ہمت ہے تو مصباح کو ڈراپ کریں
انضمام الحق کو بھی ڈٹ جانا چاہیے کہ مصباح کی عمر بہت ہو چکی۔
لاہور:
مارچ 2015 کی بات ہے، ورلڈکپ میں پاکستانی ٹیم کی ناقص کارکردگی کے سبب شائقین کرکٹ غم و غصے کا شکار تھے، بورڈ آفیشلز پر بھی شدید دباؤ تھا، ایسے میں تشکیل نو کا نعرہ لگاتے ہوئے اظہر علی کو قیادت سونپ دی گئی، ایک ایسا کھلاڑی جو 2 برس سے ون ڈے ٹیم کا حصہ ہی نہ تھا اسے اچانک اتنی بڑی ذمہ داری ملنا حیران کن تھا، چیئرمین شہریارخان نے پریس کانفرنس میں نوجوان بیٹسمین کو ساتھ بٹھا کر اپنے فیصلے کی خود ہی بیحد تعریفیں کیں، ان کا کہنا تھا کہ ''اظہر کو اچھے رویے، ٹیم اسپرٹ بڑھانے کی قابلیت اور قائدانہ صلاحیتوں کی وجہ سے عہدہ سونپا گیا''، میں نے اس وقت یہی لکھا تھا کہ ایک مصباح گیا تو دوسرے کو کپتان بنا دیا، وقت نے چیئرمین بورڈ کا فیصلہ غلط ثابت کر دیا، ٹیم مزید زوال پذیر ہوئی، ان دنوں سرفراز احمد حکام کی آنکھ کا تارا بنے ہوئے ہیں تو موقع دیکھ کر رواں برس انھیں ٹی ٹوئنٹی کے بعد ون ڈے اسکواڈکی قیادت بھی سونپ دی گئی، یہاں تک تو ٹھیک تھا، اظہر کی کپتانی میں واقعی ٹیم کا آگے بڑھنا مشکل تھا مگر افسوس پی سی بی کو یہ جاننے میں 2 سال لگ گئے۔
گذشتہ ماہ جب اظہر کو کپتانی سے ہٹایا گیا تو پریس کانفرنس میں چیئرمین بورڈ شہریارخان نے فرمایا کہ ''ٹیم میں ان کی جگہ متاثر نہیں ہو گی'' مگر ایک بار پھر وہ اپنی کہی ہوئی بات بھول گئے اور بیچارے اظہر کو ٹشو پیپر کی طرح استعمال کرنے کے بعد باہر پھینک دیا گیا، وہ ہماری ٹیسٹ ٹیم کے اہم رکن ہیں، اب مصباح الحق و یونس خان کی ریٹائرمنٹ کا وقت قریب آ چکا اور انھیں ہی بیٹنگ لائن کو سنبھالنا ہوگا مگر ان کے ساتھ سلیکٹرز کا ایسا سلوک شرمناک ہے، کم از کم ایک سیریز بطور عام کھلاڑی کھلاکر کارکردگی کا جائزہ تو لینا چاہیے تھا، دیکھتے کہ کپتانی کے بوجھ سے الگ ہو کر بیٹنگ میں کیا فرق آیا ہے، ہماری ٹیم کیلیے بعض اوقات20 اوورز بھی کھیلنا مشکل ہوجاتا ہے، ایسے میں اظہر جیسے ایک بیٹسمین کو ساتھ رکھنا ضروری تھا، سلیکٹرز نے نوجوان ٹیلنٹ کو ویسٹ انڈیز جانے کا موقع دیا جو خوش آئند بات ہے، دیر سے سہی انھیں خیال آ تو گیا، اب دیکھنا ہے کہ نئے لڑکوں کو کھیلنے کے مواقع کتنے ملتے ہیں، البتہ یہ بات غور طلب ہے کہ سلیکشن کمیٹی نے ''ریورس گیئر'' لگاتے ہوئے کامران اکمل کو ٹیم میں دوبارہ شامل کر لیا،35 سال کی عمر میں نجانے ان سے کیا کارنامے انجام دلائے جا سکیں گے، بہت سے لوگ کہیں گے یہ خوامخواہ کامران کی مخالفت کر رہا ہے، انھوں نے ڈومیسٹک سیزن میں شاندار پرفارم کیا، پی ایس ایل کے بہترین کھلاڑی قرار پائے اب ضرور موقع دینا چاہیے تھا، مگر آپ جتنے بھی بے باک بنیں بعض باتیں کھلے عام نہیں کر سکتے، البتہ لوگ اپنی یادداشت پر زور دیں تو ضرور بہت کچھ یاد آ جائے گا، ٹیم میں واپسی کیلیے کھیل کے ساتھ دیگر عنصر بھی ذہن میں رکھنے چاہئیں، سرفراز احمد کو اب ون ڈے اور ٹی ٹوئنٹی ٹیم کی تشکیل نو کا ٹاسک ملا ہے، ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ انھیں ''فری ہینڈ'' دیا جاتا الٹا سلیکٹرز نے ان کے سر پر کامران اکمل کی تلوار لٹکا دی،اس فیصلے کے کئی نقصانات سامنے آئیں گے جن کا اندازہ آہستہ آہستہ ہی ہو گا۔
انضمام الحق پر مشتمل ایک رکنی سلیکشن کمیٹی (دیگر یس مین سلیکٹرز کا ہونا نہ ہونا برابر ہے) کئی باصلاحیت کرکٹرز کو بھول بھی گئی، کامران پی ایس ایل کی پرفارمنس پر ون ڈے ٹیم میں آگئے وہیں ایونٹ میں16 وکٹیں لینے والے سہیل خان کونظرانداز کر دیا گیا، دلچسپ بات یہ تھی کہ پورے کیریئر میں خود انضمام نے کبھی ڈسپلن کو اہمیت نہ دی، ٹیسٹ تک فورفیٹ کر دیا، شائق کی بیٹ سے پٹائی لگا دی، یونس خان سے گھتم گتھا ہو گئے،اب ان کے منہ سے ''ڈسپلن کی خلاف ورزی برداشت نہ کی جائے گی'' جیسے جملے سن کر ہنسی ہی آتی ہے، احمد شہزاد خراب ڈسپلن کے نام پر باہر ہوئے جو میرے نزدیک غلط فیصلہ تھا، اب اچانک ان کا ڈسپلن ٹھیک ہونے کا کس آلے سے پتا چلایا گیا کہ ٹیم میں واپسی ہو گئی، انضمام ماضی میں خود کبھی بہترین فٹنس کے حامل نہ رہے البتہ غیرمعمولی صلاحیتوں کے مالک بیٹسمین تھے اسی لیے کامیابیاں سمیٹیں، اب انھوں نے خود کہا کہ ''عمر اکمل اچھی فارم میں ہے مگر فٹنس ٹھیک نہیں اس لیے ڈراپ کر دیا''، حیرت اس بات کی ہے کہ خراب فٹنس کے ساتھ عمر نے کیسے پوری پی ایس ایل کھیل لی؟ ویسٹ انڈیز کی ٹیم واقعی اب خاصی کمزور ہے اور وہاں کی پچز بھی ماضی جیسی نہیں مگر یہی بات آسٹریلیا کیلیے بھی کہی گئی وہاں ٹیم کا کیا حال ہوا یہ زیادہ پرانی بات نہیں لہذا لوگوں کو اچھی طرح یاد ہو گی،اب بھی اسے آسان نہ سمجھیں کیونکہ ورلڈکپ میں براہ راست شرکت کے لالے پڑے ہوئے ہیں، سرفراز احمد کی قائدانہ صلاحیتوں کا بھی اس ٹور میں امتحان ہو گا، سلیکشن کمیٹی ان دنوں نوجوان کھلاڑیوں کو مواقع دینے کی بات کر رہی ہے، اظہر علی کو بھی اسی جواز پر ڈراپ کیا، اب ذرا ان میں ہمت ہے تو ٹیسٹ سیریز کیلیے مصباح الحق کو ڈراپ کر کے دکھائیں، چیئرمین شہریارخان نے 43 سال کی عمر میں انھیں ایک سیریز کیلیے کپتان مقرر کیا تاکہ فاتحانہ انداز میں رخصت ہوں دوسری جانب وہ شاہد آفریدی کو ایک الوداعی میچ کھیلنے کا موقع دینے کو تیار نہ تھے،اب انضمام الحق کو بھی ڈٹ جانا چاہیے کہ ''جناب مصباح کی عمر بہت ہو چکی، انھیں اب گھر بھیجنا مناسب ہوگا، ویسٹ انڈیز میں سرفراز کو گروم کرتے ہیں تاکہ مستقبل کیلیے اچھی ٹیم بن سکے'' شاید دور قیادت والے انضمام ہوتے تووہ ایسا کر جاتے اور بات نہ ماننے پر عہدہ بھی چھوڑ دیتے، مگر بطور چیف سلیکٹر انضمام بھی اب حق کی بات کرتے ہوئے ڈرنے لگے ہیں، نجانے ماضی کا انضمام الحق کہاں کھو گیا، اب تو وہ مصلحتوں کا شکار نظر آتے ہیں۔
مارچ 2015 کی بات ہے، ورلڈکپ میں پاکستانی ٹیم کی ناقص کارکردگی کے سبب شائقین کرکٹ غم و غصے کا شکار تھے، بورڈ آفیشلز پر بھی شدید دباؤ تھا، ایسے میں تشکیل نو کا نعرہ لگاتے ہوئے اظہر علی کو قیادت سونپ دی گئی، ایک ایسا کھلاڑی جو 2 برس سے ون ڈے ٹیم کا حصہ ہی نہ تھا اسے اچانک اتنی بڑی ذمہ داری ملنا حیران کن تھا، چیئرمین شہریارخان نے پریس کانفرنس میں نوجوان بیٹسمین کو ساتھ بٹھا کر اپنے فیصلے کی خود ہی بیحد تعریفیں کیں، ان کا کہنا تھا کہ ''اظہر کو اچھے رویے، ٹیم اسپرٹ بڑھانے کی قابلیت اور قائدانہ صلاحیتوں کی وجہ سے عہدہ سونپا گیا''، میں نے اس وقت یہی لکھا تھا کہ ایک مصباح گیا تو دوسرے کو کپتان بنا دیا، وقت نے چیئرمین بورڈ کا فیصلہ غلط ثابت کر دیا، ٹیم مزید زوال پذیر ہوئی، ان دنوں سرفراز احمد حکام کی آنکھ کا تارا بنے ہوئے ہیں تو موقع دیکھ کر رواں برس انھیں ٹی ٹوئنٹی کے بعد ون ڈے اسکواڈکی قیادت بھی سونپ دی گئی، یہاں تک تو ٹھیک تھا، اظہر کی کپتانی میں واقعی ٹیم کا آگے بڑھنا مشکل تھا مگر افسوس پی سی بی کو یہ جاننے میں 2 سال لگ گئے۔
گذشتہ ماہ جب اظہر کو کپتانی سے ہٹایا گیا تو پریس کانفرنس میں چیئرمین بورڈ شہریارخان نے فرمایا کہ ''ٹیم میں ان کی جگہ متاثر نہیں ہو گی'' مگر ایک بار پھر وہ اپنی کہی ہوئی بات بھول گئے اور بیچارے اظہر کو ٹشو پیپر کی طرح استعمال کرنے کے بعد باہر پھینک دیا گیا، وہ ہماری ٹیسٹ ٹیم کے اہم رکن ہیں، اب مصباح الحق و یونس خان کی ریٹائرمنٹ کا وقت قریب آ چکا اور انھیں ہی بیٹنگ لائن کو سنبھالنا ہوگا مگر ان کے ساتھ سلیکٹرز کا ایسا سلوک شرمناک ہے، کم از کم ایک سیریز بطور عام کھلاڑی کھلاکر کارکردگی کا جائزہ تو لینا چاہیے تھا، دیکھتے کہ کپتانی کے بوجھ سے الگ ہو کر بیٹنگ میں کیا فرق آیا ہے، ہماری ٹیم کیلیے بعض اوقات20 اوورز بھی کھیلنا مشکل ہوجاتا ہے، ایسے میں اظہر جیسے ایک بیٹسمین کو ساتھ رکھنا ضروری تھا، سلیکٹرز نے نوجوان ٹیلنٹ کو ویسٹ انڈیز جانے کا موقع دیا جو خوش آئند بات ہے، دیر سے سہی انھیں خیال آ تو گیا، اب دیکھنا ہے کہ نئے لڑکوں کو کھیلنے کے مواقع کتنے ملتے ہیں، البتہ یہ بات غور طلب ہے کہ سلیکشن کمیٹی نے ''ریورس گیئر'' لگاتے ہوئے کامران اکمل کو ٹیم میں دوبارہ شامل کر لیا،35 سال کی عمر میں نجانے ان سے کیا کارنامے انجام دلائے جا سکیں گے، بہت سے لوگ کہیں گے یہ خوامخواہ کامران کی مخالفت کر رہا ہے، انھوں نے ڈومیسٹک سیزن میں شاندار پرفارم کیا، پی ایس ایل کے بہترین کھلاڑی قرار پائے اب ضرور موقع دینا چاہیے تھا، مگر آپ جتنے بھی بے باک بنیں بعض باتیں کھلے عام نہیں کر سکتے، البتہ لوگ اپنی یادداشت پر زور دیں تو ضرور بہت کچھ یاد آ جائے گا، ٹیم میں واپسی کیلیے کھیل کے ساتھ دیگر عنصر بھی ذہن میں رکھنے چاہئیں، سرفراز احمد کو اب ون ڈے اور ٹی ٹوئنٹی ٹیم کی تشکیل نو کا ٹاسک ملا ہے، ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ انھیں ''فری ہینڈ'' دیا جاتا الٹا سلیکٹرز نے ان کے سر پر کامران اکمل کی تلوار لٹکا دی،اس فیصلے کے کئی نقصانات سامنے آئیں گے جن کا اندازہ آہستہ آہستہ ہی ہو گا۔
انضمام الحق پر مشتمل ایک رکنی سلیکشن کمیٹی (دیگر یس مین سلیکٹرز کا ہونا نہ ہونا برابر ہے) کئی باصلاحیت کرکٹرز کو بھول بھی گئی، کامران پی ایس ایل کی پرفارمنس پر ون ڈے ٹیم میں آگئے وہیں ایونٹ میں16 وکٹیں لینے والے سہیل خان کونظرانداز کر دیا گیا، دلچسپ بات یہ تھی کہ پورے کیریئر میں خود انضمام نے کبھی ڈسپلن کو اہمیت نہ دی، ٹیسٹ تک فورفیٹ کر دیا، شائق کی بیٹ سے پٹائی لگا دی، یونس خان سے گھتم گتھا ہو گئے،اب ان کے منہ سے ''ڈسپلن کی خلاف ورزی برداشت نہ کی جائے گی'' جیسے جملے سن کر ہنسی ہی آتی ہے، احمد شہزاد خراب ڈسپلن کے نام پر باہر ہوئے جو میرے نزدیک غلط فیصلہ تھا، اب اچانک ان کا ڈسپلن ٹھیک ہونے کا کس آلے سے پتا چلایا گیا کہ ٹیم میں واپسی ہو گئی، انضمام ماضی میں خود کبھی بہترین فٹنس کے حامل نہ رہے البتہ غیرمعمولی صلاحیتوں کے مالک بیٹسمین تھے اسی لیے کامیابیاں سمیٹیں، اب انھوں نے خود کہا کہ ''عمر اکمل اچھی فارم میں ہے مگر فٹنس ٹھیک نہیں اس لیے ڈراپ کر دیا''، حیرت اس بات کی ہے کہ خراب فٹنس کے ساتھ عمر نے کیسے پوری پی ایس ایل کھیل لی؟ ویسٹ انڈیز کی ٹیم واقعی اب خاصی کمزور ہے اور وہاں کی پچز بھی ماضی جیسی نہیں مگر یہی بات آسٹریلیا کیلیے بھی کہی گئی وہاں ٹیم کا کیا حال ہوا یہ زیادہ پرانی بات نہیں لہذا لوگوں کو اچھی طرح یاد ہو گی،اب بھی اسے آسان نہ سمجھیں کیونکہ ورلڈکپ میں براہ راست شرکت کے لالے پڑے ہوئے ہیں، سرفراز احمد کی قائدانہ صلاحیتوں کا بھی اس ٹور میں امتحان ہو گا، سلیکشن کمیٹی ان دنوں نوجوان کھلاڑیوں کو مواقع دینے کی بات کر رہی ہے، اظہر علی کو بھی اسی جواز پر ڈراپ کیا، اب ذرا ان میں ہمت ہے تو ٹیسٹ سیریز کیلیے مصباح الحق کو ڈراپ کر کے دکھائیں، چیئرمین شہریارخان نے 43 سال کی عمر میں انھیں ایک سیریز کیلیے کپتان مقرر کیا تاکہ فاتحانہ انداز میں رخصت ہوں دوسری جانب وہ شاہد آفریدی کو ایک الوداعی میچ کھیلنے کا موقع دینے کو تیار نہ تھے،اب انضمام الحق کو بھی ڈٹ جانا چاہیے کہ ''جناب مصباح کی عمر بہت ہو چکی، انھیں اب گھر بھیجنا مناسب ہوگا، ویسٹ انڈیز میں سرفراز کو گروم کرتے ہیں تاکہ مستقبل کیلیے اچھی ٹیم بن سکے'' شاید دور قیادت والے انضمام ہوتے تووہ ایسا کر جاتے اور بات نہ ماننے پر عہدہ بھی چھوڑ دیتے، مگر بطور چیف سلیکٹر انضمام بھی اب حق کی بات کرتے ہوئے ڈرنے لگے ہیں، نجانے ماضی کا انضمام الحق کہاں کھو گیا، اب تو وہ مصلحتوں کا شکار نظر آتے ہیں۔