سب کچھ لٹاکے ہوش میں آئے تو
میئر جب بھی اختیارات اور فنڈز کی بات کرتے ہیں تو حکومتی ارکان و جیالے ان پرطنز کے تیر چلاتے ہیں
حکومت سندھ کو وفاق سے ہمیشہ گلے شکوے رہے ہیں۔ سابق وزیراعلیٰ کی کارکردگی سب کے سامنے ہے، خود کچھ کرنے پر آمادہ نہیں، الٹا مسائل کا ملبہ ادھر ادھر ڈالنا ہی گویا اپنا فرض منصبی قرار دیا گیا۔ جب نئے وزیراعلیٰ مراد علی شاہ نے اختیارات سنبھالے تو ابتدا میں ان کی سرگرمیوں اور کچھ اقدامات سے امید پیدا ہوئی تھی کہ جواں سالہ وزیراعلیٰ یقیناً کچھ نہ کچھ کریںگے، سندھ بالخصوص کراچی کے عوام کو مسائل سے نجات ملے گی۔ مگر رفتہ رفتہ واضح ہوگیا کہ بات بیانات سے آگے بڑھنے والی نہیں۔
میئر کراچی نے جب باقاعدہ اپنے عہدے کا چارج لیا تو انھوں نے کراچی کی ناگفتہ بہ صورتحال پر پرجوش انداز میں اختیارات نہ ہونے کے باوجود کراچی میں کچھ کر دکھانے کے عزم کا اظہار کیا۔ سو روزہ صفائی مہم کا آغاز ہوا، میئر دیگر ذمے دار شہریوں اور حکومت سندھ سے بار بار تعاون کی اپیل کرتے رہے مگر حکومت نے اپنے طور پر صفائی کرانے کا عندیہ دیا مگر ساتھ مل کر کام نہ کیا، لہٰذا وسائل نہ ہونے کے باعث یہ مہم کچھ علاقوں کے علاوہ پورا کراچی جو کچرا کنڈی بنا ہوا ہے، میں کامیاب نہ ہوسکی۔
تعاون کرنا تو دور ازخود بھی کچھ نہ کیا۔ میئر جب بھی اختیارات اور فنڈز کی بات کرتے ہیں تو حکومتی ارکان و جیالے ان پرطنز کے تیر چلاتے ہیں کہ کام نہ ہوسکا تو اختیارات اور فنڈز کی کمی کا واویلا شروع کردیا۔ یہاں تک کہا گیا کہ میئر کے پاس مکمل اختیارات ہیں۔ جب کہ بلدیہ عظمیٰ کے فنڈز میں کثیر رقم کی کٹوتی کی خبر بھی گزشتہ دنوں اخبارات میں آچکی ہے۔ چند روز قبل میئر نے وزیراعلیٰ سندھ کے نام ایک خط میں چھ محکمے بلدیہ عظمیٰ کو واپس کرنے کے لیے لکھا ہے، جن کی تفصیل آپ کی نظر سے بھی گزری ہوگی۔ یہ سب وہ محکمے ہیں جن کی حالت پی پی کی گزشتہ حکومت سے لے کر اب تک بد سے بدتر ہوتی جا رہی ہے۔
شہر کچرے، سیوریج نظام میں خرابی، واٹر بورڈ کی ناقص کارکردگی، سڑکوں پر عوامی ذرایع نقل و حمل نہ ہونے کے باعث عروس البلاد کسی دور افتادہ دیہات کا منظر پیش کررہا ہے۔ ان تمام محکموں کے لیے وافر فنڈز بھی ہیں، مگر کہاں اور کس کے ذریعے استعمال ہوتے ہیں، یہ فنڈز ضروریات کے مطابق ہیں یا اس سے کم ہیں، جو ان محکموں کی کارکردگی نہ ہونے کے برابر ہے، جب کہ ان میں سے کئی محکموں میں بڑی مالی بدعنوانیوں کے انکشافات بھی ہوتے رہے ہیں۔ ظاہر ہے کہ اس وقت تو بلدیاتی نظام ہی معطل تھا، پھر یہ لوٹ مار کس نے کی؟ ان حقائق پر ذمے داران کچھ نہیں کہتے۔ کام کوئی بھی نہیں کررہا، سب ایک دوسرے کو مورد الزام ٹھہرا رہے ہیں۔
2018 کے انتخابات قریب آتے جارہے ہیں، حکومت سندھ اپنی نااہلی اور کچھ نہ کرنے کے باعث سندھ سے بھی فارغ ہونے کے خدشے کے باعث دھڑا دھڑ مختلف ترقیاتی منصوبوں کا اعلان اور مختلف اداروں کی کارکردگی پر بیان دے کر ان کے خلاف سخت اقدامات کا شور مچارہی ہے۔ جب کہ سندھ کی جو حالت ہے وہ کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ پہلے پنجاب میں ہونے والے کاموں پر تنقید کی جاتی رہی کہ سندھ کے وسائل بھی پنجاب پر خرچ ہورہے ہیں، ہمیں ہمارا حصہ نہیں دیا جارہا، ہمیں یہ نہیں کرنے دیا جارہا ہے، ہم وہ نہیں کرپارہے۔
ادھر وفاق بھی آنکھیں اور کان بند کیے سندھ کو نظر انداز کرتا رہا۔ جیسے جیسے انتخابات قریب آرہے ہیں پی پی پی پاکستان بھر میں اپنا کھویا ہوا مقام حاصل کرنے کے لیے ہاتھ پاؤں مار رہی ہے مگر عملی طور پر سندھ کے عوام کے مسائل حل کرنے پر اب بھی کوئی خاص توجہ نہیں۔ اس صورتحال سے فائدہ اٹھانے کے لیے گزشتہ دنوں وفاقی حکومت کو سندھ پر توجہ دینے کا بھی خیال آیا، حکمران جماعت نے سوچا ہوگا کہ موقع اچھا ہے، اگر تھوڑا بہت کچھ سندھ میں بھی کردیا جائے تو سندھ میں بھی پاؤں جمائے جاسکتے ہیں۔ حکمران قیادت نے ایک اچھے سیاست دان ہونے کا ثبوت دیتے ہوئے ٹھٹھہ کے مکلی گراؤنڈ میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ''احساس محرومی کو ختم کیا جائے گا، سندھ کے مسائل بھی ہم ہی حل کریںگے اور کوئی نہیں، سندھ کے لوگوں کے زخموں پر مرہم رکھیںگے۔'' ساتھ ہی یہ واضح کرنے سے بھی گریز نہیں کیا گیا کہ یہ سب کام صوبائی حکومت کے کرنے کے ہیں مگر ان سب مسائل کو حل کرنے کا وعدہ بھی وفاقی حکومت کررہی ہے۔ حالانکہ وعدے تو 2013 کے انتخابات سے قبل بھی پورے ملک کے لیے کیے گئے تھے، ان میں سے کتنے وفا ہوئے؟
پی پی کے قیام کو 50 سال ہوگئے، اس جماعت کے بانی نے روٹی، کپڑا اور مکان کا نعرہ لگاکر پورے پاکستان کے عوام کو اپنا گرویدہ کرلیا تھا، مگر واضح اکثریت حاصل کرنے کے باوجود یہ وعدہ اب تک تشنۂ تکمیل ہے۔ جب کہ بھٹو صاحب کا دور اقتدار اور بعد میں دو بار شہید بے نظیر اور پھر ان کے شوہر نامدار بھی اپنے عہد صدارت میں اس پر عمل نہ کراسکے، حالانکہ نام نہاد جمہوریت نے پہلی بار اپنی مدت مکمل کی، مگر کیا انھوں نے اپنے دور میں ملک کے عوام کو خوشحالی سے ہمکنار کیا؟ سندھ کے لوگوں کو ان کا حق دلایا؟ بلکہ ہوا یہ کہ اگلے انتخابات میں ان کی پارٹی ملک تو کیا، سندھ میں بھی دیہاتوں تک محدود ہوکر رہ گئی، پنجاب جو کبھی پی پی کا گڑھ کہلاتا تھا، آج وہاں ہر طرف ''ن لیگ'' چھائی ہوئی ہے۔ اب عوام خاصے باشعور ہوچکے ہیں، سندھ کارڈ، پنجاب کارڈ کے بجائے وہ دیکھ رہے ہیں کہ یہ سب زبانی جمع خرچ اور حصول ووٹ کے گر تو نہیں؟ اس صورت حال میں اگر ن لیگ یا اور کوئی جماعت واقعی عوام کا اعتماد حاصل کرے تو وہ تمام تر وابستگیاں پس پشت ڈال کر اسی کو ووٹ دیںگے۔
کراچی کی صورت حال یہ ہے کہ حکومت سندھ میئر کو کام کرنے دینے کے حق میں بالکل نظر نہیں آرہی اور خود تو حسب سابق اور حسب عادت کچھ کرنے کو تیار ہی نہیں، بلکہ جیالے اور وزرائے سندھ میئر اور وزیراعظم کو تنقید کا نشانہ بناکر سمجھ رہے ہیں کہ عوام کو ادھر متوجہ ہونے سے روک لیںگے۔ بجائے اس کے کہ وزیراعظم نے سندھ کے لیے کچھ منصوبوں کا اعلان کیا تو آپ بھی کم از کم کراچی کو صاف ستھرا کرکے پینے کا صاف پانی فراہم کرنے میں کچھ پیش رفت کریں اور اپنی ساکھ کو بہتر بنائیں، ہو یہ رہا ہے کہ نہ خود کچھ کرتے ہیں اور نہ دوسروں کو کرتے دیکھنا پسند کرتے ہیں۔ اس صورت حال سے ایک طرف ن لیگ اور دوسری جانب پی ٹی آئی فائدہ اٹھانے کی بھرپور کوشش کررہی ہے۔
اگر حکومت سندھ نے کوئی عملی قدم نہ اٹھایا اور میئر کراچی نے وسائل نہ ہونے کو جواز بنایا تو ... ہاں اگر جلد از جلد سندھ حکومت کچھ عوامی مسائل حل کرنے اور میئر کراچی بے بسی کے بجائے ہمت سے کام لیتے ہوئے خود اپنے جماعتی وسائل سے کچھ کرلیں تو کراچی میں پی ٹی آئی اور سندھ میں ن لیگ قدم جمانے میں ایک بار پھر ناکام ہوسکتی ہے، حکومت سندھ اور میئر کا ایک دوسرے سے تعاون ناگزیر ہوچکا ہے، کیا اب بھی جیالوں کو ہوش نہ آئے گا؟
میئر کراچی نے جب باقاعدہ اپنے عہدے کا چارج لیا تو انھوں نے کراچی کی ناگفتہ بہ صورتحال پر پرجوش انداز میں اختیارات نہ ہونے کے باوجود کراچی میں کچھ کر دکھانے کے عزم کا اظہار کیا۔ سو روزہ صفائی مہم کا آغاز ہوا، میئر دیگر ذمے دار شہریوں اور حکومت سندھ سے بار بار تعاون کی اپیل کرتے رہے مگر حکومت نے اپنے طور پر صفائی کرانے کا عندیہ دیا مگر ساتھ مل کر کام نہ کیا، لہٰذا وسائل نہ ہونے کے باعث یہ مہم کچھ علاقوں کے علاوہ پورا کراچی جو کچرا کنڈی بنا ہوا ہے، میں کامیاب نہ ہوسکی۔
تعاون کرنا تو دور ازخود بھی کچھ نہ کیا۔ میئر جب بھی اختیارات اور فنڈز کی بات کرتے ہیں تو حکومتی ارکان و جیالے ان پرطنز کے تیر چلاتے ہیں کہ کام نہ ہوسکا تو اختیارات اور فنڈز کی کمی کا واویلا شروع کردیا۔ یہاں تک کہا گیا کہ میئر کے پاس مکمل اختیارات ہیں۔ جب کہ بلدیہ عظمیٰ کے فنڈز میں کثیر رقم کی کٹوتی کی خبر بھی گزشتہ دنوں اخبارات میں آچکی ہے۔ چند روز قبل میئر نے وزیراعلیٰ سندھ کے نام ایک خط میں چھ محکمے بلدیہ عظمیٰ کو واپس کرنے کے لیے لکھا ہے، جن کی تفصیل آپ کی نظر سے بھی گزری ہوگی۔ یہ سب وہ محکمے ہیں جن کی حالت پی پی کی گزشتہ حکومت سے لے کر اب تک بد سے بدتر ہوتی جا رہی ہے۔
شہر کچرے، سیوریج نظام میں خرابی، واٹر بورڈ کی ناقص کارکردگی، سڑکوں پر عوامی ذرایع نقل و حمل نہ ہونے کے باعث عروس البلاد کسی دور افتادہ دیہات کا منظر پیش کررہا ہے۔ ان تمام محکموں کے لیے وافر فنڈز بھی ہیں، مگر کہاں اور کس کے ذریعے استعمال ہوتے ہیں، یہ فنڈز ضروریات کے مطابق ہیں یا اس سے کم ہیں، جو ان محکموں کی کارکردگی نہ ہونے کے برابر ہے، جب کہ ان میں سے کئی محکموں میں بڑی مالی بدعنوانیوں کے انکشافات بھی ہوتے رہے ہیں۔ ظاہر ہے کہ اس وقت تو بلدیاتی نظام ہی معطل تھا، پھر یہ لوٹ مار کس نے کی؟ ان حقائق پر ذمے داران کچھ نہیں کہتے۔ کام کوئی بھی نہیں کررہا، سب ایک دوسرے کو مورد الزام ٹھہرا رہے ہیں۔
2018 کے انتخابات قریب آتے جارہے ہیں، حکومت سندھ اپنی نااہلی اور کچھ نہ کرنے کے باعث سندھ سے بھی فارغ ہونے کے خدشے کے باعث دھڑا دھڑ مختلف ترقیاتی منصوبوں کا اعلان اور مختلف اداروں کی کارکردگی پر بیان دے کر ان کے خلاف سخت اقدامات کا شور مچارہی ہے۔ جب کہ سندھ کی جو حالت ہے وہ کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ پہلے پنجاب میں ہونے والے کاموں پر تنقید کی جاتی رہی کہ سندھ کے وسائل بھی پنجاب پر خرچ ہورہے ہیں، ہمیں ہمارا حصہ نہیں دیا جارہا، ہمیں یہ نہیں کرنے دیا جارہا ہے، ہم وہ نہیں کرپارہے۔
ادھر وفاق بھی آنکھیں اور کان بند کیے سندھ کو نظر انداز کرتا رہا۔ جیسے جیسے انتخابات قریب آرہے ہیں پی پی پی پاکستان بھر میں اپنا کھویا ہوا مقام حاصل کرنے کے لیے ہاتھ پاؤں مار رہی ہے مگر عملی طور پر سندھ کے عوام کے مسائل حل کرنے پر اب بھی کوئی خاص توجہ نہیں۔ اس صورتحال سے فائدہ اٹھانے کے لیے گزشتہ دنوں وفاقی حکومت کو سندھ پر توجہ دینے کا بھی خیال آیا، حکمران جماعت نے سوچا ہوگا کہ موقع اچھا ہے، اگر تھوڑا بہت کچھ سندھ میں بھی کردیا جائے تو سندھ میں بھی پاؤں جمائے جاسکتے ہیں۔ حکمران قیادت نے ایک اچھے سیاست دان ہونے کا ثبوت دیتے ہوئے ٹھٹھہ کے مکلی گراؤنڈ میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ''احساس محرومی کو ختم کیا جائے گا، سندھ کے مسائل بھی ہم ہی حل کریںگے اور کوئی نہیں، سندھ کے لوگوں کے زخموں پر مرہم رکھیںگے۔'' ساتھ ہی یہ واضح کرنے سے بھی گریز نہیں کیا گیا کہ یہ سب کام صوبائی حکومت کے کرنے کے ہیں مگر ان سب مسائل کو حل کرنے کا وعدہ بھی وفاقی حکومت کررہی ہے۔ حالانکہ وعدے تو 2013 کے انتخابات سے قبل بھی پورے ملک کے لیے کیے گئے تھے، ان میں سے کتنے وفا ہوئے؟
پی پی کے قیام کو 50 سال ہوگئے، اس جماعت کے بانی نے روٹی، کپڑا اور مکان کا نعرہ لگاکر پورے پاکستان کے عوام کو اپنا گرویدہ کرلیا تھا، مگر واضح اکثریت حاصل کرنے کے باوجود یہ وعدہ اب تک تشنۂ تکمیل ہے۔ جب کہ بھٹو صاحب کا دور اقتدار اور بعد میں دو بار شہید بے نظیر اور پھر ان کے شوہر نامدار بھی اپنے عہد صدارت میں اس پر عمل نہ کراسکے، حالانکہ نام نہاد جمہوریت نے پہلی بار اپنی مدت مکمل کی، مگر کیا انھوں نے اپنے دور میں ملک کے عوام کو خوشحالی سے ہمکنار کیا؟ سندھ کے لوگوں کو ان کا حق دلایا؟ بلکہ ہوا یہ کہ اگلے انتخابات میں ان کی پارٹی ملک تو کیا، سندھ میں بھی دیہاتوں تک محدود ہوکر رہ گئی، پنجاب جو کبھی پی پی کا گڑھ کہلاتا تھا، آج وہاں ہر طرف ''ن لیگ'' چھائی ہوئی ہے۔ اب عوام خاصے باشعور ہوچکے ہیں، سندھ کارڈ، پنجاب کارڈ کے بجائے وہ دیکھ رہے ہیں کہ یہ سب زبانی جمع خرچ اور حصول ووٹ کے گر تو نہیں؟ اس صورت حال میں اگر ن لیگ یا اور کوئی جماعت واقعی عوام کا اعتماد حاصل کرے تو وہ تمام تر وابستگیاں پس پشت ڈال کر اسی کو ووٹ دیںگے۔
کراچی کی صورت حال یہ ہے کہ حکومت سندھ میئر کو کام کرنے دینے کے حق میں بالکل نظر نہیں آرہی اور خود تو حسب سابق اور حسب عادت کچھ کرنے کو تیار ہی نہیں، بلکہ جیالے اور وزرائے سندھ میئر اور وزیراعظم کو تنقید کا نشانہ بناکر سمجھ رہے ہیں کہ عوام کو ادھر متوجہ ہونے سے روک لیںگے۔ بجائے اس کے کہ وزیراعظم نے سندھ کے لیے کچھ منصوبوں کا اعلان کیا تو آپ بھی کم از کم کراچی کو صاف ستھرا کرکے پینے کا صاف پانی فراہم کرنے میں کچھ پیش رفت کریں اور اپنی ساکھ کو بہتر بنائیں، ہو یہ رہا ہے کہ نہ خود کچھ کرتے ہیں اور نہ دوسروں کو کرتے دیکھنا پسند کرتے ہیں۔ اس صورت حال سے ایک طرف ن لیگ اور دوسری جانب پی ٹی آئی فائدہ اٹھانے کی بھرپور کوشش کررہی ہے۔
اگر حکومت سندھ نے کوئی عملی قدم نہ اٹھایا اور میئر کراچی نے وسائل نہ ہونے کو جواز بنایا تو ... ہاں اگر جلد از جلد سندھ حکومت کچھ عوامی مسائل حل کرنے اور میئر کراچی بے بسی کے بجائے ہمت سے کام لیتے ہوئے خود اپنے جماعتی وسائل سے کچھ کرلیں تو کراچی میں پی ٹی آئی اور سندھ میں ن لیگ قدم جمانے میں ایک بار پھر ناکام ہوسکتی ہے، حکومت سندھ اور میئر کا ایک دوسرے سے تعاون ناگزیر ہوچکا ہے، کیا اب بھی جیالوں کو ہوش نہ آئے گا؟