فوجی عدالتیں اورحکومت کی خامیاں

بلا روک ٹوک دہشت گردی کے حملوں کے پیش نظر ملک کو فوجی عدالتوں کی کڑوی گولی نگلنا ہوگی


Babar Ayaz March 16, 2017
[email protected]

فوجی عدالتوں کو کام کرنے کی اجازت دینے کے بارے میں ساری بحث میں جو اہم سوال غائب ہے وہ یہ ہے کہ پاکستان کے عدالتی نظام میں کیا خرابی ہے کہ اسے دہشت گردی سے متعلق مقدمات کا فیصلہ کرنے کے لیے غیر معمولی اقدامات کی ضرورت پیش آتی ہے؟سیاسی جماعتوں اورمیڈیا میں ہونے والی بحث کا اصل محور یہ ہے کہ فوجی عدالتوں کے کام کرنے کی نئی میعاد کیا ہونی چاہیے۔حکومت کی تجویزہے کہ فوجی عدالتوں کو تین سال کے لیے کام کرنے کی اجازت دی جائے جب کہ اپوزیشن ایک سے دوسال کی بات کررہی ہے۔ لگتا ہے کہ قدرے مزاحمت کے بعد حکومت اصل مسودے پر رضامند ہوگئی ہے جس کے تحت صرف وہی مقدمات فوجی عدالتوں کے حوالے کیے جائیں گے جن کا تعلق مذہب اور فرقہ واریت کے نام پرکیے جانے والے دہشت گردی کے واقعات سے ہوگا۔

بہت سے رہنماؤں کا خیال ہے کہ بلا روک ٹوک دہشت گردی کے حملوں کے پیش نظر ملک کو فوجی عدالتوں کی کڑوی گولی نگلنا ہوگی، جوکسی بھی جمہوری نظام کے لیے درست نہیں ہے، مگرکوئی سیاسی جماعت اس اہم سوال پر بات نہیں کررہی کہ ملک کو فوجی عدالتوں کی ضرورت صرف اس لیے پڑتی ہے کہ حکومتیں ایک موثر پراسیکیوشن اورعدالتی نظام فراہم کرنے میں ناکام رہی ہیں۔بد قسمتی سے یہ ان اداروں کی خامی ہے کہ ملک کو ، جہاں سول سطح پر طے شدہ اصولوں کے مطابق انصاف فراہم نہیں کیا جا سکتا، فوجی عدالتوں کے قیام پر راضی ہونا پڑتا ہے ۔

فوجی عدالتوں کی ضرورت اس لیے محسوس کی گئی کہ حکومت کی طرف سے دہشت گردی پر قابو پانے میں ناکامی کا سارا بوجھ عدلیہ پر ڈالا جا رہا ہے۔فوجی عدالتوںکی حمایت میں سب سے بڑی دلیل یہ دی جاتی ہے کہ زیادہ ترمقدمات میں دہشت گردوں کو بری کردیا جاتا ہے اور اگرسزا ہو بھی جاتی ہے تو عدالتی اپیلوں کا طویل طریقہ کار اُن دہشت گردوں کے حق میں ہوتا ہے جنھیں سکیورٹی ایجنسیاں پکڑتی ہیں۔ عدالتی اورغیر جانبدار قانونی ماہرین ناقص پراسیکیوشن اور مقدمات کی ناقص طریقے سے پیروی کو اس صورت حال کا ذمے دار ٹھہراتے ہیں۔اعلیٰ عدالت کے ایک ریٹائرڈ جج کا کہنا ہے کہ'' ناکافی ثبوت، فرانزک سہولتوں کا فقدان، ملزم کے حامیوں کے خوف سے گواہوں کا انکاری ہوجانا اورقانونی سقوم ، انسداد دہشت گردی عدالتوں (ATC)کے لیے بھی کسی ملزم کو سزا دینا مشکل بنا دیتے ہیں۔''

سندھ ہائیکورٹ کے جسٹس مقبول باقر نے کریمنل جسٹس سسٹم کو بہتر بنانے کے بارے میں اپنے ایک مقالے میں بتایا کہ 2008 سے2011 کے عرصہ میں انسداد دہشت گردی کی عدالت نے دہشت گردی کے42 مقدمات میں25 ملزموں کو بری کردیا اور17 ملزموں کو سزا سنائی۔

اگرچہ سپریم کورٹ نے 1999 میں لیاقت حسین بخلاف وفاق پاکستان کیس میں واضح رہنما اصول دیے تھے، جب اس نے فوجی عدالتوں کے قیام کو مستردکردیا، مگر ان پرکبھی عمل نہیں کیا گیا۔اگر پچھلے پندرہ سال میں برسراقتدار آنے والی حکومتوں نے ان رہنما اصولوں پر عمل کیا ہوتا تو فوجی عدالتوں کے قیام کا متنازع سوال دوبارہ نہ اٹھتا۔اس فیصلے کو روکنے کے لیے ، جس پر تمام سیاسی جماعتیں دہشت گردوں کی طرف سے 16/12 کے پشاورکے قتل عام کے بعد شدید رد عمل اور دباؤ پر رضامند ہو گئی تھیں،آج بھی ان رہنما اصولوں کا حوالہ دینا مناسب ہے۔

سپریم کورٹ نے درج ذیل رہنما اصول طے کیے تھے جو ان مقاصد میں مدد کرسکتے ہیںجن کے حصول کے لیے فوجی عدالتوں کا مطالبہ کیا جارہا ہے۔

(i) دہشت گردی سے متعلق مقدمات خصوصی عدالتوں کے حوالے کیے جاسکتے ہیں، جو پہلے ہی قائم ہیں یا جو انسداد دہشت گردی ایکٹ،1997 (آگے اس کا حوالہATA کے طور پردیا گیا ہے) یا محرم علی اور دیگر بخلاف وفاق پاکستان کیس(PLD 1998 SC 1445) میں اس عدالت کے فیصلے کے حوالے سے کسی بھی قانون کے تحت قائم کی جاسکتی ہیں۔

(ii) خصوصی عدالت کو ایک وقت میں ایک ہی کیس دیا جائے اورجب تک اس کیس کا فیصلہ نہ سنا دیا جائے،کوئی دوسرا کیس اس کے حوالے نہ کیا جائے۔

(iii) متعلقہ خصوصی عدالت کو اُس مقدمے کی جو اس کے حوالے کیا گیا ہے روزانہ کی بنیاد پر سماعت کرنی چاہیے اور 7 روزکی مدت کے اندر اس کا فیصلہ سنانا چاہیے جیسا کہ پہلے ہی ATA میں کہا گیا ہے،یا پھر جیسے کسی دوسرے قانون میں کہا گیاہو۔

(iv) کسی بھی مقدمے کا چالان پوری تیاری اور اس امرکو یقینی بنانے کے بعد پیش کرنا چاہیے کہ متعلقہ خصوصی عدالت کی طرف سے جب بھی کہا جائے گا،تمام گواہوں کو پیش کیا جائے گا۔

(v) خصوصی عدالت کے کسی حکم/ فیصلے کے بارے میں اپیل کا فیصلہ اس قسم کی اپیل دائر کرنے کے سات دن کی مدت کے اندرکیا جائے گا۔

(vi) تفتیشی اورپراسیکیوٹنگ ایجنسیوں کی طرف سے کسی بھی غفلت پر قابل اطلاق قانون کے مطابق فوراً انضباطی کارروائی کی جائے گی۔

(vii) متعلقہ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اس بات پر نظر رکھنے اور یقینی بنانے کے لیے کہ مقدمات/ اپیلوں کو ان رہنما اصولوں کے مطابق نمٹایا جارہا ہے ہائی کورٹ کا ایک یا اس سے زیادہ جج مقرر کریں گے۔

(viii) یہ کہ چیف جسٹس آف پاکستان مذکورہ بالا رہنما اصولوں پر عمل درآمد پر نظر رکھنے کے لیے سپریم کورٹ کا ایک یا اس سے زیادہ جج مقررکرسکتے ہیں۔اس طرح مقرر کیے جانے والا ایک یا اس سے زیادہ جج اس امرکو بھی یقینی بنائیں گے کہ اگر رخصت/ اور یا رخصت کے ساتھ اپیل کے لیے کوئی درخواست دائرکی جاتی ہے تو سپریم کورٹ میں اسے کسی تاخیرکے بغیر نمٹایا جائے۔

(ix) یہ کہ ATA کے سیکشن 4 اور5 کے حوالے سے مسلح افواج کی مدد حاصل کرنے کے ساتھ ،آئین کے آرٹیکل245 کے باوصف مسلح افواج کی مدد کو ،عدالتی فیصلے اورسزا کی مقدار کو چھوڑ کر،سزا پر عمل درآمد تک پریذائیڈنگ افسر،وکلاء اور مقدمات میں پیش ہونے والے گواہوں کی سیکیورٹی سمیت ہر مرحلے پر سروس میں شمارکیا جا سکتا ہے۔

سچی بات یہ ہے کہ دہشت گردی کے مقدمات کی سماعت کرنے والے ججوں کی حفاظت کا معاملہ اہم ہے، مگر اس معاملے سے ججوں کو گمنام رکھ کر اور انھیں اسی سطح کا تحفظ فراہم کر کے نمٹا جا سکتا ہے ،جس سطح کا تحفظ فوجی عدالت کے ججوں کو فراہم کیا جاتا ہے۔

اس وقت انسداد دہشت گردی عدالتوں میں عملے کی کمی ہے اورکام کا بہت زیادہ بوجھ ہے۔ بیرسٹر فیصل صدیقی کے بقول''کراچی میں انسداد دہشت گردی عدالتوں کے10 جج ہیں،جن پر1850 سے زیادہ مقدمات کا بوجھ ہے ،انسانی اعتبار سے ان کے لیے ممکن نہیں ہے کہ وہ 7 روزکے اندر مقدمات کا فیصلہ سنائیں۔'' انھوں نے وضاحت کہ اتنی بڑی تعداد میں مقدمات کی ایک وجہ یہ ہے کہ ATC پر ایسے انتہائی سنگین جرائم کا بوجھ ہے جو دہشت گردی کے زمرے میں نہیں آتے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں