سندھ میں مسلم لیگ کی سیاست
مسلم لیگ میں بلاشبہ اب بھی ایسے لوگ موجود ہیں جو مسلم لیگی ہی رہے
مسلم لیگ بلاشبہ قیام پاکستان کا اعزاز رکھتی ہے، جس نے قائداعظم محمد علی جناح کی قیادت میں تحریک پاکستان کو کامیاب کرایا۔ قائداعظم بانی پاکستان کہلائے تو مسلم لیگ نے بھی پاکستان کی ماں کا درجہ حاصل کیا اور اس ماں کی گود میں پلنے والے دوسری جماعتوں میں اگر آتے جاتے رہے تو اس کی ذمے دار مسلم لیگ نہیں بلکہ اس کی قیادت اور رہنما تھے، جن کی وجہ سے مسلم لیگ تقسیم در تقسیم ہوتی رہی۔ آمروں کو نہ صرف مسلم لیگ راس آئی بلکہ انھوں نے اپنے اپنے دور میں مسلم لیگ کو نئی زندگی دی۔
مسلم لیگ میں بلاشبہ اب بھی ایسے لوگ موجود ہیں جو مسلم لیگی ہی رہے، کسی دوسری پارٹی میں نہیں گئے۔ مسلم لیگ گروپوں میں تقسیم رہی مگر حقیقی مسلم لیگیوں نے قیادت سے مایوس ہونے کے باوجود مسلم لیگ کو نہیں چھوڑا۔ مسلم لیگ ن اب حکمران جماعت ہے جس کے سربراہ میاں نواز شریف ہیں، جو تحریک استقلال سے سیاست میں آئے اور جونیجو کی مسلم لیگ میں صوبائی وزیر، وزیراعلیٰ پنجاب رہے اور اب تیسری بار مسلم لیگ ہی کی وجہ سے وزیراعظم بنے۔ میاں نواز شریف پہلی بار پاکستان میں نو ستاروں کے جمہوری اتحاد کی وجہ سے اور بعد میں دو بار مسلم لیگ ن کے پلیٹ فارم سے وزیراعظم بنے تھے۔
اس وقت پاکستان کے علاوہ پنجاب، بلوچستان، آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کا اقتدار مسلم لیگ ن کے پاس ہے، جو ملک کی بڑی جماعت ہے، مگر اب مسلم لیگ ن کو پنجاب تک محدود ہوجانے والی جماعت کا طعنہ اس لیے دیا جاتا ہے کہ مسلم لیگی قیادت نے خود کو پنجاب تک محدود کر رکھا ہے اور بلاول زرداری کو موقع ملا تو انھوں نے وزیراعظم کو مشورہ دیا کہ وہ پنجاب کے نہیں پورے ملک کے وزیراعظم بنیں۔ یہ مشورہ مان کر ہی شاید وزیراعظم نواز شریف ٹھٹھہ کے شیرازیوں پر مہربان ہوئے اور انھوں نے ٹھٹھہ میں سندھ کا پہلا سیاسی جلسہ کرکے پیپلزپارٹی کو بوکھلا دیا ہے۔
جتوئی، ممتاز علی بھٹو، ارباب غلام رحیم 2013 میں میاں نواز شریف کے ساتھ تھے اور ٹھٹھہ کے شیرازی، کراچی کے جاموٹ بھی میاں نواز شریف کے حمایتی تھے۔ چاروں سابق وزرائے اعلیٰ مسلم لیگ ن کو نظر انداز کرنے یا اہمیت نہ ملنے پر مایوس ہوگئے۔ ممتاز بھٹو اور لیاقت جتوئی نے اپنی پارٹیاں بحال کرلیں۔ پرانے مسلم لیگی غوث علی شاہ اور ارباب غلام رحیم اب تک مسلم لیگی تو ہیں مگر کھڈے لائن لگادیے گئے ہیں۔
غلام مصطفی جتوئی کی این پی پی، پیپلزپارٹی سے جدا ہوکر مسلم لیگ میں ضم ہوئی تھی۔ مسلم لیگ فنکشنل مسلم لیگ ن کی حلیف ہے، جسے مرکز میں ایک وزارت ملی ہوئی ہے، جس کے سابق جنرل سیکریٹری اور شکارپور سے رکن سندھ اسمبلی امتیاز شیخ کو وزیراعظم کا معاون خصوصی کا درجہ ملا تھا۔ ممتاز بھٹو کے صاحبزادے امیر بخش بھٹو کو وزیراعظم کا مشیر بنایا گیا تھا مگر میاں صاحب کی مسلم لیگ سندھ میں عدم دلچسپی دیکھ کر دونوں مستعفی ہوگئے۔ کراچی کے واحد رکن قومی اسمبلی عبدالحکیم بلوچ کو وزیر مملکت بناکرمسلم لیگ ن والے بھول گئے، اہمیت نہ ملنے پر وہ پہلے عہدے سے، پھر مسلم لیگ اور قومی اسمبلی سے الگ ہوئے۔ عبدالحکیم بلوچ اور امتیاز شیخ مایوس ہوکر مسلم لیگی اقتدار چھوڑ کر پیپلزپارٹی میں شامل ہوکر دوبارہ منتخب ہوئے اور آج پیپلزپارٹی کے ساتھ ہیں۔
مسلم لیگ ن کی قیادت والیاپنے دوسرے دور میں سندھ کو اہمیت دیتے تھے، سندھ کے تفصیلی دورے کرتے تھے اور ایک بار انھوں نے عید بھی نوابشاہ کے ایک گاؤں میں منائی تھی اور چار پائی پر بیٹھ کر لوگوں سے ملاقات کی تھی، مگر اب اپنی تیسری حکومت میںوہ سندھ نہیں آئے۔ سندھ میں مسلم لیگ ن اپنے سربراہ کی وجہ سے برائے نام رہ گئی ہے، لیگی رہنما خفا ہوکر پیپلزپارٹی میں جارہے ہیں، جس کی مثال عرفان اﷲ مروت بھی ہیں۔ وزیراعظم کراچی بھی بہت کم یا چند گھنٹوں کے لیے آتے ہیں اور اپنے تین سینیٹروں اور مخصوص رہنماؤں سے ایئرپورٹ پر ہی مل لیتے ہیں، کبھی اپنی پارٹی کے سندھ میں باقی رہ جانے والے رہنماؤں سے ملنا یا پارٹی میٹنگ نہیں کرتے۔ سندھ میں مسلم لیگ ن کی موجودہ صورت حال کے ذمے دار خود مسلم لیگ ن کے قائد ہیں۔ لوگ کہتے ہیں کہ مسلم لیگ ن کی قیادت نیسندھ میں پیپلزپارٹی کو فری ہینڈ دے رکھا ہے اور سندھ میں اب پیپلزپارٹی میں بڑے پیمانے پر شمولیت ہورہی ہے اور وزیراعظم اور چوہدری نثار کی بات کا جواب پی پی مولابخش چانڈیو سے دلاتی رہتی ہے۔
وزیراعلیٰ پنجاب کی وجہ سے ٹھٹھہ کے مایوس شیرازی گروپ کو چند گھنٹے وزیراعظم کے ٹھٹھہ کے دورے میں ملے اور جو جلسہ ہوا وہ مسلم لیگ ن کا نہیں شیرازی گروپ کا تھا، جو علاقے میں اپنا وسیع سیاسی اثر رکھتا ہے اور کسی وجہ سے اب تک پی پی میں نہیں گیا، جب کہ سندھ میں اب کوئی بڑا سیاسی گروپ ایسا نہیں جو ن لیگ کے ساتھ ہو۔ چند رہنما مسلم لیگ ف میں ضرور ہیں اور ن لیگ سے مایوس رہنما اب پیپلزپارٹی میں جارہے ہیں جس کی سندھ میں مضبوط حکومت ہے جو اپنے لوگوں کا مکمل خیال رکھتی ہے، کام آتی ہے، ان کی سفارش مانتی ہے، تو لوگ اپنے سندھ کی مقبول پارٹی میں کیوں نہ جائیں۔عام انتخابات قریب دیکھ کر اور پنجاب میں عمران خان کی کم نہ ہوتی مقبولیت کے باعث مسلم لیگ کو اب سندھ کا خیال آگیا ہے اور انھوں نے ٹھٹھہ میں سندھ کے احساس محرومی اور عوامی مسائل کا ذکر کیا تو پیپلزپارٹی کا جواب آیا کہ وزیراعظم سندھ ضرور آئیں مگر مال لے کر آئیں اور پنجاب کے بعد اب سندھ کو بھی مال دیں اور سندھ میں موجود احساس محرومی ختم کریں۔
سندھ میں پیپلزپارٹی کا کوئی متبادل نہیں ہے، اندرون سندھ مکمل بلدیاتی نظام پی پی کا ہے جو 2018 میں انتخابات پر اثر انداز ہوگا اور مسلم لیگ ن کو شاید امیدوار بھی نہ مل سکیں۔ عمران خان بھی اب سندھ کی فکر میں مبتلا ہیں مگر ان کے پاس سندھ کو دینے کے لیے کچھ نہیں، جب کہ مرکزی حکومت کے پاس سب کچھ ہے۔ ٹھٹھہ کے بعد اب انھیں کے پی کے کی طرح سندھ پر توجہ دینی ہوگی اور متحدہ پر بھی ہاتھ رکھنا ہوگا۔ متحدہ کی تقسیم کے بعد اب پی پی کو بھی کراچی کا خیال آگیا ہے تو ن لیگ بھی جگہ بناسکتی ہے۔ انھوں نے ٹھٹھہ میں کراچی کو خوبصورت بنانے کی بات بھی کی ہے مگر اب باتوں کی نہیں بلکہ عمل اور ن لیگ میں موجود مایوسی ختم کرنے کی ضرورت ہے۔
مسلم لیگ میں بلاشبہ اب بھی ایسے لوگ موجود ہیں جو مسلم لیگی ہی رہے، کسی دوسری پارٹی میں نہیں گئے۔ مسلم لیگ گروپوں میں تقسیم رہی مگر حقیقی مسلم لیگیوں نے قیادت سے مایوس ہونے کے باوجود مسلم لیگ کو نہیں چھوڑا۔ مسلم لیگ ن اب حکمران جماعت ہے جس کے سربراہ میاں نواز شریف ہیں، جو تحریک استقلال سے سیاست میں آئے اور جونیجو کی مسلم لیگ میں صوبائی وزیر، وزیراعلیٰ پنجاب رہے اور اب تیسری بار مسلم لیگ ہی کی وجہ سے وزیراعظم بنے۔ میاں نواز شریف پہلی بار پاکستان میں نو ستاروں کے جمہوری اتحاد کی وجہ سے اور بعد میں دو بار مسلم لیگ ن کے پلیٹ فارم سے وزیراعظم بنے تھے۔
اس وقت پاکستان کے علاوہ پنجاب، بلوچستان، آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کا اقتدار مسلم لیگ ن کے پاس ہے، جو ملک کی بڑی جماعت ہے، مگر اب مسلم لیگ ن کو پنجاب تک محدود ہوجانے والی جماعت کا طعنہ اس لیے دیا جاتا ہے کہ مسلم لیگی قیادت نے خود کو پنجاب تک محدود کر رکھا ہے اور بلاول زرداری کو موقع ملا تو انھوں نے وزیراعظم کو مشورہ دیا کہ وہ پنجاب کے نہیں پورے ملک کے وزیراعظم بنیں۔ یہ مشورہ مان کر ہی شاید وزیراعظم نواز شریف ٹھٹھہ کے شیرازیوں پر مہربان ہوئے اور انھوں نے ٹھٹھہ میں سندھ کا پہلا سیاسی جلسہ کرکے پیپلزپارٹی کو بوکھلا دیا ہے۔
جتوئی، ممتاز علی بھٹو، ارباب غلام رحیم 2013 میں میاں نواز شریف کے ساتھ تھے اور ٹھٹھہ کے شیرازی، کراچی کے جاموٹ بھی میاں نواز شریف کے حمایتی تھے۔ چاروں سابق وزرائے اعلیٰ مسلم لیگ ن کو نظر انداز کرنے یا اہمیت نہ ملنے پر مایوس ہوگئے۔ ممتاز بھٹو اور لیاقت جتوئی نے اپنی پارٹیاں بحال کرلیں۔ پرانے مسلم لیگی غوث علی شاہ اور ارباب غلام رحیم اب تک مسلم لیگی تو ہیں مگر کھڈے لائن لگادیے گئے ہیں۔
غلام مصطفی جتوئی کی این پی پی، پیپلزپارٹی سے جدا ہوکر مسلم لیگ میں ضم ہوئی تھی۔ مسلم لیگ فنکشنل مسلم لیگ ن کی حلیف ہے، جسے مرکز میں ایک وزارت ملی ہوئی ہے، جس کے سابق جنرل سیکریٹری اور شکارپور سے رکن سندھ اسمبلی امتیاز شیخ کو وزیراعظم کا معاون خصوصی کا درجہ ملا تھا۔ ممتاز بھٹو کے صاحبزادے امیر بخش بھٹو کو وزیراعظم کا مشیر بنایا گیا تھا مگر میاں صاحب کی مسلم لیگ سندھ میں عدم دلچسپی دیکھ کر دونوں مستعفی ہوگئے۔ کراچی کے واحد رکن قومی اسمبلی عبدالحکیم بلوچ کو وزیر مملکت بناکرمسلم لیگ ن والے بھول گئے، اہمیت نہ ملنے پر وہ پہلے عہدے سے، پھر مسلم لیگ اور قومی اسمبلی سے الگ ہوئے۔ عبدالحکیم بلوچ اور امتیاز شیخ مایوس ہوکر مسلم لیگی اقتدار چھوڑ کر پیپلزپارٹی میں شامل ہوکر دوبارہ منتخب ہوئے اور آج پیپلزپارٹی کے ساتھ ہیں۔
مسلم لیگ ن کی قیادت والیاپنے دوسرے دور میں سندھ کو اہمیت دیتے تھے، سندھ کے تفصیلی دورے کرتے تھے اور ایک بار انھوں نے عید بھی نوابشاہ کے ایک گاؤں میں منائی تھی اور چار پائی پر بیٹھ کر لوگوں سے ملاقات کی تھی، مگر اب اپنی تیسری حکومت میںوہ سندھ نہیں آئے۔ سندھ میں مسلم لیگ ن اپنے سربراہ کی وجہ سے برائے نام رہ گئی ہے، لیگی رہنما خفا ہوکر پیپلزپارٹی میں جارہے ہیں، جس کی مثال عرفان اﷲ مروت بھی ہیں۔ وزیراعظم کراچی بھی بہت کم یا چند گھنٹوں کے لیے آتے ہیں اور اپنے تین سینیٹروں اور مخصوص رہنماؤں سے ایئرپورٹ پر ہی مل لیتے ہیں، کبھی اپنی پارٹی کے سندھ میں باقی رہ جانے والے رہنماؤں سے ملنا یا پارٹی میٹنگ نہیں کرتے۔ سندھ میں مسلم لیگ ن کی موجودہ صورت حال کے ذمے دار خود مسلم لیگ ن کے قائد ہیں۔ لوگ کہتے ہیں کہ مسلم لیگ ن کی قیادت نیسندھ میں پیپلزپارٹی کو فری ہینڈ دے رکھا ہے اور سندھ میں اب پیپلزپارٹی میں بڑے پیمانے پر شمولیت ہورہی ہے اور وزیراعظم اور چوہدری نثار کی بات کا جواب پی پی مولابخش چانڈیو سے دلاتی رہتی ہے۔
وزیراعلیٰ پنجاب کی وجہ سے ٹھٹھہ کے مایوس شیرازی گروپ کو چند گھنٹے وزیراعظم کے ٹھٹھہ کے دورے میں ملے اور جو جلسہ ہوا وہ مسلم لیگ ن کا نہیں شیرازی گروپ کا تھا، جو علاقے میں اپنا وسیع سیاسی اثر رکھتا ہے اور کسی وجہ سے اب تک پی پی میں نہیں گیا، جب کہ سندھ میں اب کوئی بڑا سیاسی گروپ ایسا نہیں جو ن لیگ کے ساتھ ہو۔ چند رہنما مسلم لیگ ف میں ضرور ہیں اور ن لیگ سے مایوس رہنما اب پیپلزپارٹی میں جارہے ہیں جس کی سندھ میں مضبوط حکومت ہے جو اپنے لوگوں کا مکمل خیال رکھتی ہے، کام آتی ہے، ان کی سفارش مانتی ہے، تو لوگ اپنے سندھ کی مقبول پارٹی میں کیوں نہ جائیں۔عام انتخابات قریب دیکھ کر اور پنجاب میں عمران خان کی کم نہ ہوتی مقبولیت کے باعث مسلم لیگ کو اب سندھ کا خیال آگیا ہے اور انھوں نے ٹھٹھہ میں سندھ کے احساس محرومی اور عوامی مسائل کا ذکر کیا تو پیپلزپارٹی کا جواب آیا کہ وزیراعظم سندھ ضرور آئیں مگر مال لے کر آئیں اور پنجاب کے بعد اب سندھ کو بھی مال دیں اور سندھ میں موجود احساس محرومی ختم کریں۔
سندھ میں پیپلزپارٹی کا کوئی متبادل نہیں ہے، اندرون سندھ مکمل بلدیاتی نظام پی پی کا ہے جو 2018 میں انتخابات پر اثر انداز ہوگا اور مسلم لیگ ن کو شاید امیدوار بھی نہ مل سکیں۔ عمران خان بھی اب سندھ کی فکر میں مبتلا ہیں مگر ان کے پاس سندھ کو دینے کے لیے کچھ نہیں، جب کہ مرکزی حکومت کے پاس سب کچھ ہے۔ ٹھٹھہ کے بعد اب انھیں کے پی کے کی طرح سندھ پر توجہ دینی ہوگی اور متحدہ پر بھی ہاتھ رکھنا ہوگا۔ متحدہ کی تقسیم کے بعد اب پی پی کو بھی کراچی کا خیال آگیا ہے تو ن لیگ بھی جگہ بناسکتی ہے۔ انھوں نے ٹھٹھہ میں کراچی کو خوبصورت بنانے کی بات بھی کی ہے مگر اب باتوں کی نہیں بلکہ عمل اور ن لیگ میں موجود مایوسی ختم کرنے کی ضرورت ہے۔