پاکستانی سیاست کی باگ دوڑ
پاکستانی سیاست کی باگ ڈور قیام پاکستان کے تقریباً فوراً بعد ہی امریکا کے ہاتھ رہی ہے
پاکستانی سیاست کی باگ ڈور قیام پاکستان کے تقریباً فوراً بعد ہی امریکا کے ہاتھ رہی ہے۔ اس امریکا کے جو آج جمہوریت کے راگ سے غریب ملکوں کے عوام کو سہانے سپنے دکھا رہا ہے اور لوگ اس خواب پر یقین رکھتے ہیں۔ کہیں اسلام کی چاشنی کا ذائقہ دیتا ہے جیساکہ مصر میں دیا۔ صدارت کے لیے محمد مرسی کو انتخابات میں رکاوٹ نہ ڈالی اور آنے دیا۔ مگر جوں ہی مرسی نے اسرائیل کے خلاف لائن لی تو اقتدار سے محروم اور چین کی بانسری بجا رہے ہیں۔ اسی طرح جب عوام کا ریلا سن 50ء کی دہائی میں عوامی انقلاب کی سمت بڑھ رہا تھا تو ایوب خان کا مارشل لا آ گیا۔
گرانی سے نجات کی آواز لگا کر ٹریڈ اور انڈسٹری کا پہیہ جام کیا اور اپنی سیاست کو آگے بڑھایا۔ باوجود اس کے کہ ان دنوں نہ لینڈ فون کی سہولت عام آدمی کو میسر تھی اور نہ موبائل کا تصور تھا کراچی شہر میں اردو کا ایک بڑا اخبار تھا شام کو چند اخبار۔ ٹی وی نیوزکا ہرگھنٹے بعد نہ کوئی دورانیہ، مگر پھر بھی بڑے جلسے اور حکومت کے خلاف مزاحمتی تحریکیں تھیں، پوسٹر اسٹینل کے پمفلٹ اور فرداً فرداً کے علاوہ علاقائی کلاسیں یعنی ہر علاقے میں اسٹڈی سرکل جس کو عام طور پر بائیں بازو کے فاضل کارکن چلاتے تھے۔ کراچی کی آبادی ان دنوں 40-45 لاکھ کے نفوس پر مشتمل تھی مگر سیاسی پارٹیوں کی آواز پر بڑے بڑے میدان اور پارک بھر جاتے تھے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ اگر ایوب خان کا مارشل لا نہ آتا تو ملک میں روس یا چین کے طرز کی حکومت آ جاتی مگر ایسا کیوں کر ممکن تھا۔ اس لیے کہ لیڈر بالکل منظم تھے ملک کی قیادت ان ٹریڈ یونین اور ہاری لیڈروں کے ہاتھ تھی جو حسین ڈسلوا نارتھ ناظم آباد سے ملیر ہالٹ تک پیدل سفرکرتے تھے۔
یہ ان جیسے لیڈروں کی بات ہے جن میں سے ایک لیڈر حسن ناصر تھے جن کی شہادت پر حیدرآباد دکن سے ان کی ماں جہاز چارٹر کر کے لاہور آئیں۔ وہ لیڈرجو عوام سے مخلص تھے اور عوام ان سے مخلص تھے مگر وقت کے اس فاصلے نے سب کچھ بدل کر رکھ دیا اب لیڈر جلسہ گاہ میں ہیلی کاپٹر پر آتے ہیں اور جلسہ گاہ کے قریب کھڑے ہو جاتے ہیں تاکہ عوام پر اپنی امارت سے اثر ڈالیں۔ بھلا ان کو عوام سے کیا تعلق پاکستان میں کوئی ایسی پارٹی نہیں جو عوام کے دکھ درد کے مداوے کے لیے کوشاں ہو۔ اور نہ عوام کو اپنی قسمت بدلنے کا شوق ہے۔ ورنہ وہ ایسی چھوٹی پارٹیوں سے مربوط ہوتے جن کے تانے بانے کم یا زیادہ پسماندہ طبقات سے ملتے ہیں۔
اول الذکر لیڈر جن کا نام اوپر لیا گیا جو حسین ڈسلوا سے اور پٹھان کالونی سے ملیر ہالٹ تک آبادی سے گزرتے، راتیں جھونپڑیوں میں گزارتے اور خود کواس کا حصہ بناتے وہ تھے شہید حسن ناصر مگر اب امارات ہی قابل ذکر ہے۔ پاکستان میں عرب شہزادوں کی غلامی کا رجحان ہے بلکہ ہمارے ملک کو ان کی کارگاہ بنا رکھا ہے یہ وہ ملک ہے جو ہر برس ایکسپورٹ کے اہداف بناتا ہے مگر خزانے کا پیٹ زرمبادلہ سے خالی ہوتا ہے، جو بھی زر مبادلہ اس وقت محفوظ ہے وہ سمندر پار تارکین وطن کی کاوشوں کا مرہون منت ہے۔ وہ سبزی سے لے کر کاسمیٹکس تک امپورٹ کرنے پر خرچ ہو رہا ہے۔ حالانکہ لوکل کاسمیٹکس ملک کے موسم کے اعتبار سے بنائے گئے ہیں مگر سپر اسٹار سیلز اسٹور مقامی تیار کردہ مصنوعات کو پس پشت ڈال دیتے ہیں اور مقامی لیبر قوانین سے بالاتر ہیں۔
اسٹور کھلنے کے اوقات بند ہونے کے اوقات سے بالاتر ہیں سال میں صرف 2 یا تین چھٹیاں مشکل سے دس محرم، عید بقر عید اور نہ اوقات کار پر کوئی قانون نہ تنخواہوں کی کوئی خاص پابندی۔ ظاہر ہے داخلی طور پر ملک قرضے کی بنیاد پرگروی ہوتا جا رہا ہے ہر چیز ٹھیکے پر دی جا رہی ہے، مگر عرب ساہوکار ہمارے ملک کو یمن کی پراکسی وار میں دھکیلنا چاہتے ہیں اوراب ہمارے چیف سینیٹر رضا ربانی کئی برس سے طلبا یونین بحال کروانے میں مصروف ہیں مگر ابھی معاملہ جہاں تھا وہیں پڑا ہے۔ سوشل میڈیا پر البتہ کھیل ہو رہا ہوتا ہے مگر کوئی سنجیدہ معاملہ نہیں اٹھایا جاتا اور اگر کوئی سنجیدہ معاملہ اٹھاتا ہے تو وہ خود اٹھ جاتا ہے، حالانکہ میڈیا پر کوئی مباحثہ کرنے کی ضرورت نہیں ہے تمام معاملات پر مباحثے میدانوں میں کھلیانوں میں اور بڑے بڑے آڈیٹوریم میں منعقد کرنے کی ضرورت ہے اور آج لوگوں کو جمع کرنا بھی آسان ہے مگر الیکٹرانک میڈیا کی وسعت نے خود نمائی کو ایک صنعت کا درجہ دے دیا ہے اور ہر فرد چار جملے لکھ کر واہ واہ سمیٹنے میں مصروف ہے۔
اب کہاں وہ لوگ جو دوسروں کے مفادات کے لیے اپنی جانیں قربان کر دیا کرتے تھے۔ اب فوٹو سیشن یعنی سیاست کیمرے کے اردگرد گھوم رہی ہے۔ ابھی وہ دن گزرے ہیں جب اسلامی ممالک کی فوج تیار ہو رہی تھی اور اب ایک نئی خبر ہے کہ ایشیائی ممالک کی پارلیمنٹ سینیٹ کے چیئرمین تخلیق دیے جا رہے ہیں بلکہ پاکستان میزبانی کے فرائض انجام دے رہا ہے گوکہ یہ عمل اچھا ہے مگر بھارت کی الگ راہ، اس کانفرنس کی کامیابی کے لیے ایک اہم ملک ہے مگر چین کی شرکت نے کسی حد تک اس کمی کو پورا کردیا۔ میاں رضا ربانی نے خطاب میں بڑی عمدہ گفتگو کی خصوصاً ان کا یہ بیان کہ ایشیائی ممالک کو اپنے فیصلے خود کرنے چاہئیں مگر ایشیائی ممالک جب تک پست رہے جب تک خطے میں چین ایک بااثر ملک کی طرح نہ ابھرا اور عالمی افق پر روس کا ہمنوا نہ بنا مگر حال ہی کی بات ہے کہ شمالی کوریا نے جو 4میزائل تجربات کے لیے داغے اس پر مغربی ممالک اور امریکا کا منفی ردعمل تھا۔
مگر افسوس کی بات ہے اس مسئلے پر امریکا اور اس کے اتحادیوں کا ردعمل منفی رہا اور پاکستان نے بھی کسی قدر کم ہمتی کا ثبوت دیا اور شمالی کوریا سے ایک قسم کا منفی رویہ اختیار کیا جو اس کانفرنس کی توثیق نہیں کرتا۔ کیونکہ دنیا اب روس چین کے اتحاد کی بدولت یونی پولر اثرات ختم کر چکی ہے ورنہ اب تک جو کچھ امریکا کہتا تھا وہی حرف آخر ہوتا تھا۔ ذوالفقار علی بھٹو نے امریکا کو آج نہیں بلکہ 1975ء میں سفید ہاتھی کے نام سے یاد کیا تھا امریکا نے دنیا کے ساتھ دغا کیا اور آزادی اور جمہوریت کے نشان کو پھانسی دے دی گئی۔
ایسا ہی کچھ آج کل مصر میں محمد مرسی کے ساتھ ہونے کو ہے خیر آج تو یہ بات اس فورم سے اٹھائی جا رہی ہے کہ ایشیائی سیاست پر استعماری اثرات ہیں اوریہ کانفرنس ہمارے ملک میں ہو رہی ہے۔ مگر یہاں بھی ایک موہوم سی مثبت امید ہے کیونکہ اس میں سب سے بڑا ملک نہیں ہے جو نہ صرف آبادی کے اعتبار سے بلکہ معاشی اعتبار سے سب سے مضبوط ہے۔ گوکہ وہ سرمایہ دار ملک کلی طور پر نہیں اور نہ چین نے غلبہ کی سیاست میں قدم رکھا ہے مگر ایک چیز واضح ہے کہ اب دنیا میں دو بلاک ہیں ایک طرف روس تو دوسری طرف امریکا کے اتحادی ہیں اور مغرب اب ایک الگ سیاست کی سمت جا رہا ہے البتہ بھارت جس کی تعمیر و ترقی میں پنڈت جواہر لعل نہرو نے نصف صدی لگادی اور ترقی پسند ملک بن گیا فلسطین کی تنظیم آزادی کا حامی تھا۔
اب وہاں اسرائیل سے گٹھ جوڑ ہے اورافسوس کی بات یہ ہے کہ بعض عرب ممالک اس گٹھ جوڑکا حصہ ہیں مگر اب تک یہ واضح نہ ہوسکا کہ پاکستان کی وزارت خارجہ کا سفینہ کس سمت جارہا ہے کیونکہ اب تک اس کانفرنس میں جو اعلانات ہورہے ہیں وہ خاصے آزادانہ اور مثبت ہیں اور اس میں ترقی پسندانہ رجحانات کی عکاسی اور بالادستی اور جنگ سے انحراف نظر آرہا ہے۔ اس کانفرنس میں 23 ممالک کی شرکت ایک قابل تعریف عمل ہے اورخصوصاً شام کے وفد کی شرکت بڑی اہمیت کی حامل ہے۔ طلبا یونین کا معاملہ اب تک جوں کا توں ہے اس کی وجہ سے ملک غیر متحرک لیڈرشپ کے ہاتھوں یرغمال ہے اور دراز رقم والوں کے لیے کاروبار سے لے کر لیڈرشپ ان کے حوالے ہے۔
رہ گیا سوشل میڈیا سے اگرکوئی انقلاب آسکتا توآجاتا یہ تو ایک قسم کے خیالات کا اتفاق اور تصادم ہے مگرکسی انقلاب کو جنم دینے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔اس کی اشتراکیت ہو یا دقیانوسی خیالات، دل کو بہلانے کا ایک ذریعہ اور بیٹھے بیٹھے یا لیٹے لیٹے اتفاق یا اختلاف کا ذریعہ، البتہ اگر اس کوکسی ماہانہ جلسے یا ادبی سیاسی مورچہ لگانے کے لیے استعمال کیا جائے تو یقینا لیڈروں کی من مانی ممکن نہیں پاکستانی لیڈردنیا کے معاملات پر تیر اندازی کرتے ہیں مگر اپنی آبادی کے لیے کوئی پروگرام نہیں کرتے۔ بین الاقوامی معاملات میں انھوں نے عوام کو الجھا رکھا ہے روزگار، اشیائے خورونوش، تعلیم وصحت، عوام کو رہائش کی سہولت یا سفری سہولت ہرایک پر زبان بند ہے۔ ایسی صورت میں انتخابات کیوں کر عوام کی قسمت بدل سکتے ہیں لہٰذا اب ایک ایسا تاریخی گھن چکر وجود میں آنے جا رہا ہے جو عوام کو غلام بنا کے رکھ دے گا، لہٰذا سوشل میڈیا کا استعمال شعور کے علاوہ عمل کے لیے بھی کیا جانا چاہیے۔
گرانی سے نجات کی آواز لگا کر ٹریڈ اور انڈسٹری کا پہیہ جام کیا اور اپنی سیاست کو آگے بڑھایا۔ باوجود اس کے کہ ان دنوں نہ لینڈ فون کی سہولت عام آدمی کو میسر تھی اور نہ موبائل کا تصور تھا کراچی شہر میں اردو کا ایک بڑا اخبار تھا شام کو چند اخبار۔ ٹی وی نیوزکا ہرگھنٹے بعد نہ کوئی دورانیہ، مگر پھر بھی بڑے جلسے اور حکومت کے خلاف مزاحمتی تحریکیں تھیں، پوسٹر اسٹینل کے پمفلٹ اور فرداً فرداً کے علاوہ علاقائی کلاسیں یعنی ہر علاقے میں اسٹڈی سرکل جس کو عام طور پر بائیں بازو کے فاضل کارکن چلاتے تھے۔ کراچی کی آبادی ان دنوں 40-45 لاکھ کے نفوس پر مشتمل تھی مگر سیاسی پارٹیوں کی آواز پر بڑے بڑے میدان اور پارک بھر جاتے تھے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ اگر ایوب خان کا مارشل لا نہ آتا تو ملک میں روس یا چین کے طرز کی حکومت آ جاتی مگر ایسا کیوں کر ممکن تھا۔ اس لیے کہ لیڈر بالکل منظم تھے ملک کی قیادت ان ٹریڈ یونین اور ہاری لیڈروں کے ہاتھ تھی جو حسین ڈسلوا نارتھ ناظم آباد سے ملیر ہالٹ تک پیدل سفرکرتے تھے۔
یہ ان جیسے لیڈروں کی بات ہے جن میں سے ایک لیڈر حسن ناصر تھے جن کی شہادت پر حیدرآباد دکن سے ان کی ماں جہاز چارٹر کر کے لاہور آئیں۔ وہ لیڈرجو عوام سے مخلص تھے اور عوام ان سے مخلص تھے مگر وقت کے اس فاصلے نے سب کچھ بدل کر رکھ دیا اب لیڈر جلسہ گاہ میں ہیلی کاپٹر پر آتے ہیں اور جلسہ گاہ کے قریب کھڑے ہو جاتے ہیں تاکہ عوام پر اپنی امارت سے اثر ڈالیں۔ بھلا ان کو عوام سے کیا تعلق پاکستان میں کوئی ایسی پارٹی نہیں جو عوام کے دکھ درد کے مداوے کے لیے کوشاں ہو۔ اور نہ عوام کو اپنی قسمت بدلنے کا شوق ہے۔ ورنہ وہ ایسی چھوٹی پارٹیوں سے مربوط ہوتے جن کے تانے بانے کم یا زیادہ پسماندہ طبقات سے ملتے ہیں۔
اول الذکر لیڈر جن کا نام اوپر لیا گیا جو حسین ڈسلوا سے اور پٹھان کالونی سے ملیر ہالٹ تک آبادی سے گزرتے، راتیں جھونپڑیوں میں گزارتے اور خود کواس کا حصہ بناتے وہ تھے شہید حسن ناصر مگر اب امارات ہی قابل ذکر ہے۔ پاکستان میں عرب شہزادوں کی غلامی کا رجحان ہے بلکہ ہمارے ملک کو ان کی کارگاہ بنا رکھا ہے یہ وہ ملک ہے جو ہر برس ایکسپورٹ کے اہداف بناتا ہے مگر خزانے کا پیٹ زرمبادلہ سے خالی ہوتا ہے، جو بھی زر مبادلہ اس وقت محفوظ ہے وہ سمندر پار تارکین وطن کی کاوشوں کا مرہون منت ہے۔ وہ سبزی سے لے کر کاسمیٹکس تک امپورٹ کرنے پر خرچ ہو رہا ہے۔ حالانکہ لوکل کاسمیٹکس ملک کے موسم کے اعتبار سے بنائے گئے ہیں مگر سپر اسٹار سیلز اسٹور مقامی تیار کردہ مصنوعات کو پس پشت ڈال دیتے ہیں اور مقامی لیبر قوانین سے بالاتر ہیں۔
اسٹور کھلنے کے اوقات بند ہونے کے اوقات سے بالاتر ہیں سال میں صرف 2 یا تین چھٹیاں مشکل سے دس محرم، عید بقر عید اور نہ اوقات کار پر کوئی قانون نہ تنخواہوں کی کوئی خاص پابندی۔ ظاہر ہے داخلی طور پر ملک قرضے کی بنیاد پرگروی ہوتا جا رہا ہے ہر چیز ٹھیکے پر دی جا رہی ہے، مگر عرب ساہوکار ہمارے ملک کو یمن کی پراکسی وار میں دھکیلنا چاہتے ہیں اوراب ہمارے چیف سینیٹر رضا ربانی کئی برس سے طلبا یونین بحال کروانے میں مصروف ہیں مگر ابھی معاملہ جہاں تھا وہیں پڑا ہے۔ سوشل میڈیا پر البتہ کھیل ہو رہا ہوتا ہے مگر کوئی سنجیدہ معاملہ نہیں اٹھایا جاتا اور اگر کوئی سنجیدہ معاملہ اٹھاتا ہے تو وہ خود اٹھ جاتا ہے، حالانکہ میڈیا پر کوئی مباحثہ کرنے کی ضرورت نہیں ہے تمام معاملات پر مباحثے میدانوں میں کھلیانوں میں اور بڑے بڑے آڈیٹوریم میں منعقد کرنے کی ضرورت ہے اور آج لوگوں کو جمع کرنا بھی آسان ہے مگر الیکٹرانک میڈیا کی وسعت نے خود نمائی کو ایک صنعت کا درجہ دے دیا ہے اور ہر فرد چار جملے لکھ کر واہ واہ سمیٹنے میں مصروف ہے۔
اب کہاں وہ لوگ جو دوسروں کے مفادات کے لیے اپنی جانیں قربان کر دیا کرتے تھے۔ اب فوٹو سیشن یعنی سیاست کیمرے کے اردگرد گھوم رہی ہے۔ ابھی وہ دن گزرے ہیں جب اسلامی ممالک کی فوج تیار ہو رہی تھی اور اب ایک نئی خبر ہے کہ ایشیائی ممالک کی پارلیمنٹ سینیٹ کے چیئرمین تخلیق دیے جا رہے ہیں بلکہ پاکستان میزبانی کے فرائض انجام دے رہا ہے گوکہ یہ عمل اچھا ہے مگر بھارت کی الگ راہ، اس کانفرنس کی کامیابی کے لیے ایک اہم ملک ہے مگر چین کی شرکت نے کسی حد تک اس کمی کو پورا کردیا۔ میاں رضا ربانی نے خطاب میں بڑی عمدہ گفتگو کی خصوصاً ان کا یہ بیان کہ ایشیائی ممالک کو اپنے فیصلے خود کرنے چاہئیں مگر ایشیائی ممالک جب تک پست رہے جب تک خطے میں چین ایک بااثر ملک کی طرح نہ ابھرا اور عالمی افق پر روس کا ہمنوا نہ بنا مگر حال ہی کی بات ہے کہ شمالی کوریا نے جو 4میزائل تجربات کے لیے داغے اس پر مغربی ممالک اور امریکا کا منفی ردعمل تھا۔
مگر افسوس کی بات ہے اس مسئلے پر امریکا اور اس کے اتحادیوں کا ردعمل منفی رہا اور پاکستان نے بھی کسی قدر کم ہمتی کا ثبوت دیا اور شمالی کوریا سے ایک قسم کا منفی رویہ اختیار کیا جو اس کانفرنس کی توثیق نہیں کرتا۔ کیونکہ دنیا اب روس چین کے اتحاد کی بدولت یونی پولر اثرات ختم کر چکی ہے ورنہ اب تک جو کچھ امریکا کہتا تھا وہی حرف آخر ہوتا تھا۔ ذوالفقار علی بھٹو نے امریکا کو آج نہیں بلکہ 1975ء میں سفید ہاتھی کے نام سے یاد کیا تھا امریکا نے دنیا کے ساتھ دغا کیا اور آزادی اور جمہوریت کے نشان کو پھانسی دے دی گئی۔
ایسا ہی کچھ آج کل مصر میں محمد مرسی کے ساتھ ہونے کو ہے خیر آج تو یہ بات اس فورم سے اٹھائی جا رہی ہے کہ ایشیائی سیاست پر استعماری اثرات ہیں اوریہ کانفرنس ہمارے ملک میں ہو رہی ہے۔ مگر یہاں بھی ایک موہوم سی مثبت امید ہے کیونکہ اس میں سب سے بڑا ملک نہیں ہے جو نہ صرف آبادی کے اعتبار سے بلکہ معاشی اعتبار سے سب سے مضبوط ہے۔ گوکہ وہ سرمایہ دار ملک کلی طور پر نہیں اور نہ چین نے غلبہ کی سیاست میں قدم رکھا ہے مگر ایک چیز واضح ہے کہ اب دنیا میں دو بلاک ہیں ایک طرف روس تو دوسری طرف امریکا کے اتحادی ہیں اور مغرب اب ایک الگ سیاست کی سمت جا رہا ہے البتہ بھارت جس کی تعمیر و ترقی میں پنڈت جواہر لعل نہرو نے نصف صدی لگادی اور ترقی پسند ملک بن گیا فلسطین کی تنظیم آزادی کا حامی تھا۔
اب وہاں اسرائیل سے گٹھ جوڑ ہے اورافسوس کی بات یہ ہے کہ بعض عرب ممالک اس گٹھ جوڑکا حصہ ہیں مگر اب تک یہ واضح نہ ہوسکا کہ پاکستان کی وزارت خارجہ کا سفینہ کس سمت جارہا ہے کیونکہ اب تک اس کانفرنس میں جو اعلانات ہورہے ہیں وہ خاصے آزادانہ اور مثبت ہیں اور اس میں ترقی پسندانہ رجحانات کی عکاسی اور بالادستی اور جنگ سے انحراف نظر آرہا ہے۔ اس کانفرنس میں 23 ممالک کی شرکت ایک قابل تعریف عمل ہے اورخصوصاً شام کے وفد کی شرکت بڑی اہمیت کی حامل ہے۔ طلبا یونین کا معاملہ اب تک جوں کا توں ہے اس کی وجہ سے ملک غیر متحرک لیڈرشپ کے ہاتھوں یرغمال ہے اور دراز رقم والوں کے لیے کاروبار سے لے کر لیڈرشپ ان کے حوالے ہے۔
رہ گیا سوشل میڈیا سے اگرکوئی انقلاب آسکتا توآجاتا یہ تو ایک قسم کے خیالات کا اتفاق اور تصادم ہے مگرکسی انقلاب کو جنم دینے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔اس کی اشتراکیت ہو یا دقیانوسی خیالات، دل کو بہلانے کا ایک ذریعہ اور بیٹھے بیٹھے یا لیٹے لیٹے اتفاق یا اختلاف کا ذریعہ، البتہ اگر اس کوکسی ماہانہ جلسے یا ادبی سیاسی مورچہ لگانے کے لیے استعمال کیا جائے تو یقینا لیڈروں کی من مانی ممکن نہیں پاکستانی لیڈردنیا کے معاملات پر تیر اندازی کرتے ہیں مگر اپنی آبادی کے لیے کوئی پروگرام نہیں کرتے۔ بین الاقوامی معاملات میں انھوں نے عوام کو الجھا رکھا ہے روزگار، اشیائے خورونوش، تعلیم وصحت، عوام کو رہائش کی سہولت یا سفری سہولت ہرایک پر زبان بند ہے۔ ایسی صورت میں انتخابات کیوں کر عوام کی قسمت بدل سکتے ہیں لہٰذا اب ایک ایسا تاریخی گھن چکر وجود میں آنے جا رہا ہے جو عوام کو غلام بنا کے رکھ دے گا، لہٰذا سوشل میڈیا کا استعمال شعور کے علاوہ عمل کے لیے بھی کیا جانا چاہیے۔