سی پیک اقتصادی انقلاب کا قومی منصوبہ

بعض پڑوسی ملک بد نیتی، تنگ نظر تزویراتی و معاشی مفادات اور بلاجواز مخاصت کی وجہ سے سی پیک سے خائف ہیں


Editorial March 16, 2017

پاک چین اقتصادی راہداری منصوبہ کا تاریخی تناظر بین الاقوامی اقتصادی حلقوں میں زیر بحث ہے، اسے پڑوسی ملک بھی رشک کی نظر سے دیکھ رہے ہیں، یہ خطے کا غیر معمولی معاشی روڈ میپ کا حامل دوطرفہ منصوبہ ہے۔ ان حقائق کی بازگشت بدھ کو شہر قائد میں ایکسپریس میڈیا گروپ کے زیراہتمام پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے کو درپیش چیلنجز اور امکانات کے موضوع پر منعقدہ سیمینار میں سنائی دی۔ فاضل مقررین نے مشورہ دیا کہ سی پیک اقتصادی انقلاب کا قومی منصوبہ ہے، اسے متنازع نہ بنایا جائے۔

گورنر سندھ محمد زبیر نے اپنی تقریر میں کہا کہ سی پیک منصوبے سے جس کی سرمایہ کاری مالیت 55 ارب ڈالر تک پہنچ چکی ہے تمام صوبوں میں روزگار کے نئے مواقع مہیا ہوں گے، وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے اپنے تفصیلی خطاب کے دوران سی پیک کے مختلف پہلوؤں کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ منصوبے سے خطے میں امن کے قیام اور غربت کم کرنے میں مدد ملے گی، کراچی میں چین کے قونصل جنرل وانگ یو نے کہا ہے کہ سی پیک معاشی استحکام اور ترقی کی راہداری ہے، چینی کمپنیاں سرمایہ کاری کے ساتھ ٹیکنالوجی اور مہارت بھی عام کررہی ہیں، ایم کیو ایم پاکستان کے سربراہ ڈاکٹر فاروق ستار کے مطابق سی پیک کو پوری پاکستانی قوم اون کرتی ہے، تاہم انھوں نے کہا کہ منصوبہ اسی وقت کامیاب ہوگا جب ہر فرد اونرشپ لے، کراچی چیمبر آف کامرس کے صدر شمیم فرپو نے کہا ہے کہ سی پیک سے دنیا میں پاکستان کی ساکھ بہتر ہوئی اور اس کا امیج بدل گیا ہے۔

سیمینار سے سندھ اینگرو کول مائننگ کمپنی کے سی ای او شمس الدین شیخ کے علاوہ سیمینار کے اسپانسر رفیع گروپ کے سی ای او عبداﷲ سمیع شیخ اور فاسٹ مارکیٹنگ کے نعمان احمد باجوہ نے بھی خطاب کیا جب کہ سابق گورنر اسٹیٹ بینک یاسین انور، معروف سرمایہ کار عقیل کریم ڈھیڈھی اور کراچی میں تعینات سوئٹزرلینڈ، جرمنی اورکوریا کے قونصل جنرلز نے بھی شرکت کی۔ ایکسپریس میڈیا گروپ کے سی ای او اعجاز الحق نے شرکا کو خوش آمدید کہتے ہوئے سیمینار کی سلسلے کے مقاصد پر روشنی ڈالی۔

بلاشبہ حقیقت پسندی کا تقاضہ تو یہ ہے کہ سی پیک کے قومی منصوبہ کی اہمیت ہر قسم کے شک و شبہ سے بالا تر رہے اور اس کے اقتصادی نتائج پر مکمل سنجیدہ و ماہرانہ رائے دینی چاہیے تاکہ دو دوست ملکوں کی بے مثال رفاقت اور ایک دوسرے کے ساتھ اشتراک و تعاون کے لازوال رشتے کو استقامت کے ساتھ بروئے کار لانے کی جو تاریخ رہی ہے اس کے بارے میں کسی خیال آرائی اور اندیشوں کی گنجائش ہی نہ رہے۔کیونکہ ملکی تاریخ کا یہ کثیرالمقاصد منصوبہ ہے جس کا نچوڑ پاک چین تعلقات کی ہمالیائی رفعت اور سمندروں جیسی گہرائی کی شکل میں ہمارے سامنے ہے جس کا دنیا بھی اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کر رہی ہے، یہ نیا روڈ میپ ہو گا، اسے ماہرین تقدیر بدلنے والے پروجیکٹ کا نام دیتے ہیں۔

وزیراعظم نے بلوچستان کے دورے کے دوران میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ سی پیک میں شمولیت کے لیے 52 ملکوں نے رابطہ کیا ہے، وزیراعظم کے بقول بلوچستان میں مختلف منصوبوں پر کام ہورہا ہے اور صرف گوادر شہر کے لیے 25ارب روپے کا ماسٹر پلان منظور کیا گیا ہے، ادھر بیجنگ میں ڈائریکٹر جنرل آئی ایس پی آر میجر جنرل آصف غفور نے ایک پریس کانفرنس میں بتایا کہ پاک فوج سی پیک کی سیکیورٹی یقینی بنائے گی، راہداری منصوبہ سے منسلک 900 کلومیٹر طویل شاہراہ تعمیر ہو چکی ہے جو سی پیک کو فعال بنانے کا ایک بنیادی جزو ہے،اور اس کی منصوبہ بندی 2013ء میں شروع کی گئی، یہ منصوبہ کاشغر اور چین کے صوبہ سنکیانگ کو بلوچستان میں گوادر بندرگاہ اور پھر اس سے خطے کے دیگر علاقوں کو ملائے گا، یہ چین کے ''بیلٹ اینڈ روڈ'' منصوبہ کا اہم حصہ ہے۔

دوسری بات یہ کہ پاک چین اقتصادی راہداری منصوبہ ملک میں روبہ عمل لائے جانے والے اب تک کے بیشتر قومی منصوبوں میں بلاشبہ منفرد قرار دیا جا سکتا ہے جس سے پورے پاکستان سمیت خطے کے دیگر ممالک بھی مستفید ہونگے، یہ الگ بات ہے کہ بعض پڑوسی ملک بد نیتی، تنگ نظر تزویراتی و معاشی مفادات اور بلاجواز مخاصت کی وجہ سے سی پیک سے خائف ہیں مگر وقت ثابت کر دے گا کہ سی پیک خطے میں امن و استحکام کی نوید اور معاشی طبل ہے جس کی آواز آج جو ملک نہیں سنے گا کل اسے پشیمانی ہو گی کہ وہ اس ہمہ جہتی منصوبہ کا حصہ بننے سے کیوں محروم رہ گیا۔

سی پیک سے پاک بحریہ بھی منسلک ہے، اس نے گوادر پورٹ کی سیکیورٹی کے لیے پٹرولنگ نظام وضع کرلیا ہے، جس میں گن بوٹس، طیارے اور ہیلی کاپٹر 24 گھنٹے حفاظتی گشت پر ہوںگے، جب کہ 13 ہزار چینی انجینئرز، ماہرین اور کاریگروں کی سیکیورٹی پر پاک فوج کے 17 ہزار جوان تعینات ہوںگے۔ یوں گلوبل تناظر ،خطے میں امن و استحکام، ترقی، ملکی سلامتی اور تجارت کے فروغ کے امکانات کو سی پیک سے الگ نہیں کیا جا سکتا۔ یہ گیم چینجر منصوبہ ثابت ہو گا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں