زخم بھی کیا نظر نہیں آتا
کینسر کے مرض سے جوجھتے ریاض احمد اور اس کے خاندان کی دُکھ بیتی.
ہر دکھ کو تقدیر سے منسوب کردینے والے ہم لوگ، ہر آفت کو مشیت الٰہی کا نام دینے والے ہم لوگ، انسانوں پر انسانوں کی قائم کردہ خدائیاں، اور ان کے پجاری ہم لوگ، عاملوں، بہروپیوں اور دھوکے بازوں کو فرستادہ سمجھنے والے ہم لوگ، اپنے فہم کو طاق پر رکھ کر بھول جانے والے ہم لوگ، عقل و شعور، جو نعمتِ خداوندی ہے، کے بیری ہم لوگ، بس بھیڑوں کی طرح سر جھکائے گڑھوں میں گرنے والے ہم لوگ، اپنا آپ گم کردینے والے اور حلیہ دیکھ کر پیچھے چلنے والے ہم لوگ، کیا یہی ہے زندگی۔
بس سانس کی آمدورفت کو جینا کہنے والے ہم لوگ، خواب غفلت میں لتھڑے ہوئے، راندۂ درگاہ لیکن خود کو حلقۂ دوستاں میں شمار کرنے والے، ہم کج فہم و کور چشم، بہرے اور گونگے لوگ، ربّ کائنات نے حکم دیا ہے اور بار بار دیا ہے، فکر کرو، تدبر کی روشن راہ پر چلو، شعور کو بیدار ر کھو، سوچو، اپنی آنکھو ں اور سماعتوں کے در وا رکھو، تحقیق کرو، سُنی سنائی باتوں پر ہرگز مت چلو۔ انسان کو ربّ کائنات نے عقل و فہم، شعور و ادراک کے جو خزینے دیے ہیں، ان سے استفادہ کرو۔ لیکن نہیں، ہم نے تہیہ کرلیا ہے کہ ہم ان نعمتوں سے جو ربّ کائنات نے ہر انسان کو عطیہ کی ہیں، عمل پیر انہیں ہوں گے۔ بس تو پھر یہ طے ہوا کہ ہم پستیوں میں، دکھوں، مصیبتوں اور غموں کی دلدل میں دھنستے چلے جائیں گے اور پھر ڈھٹائی سے پکاریں گے،''بس خدا کو یہی منظور تھا!''
کیا خدا کو انسان کی تذلیل مقصود ہے؟ خدا نے انسان کو انتہائی پیار سے، بہت چاؤ سے تخلیق کیا ہے۔ خدا انسان کو زندگی کی بھرپور خوشیوں، رعنائیوں، لطافتوں، آسودگیوں میں دیکھنا چاہتا ہے، اس لیے تو خدا نے دنیا کو مثلِ جنت تخلیق کیا ہے۔ کیا نہیں دیا انسان کو اور بلامعاوضہ۔ ہاں کاوش کو شرط ضرور رکھا ہے، کہ جو ڈھونڈے گا وہ پائے گا، اور ضرور پائے گا۔ کارخانہ قدرت میں ہر انسان بلارنگ ونسل مذہب و ملت اپنا حصہ وصول کرسکتا ہے، کوئی روک نہیں ہے۔ بس شرط ہے عقل و شعور اور محنت، جس کے ہم دشمن بن گئے ہیں۔
ہم نے اب بھی اپنی روش نہ بدلی تو پھر گلہ بھی نہیں کرنا چاہیے اور سچ تو یہ ہے کہ ہم اپنی روش بدلنے پر تیار ہوں، ایسا دور دور تک نظر نہیں آتا۔ بات طویل ہوتی چلی جارہی ہے اور ہونی بھی چاہیے، لیکن پھر کسی اور وقت۔ سردست تو یہ سوال کہ جنگیں انسان پر خدا نے مسلط کی ہیں؟ سوچیے ہزار بار سوچیے۔۔۔۔ جنگیں ہوس ملک گیری کے نتیجے میں ہوتی ہیں، یہ انسانوں کا گروہ ہی ترتیب دیتا ہے، خدا انسان پر کسی مصیبت کو مسلط نہیں کرتا۔ انسان خود مصیبتوں کو پکارتا ہے۔ کیا دنیا میں چند لوگوں کی اجارہ داری نہیں ہے؟ ایسا ہی ہے کہ چند شاطر لوگ ساری دنیا کے وسائل پر، جو انسانیت کا مشترکہ ورثہ ہیں، قابض ہوگئے اور پھر جنت ارضی آتش کدہ بنتی چلی گئی۔
خدا نے سب کچھ دیا اور وافر دیا، لیکن چند شاطروں نے وسائل پر قبضہ جمایا اور انسانوں کو خون میں نہلایا۔ کیوں نہیں سوچتے ہم، کب سوچیں گے، کب آخر کب؟ راکٹ، ایٹم بم، یہ انسان کش ہتھیار کس لیے بنائے گئے۔ انسانوں پر اپنا کریہہ تسلط قائم رکھنے کے لیے، اور پھر وہ اس میں کام یاب بھی ہوگئے۔ یہ شیاطین آپس میں متحد ہیں اور ہم انسان تتر بتر، ہمارے انتشار نے ہی ہمیں یہ دن دکھائے ہیں۔
یہ ہوسِ زر وجواہر اور ان زر پجاریوں کی جنگ۔ یہ جنگیں ہم پر انسانوں نے، جنہیں انسان کہتے ہوئے انسانیت سراپا دُکھ میں ڈوب جاتی ہے، وسائل انسانی پر جو ربّ کائنات نے ہم سب کو مشترکہ عطیہ کی ہیں، قبضے کی کریہہ ترین تسلط کی جنگیں ہے۔ یہ جنگیں خدا نے ہم پر کبھی مسلط نہیں کیں۔ چلیے سوچیے۔۔۔۔۔اور پھر سوچتے چلے جائیے۔ کیا ہم ا پنے گریبان میں جھانکتے ہیں۔ یہ جو ہمارے خوب صورت صوبے خیبرپختون خوا میں اچانک کینسر کے مریضوں میں اضافہ ہوگیا ہے، اس کا پس منظر کیا ہے۔
اہل دانش و بینش نے کبھی اس پر سوچا؟ ہمارے جفاکش، دلیر بہادر اور مہمان نواز باسیوں کا مسکن خوب صورت پہاڑوں، ندی نالوں اور آب شاروں، سہانے موسموں اور نعمتِ خداوندی سے لدا پھندا صوبہ خیبرپختون خوا گذشتہ تین دہائیوں سے انسانوں کی پیدا کردہ آفات اور جنگوں کی لپیٹ میں ہے۔ سابق سوویت یونین اور امریکا ایک عرصے تک افغانستان میں برسرپیکار رہے۔ ان عالمی سام راجی قوتوں نے افغانستان کے وسائل پر بہ زور اپنا تسلط جمانے کے لیے افغانستان کو تاراج کیا۔ وہاں انسانی خون سے ہولی کھیلی جاتی رہی، جو اب تک جاری ہے۔ کبھی مذہب و ملت اور کبھی دائیں و بائیں بازو کی کش مکش کے نام پر ہونے والی خوں ریزی میں سراسر نقصان افغانستان کا ہوا ہے۔ افغانستان سے متصل ہمارے خوب صورت صوبے خیبر پختون خوا پر بھی اس کے تباہ کن اور مہلک اثرات مرتب ہوئے ہیں۔
عالمی طاقتوں کی پروکسی وار میں ہمارے اس صوبے پر معاشی، سیاسی، سماجی اور نفسیاتی اثرات مرتب ہوئے۔ آئے دن ہونے والے ڈرون حملے اور جگہ جگہ بم دھماکے ہونے سے انسانی صحت پر جو تباہ کن اثرات ہوئے ان پر بدقسمتی سے کسی نے توجہ نہیں دی۔ ان ڈرون حملوں، ٹارگٹ کلنگ، آئے روز ہونے والے خودکش ومنظم حملوں نے ماحول کو زہرآلود کرنے والے انسان کش کیمیائی زہر نے خیبر پختون خوا کے معصوم لوگوں کی صحت برباد کرکے رکھ دی۔ مرنے والے تو اس جہان فانی سے گزر گئے، لیکن زندہ رہنے والے زندہ ہیں نہ مردہ۔ وہ جیون کے نام پر ہر پل مر رہے ہیں۔
ان زہریلے کیمیاوی مادے سے کتنے لوگ متاثر ہوئے کسی نے تحقیق کی زحمت نہیں کی، کیوں۔۔۔۔؟ شاید اس کا جواب کسی کے پاس نہیں اور اگر ہو بھی تو زبانیں خاموش ہیں۔ دنیا بھر میں ہونے والی سائنسی تحقیق کبھی اس نقطے پر اپنی توجہ مرکوز کرے گی؟ کیا یہ تحقیق کی جائے گی کہ خیبرپختون خوا میں سرطان جیسا جان لیوا مرض اتنی تیزی سے کیسے اور کن وجوہات کی بنا پر پھیل رہا ہے؟ سردست ہم آپ کو ایک حقیقت سے آگاہ کر رہے ہیں کہ کس طرح ایک بدنصیب پختون خاندان اس مہلک مرض اور عسکریت پسندوں کی چیرہ دستیوں کا شکار ہوکر زندہ درگور ہورہا ہے۔
یہ اپر دیر کا ایک گاؤں ''ڈوگ درہ'' ہے۔ سید احمد شاہ کسی حد تک آسودہ زندگی بسر کر رہے تھے، وہ ایک پرائمری اسکول میں مدرس تھے۔ انہیں خدا نے تین بیٹیاں اور پانچ بیٹے عطا فرمائے، جن کی تعلیم و تربیت میں انہوں نے معاشی مسائل کے باوجود کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی۔ ان کا خواب تھا کہ ان کے سارے بچے اور بچیاں اعلیٰ تعلیم حاصل کرکے اپنے اس صوبے کی تعمیر و ترقی اور علم کی روشنی پھیلانے میں اپنا کردار ادا کریں۔ انہوں نے اپنے بچوں کو ایک مشن کے تحت زیورِ تعلیم سے آراستہ کیا تھا اور وہ اپنے اس مقصد میں کسی حد تک کام یاب بھی رہے۔ انہوں نے اپنے بڑے بیٹے شفیق احمد کو طب کی تعلیم کے لیے منتخب کیا اور آخر شفیق احمد نے اپنی انتھک محنت کے بعد آرتھو پیڈک سرجن کی سند حاصل کی اور وہ ڈسٹرکٹ اسپتال دیر میں سرجن تعینات ہوئے۔
ڈاکٹر شفیق احمد اپنے والد کی طرح ایک روشن خیال اور علم دوست انسان ہیں۔ انہوں نے بھی اپنے علاقے میں تعلیمی سرگرمیوں پر بھرپور توجہ دی۔ وہ مستحق طلبا و طالبات کو وظائف دیا کرتے اور ان کی راہ نمائی کرتے تھے۔ لڑکیوں کی تعلیم کو تو انہوں نے اپنا خاص مشن بنالیا تھا۔ کچھ عرصے بعد عسکریت پسندوں نے ان کے علاقے پر قبضہ کرلیا اور انہوں نے ڈاکٹر شفیق احمد کو تعلیمی مشن سے باز آنے کا کہا اور نہ آنے کی صورت میں سنگین نتائج کی دھمکیاں دیں، لیکن ڈاکٹر شفیق احمد اپنے عظیم مشن سے دست بردار نہ ہوئے۔ ایک دن ڈوگ درہ میں ان کے آبائی مکان کو بم سے اڑادیا گیا۔
خوش قسمتی سے اس دن ان کے خاندان کے لوگ دیر میں تھے اس لیے محفوظ رہے۔ اسی پر اکتفا نہیں کیا گیا، 17 اگست 2006 میں ان کا تقرر وزیرستان کے میران شاہ اسپتال میں کرادیا گیا جوکہ سراسر غیرقانونی تھا۔ اس لیے کہ وہ صوبائی حکومت کے ملازم تھے اور وزیرستان فاٹا کا حصہ ہے۔ ڈاکٹر شفیق نے سرکاری ملازمت کو خیرباد کہہ کر پشاور کے ایک نجی اسپتال میں ملازمت کرلی، لیکن عسکریت پسندوں نے ان کا تعاقب جاری رکھا۔
آخر انہیں پشاور کو چھوڑ کر لاہور آنا پڑا، لیکن عسکریت پسند لاہور تک آپہنچے، ان پر اس وقت کی خیبرپختون خوا (جو تب تک صوبہ سرحد تھا) کی حکومت کا دباؤ تھا کہ وہ وزیرستان میں آکر کام کریں۔ ڈاکٹر شفیق لاہور چھوڑ کر پاک پتن اور پھر دربدر خاک بسر ہونے لگے۔ آخر انہوں نے کراچی میں آکر ایک نجی اسپتال میں پریکٹس شروع کی، لیکن حیرت و بدقسمتی ہے کہ انہیں کراچی پہنچ کر بھی دھمکیاں دی گئیں۔ انتہاپسند صرف ڈاکٹر شفیق پر ہی دباؤ نہیں ڈال رہے تھے بل کہ ان کا پورا خاندان ان کے عتاب کا شکار تھا۔ ان کے والد اس دباؤ کو برداشت نہ کرسکے اور انہیں برین ہیمبرج ہوگیا، وہ زندہ تو بچ گئے لیکن معمولاتِ زندگی ادا کرنے کے قابل نہ رہے۔
ڈاکٹر شفیق احمد اپنی اہلیہ اور دو بچوں کی کفالت کے ساتھ اپنے گھر کی کفالت کر رہے تھے، لیکن ان حالات میں وہ کام کرنے کے قابل کیسے رہتے وہ زیربار ہوتے چلے گئے۔ آخر انہوں نے یونان جانے کا فیصلہ کیا۔ یونان پہنچ کر ڈاکٹر شفیق کو انتہائی کوششوں کے بعد جلاوطن کی حیثیت تو مل گئی، لیکن ان کی اہلیہ، چار سال کا بیٹا اور سات سال کی بیٹی اب تک یونان میں یہ حیثیت حاصل نہ کرسکے۔ ڈاکٹر شفیق کی زندگی انتہائی ابتر اور شدید نفسیاتی و معاشی مسائل کے درمیان گھری ہوئی ہے۔ لیکن وہ جواں مردی سے ان حالات کا مقابلہ کر رہے ہیں۔
ڈاکٹر شفیق کے بھائی ریاض احمد اور ان کی بہن صوبہ پختون خوا کے کئی دوسرے بدنصیب لوگوں کی طرح کینسر جیسے موذی اور جان لیوا مرض کا شکار ہوگئے ہیں۔ ریاض احمد کو بلڈکینسر اور ان کی بہن کو جگر کا کینسر ہے۔ ریاض احمد کو یقین ہے کہ یہ مہلک مرض انھیں اس زہرآلود کیمیائی مواد کے باعث لاحق ہوا ہے جو اس جنگ زدہ خطے میں پھیلا ہوا ہے۔ ریاض احمد کا کہنا صحیح ہے یا غلط اس کی کھوج طب اور انسانی حقوق سے وابستہ اداروں کو کرنی چاہیے۔
ریاض احمد اور ان کی بہن کی زندگی بچانے کے لیے ان کے والد جو خود شوگر، بلند فشار خون اور برین ہیمبرج کا شکار ہیں، نے اپنی ساری جائیداد فروخت کردی۔ ڈاکٹر شفیق احمد اب یونان میں بے روزگار ہونے کی وجہ سے اپنے خاندان کی مالی مدد نہیں کرسکتے۔ ان حالات نے ایک ہنستا بستا خاندان اجاڑ کر رکھ دیا ہے۔ ریاض احمد کا علاج پاکستان میں ممکن ہے جو بون میرو ٹرانسپلا نٹ کہلاتا ہے، جس کے لیے 25 لاکھ روپے کی خطیر رقم درکار ہے۔ انہیں ہر ہفتے 6 ماہ تک ایک انجکشن لگتا ہے، جس کی قیمت 90 ہزار روپے فی انجکشن ہے۔
ان کی بہن جو جگرکے کینسر میں مبتلا ہے کے لیے ہر ہفتے 40 ہزار روپے کی دوائیں درکار ہیں۔ ریاض احمد کی عمر 33 سال ہے اور وہ 3 بچوں کے والد ہیں۔ وہ بیمار ہونے سے قبل ایک پرائیویٹ ادارے میں کام کرتے تھے جہاں سے انہیں فارغ کردیا گیا ہے۔ ان کی ہم شیرہ کی عمر 25 سال ہے اور وہ ایک بچی کی ماں ہے۔
کیا ہے یہ سب کچھ، کیوں ہے؟ کون تدارک کرے گا اس کا؟ ہم سب بس زبانی جمع خرچ کرتے رہیں گے؟ ہمارے حکم راں اپنے سینے میں دل رکھتے ہیں؟ ہاں یہ ریاست کی ذمے داری نہیں ہے کہ وہ ہر فرد کو صحت کی سہولت فراہم کرے؟ پڑھ لی آپ نے یہ کتھا کہانی، لکھنا کتنا آسان ہوتا ہے، ہاں سننا بھی تو اک شغل ہے ناں، جس پر بیت رہی ہو۔۔۔۔۔جو ہر پل موت کے منہ میں جارہا ہو، جس کی عزت نفس۔۔۔۔۔۔! رہنے دیجیے۔ میرا قلم ساتھ چھوڑ رہا ہے، ہے کوئی جو یہ تحقیق کرنے کی زحمت کرے کہ خیبر پختون خوا میں کینسر کے مریضوں میں اچانک اتنا اضافہ کیسے ہوگیا ہے؟ میں رخصت ہوا۔
درد تو خیر کس نے دیکھا ہے
زخم بھی کیا نظر نہیں آتا
بس سانس کی آمدورفت کو جینا کہنے والے ہم لوگ، خواب غفلت میں لتھڑے ہوئے، راندۂ درگاہ لیکن خود کو حلقۂ دوستاں میں شمار کرنے والے، ہم کج فہم و کور چشم، بہرے اور گونگے لوگ، ربّ کائنات نے حکم دیا ہے اور بار بار دیا ہے، فکر کرو، تدبر کی روشن راہ پر چلو، شعور کو بیدار ر کھو، سوچو، اپنی آنکھو ں اور سماعتوں کے در وا رکھو، تحقیق کرو، سُنی سنائی باتوں پر ہرگز مت چلو۔ انسان کو ربّ کائنات نے عقل و فہم، شعور و ادراک کے جو خزینے دیے ہیں، ان سے استفادہ کرو۔ لیکن نہیں، ہم نے تہیہ کرلیا ہے کہ ہم ان نعمتوں سے جو ربّ کائنات نے ہر انسان کو عطیہ کی ہیں، عمل پیر انہیں ہوں گے۔ بس تو پھر یہ طے ہوا کہ ہم پستیوں میں، دکھوں، مصیبتوں اور غموں کی دلدل میں دھنستے چلے جائیں گے اور پھر ڈھٹائی سے پکاریں گے،''بس خدا کو یہی منظور تھا!''
کیا خدا کو انسان کی تذلیل مقصود ہے؟ خدا نے انسان کو انتہائی پیار سے، بہت چاؤ سے تخلیق کیا ہے۔ خدا انسان کو زندگی کی بھرپور خوشیوں، رعنائیوں، لطافتوں، آسودگیوں میں دیکھنا چاہتا ہے، اس لیے تو خدا نے دنیا کو مثلِ جنت تخلیق کیا ہے۔ کیا نہیں دیا انسان کو اور بلامعاوضہ۔ ہاں کاوش کو شرط ضرور رکھا ہے، کہ جو ڈھونڈے گا وہ پائے گا، اور ضرور پائے گا۔ کارخانہ قدرت میں ہر انسان بلارنگ ونسل مذہب و ملت اپنا حصہ وصول کرسکتا ہے، کوئی روک نہیں ہے۔ بس شرط ہے عقل و شعور اور محنت، جس کے ہم دشمن بن گئے ہیں۔
ہم نے اب بھی اپنی روش نہ بدلی تو پھر گلہ بھی نہیں کرنا چاہیے اور سچ تو یہ ہے کہ ہم اپنی روش بدلنے پر تیار ہوں، ایسا دور دور تک نظر نہیں آتا۔ بات طویل ہوتی چلی جارہی ہے اور ہونی بھی چاہیے، لیکن پھر کسی اور وقت۔ سردست تو یہ سوال کہ جنگیں انسان پر خدا نے مسلط کی ہیں؟ سوچیے ہزار بار سوچیے۔۔۔۔ جنگیں ہوس ملک گیری کے نتیجے میں ہوتی ہیں، یہ انسانوں کا گروہ ہی ترتیب دیتا ہے، خدا انسان پر کسی مصیبت کو مسلط نہیں کرتا۔ انسان خود مصیبتوں کو پکارتا ہے۔ کیا دنیا میں چند لوگوں کی اجارہ داری نہیں ہے؟ ایسا ہی ہے کہ چند شاطر لوگ ساری دنیا کے وسائل پر، جو انسانیت کا مشترکہ ورثہ ہیں، قابض ہوگئے اور پھر جنت ارضی آتش کدہ بنتی چلی گئی۔
خدا نے سب کچھ دیا اور وافر دیا، لیکن چند شاطروں نے وسائل پر قبضہ جمایا اور انسانوں کو خون میں نہلایا۔ کیوں نہیں سوچتے ہم، کب سوچیں گے، کب آخر کب؟ راکٹ، ایٹم بم، یہ انسان کش ہتھیار کس لیے بنائے گئے۔ انسانوں پر اپنا کریہہ تسلط قائم رکھنے کے لیے، اور پھر وہ اس میں کام یاب بھی ہوگئے۔ یہ شیاطین آپس میں متحد ہیں اور ہم انسان تتر بتر، ہمارے انتشار نے ہی ہمیں یہ دن دکھائے ہیں۔
یہ ہوسِ زر وجواہر اور ان زر پجاریوں کی جنگ۔ یہ جنگیں ہم پر انسانوں نے، جنہیں انسان کہتے ہوئے انسانیت سراپا دُکھ میں ڈوب جاتی ہے، وسائل انسانی پر جو ربّ کائنات نے ہم سب کو مشترکہ عطیہ کی ہیں، قبضے کی کریہہ ترین تسلط کی جنگیں ہے۔ یہ جنگیں خدا نے ہم پر کبھی مسلط نہیں کیں۔ چلیے سوچیے۔۔۔۔۔اور پھر سوچتے چلے جائیے۔ کیا ہم ا پنے گریبان میں جھانکتے ہیں۔ یہ جو ہمارے خوب صورت صوبے خیبرپختون خوا میں اچانک کینسر کے مریضوں میں اضافہ ہوگیا ہے، اس کا پس منظر کیا ہے۔
اہل دانش و بینش نے کبھی اس پر سوچا؟ ہمارے جفاکش، دلیر بہادر اور مہمان نواز باسیوں کا مسکن خوب صورت پہاڑوں، ندی نالوں اور آب شاروں، سہانے موسموں اور نعمتِ خداوندی سے لدا پھندا صوبہ خیبرپختون خوا گذشتہ تین دہائیوں سے انسانوں کی پیدا کردہ آفات اور جنگوں کی لپیٹ میں ہے۔ سابق سوویت یونین اور امریکا ایک عرصے تک افغانستان میں برسرپیکار رہے۔ ان عالمی سام راجی قوتوں نے افغانستان کے وسائل پر بہ زور اپنا تسلط جمانے کے لیے افغانستان کو تاراج کیا۔ وہاں انسانی خون سے ہولی کھیلی جاتی رہی، جو اب تک جاری ہے۔ کبھی مذہب و ملت اور کبھی دائیں و بائیں بازو کی کش مکش کے نام پر ہونے والی خوں ریزی میں سراسر نقصان افغانستان کا ہوا ہے۔ افغانستان سے متصل ہمارے خوب صورت صوبے خیبر پختون خوا پر بھی اس کے تباہ کن اور مہلک اثرات مرتب ہوئے ہیں۔
عالمی طاقتوں کی پروکسی وار میں ہمارے اس صوبے پر معاشی، سیاسی، سماجی اور نفسیاتی اثرات مرتب ہوئے۔ آئے دن ہونے والے ڈرون حملے اور جگہ جگہ بم دھماکے ہونے سے انسانی صحت پر جو تباہ کن اثرات ہوئے ان پر بدقسمتی سے کسی نے توجہ نہیں دی۔ ان ڈرون حملوں، ٹارگٹ کلنگ، آئے روز ہونے والے خودکش ومنظم حملوں نے ماحول کو زہرآلود کرنے والے انسان کش کیمیائی زہر نے خیبر پختون خوا کے معصوم لوگوں کی صحت برباد کرکے رکھ دی۔ مرنے والے تو اس جہان فانی سے گزر گئے، لیکن زندہ رہنے والے زندہ ہیں نہ مردہ۔ وہ جیون کے نام پر ہر پل مر رہے ہیں۔
ان زہریلے کیمیاوی مادے سے کتنے لوگ متاثر ہوئے کسی نے تحقیق کی زحمت نہیں کی، کیوں۔۔۔۔؟ شاید اس کا جواب کسی کے پاس نہیں اور اگر ہو بھی تو زبانیں خاموش ہیں۔ دنیا بھر میں ہونے والی سائنسی تحقیق کبھی اس نقطے پر اپنی توجہ مرکوز کرے گی؟ کیا یہ تحقیق کی جائے گی کہ خیبرپختون خوا میں سرطان جیسا جان لیوا مرض اتنی تیزی سے کیسے اور کن وجوہات کی بنا پر پھیل رہا ہے؟ سردست ہم آپ کو ایک حقیقت سے آگاہ کر رہے ہیں کہ کس طرح ایک بدنصیب پختون خاندان اس مہلک مرض اور عسکریت پسندوں کی چیرہ دستیوں کا شکار ہوکر زندہ درگور ہورہا ہے۔
یہ اپر دیر کا ایک گاؤں ''ڈوگ درہ'' ہے۔ سید احمد شاہ کسی حد تک آسودہ زندگی بسر کر رہے تھے، وہ ایک پرائمری اسکول میں مدرس تھے۔ انہیں خدا نے تین بیٹیاں اور پانچ بیٹے عطا فرمائے، جن کی تعلیم و تربیت میں انہوں نے معاشی مسائل کے باوجود کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی۔ ان کا خواب تھا کہ ان کے سارے بچے اور بچیاں اعلیٰ تعلیم حاصل کرکے اپنے اس صوبے کی تعمیر و ترقی اور علم کی روشنی پھیلانے میں اپنا کردار ادا کریں۔ انہوں نے اپنے بچوں کو ایک مشن کے تحت زیورِ تعلیم سے آراستہ کیا تھا اور وہ اپنے اس مقصد میں کسی حد تک کام یاب بھی رہے۔ انہوں نے اپنے بڑے بیٹے شفیق احمد کو طب کی تعلیم کے لیے منتخب کیا اور آخر شفیق احمد نے اپنی انتھک محنت کے بعد آرتھو پیڈک سرجن کی سند حاصل کی اور وہ ڈسٹرکٹ اسپتال دیر میں سرجن تعینات ہوئے۔
ڈاکٹر شفیق احمد اپنے والد کی طرح ایک روشن خیال اور علم دوست انسان ہیں۔ انہوں نے بھی اپنے علاقے میں تعلیمی سرگرمیوں پر بھرپور توجہ دی۔ وہ مستحق طلبا و طالبات کو وظائف دیا کرتے اور ان کی راہ نمائی کرتے تھے۔ لڑکیوں کی تعلیم کو تو انہوں نے اپنا خاص مشن بنالیا تھا۔ کچھ عرصے بعد عسکریت پسندوں نے ان کے علاقے پر قبضہ کرلیا اور انہوں نے ڈاکٹر شفیق احمد کو تعلیمی مشن سے باز آنے کا کہا اور نہ آنے کی صورت میں سنگین نتائج کی دھمکیاں دیں، لیکن ڈاکٹر شفیق احمد اپنے عظیم مشن سے دست بردار نہ ہوئے۔ ایک دن ڈوگ درہ میں ان کے آبائی مکان کو بم سے اڑادیا گیا۔
خوش قسمتی سے اس دن ان کے خاندان کے لوگ دیر میں تھے اس لیے محفوظ رہے۔ اسی پر اکتفا نہیں کیا گیا، 17 اگست 2006 میں ان کا تقرر وزیرستان کے میران شاہ اسپتال میں کرادیا گیا جوکہ سراسر غیرقانونی تھا۔ اس لیے کہ وہ صوبائی حکومت کے ملازم تھے اور وزیرستان فاٹا کا حصہ ہے۔ ڈاکٹر شفیق نے سرکاری ملازمت کو خیرباد کہہ کر پشاور کے ایک نجی اسپتال میں ملازمت کرلی، لیکن عسکریت پسندوں نے ان کا تعاقب جاری رکھا۔
آخر انہیں پشاور کو چھوڑ کر لاہور آنا پڑا، لیکن عسکریت پسند لاہور تک آپہنچے، ان پر اس وقت کی خیبرپختون خوا (جو تب تک صوبہ سرحد تھا) کی حکومت کا دباؤ تھا کہ وہ وزیرستان میں آکر کام کریں۔ ڈاکٹر شفیق لاہور چھوڑ کر پاک پتن اور پھر دربدر خاک بسر ہونے لگے۔ آخر انہوں نے کراچی میں آکر ایک نجی اسپتال میں پریکٹس شروع کی، لیکن حیرت و بدقسمتی ہے کہ انہیں کراچی پہنچ کر بھی دھمکیاں دی گئیں۔ انتہاپسند صرف ڈاکٹر شفیق پر ہی دباؤ نہیں ڈال رہے تھے بل کہ ان کا پورا خاندان ان کے عتاب کا شکار تھا۔ ان کے والد اس دباؤ کو برداشت نہ کرسکے اور انہیں برین ہیمبرج ہوگیا، وہ زندہ تو بچ گئے لیکن معمولاتِ زندگی ادا کرنے کے قابل نہ رہے۔
ڈاکٹر شفیق احمد اپنی اہلیہ اور دو بچوں کی کفالت کے ساتھ اپنے گھر کی کفالت کر رہے تھے، لیکن ان حالات میں وہ کام کرنے کے قابل کیسے رہتے وہ زیربار ہوتے چلے گئے۔ آخر انہوں نے یونان جانے کا فیصلہ کیا۔ یونان پہنچ کر ڈاکٹر شفیق کو انتہائی کوششوں کے بعد جلاوطن کی حیثیت تو مل گئی، لیکن ان کی اہلیہ، چار سال کا بیٹا اور سات سال کی بیٹی اب تک یونان میں یہ حیثیت حاصل نہ کرسکے۔ ڈاکٹر شفیق کی زندگی انتہائی ابتر اور شدید نفسیاتی و معاشی مسائل کے درمیان گھری ہوئی ہے۔ لیکن وہ جواں مردی سے ان حالات کا مقابلہ کر رہے ہیں۔
ڈاکٹر شفیق کے بھائی ریاض احمد اور ان کی بہن صوبہ پختون خوا کے کئی دوسرے بدنصیب لوگوں کی طرح کینسر جیسے موذی اور جان لیوا مرض کا شکار ہوگئے ہیں۔ ریاض احمد کو بلڈکینسر اور ان کی بہن کو جگر کا کینسر ہے۔ ریاض احمد کو یقین ہے کہ یہ مہلک مرض انھیں اس زہرآلود کیمیائی مواد کے باعث لاحق ہوا ہے جو اس جنگ زدہ خطے میں پھیلا ہوا ہے۔ ریاض احمد کا کہنا صحیح ہے یا غلط اس کی کھوج طب اور انسانی حقوق سے وابستہ اداروں کو کرنی چاہیے۔
ریاض احمد اور ان کی بہن کی زندگی بچانے کے لیے ان کے والد جو خود شوگر، بلند فشار خون اور برین ہیمبرج کا شکار ہیں، نے اپنی ساری جائیداد فروخت کردی۔ ڈاکٹر شفیق احمد اب یونان میں بے روزگار ہونے کی وجہ سے اپنے خاندان کی مالی مدد نہیں کرسکتے۔ ان حالات نے ایک ہنستا بستا خاندان اجاڑ کر رکھ دیا ہے۔ ریاض احمد کا علاج پاکستان میں ممکن ہے جو بون میرو ٹرانسپلا نٹ کہلاتا ہے، جس کے لیے 25 لاکھ روپے کی خطیر رقم درکار ہے۔ انہیں ہر ہفتے 6 ماہ تک ایک انجکشن لگتا ہے، جس کی قیمت 90 ہزار روپے فی انجکشن ہے۔
ان کی بہن جو جگرکے کینسر میں مبتلا ہے کے لیے ہر ہفتے 40 ہزار روپے کی دوائیں درکار ہیں۔ ریاض احمد کی عمر 33 سال ہے اور وہ 3 بچوں کے والد ہیں۔ وہ بیمار ہونے سے قبل ایک پرائیویٹ ادارے میں کام کرتے تھے جہاں سے انہیں فارغ کردیا گیا ہے۔ ان کی ہم شیرہ کی عمر 25 سال ہے اور وہ ایک بچی کی ماں ہے۔
کیا ہے یہ سب کچھ، کیوں ہے؟ کون تدارک کرے گا اس کا؟ ہم سب بس زبانی جمع خرچ کرتے رہیں گے؟ ہمارے حکم راں اپنے سینے میں دل رکھتے ہیں؟ ہاں یہ ریاست کی ذمے داری نہیں ہے کہ وہ ہر فرد کو صحت کی سہولت فراہم کرے؟ پڑھ لی آپ نے یہ کتھا کہانی، لکھنا کتنا آسان ہوتا ہے، ہاں سننا بھی تو اک شغل ہے ناں، جس پر بیت رہی ہو۔۔۔۔۔جو ہر پل موت کے منہ میں جارہا ہو، جس کی عزت نفس۔۔۔۔۔۔! رہنے دیجیے۔ میرا قلم ساتھ چھوڑ رہا ہے، ہے کوئی جو یہ تحقیق کرنے کی زحمت کرے کہ خیبر پختون خوا میں کینسر کے مریضوں میں اچانک اتنا اضافہ کیسے ہوگیا ہے؟ میں رخصت ہوا۔
درد تو خیر کس نے دیکھا ہے
زخم بھی کیا نظر نہیں آتا