سائنسی بنیادوں پر آبی وسائل کی حفاظت وقت کا تقاضا

عالمی یوم آب کے حوالے سے خصوصی مضمون۔


شبینہ فراز March 19, 2017
دنیا بھر میں ایسے ادارے ہیں جو آبی وسائل کے حوالے سے تحقیق اور تجزیے کا کام کررہے ہیں۔ فوٹو : فائل

بائیس مارچ کو ہر سال دنیا بھر میں عالمی یوم آب منایا جاتا ہے۔ یہ فیصلہ ماحول اور ترقی کی عالمی کانفرنس ارتھ سمٹ میں کیا گیا تھا۔ اس کا مقصد دنیا بھر میں پانی کی اہمیت کو اجاگر کرنا اور اس کی بڑھتی ہوئی قلت کا احساس دلانا تھا۔

اس سال اس دن کو ''پانی اور گندے پانی''(Water and Wastewater) کے عنوان کے طور پر منایا جارہا ہے۔ پانی کو عالمی موضوع بنانے کا مقصد صرف ایک دن منانا نہیں ہے بل کہ اس کا مقصد زندگی میں تبدیلی ہے، ہمیں اپنے اندر اس ان مول اور کم یاب وسیلے کی قدر کا احساس جگانا ہے، تاکہ ٹپکتے نلکے، سڑکوں پر بہتا پانی، ابلتے ہوئے ٹینک اور ٹوٹے پھوٹے ندی نالوں کا منظر تبدیل ہوسکے۔ اس بیش بہا وسیلے کی حفاظت کا فریضہ نہ صرف ہمیں ادا کرنا ہے بل کہ اپنے ارد گرد رہنے والوں کو بھی اس کا احساس دلانا ہے۔

پانی کی کمی دنیا کے بیشتر ممالک کو اپنی لپیٹ میں لے چکی ہے اور اب یہ ایک اہم عالمی مسئلہ بن چکی ہے، موسموں کی تبدیلی سے دنیا بھر میں اور پاکستان میں بھی پانی کی کمی واقع ہورہی ہے، جس سے ہماری معیشت اور زراعت دونوں بحران کا شکار نظر آرہے ہیں۔ اگرچہ ملک کے بالائی علاقوں میں وسیع و عریض گلیشیئر میں صاف و شفاف پانی کا انمول ذخیرہ موجود ہے، لیکن موسمیاتی تبدیلیاں گلیشیئر پر بھی اثرانداز ہورہی ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ پانی کی کمی براہ راست انسانی زندگیوں کو متاثر کرتی ہے، خوراک کی کمی اور بے روز گاری کو فروغ ہوتا ہے، نقل مکانی کا رجحان بڑھتا ہے۔

میٹھے پانی کی کمی سے دریا کے کنارے واقع جنگلات، فصلیں، ساحلی جنگلات اور جنگلی حیات پر منفی اثرات رونما ہورہے ہیں۔ حیوانات اور نباتات کی بہت سی اقسام معدوم ہوچکی ہیں اور بہت سی انواع کو بقا کے خطرات لاحق ہیں۔ کسان پانی کی کمی سے سنگین نوعیت کی غربت کا شکار ہورہے ہیں اور نہروں کے آخری کناروں پر رہنے والوں کے پاس نقل مکانی کے سوا اور کوئی چارہ نہیں ہے۔

دنیا میں اس وقت پانی کے حوالے سے بہت گرما گرمی پائی جاتی ہے خصوصاً وہ ممالک بھی جہاں پانی کا فی الحال کوئی مسئلہ نہیں ہے بہت سرگرم ہیں، کیوںکہ وہ جانتے ہیں کہ بدلتے موسموں کی بے ترتیبی کسی بھی وقت ان کے لیے کوئی مسئلہ کھڑا کرسکتی ہے، لیکن وطن عزیز جو پانی کی کمی کے سنگین مسائل سے دوچار ہے یہاں اس حوالے سے کوئی فکرمندی یا تشویش نہیں پائی جاتی۔ گویا راوی ہر طرف چین ہی چین لکھ رہا ہے۔

ہم کئی مرتبہ یہ لکھ چکے ہیں کہ پاکستان پانی کے حوالے سے اپنے بیش بہا قدرتی وسائل کے باوجود انتہائی مشکلات سے دوچار ہے اور اگر ہم نے اس حوالے سے کوئی واضح حکمت عملی نہیں اپنائی تو مستقبل میں یہ مشکلات اور بڑھ جائیں گی۔ بھارت سے ہمارا پانی کا تنازعہ ساٹھ سال پرانا ہے۔ صوبوں کے مابین پانی کے تقسیم کے حوالے سے بھی انتہائی گرماگرمی پائی جاتی ہے۔ سیاسی بیانات فضا کو اور بھی پراگندہ کیے دے رہے ہیں۔ گویا یہ سنجیدہ مسائل سیاسی اکھاڑ پچھاڑ میں کہیں دور طاق نسیاں پر رکھ دیے گئے ہیں۔

جو کتاب عقل تھی طاق پر وہ وہیں دھری کی دھری رہی

ہمارے ہاں پانی کا مسئلہ بھی عجب پے چیدہ مسئلہ ہے، ہم وہ کم نصیب ہیں جو خشک سالی کے دنوں میں قحط و افلاس کے ہاتھوں جان دیتے ہیں اور اگر قسمت یاوری کرجائے اور رحمت خداوندی برس جائے تو پھر دریا، ندی نالوں سے چھلکتا سیلاب بلائے جاں بن جاتا ہے۔ پانی کے حوالے سے ہم دسیوں بین الاقوامی معاہدوں کے شریک ہیں۔ ہر بیرون ملک کانفرنس میں ہمارا دسیوں افراد پر مشتمل سرکاری وفد بھی شریک ہوتا ہے لیکن نتیجہ؟ اس کی خبر اللہ تعالیٰ کے بعد ان ہی کو ہوگی کیوںکہ قوم کو کچھ بتانا یہ معززین پسند نہیں کرتے ہیں۔ پانی اور موسمی تبدیلیاں یہ دونوں موضوعات یکجا ہوکر اب ایک ہی مسئلے کے طور پر سامنے آرہے ہیں۔ موسمی تبدیلیاں سب سے زیادہ پانی کے معمولات کو ہی متاثر کررہی ہیں اور کریں گی۔ چاہے پہاڑوں میں گلیشیئر کا پگھلنا ہو، دریاؤں میں پانی کی روانی کا تسلسل ہو، صوبوں کے مابین پانی کے تنازعات ہوں یا سرحدوں سے باہر کے مسائل ہوں، ان تمام مسائل کی جڑیں بنیادی طور پر موسمیاتی تبدیلیوں سے ہی جا کر ملتی ہیں۔ اس کے بعد پانی کا انتظام اور تقسیم وغیرہ کے مسائل سامنے آتے ہیں۔

تمام ممالک حتی الامکاں ایسی حکمت عملیاں تیار کررہے ہیں جو ان بدلتے موسموں سے ہم آہنگ ہوں خصوصاClimate Change adaptation in the water sector اب وقت کی ضرورت تسلیم کر لی گئی ہے۔درجۂ حرارت بڑھنے سے ہمارے پانی کے وسائل براہ راست متاثر ہورہے ہیں اور ہر دو صورت میں یعنی سیلاب ہو یا خشک سالی ہمارے لیے عظیم بحران موجود ہے، مثلاً درجۂ حرارت کے بڑھنے سے پاکستان کے لیے پہلا خطرہ ہمالیائی گلیشیئرز ثابت ہوں گے۔ ان گلیشیئرز سے دنیا کے کئی بڑے دریا مثلاً دریائے سندھ، گنگا، برہم پترا، سلوین، میکا ونگ، یانگ ژی اور زرد دریا نکلتے ہیں، جن کا پانی پاکستان، بھارت، چین اور نیپال میں زندگی کو رواں دواں رکھنے کا باعث ہے۔

گرمی کے بڑھنے سے یہ گلیشیئرز تیزی سے پگھلیں گے اور ان دریاؤں میں طغیانی کی کیفیت پیدا ہو گی جس سے کناروں پر آباد لاکھوں افراد کو سیلاب کا سامنا ہو گا۔ سیلاب سے بچاؤ کے اقدامات کے لیے جس قدر کثیر سرمایہ درکار ہے اس کا پاکستان جیسا غریب ملک تصور بھی نہیں کر سکتا۔ کچھ عرصے بعد جب پانی کم ہو جائے گا تو یہی ممالک خشک سالی کا عذاب سہیں گے۔ زراعت تباہی سے دوچار ہو گی، قحط پھیلے گا اور ان غریب ممالک پر افلاس کے سائے اور گہرے ہو جائیں گے۔ یہ وہ کم از کم خطرات ہیں جو کسی ناکردہ جرم کی سزا کے طور پر پاکستان کو بھی بھگتنا ہوں گے۔

آخر پھر کیا کیا جائے ؟

سب سے پہلے تو ہمیں خواب غفلت سے جاگ جانا چاہیے اور ملکی وسائل سے بے اعتنائی برتنے کا رویہ ترک کردینا چاہیے۔ دنیا کے ایسے تمام ممالک جو ہم جیسے مسائل سے دوچار ہیں ان کا جائزہ لینا چاہیے کہ وہ ان مسائل سے نمٹنے کے لیے کیا کررہے ہیں۔ ہماری ناقص رائے میں اب پانی کے مسائل کو انتہائی سنجیدگی سے لیا جائے اور اس پر جدید سائنسی اور تیکنیکی بنیادوں پر تحقیق کی جائے۔

دنیا بھر میں ایسے ادارے ہیں جو آبی وسائل کے حوالے سے تحقیق اور تجزیے کا کام کررہے ہیں۔ پھر ان کی تحقیق کے نتائج کے بنیادوں پر طویل المدتی حکمت عملیاں تیار کی جارہی ہیں۔ وفاقی اردو یونیورسٹی کے سابق پروفیسر ڈاکٹر معین جو پاکستان میں Dendrochronolgy کے حوالے سے کیے جانے والے کام کے بانی تصور کیے جاتے ہیں، ڈینڈروکرونولوجی ایک ایسا علم ہے جس میں درختوں کے اندر موجود برساپرتوں کی مدد سے درخت کی عمر اور گزرے ہوئے وقت کا احوال معلوم کیا جاتا ہے۔ ڈاکٹر معین اس اہم مسئلے کے حوالے سے بہت خوش آئند منظر نامہ پیش کرتے ہیں۔

ان کے مطابق اب وقت آگیا ہے کہ اپنے آبی ذخائر کے حوالے سے سائنسی بنیادوں پر کام کیا جائے۔ کسی بھی پائے دار اور قابل اعتماد حکمت عملی کی تیاری میں ٹھوس اعدادوشمار کی ضرورت ہوتی ہے۔ ان ہی نتائج کی بنیادوں پر کام یاب منصوبے تشکیل پاتے ہیں۔ آئیے پہلے شمالی امریکا کے کلوریڈو دریا کی مثال دیکھتے ہیں۔ یہ دریا 283,605 کلومیٹر لمبا ہے۔ اس کا انحصار بھی ہمارے دریائے سندھ کی طرح پگھلتی برف پر ہے۔ اس دریا کے پانی پر بھی مختلف ریاستوں میں جھگڑا رہتا تھا، حکومت نے اس مسئلے کے حل کے لیے سائنسی بنیادوں پر اعدادوشمار جمع کیے جو کہ گذشتہ 100سال پر مشتمل تھے، جس سے ہر سال دریا میں پانی کی روانی کا اندازہ بخوبی ہورہا تھا۔

حکومت نے ان ہی اعدادوشمار کی بنیاد پر پانی کی تقسیم کردی لیکن نتیجہ کچھ خاص نہیں نکلا۔ ہر سال دریا کے پانی کی مقدار میں اتار چڑھاؤ آتا رہتا اور جھگڑے یونہی برقرار رہے۔ ایک بار پھر ماہرین سے رجوع کیا گیا، جنہوں نے یہ صاف صاف کہہ دیا کہ صرف 100سال کے اعدادوشمار کسی بھی منصوبہ بندی کے لیے زیادہ قابل اعتبار نہیں ہوتے ہیں ، کم از کم 500 سالوں کے اعدادوشمار درکار ہوں گے۔ پانچ سو سال تو بہت زیادہ ہوتے ہیں، سو سال پہلے کے انسان کے لیے تو یہ سائنسی آلات اس کے وہم وگماں سے پرے کی چیزیں تھیں۔ پھر کیا کیا جائے؟ تب وہ سائنس داں آگے بڑھے جو درختوں میں پائی جانے والی برسا پرتوں کی مدد سے جنگلات کی تاریخ اور درختوں کی عمر کا پتا دیتے ہیں۔

درختوں میں موجود یہی پرتیں ماضی کے موسموں میں ہونے والے تغیرات کا بھی پتا دیتی ہیں۔ سائنس کے اس مضمون کو Dendrochronology یا عام فہم زبان میں ''شجرکاری واقعہ نگاری'' کہہ سکتے ہیں۔ ان سائنس دانوں نے دریائے کلوریڈو کے بالائی حصے میں پائے جانے والے پائن کے درختوں سے نمونے حاصل کیے اور ان نمونوں کا ہونے والی بارشوں اور درجۂ حرارت سے رشتہ معلوم کیا اور پھر 100سالہ پانی کے بہاؤ کے اعدادوشمار سے ان کے ساتھ شماریاتی رشتے کا پتا چلایا۔ اس طرح 500 سال کے بہاؤ کا درست اندازہ لگایا گیا اور پھر جب ان پانچ سو سال کے نتائج پر پانی کی تقسیم کی منصوبہ بندی کی گئی تو گویا مسئلہ ہی حل ہوگیا۔ اس طریقے کو کئی ملکوں میں کام یابی سے آزمایا گیا ہے۔

یہ بات انتہائی قابل تعریف اور خوش آئند ہے کہ ڈاکٹر معین اور ان کے معاونین انتہائی نامساعد حالات میں اسی معیار کا کام کررہے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب کا کہنا ہے کہ ہمارے پاس دریائے سندھ کے حوالے سے صرف ساٹھ سال کا ڈیٹا موجود ہے، ہمیں بھی بہترین اور قابل اعتماد نتائج کے لیے کئی سو سال کے اعدادوشمار درکار ہوں گے جو Dendrochronology کی مدد سے بہ آسانی معلوم کیے جاسکتے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب کا یہ بھی کہنا تھا کہ ہم متعلقہ اداروں مثلاً واپڈا کو اس کی اہمیت بتاچکے ہیں اور اگر متعلقہ ادارے دل چسپی لیں توہم تمام طریقۂ کار سمجھانے کے لیے تیار ہیں۔ ڈاکٹر صاحب کا کہنا ہے کہ آج نہیں تو کل ہمیں اسی تحقیقی طریقۂ کار کا سہارا لینا پڑے گا تو پھر وقت ضائع کیے بغیر یہ کام آج ہی سے کیوں نہ شروع کردیا جائے۔ انہوں نے بتایا کہ خوش قسمتی سے ان کی ٹیم میں امریکا کے وہ ماہرین شامل تھے جنہوں نے کلوریڈو دریا پر کام کیا تھا اور اگر ان ماہرین کے تجربے سے فائدہ نہیں اٹھایا گیا تو پھر بعد میں کروڑوں ڈالر خرچ کرکے یہ ٹیکنالوجی حاصل کرنی پڑے گی۔

پانی کے بارے میں ہمیں ٹھوس بنیادوں پر منصوبہ بندی کرنی ہوگی۔ ہندوستان نے اپنے دریاؤں پر دسیوں بڑے ڈیم بناکر نہ صرف اپنا پانی محفوظ کرلیا ہے بل کہ پاکستان کے دریاؤں کا پانی بھی دھڑلے سے چُرا رہا ہے۔ لیکن پاکستان کے پاس صرف دو ڈیم ہیں اور یہ دونوں ڈیم بھی مٹی اور ریت بھر جانے کے باعث اپنی گنجائش سے بہت کم پانی ذخیرہ کرسکتے ہیں۔

دوسرے ممالک کے مقابلے میں پاکستان کے پاس پانی ذخیرہ کرنے کی گنجائش بہت کم ہے۔ بھارت اپنے ذخیرہ کردہ پانی سے اپنے متعلقہ دریاؤں کو 120سے 220 دن تک رواں رکھ سکتا ہے جب کہ پاکستان کے دریا صرف 30دن تک رواں رہ سکتے ہیں۔ جب تک ہم اپنے پانی کو کہیں ذخیرہ نہیں کر سکتے پانی کو اپنی مرضی اور منشا کے مطابق استعمال بھی نہیں کرسکتے۔

ماہرین کے مطابق تقریبا 8، 10مقامات دریائے سندھ پر ایسے ہیں جہاں پانی ذخیرہ کیا جاسکتا ہے۔ چھوٹے ڈیم کم مدت اور کم لاگت میں تعمیر کیے جاسکتے ہیں اس کے لیے نہ غیر ملکی قرضوں کی ضرورت ہے اور نہ ہی ماہرین کی۔ اپنے وسائل اور اپنی مہارت سے ہم بہ آسانی یہ کام کرسکتے ہیں۔ پاکستان ایک زرعی ملک ہے، جس کی 47 فی صد سے زاید آبادی اپنے ذرائع معاش کے لیے زراعت پر انحصار کرتی ہے۔ کل جی ڈی پی (مجموعی ملکی پیداوار) کا 24 فی صد اسی شعبے سے حاصل ہوتا ہے۔ دریائے سندھ کی وادی پاکستان کی زراعت کا محورو مرکز سمجھی جاتی ہے، لیکن اس وقت یہ وادی موسمی تبدیلیوں کی غیریقینی صورت حال سے دوچار ہے۔ ان موسمی تبدیلیوں کی بڑی وجہ فطری نظام میں حد سے زیادہ انسانی مداخلت ہے، جس کا نتیجہ بڑھتی ہوئی عالمی حدت یعنی گلوبل وارمنگ کی صورت انسانیت بھگت رہی ہے۔ ایک جانب جہاں کاربن ڈائی آکسائیڈ کا زیادہ اخراج فصلوں پر مثبت و فائدہ مند اثرات مرتب کر سکتا ہے، وہیں بڑھتا ہوا درجۂ حرارت اور کم ہوتی ہوئی بارشیں حیاتیاتی نظام میں تباہی مچا سکتی ہیں۔

صرف سندھ ہی نہیں پورے جنوبی ایشیا کے لیے موسمی تبدیلیوں کے اثرات انتہائی دہلانے والے ہیں۔
انٹرنیشنل فوڈ پالیسی ریسرچ انسٹیٹیوٹ نے اپنی ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ ''جنوبی ایشیا موسمیاتی تبدیلی سے سب سے زیادہ متاثر ہوگا۔ 2050ء تک وہ اپنی 50 فی صد گندم کی پیداوار کھو سکتا ہے۔''

وادی سندھ کی پوری زراعت خطرے سے دوچار ہے، جس کا نتیجہ زراعت پر براہ راست اور بالواسطہ اثرات کی صورت میں نکلے گا جو اربوں ڈالرز کے نقصان کا باعث بن سکتا ہے۔ یہ خطرہ 10کروڑ سے زاید افراد پر براہ راست اور 20 کروڑ افراد کی انتہائی تیزی سے بڑھنے والی آبادی پر بالواسطہ اثرات مرتب کرے گا، جو 2035ء تک بڑھ کر24 کروڑ ہوجائے گی۔

اس خطے نے موہن جو دڑو، ہڑپہ اور سرسوتی جیسی ترقی یافتہ تہذیبوں کا عروج اور پھر افتاد زمانہ کے ہاتھوں انہیں مٹتے بھی دیکھا ہے۔ عروج کا سبب پانی کی فراوانی اور زوال کی وجہ پانی کی کمی ہی ٹھہرتی ہے۔ یہی عروج و زوال کے اسباق دانش مند اقوام یاد رکھتی ہیں اور ماضی کی گزرگاہوں سے ہٹ کر اپنے لیے نئے راستے تلاش کرتی ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں