بھارتی جمہوریت ذات پات کے حصار میں

ہم جمہوریت کے جتنے دعوے چاہے کریں ہمارے معاشرے سے ذات پات کا نظام ہر گز ختم ہوتا نظر نہیں آتا


کلدیپ نئیر March 16, 2017

ہم جمہوریت کے جتنے دعوے چاہے کریں ہمارے معاشرے سے ذات پات کا نظام ہر گز ختم ہوتا نظر نہیں آتا۔ ہر روز ملک کے کسی نہ کسی علاقے میں دلتوں کے زندہ جلائے جانے کے واقعات رونما ہوتے ہیں۔ ابھی اگلے ہی دن دہلی کے قریب دادریDaddary کے مقام پر ایک پورے دلت گھرانے کو آگ میں جھونک دیا گیا۔ حتیٰ کہ وفاقی دارالحکومت میں جواہر لعل نہرو یونیورسٹی کے ایک طالب علم نے اپنے ساتھ ناروا امتیازی سلوک سے دل برداشتہ ہو کر خود کو پھندے سے لٹکا لیا۔ 28 سالہ ایم فل کا طالب علم جو جواہر لعل نہرو یونیورسٹی میں داخلے کے خواب دیکھتا رہا تھا اور جسے اپنی خوش قسمتی سے چوتھی کوشش میں بالآخر اس موقر مادر علمی میں داخلہ مل گیا۔

اس کا تعلق ملک کے جنوبی علاقے مٹھو کرشنن سے تھا اس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ بہت سنجیدہ مزاج نوجوان تھا جو صرف اپنے کام سے کام رکھتا تھا۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ اس الم ناک واقعے کا نہ تو معاشرے پر کوئی اثر ہوا ہے چہ جائیکہ پورے ملک میں اس کا کوئی اثر نظر آیا ہو۔ یہ بھی ایسا ہی واقعہ ہے جسے بآسانی فراموش کر دیا جائے گا حالانکہ اسقدر الم ناک واقعے پر پورا ملک ہل کر رہ جاتا۔ اونچی ذات کے کسی طالب علم کا واقعہ ہوتا تو بہت سے طلبہ مطالبہ کرتے کہ اس کا پارلیمنٹ میں نوٹس لیا جائے، لیکن چونکہ یہ نچلی ذات کے نوجوان کا واقعہ تھا جسے ہندو معاشرے میں اچھوت قرار دیا جاتا ہے لہٰذا اس کے حق میں کوئی سرگوشی بھی سنائی نہیں دی۔ اس حوالے سے میڈیا بھی برابر کا قصور وار ہے کیونکہ اس نے یہ خبر دوسری کئی بڑی خبروں کی ضمنی کے طور پر شایع کی ہے۔ جس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ چونکہ میڈیا میں بھی زیادہ تر اونچی ذات کے لوگ کام کرتے ہیں لہذا ان کا مائنڈ سیٹ بھی وہی پرانا ہے حالانکہ نوجوانوں کو پر جوش اور انقلابی مزاج کا ہونا چاہیے مگر نچلی ذات والوں کے لیے وہ پُر جوش اور انقلابی ہونے کی کوئی ضرورت محسوس نہیں کرتے۔

یہ ظاہر ہے کہ ہلاک ہونیوالے طالب علم کے والد اور چند دیگر طلباء کا خیال ہے کہ یہ خودکشی نہیں بلکہ اسے قتل کیا گیا ہے تاہم پولیس نے اپنی بچت کی خاطر اسے خودکشی ہی قرار دیا ہے۔ طالب علم کے والدین نے سرکاری تحقیقاتی بورڈ سی بی آئی سے تفتیش کرانے کا مطالبہ کیا ہے لیکن سی بی آئی بھی دہلی پولیس پر انحصار کرتا ہے۔ گزشتہ سال اسی طرح کا ایک واقعہ حیدر آباد یونیورسٹی کے ایک طالب علم روہت وزولا کے ساتھ بھی پیش آیا جس کا تعلق بھی دلت کمیونٹی کے ساتھ تھا لیکن یہ معاملہ طلباء کی طرف سے زبردست احتجاج اور شور شرابے کی وجہ سے اعلیٰ حکام تک پہنچ گیا جنہوں نے یونیورسٹی ڈیپارٹمنٹ کے محافظ عملے کو تبدیل کر دیا۔ مٹھو کرشنن کے طالب علم کی ہلاکت کے واقعے سے روہت کی ہلاکت کا واقعہ بھی یاد آ گیا جس پر حیدر آباد یونیورسٹی کو مورد الزام ٹھہرایا گیا ہے۔

نہرو یونیورسٹی کے طالب علم نے ایک فیس بک پوسٹ میں نہرو یونیورسٹی کی نئی داخلہ پالیسی کو ہدف تنقید بنایا اور اس حوالے سے ایسی بہت سی مثالیں پیش کیں جن میں اسے امتیازی سلوک کا نشانہ بنایا گیا تھا۔ آخر یونیورسٹیوں میں ہونے والے اس قسم کے واقعات کس چیز کی نشان دہی کرتے ہیں؟ ہمیں اپنا ذہن استعمال کر کے دیکھنا چاہیے کہ دلت طلباء کو اعلیٰ تعلیمی اداروں میں اس قسم کے حالات کیوں پیش آتے ہیں۔ اس بات کو زیادہ وقت نہیں گزرا جب حیدر آباد یونیورسٹی کو ان تمام طلباء کی معطلی ختم کرنا پڑی تھی جن کو روہت کی موت کے بعد معطل کیا گیا تھا۔ حیدر آباد میں 2007ء سے 2013ء کے دوران درجن بھر سے زائد دلت طلباء کی خود کشی کے واقعات رونما ہوئے ہیں۔ شمالی علاقے میں آل انڈیا انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز دہلی میں جنوری 2007ء سے اپریل 2011ء کے دوران طلباء کی خودکشی کے 14 واقعات رپورٹ کیے گئے۔

ایسے لگتا ہے کہ دلت طلباء کی پے در پے خودکشیوں کا ہم نے نوٹس لینا ہی چھوڑ دیا ہے۔ اب اعلیٰ تعلیم کے اداروں میں طلباء میں بہت سی ذاتیں شامل ہو گئی ہیں جیسا پہلے کبھی نہ ہوا تھا۔ 2008ء میں اکٹھے کیے گئے اعداد و شمار کے مطابق اعلیٰ تعلیم میں 4 فیصد طلباء کا تعلق قبائل سے' 13.5 فیصد کا تعلق شیڈول کاسٹ سے اور 35 فیصد کا تعلق دوسرے پسماندہ طبقوں سے ہے۔ صرف ہندوؤں کی شرح طلباء میں 85فیصد ہے جس کے بعد مسلمانوں کا نمبر آتا ہے جن کی شرح 8 فیصد ہے جب کہ عیسائی صرف 3 فیصد ہیں اور 25میں سے23 دلت ہیں۔ اس حوالے سے کرائی جانے والی ریسرچ سے ظاہر ہوتا ہے کہ امتیازی سلوک کے ساتھ توہین آمیز رویہ بھی نچلی ذات کے طالب علموں کو دلبرداشتہ ہونے کی بڑی وجہ ہے۔ گویا خودکشیوں کی بڑی وجہ ذات پات کی تفریق ہے۔ یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ ایسے تعلیمی ادارے جہاں پیشہ وارانہ تعلیم دی جاتی ہے وہاں پر ذات پات کا تعصب زیادہ شدید ہوتا ہے لیکن بھارتی معاشرے میں اس کو کوئی غیرمعمولی چیز نہیں سمجھا جاتا بلکہ معمول کا حصہ تصور کیا جاتا ہے۔

2010ء میں پروفیسر میری تھورنٹن اور ان کے ساتھیوں نے بھارت اور انگلینڈ میں اعلیٰ تعلیم کے 5 اداروں میں تحقیقاتی مطالعہ کیا جس میں یہ ظاہر ہوا کہ اعلیٰ تعلیم کے اداروں میں طلباء و طالبات گروپوں کی صورت میں علیحدہ علیحدہ ہو جائے ہیں اور اس طرح ان میں مسابقت کی فضا برقرار رہتی ہے۔ ان گروپوں میں نسلی امتیاز مذہبی امتیاز' قومیت' ذات پات اور تذکیر و تانیث کے حساب سے گروپنگ کی جاتی ہے۔ 2013ء میں میمسن اووچگن نے بھارت کی ایلیٹ یونیورسٹی میں دلت طلباء کے تجربات پر ایک مطالعاتی تحقیق کی اور یہ ثابت ہوا کہ اس یونیورسٹی میں بھی ذات پات کی تفریق اپنی شدت سے موجود ہے۔ یونیورسٹی کا ماحول دلت اور غیر دلت طلباء میں تفریق کو اور زیادہ واضح کرتا ہے جب کہ دلت طالب علم کھلے اور خفی امتیازی سلوک کا نشانہ بنتے ہیں۔ جیسے کہ ہم دیکھتے ہیں کہ اعلیٰ تعلیم کے اداروں میں ذات پات کے تعصبات نہایت شدت کے ساتھ موجود ہیں لیکن کوشش یہ کی جاتی ہے کہ اس پہلو کو اجاگر نہ کیا جائے۔

یہی وجہ ہے کہ خودکشی کے واقعات کو تعصبات اور امتیازی سلوک کا نتیجہ قرار نہیں دیا جاتا حالانکہ خودکشی کے 25 واقعات میں سے 23 دلت طلباء تھے اور یہ محض اتفاق نہیں تھا۔ اس مسئلے کے حل کے لیے پالیسیاں تشکیل دینے والوں کو حقیقت کو تسلیم کرنا ہو گا کیونکہ انکار کرنے سے مسئلہ حل نہیں ہو سکتا۔ بعض لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ اب حالات بہتر ہو رہے ہیں لیکن ذات پات کے نظام کی شرمندگی کسی نہ کسی شکل میں بدستور موجود ہے۔ دلت طلباء اور اساتذہ اور انتظامیہ کے تعلقات میں افراط و تفریط کو واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔ میرے خیال میں ہمیں دلت اور دوسرے نچلی ذات کے طلباء کے حوالے سے قانونی تحفظ فراہم کرنے کے انتظامات کرنے چاہئیں اور تمام فیصلہ کن مراحل میں دلتوں کو بھی شامل کیا جانا چاہیے۔

(ترجمہ: مظہر منہاس)

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔