ وہ ملزموں کے خلاف مقدمہ واپس لے لے اور ان میں سے ایک ملزم سے شادی کرلے۔
زیادتی کی شکار بہت سی خواتین اور ان کے خاندانوں کو گائوں کے بڑوں اور سرداروں کی جانب سے کہا جاتا ہے کہ وہ ملزموں سے صلح کرلیں اور مقدمہ واپس لے لیں۔ انھیں کسی ملزم سے شادی پر بھی قائل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اس کوشش کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ خاندانوں کے درمیان دشمنی کو ختم کیا جائے۔ اس طرح کے واقعات میں اصل کوشش یہ ہوتی ہے کہ متاثرہ خاتون کی شادی ہوجائے نہ کہ ملزم کو سزا ملے۔
سست عدالتی نظام:
پاکستان اور تیسری دنیا کے دیگر ملکوں کی طر ح بھارت کا عدالتی نظام بھی بہت سست رفتار ہے جس کی ایک وجہ ججوں کی کمی ہے۔بھارت میں ہر دس لاکھ افراد کے لیے صرف پندرہ جج ہیں جبکہ چین میں یہ تعداد 159 ہے۔دہلی ہائیکورٹ کے ایک جج نے کچھ عرصہ قبل کہا تھا کہ صرف دارالحکومت میں جتنے مقدمات التوا کا شکار ہیں ، ان کا فیصلہ کرنے کے لیے 466 سال درکار ہیں۔
سزائیں نہ ملنا:
بھارت میں ریپ کے جو مقدمات درج کرائے جاتے ہیں ، ان میں فیصلہ ہونے کی شرح صرف 26 فیصد ہے۔اس کے علاوہ خواتین کے ساتھ معمول کی چھیڑچھاڑ کے واقعات کے خلاف کوئی قانون موجود نہیں ۔اس طرح کے ایک قانون کا مسودہ تیار کیا گیا تھا جو گذشتہ سات سالوں سے زیرالتوا ہے۔ جب مقدمات کے فیصلے نہیں ہوتے اور مجرم آزاد رہتے ہیں تو ان کا حوصلہ بڑھتا ہے اور یوں ریپ کے واقعات بڑھتے ہیں۔
خواتین کا کمتر سماجی رتبہ :
تیسری دنیا کے ممالک میں ایک اور بڑا مسئلہ عورتوں کے ساتھ برابری کا سلوک نہ ہونا ہے۔یہاں پر عورتیں کمتر سماجی رتبے کی حامل ہوتی ہیں۔انھیں بوجھ سمجھا جاتا ہے۔لڑکوں کے ساتھ اچھا سلوک کیا جاتا ہے اور لڑکیوں کے مقابلے میں اچھا کھانے پہننے کو دیا جاتا ہے۔لڑکیوں کو تعلیم سے بھی محروم رکھا جاتا ہے۔اس طرح کے ماحول میں خواتین کے ساتھ زیادتی کے واقعات میں ملوث افراد کو حوصلہ ملتا ہے۔
خواتین کے ساتھ زیادتی اور اجتماعی زیادتی کے واقعات دنیا بھر میں ایک بڑے المیے کا روپ دھارتے جارہے ہیں۔
پاکستان جیسا اسلامی ملک ہو یا سیکولر امریکا یا بھارت جیسا مشرقی روایات کا حامل معاشرہ ، ہر جگہ خواتین بالخصوص وہ خواتین جو گھروں سے باہر جاکر ملازمت یا کوئی اور کام کرنے پر مجبور ہوتی ہیں، انھیں جنسی طور پر ہراساں کیے جانے یا زیادتی کے واقعات عام ہوتے جارہے ہیں۔
پاکستان میں آئے روز خواتین سے زیادتی کے واقعات کی خبریں میڈیا کے ذریعے سامنے آتی رہتی ہیں جبکہ ان سے بھی زیادہ واقعات وہ ہوتے ہیں جو رپورٹ ہی نہیں کیے جاتے جس کی وجہ بدنامی کا خوف یا دوسری وجوہات ہوتی ہیں۔
گذشتہ دنوں ہمسایہ ملک بھارت میں ایک المناک واقعہ پیش آیا جس نے لوگوں کو تڑپا کر رکھ دیا۔ظلم کا شکار لڑکی جسے میڈیا کی طرف سے ''دامنی'' کا فرضی نام دیاگیا ہے، اپنے منگیتر کے ساتھ سینما میں فلم دیکھ کر واپس جارہی تھی۔ وہ نئی دہلی کی ایک شاہراہ پر کھڑے بس کاانتظار کررہے تھے۔ایک بس ان کے قریب آکر رکی اور'' کنڈکٹر'' نے ان سے پوچھا کہ انھیں کہاں جانا ہے؟ انھوں نے اسے اپنی منزل کے بارے میں بتایا تو ''کنڈکٹر'' نے انھیں بس میں سوار ہونے کے لیے کہا۔وہ بس میں سوار ہوگئے جس میں صرف چھ مسافر سوار تھے اور وہ سب مرد تھے۔ لڑکی کے منگیتر کو شک گذرا لیکن وہ خاموش بیٹھا رہا۔
اس دوران وہ مرد لڑکی سے مذاق کرنے لگے۔منگیتر نے انھیں روکنا چاہا تو وہ غصے میں آگئے اور لوہے کے راڈ مار کر اسے بے ہوش کردیا۔اس کے بعد ان تمام مردوں نے لڑکی کے ساتھ اجتماعی زیادتی کی۔انھوں نے اس پر بس نہ کیا اور اجتماعی زیادتی کے بعد اس پر وہ بھیانک تشدد کیا جسے الفاظ میں بیان کرنا بھی مشکل ہے۔
اس تشدد کے بعد لڑکی کی حالت خراب ہوگئی تو انھوں نے اسے اور اس کے منگیتر کو بے ہوشی کی حالت میں بس سے باہر پھینک دیا۔اس کے بعد جو کچھ ہوا، وہ پوری دنیا جانتی ہے، ملزموں کو گرفتار کرلیا گیا۔بھارت بھر میں اس واقعے کے خلاف مظاہرے شروع ہوگئے جو ایک موقع پر پرتشدد شکل اختیار کرگئے۔لڑکی اسپتال میں زیر علاج رہنے کے بعد انتقال کرگئی۔اب ملزموں کے خلاف مقدمہ چل رہا ہے اور عوام کا مطالبہ ہے کہ انھیں پھانسی دی جائے۔
اس لڑکی کے ساتھ جو کچھ ہوا ، وہ ایک بھیانک واقعہ تھا۔لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ واقعہ کیوں ہوا اور تیسری دنیا کے ملکوں میں اس طرح کے واقعات اس قدر عام کیوں ہوتے جارہے ہیں۔ ملزموں کو اس قسم کا سنگین جرم کرنے کی ہمت کیونکر ہوتی ہے۔بھارت کی حکومت کے مرکز نئی دہلی میں تو اس قسم کے واقعات اس قدر عام ہوچکے ہیں کہ طویل عرصے سے نئی دہلی کو بھارت کا''ریپ کیپیٹل'' کہا جارہا تھا لیکن کسی کے کانوں پر جوں نہیں رینگ رہی تھی لیکن ''دامنی'' کے ساتھ پیش آنے والے واقعے کے بعد یہ معاملہ فوکس میں آچکا ہے۔
خواتین کے ساتھ زیادتی کے واقعات کو روکنے کے لیے قانون سازی سخت کرنے کی باتیں ہورہی ہیں۔اس قسم کے واقعات کے نتائج و عواقب پر بحث ہورہی ہے۔حال ہی میں بھارت میں ایک رپورٹ شائع ہوئی جس میں بتایا گیاکہ وہ کیا وجوہات ہیں کہ خواتین سے زیادتی کے واقعات تھمنے میں نہیں آرہے اور مردوں کوایسے جرائم میں ملوث ہونے کی ہمت پڑ رہی ہے۔اس رپورٹ میں بہت سی چیزیں بھارت کا مسئلہ تو ہیں ہی لیکن یہ مسائل پاکستان اور تیسری دنیا کے دیگر ملکوں کے لیے بھی مشترک ہیں۔وہ کون سے اقدامات ہیں جن کو اٹھا کر خواتین کے ساتھ زیادتی کے واقعات پر قابو پایا جاسکتا ہے، آئیے ان کے بارے میں پڑھتے ہیں:
خاتون پولیس اہلکاروں کی کم تعداد:
جرائم کے حوالے سے اسٹڈیز سے پتہ چلتا ہے کہ اگر خواتین پولیس اہلکار دستیاب ہوں تو اس بات کا امکان بڑھ جاتا ہے کہ جنسی جرائم کا شکار خواتین ان کی رپورٹ درج کرائیں گی۔ایشیا کے دیگر ممالک کے برعکس بھارت میں خواتین پولیس اہلکاروں کی تعداد بہت کم ہے۔دہلی میں خواتین پولیس اہلکاروں کی شرح صرف سات فیصد ہے اور ان میں سے اکثریت کو زیادہ تر دفاتر میں ہی ڈیوٹی دی جاتی ہے اور شاذونادر وہ گشت کے لیے جاتی ہیں۔رپورٹ کے مطابق دہلی کے 161 پولیس اسٹیشنوں میں صرف ایک کی انچارج خاتون ہے۔دہلی زیادتی کیس کے بعد پولیس حکام نے بیان دیا کہ پولیس میں مزید خواتین کو بھرتی کیا جائے گا، جس پر کہاں تک عمل ہوگا یہ کسی کو معلوم نہیں۔
چرن جیت کور نامی ایک لڑکی کی بہن سے زیادتی ہوئی جس نے بعدازاں خودکشی کرلی۔چرن جیت کور نے بعدازاں ''واشنگٹن پوسٹ'' سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ پولیس نے اس کی بہن سے زیادتی کی رپورٹ درج کرنے سے انکار کردیا۔ وہ اس کی بہن سے اس قسم کے سوال پوچھتے تھے جیسے اس کے ساتھ ایک بار پھر زیادتی کی جارہی ہو۔تھانے میںکوئی خاتون پولیس اہلکار نہ تھی اور سب مرد تھے۔اس کی بہن ان کے سامنے روپڑی اور یہ پوچھنے پر مجبور ہوگئی کہ اگر وہ ان کی اپنی بیٹی ہوتی تو کیا تب بھی وہ ایسے ہی سوال پوچھتے۔
پولیس فورس کی مجموعی کمی:
بروکنگز کی ایک رپورٹ کے مطابق بھارت اور تیسری دنیا کے زیادہ تر ملکوں میں شہریوں کی حفاظت کے لیے پولیس کی تعداد کم ہے اور زیادہ تر پولیس بااثر لوگوں کی حفاظت پر مامور ہے۔جو پولیس اہلکار موجود ہیں، وہ شواہد جمع کرنے اور تفتیش کی بہتر تربیت سے محروم ہیں۔
مثال کے طور پر دہلی دنیا میں سب سے زیادہ میٹروپولیٹن پولیس رکھنے والا شہر ہے جس کی تعداد 84000 پولیس اہلکار پر مشتمل ہے لیکن ان میں سے صرف ایک تہائی حقیقی پولیس ڈیوٹی دے رہے ہیں جبکہ باقی بڑے لوگوں کی حفاظت میں مصروف ہیں جن میں سیاست دان ، سینئر بیوروکریٹس ، سفارت کار اور دیگر اشرافیہ شامل ہے۔''ٹائمز آف انڈیا'' کی رپورٹ کے مطابق دہلی میں فی دوسو شہری ایک پولیس اہلکار جبکہ ہر ایک وئی آئی پی کے لیے بیس پولیس اہلکار ہیں۔ جو پولیس ڈیوٹی دے رہی ہے اس میں سے بھی زیادہ تر عام لوگوں کو ڈرانے دھمکانے ، مجرموں کو تحفظ دینے اور دیگر کاموں میں ملوث ہیں۔
خواتین کے لباس کو الزام دینا:
پولیس حکام اور انتظامیہ یہاں تک کہ عدالتیں بھی بعض اوقات یہ کہہ کر زیادتی کی ذمے داری مظلوم عورتوں پر ڈال دیتی ہیں کہ انھوں نے اشتعال انگیز لباس پہن رکھا تھا جس کی وجہ سے ان کے ساتھ زیادتی ہوئی۔1996ء میں ججوں کے حوالے سے کیے گئے ایک سروے میں 58 فیصد نے رائے دی کہ اشتعال انگیزلباس زیادتی کو دعوت دیتا ہے ۔دہلی زیادتی کیس کے بعد گذشتہ دنوں راجستھان میں ایک قانون ساز نے رائے دی کہ پرائیویٹ اسکولوں میں لڑکیوں کے اسکرٹ پہننے پر پابندی عائد کی جائے اور کہا کہ ایسے لباسوں کی وجہ سے بھی زیادتی کے واقعات عام ہورہے ہیں۔
گھریلو تشدد پر خاموشی:
رائٹر ٹرسٹ گروپ نے بھارت کو ایسے ممالک کی فہرست میں شامل کیا ہے جو خواتین کے لیے بدترین ہیں جس کی ایک وجہ بھارت میں خواتین کے خلاف گھریلو تشدد بھی ہے۔یونیسف کی 2012 ء کی رپورٹ کے مطابق پندرہ سے انیس سال عمر کے ستاون فیصد بھارتی لڑکوں اور ترپن فیصدبھارتی لڑکیوں کا خیال ہے کہ بیویوں کی مارپیٹ درست اقدام ہے۔ ایک حالیہ قومی خاندانی صحت کے سروے کے مطابق خواتین کی ایک بڑی تعداد سمجھتی ہے کہ خاوندوں کے ہاتھوں پٹائی کی ذمے دار وہ خود ہیں۔
انورادھا گپتا جو مشن ڈائریکٹر برائے نیشنل رورل ہیلتھ مشن ہیں، ان کا کہنا ہے کہ جب ایک لڑکا دیکھتا ہے کہ اس کے باپ کے ہاتھوں اس کی ماں کی پٹائی ہورہی ہے تو وہ اس رویے کو نہ صرف قبول کرنے لگتا ہے بلکہ اس کو دہراتا بھی ہے۔ان کا کہنا ہے کہ خواتین کو تشدد سے محفوظ رکھنے کے لیے ہمیں اپنے سماجی رویوں کو درست کرنا ہوگا۔
پبلک سیفٹی کی کمی:
عام طور پر گھر سے باہر عورتوں کو تحفظ نہیں ملتا۔نئی دہلی میں خاتون کے ساتھ بس کے اندر گینگ ریپ کا جو واقعہ ہوا اس پر بھارتی حکام بھی یہ کہنے پر مجبور ہوگئے کہ ملک کے عوامی مقامات خواتین کے لیے محفوظ نہیں۔بھارت کی گلیوں میں روشنی کا انتظام موجود نہیں۔اسی طرح خواتین کے لیے عوامی مقامات پر ٹوائلٹ موجود نہیں۔ اس طرح بھارت سمیت تیسری دنیا کے ممالک خواتین کے لیے فرینڈلی نہیں۔
بھارت میں جو خواتین شراب نوشی ، سگریٹ نوشی کرتی ہیں یا پب وغیرہ جاتی ہیں ، ان کو معاشرے میں اچھی نظر سے نہیں دیکھا جاتا اور انھیں اخلاقی طورپر کرپٹ سمجھا جاتا ہے۔ دیہاتوں کے سربراہوں یا مکھیا ئوں کا کہنا ہے کہ موبائل فون پر رابطوں اور بازاروں میں بہت زیادہ جانے کے باعث بھی خواتین سے زیادتی کے واقعات میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔
مظلوم خواتین کو بدنام کرنا:
زیادتی کی شکار خواتین کو مجرم سمجھنے کارویہ بھی ایسے حالات پیدا کرتا ہے کہ اصل مجرموں کوسزا نہیں مل پاتی۔اگر کسی جگہ پر کسی خاتون پر آوازے کسے جارہے ہوں یا اسے تنگ کیا جارہا ہو تو کوئی اس کی مدد کو نہیں آتا، جس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ لوگ جھگڑے میں نہیں پڑنا چاہتے اور اس کے علاوہ کسی سطح پر وہ لڑکی کو بھی اس صورت حال کا زمہ دار سمجھتے ہیں۔ مرد سیاست دان بھی معاملے کو الجھاتے ہیں اورایسے بیان دیتے ہیں جن میں زیادتی کے واقعات کی سنگینی کو کم کیا جاتا ہے اور الٹا زیادتی کی شکار خواتین کی حمایت کرنے والوں کو بدنام کیا جاتا ہے۔
گذشتہ دنوں بھارت کے ایک علاقائی سیاست دان نے ایک خاتون وزیر سے پوچھا کہ ریپ ہونے کے لیے اس کی ''فیس'' کیا ہے۔بھارتی صدر کے بیٹے نے حال ہی میں اپنے اس بیان پر معافی مانگی جس میں اس نے کہا تھا کہ دہلی گینگ ریپ کے خلاف مظاہرے کرنیوالی عورتوں نے بہت ''شاندارمیک اپ'' کررکھا تھا جو شاید ڈسکو سے فوراً مظاہرے میں آگئی تھیں۔
متاثر ہ خواتین کو صلح پر مجبور کرنا:
کچھ عرصہ قبل ایک سترہ سالہ لڑکی کے ساتھ اجتماعی زیادتی کاواقعہ پیش آیا جس نے بعدازاں خودکشی کرلی۔ اس کی وجہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ پولیس اس پر دبائو ڈال رہی تھی کہ وہ ملزموں کے خلاف مقدمہ واپس لے لے اور ان میں سے ایک ملزم سے شادی کرلے۔
زیادتی کی شکار بہت سی خواتین اور ان کے خاندانوں کو گائوں کے بڑوں اور سرداروں کی جانب سے کہا جاتا ہے کہ وہ ملزموں سے صلح کرلیں اور مقدمہ واپس لے لیں۔ انھیں کسی ملزم سے شادی پر بھی قائل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اس کوشش کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ خاندانوں کے درمیان دشمنی کو ختم کیا جائے۔ اس طرح کے واقعات میں اصل کوشش یہ ہوتی ہے کہ متاثرہ خاتون کی شادی ہوجائے نہ کہ ملزم کو سزا ملے۔
سست عدالتی نظام:
پاکستان اور تیسری دنیا کے دیگر ملکوں کی طر ح بھارت کا عدالتی نظام بھی بہت سست رفتار ہے جس کی ایک وجہ ججوں کی کمی ہے۔بھارت میں ہر دس لاکھ افراد کے لیے صرف پندرہ جج ہیں جبکہ چین میں یہ تعداد 159 ہے۔دہلی ہائیکورٹ کے ایک جج نے کچھ عرصہ قبل کہا تھا کہ صرف دارالحکومت میں جتنے مقدمات التوا کا شکار ہیں ، ان کا فیصلہ کرنے کے لیے 466 سال درکار ہیں۔
سزائیں نہ ملنا:
بھارت میں ریپ کے جو مقدمات درج کرائے جاتے ہیں ، ان میں فیصلہ ہونے کی شرح صرف 26 فیصد ہے۔اس کے علاوہ خواتین کے ساتھ معمول کی چھیڑچھاڑ کے واقعات کے خلاف کوئی قانون موجود نہیں ۔اس طرح کے ایک قانون کا مسودہ تیار کیا گیا تھا جو گذشتہ سات سالوں سے زیرالتوا ہے۔ جب مقدمات کے فیصلے نہیں ہوتے اور مجرم آزاد رہتے ہیں تو ان کا حوصلہ بڑھتا ہے اور یوں ریپ کے واقعات بڑھتے ہیں۔
خواتین کا کمتر سماجی رتبہ :
تیسری دنیا کے ممالک میں ایک اور بڑا مسئلہ عورتوں کے ساتھ برابری کا سلوک نہ ہونا ہے۔یہاں پر عورتیں کمتر سماجی رتبے کی حامل ہوتی ہیں۔انھیں بوجھ سمجھا جاتا ہے۔لڑکوں کے ساتھ اچھا سلوک کیا جاتا ہے اور لڑکیوں کے مقابلے میں اچھا کھانے پہننے کو دیا جاتا ہے۔لڑکیوں کو تعلیم سے بھی محروم رکھا جاتا ہے۔اس طرح کے ماحول میں خواتین کے ساتھ زیادتی کے واقعات میں ملوث افراد کو حوصلہ ملتا ہے۔