دعا مانگنے کے فضائل و آداب
دعا صرف اور صرف اللہ تعالیٰ ہی کی ذات سے مانگنی چاہیے اس کے علاوہ کسی اور سے نہیں مانگنی چاہیے۔
KIEV:
دعا، بندۂ مومن کا ہتھیار، عبادت کا جوہر اور بندگی کا نچوڑ ہے۔
جب تمام ظاہری سہارے جواب دے جاتے ہیں، توقعات کے روزن بند ہوجاتے ہیں اور امیدوں کے دریچے مقفل ہوجاتے ہیں تو اس وقت بندۂ مومن کے پاس ایک دعا ہی کی قندیل باقی رہ جاتی ہے، جس کی روشنی لیے وہ اللہ رب العزت کی بارگاہ میں جاتا ہے، درماندگی کے ساتھ گڑگڑاتا ہے، آہیں بلند ہوتی ہیں، اشک رواں ہوتے ہیں، التجائیں اٹھتی ہیں، وہ ڈرتا بھی ہے اور مانگتا بھی ہے، کپکپاتا بھی ہے اور پکارتا بھی ہے۔ بلاشبہ! شکستگی کی یہی ایک ادا بندگی کی معراج، خالق و مخلوق کے درمیان عجز و نیاز اور نصرت خداوندی کے حصول کا مؤثر ترین ذریعہ ہے۔
حدیث قدسی ہے، ﷲ تعالیٰ خود فرماتے ہیں : ''میں ٹوٹے دلوں کے ساتھ ہوں۔''
اسی وجہ سے علمائے کرام نے لکھا ہے کہ دعا صرف اور صرف اللہ تعالیٰ ہی کی ذات سے مانگنی چاہیے اس کے علاوہ کسی اور سے نہیں مانگنی چاہیے۔ اس لیے کہ حدیث شریف میں دعا کو عبادت کا مغز کہا گیا ہے اور عبادت کی مستحق تن تنہا اللہ تعالیٰ ہی کی ذات مبارک ہے۔
قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں، ترجمہ : '' اسی ( اﷲ) کو پکارنا برحق ہے۔ اور یہ لوگ اس کو چھوڑ کر جن ہستیوں کو پکارتے ہیں وہ ان کی دعاؤں کا کوئی جواب نہیں دے سکتے۔ ان کو پکارنا تو ایسا ہے جیسے کوئی شخص اپنے دونوں ہاتھ پانی کی طرف پھیلا کر چاہے کہ پانی (دور ہی سے ) اس کے منہ میں آپہنچے، حالاں کہ پانی اس تک کبھی نہیں پہنچ سکتا، بس! اسی طرح کافروں کی دعائیں بے نتیجہ بھٹکتی رہتی ہیں۔'' ( سورۃ الرعد )
بلاشبہ! حاجت روائی اور مشکل کشائی کے جملہ اختیارات اللہ تعالیٰ ہی کے قبضۂ قدرت میں ہیں، اس کے سوا مخلوق میں سے کسی کے پاس کوئی اختیار نہیں، سب اسی کے محتاج ہیں اور وہ اکیلا غنی بادشاہ ہے۔
حدیث پاک میں آتا ہے، حضور اکرمؐ نے ارشاد فرمایا : '' آدمی کو اپنی تمام تر ضرورتیں اور حاجتیں اللہ تعالیٰ ہی سے مانگنی چاہییں، یہاں تک کہ اگر جوتے کا تسمہ ( جو کہ ایک معمولی قسم کی چیز ہے ) ٹوٹ جائے تو وہ بھی اللہ تعالیٰ ہی کی ذات سے مانگے اور اگر (کبھی) نمک ( وغیرہ جیسی ہلکی چیز) کی بھی ضرورت پڑجائے تو وہ بھی اللہ تعالیٰ ہی کی ذات سے مانگے۔'' (ترمذی)
ایک دوسری حدیث میں آتا ہے، نبی اکرمؐ نے ارشاد فرمایا : '' سب سے بڑا عاجز وہ ہے جو دعا کرنے میں عاجزی اختیار کرنے والا ہے۔'' ( طبرانی)
ایک اور حدیث میں آتا ہے، نبی کریمؐ نے ارشاد فرمایا : '' اللہ تعالیٰ کے نزدیک دعا سے زیادہ عزت و اکرام والی چیز کوئی اور نہیں ہے۔'' ( ترمذی)
نبی پاکؐ نے ارشاد فرمایا : '' جو شخص اللہ تعالیٰ سے دعا نہیں مانگتا تو اللہ تعالیٰ اس پر غضب ناک ہوتے ہیں۔'' ( ترمذی)
دعا مانگنے کے آداب میں سے ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ذات سے وہی کچھ مانگنا چاہیے، جو حلال اور طیب (پاکیزہ) ہو، ناجائز مقاصد اور گناہوں کے کاموں کے لیے اللہ تعالیٰ کے حضور ہاتھ پھیلانا اور اللہ تعالیٰ کی ذات سے کچھ مانگنا انتہائی درجے کی بے ادبی اور گستاخی ہے۔ بل کہ حرام اور ناجائز مرادوں کے پورا ہونے کے لیے اللہ تعالیٰ کی ذات سے دعائیں مانگنا اور منتیں ماننا دین اسلام کے ساتھ ایک بدترین قسم کا مذاق بھی ہے۔
اسی طرح ان باتوں کے لیے بھی دعا نہیں مانگنی چاہیے جو اللہ تعالیٰ نے ازلی طور پر طے فرمادی ہیں اور ان میں اب کوئی تبدیلی ممکن نہیں، مثلاً کسی پستہ قد انسان کا اللہ تعالیٰ سے یہ دعا کرنا کہ '' یااﷲ! میرا قد لمبا کردے '' یا کسی دراز قد انسان کا اللہ تعالیٰ سے یہ دعا کرنا کہ '' یااﷲ! میرا قد چھوٹا کردے۔'' یا مثلاً کوئی جوان شخص اللہ تعالیٰ سے یہ دعا کرے کہ ''یا اﷲ! میں ہمیشہ جوان رہوں اور میرے اوپر کبھی بڑھاپا نہ آئے۔ اس قسم کی دعائیں ہرگز نہیں مانگنی چاہییں۔
دعا پوری توجہ، انہماک، یک سوئی، گہرے اخلاص، پاکیزہ نیت اور پورے حضورِ قلب کے ساتھ مانگنی چاہیے اور اس یقین کے ساتھ مانگنی چاہیے کہ جس ذات پاک سے میں دعا مانگ رہا ہوں وہ ذات میرے تمام حالات کا پورا علم رکھتی ہے اور وہ مجھ پر بے حد مہربان ہے۔
دعا مانگتے ہوئے اللہ تعالیٰ سے نیک اور اچھی امید رکھنی چاہیے۔ علمائے کرام نے لکھا ہے کہ اس شخص کی دعا درحقیقت دعا ہی نہیں کہلاتی جو دعا مانگتے وقت غفلت و بے پروائی اور لااُبالی پن کا مظاہرہ کررہا ہو، اور محض نوکِ زبان سے چند دعائیہ کلمات بے دلی کے ساتھ ادا کر رہا ہو اور اللہ تعالیٰ سے اس نے نیک اور اچھا گمان نہ رکھا ہو۔''
حدیث شریف میں آتا ہے : ''تم (اللہ تعالیٰ سے) اپنی دعاؤں کے قبول ہونے کا یقین رکھتے (حضورِ قلب) سے دعا مانگا کرو، اللہ تعالیٰ ایسی دعا قبول نہیں فرماتے جو غافل اور بے پروا دل سے نکلی ہو۔'' ( ترمذی)
دعا انتہائی عاجزی اور خشوع و خضوع کے ساتھ مانگنی چاہیے کہ دعا مانگتے وقت بندہ مومن کا دل اللہ تعالیٰ کی ہیبت و عظمت اور اس کے کبر و جلال سے لرز رہا ہو اور جسم کی ظاہری حالت پر بھی اللہ تعالیٰ کی ذات کا خو ف خوب اچھی طرح ظاہر ہورہا ہو، سر اور نگاہیں جھکی ہوئی ہوں، آواز پست ہو، اعضا ڈھیلے پڑے ہوئے ہوں، آنکھیں نم ہوں اور تمام انداز و اطوار سے عجز و مسکنت ٹپک رہی ہو۔
نبی کریم ؐ نے ایک شخص کو دیکھا کہ وہ نماز کے دوران اپنی ڈاڑھی کے بالوں سے کھیل رہا ہے تو آپؐ نے فرمایا : '' اگر اس کے دل میں خشوع ہوتا تو اس کے جسم پر بھی اس کا اثر (ضرور) نظر آتا۔'' ( الحدیث)
دراصل دعا مانگتے وقت بندۂ مومن کو یہ تصور کرلینا چاہیے کہ میں ایک درماندہ فقیر ہوں، ایک بے نوا مسکین ہوں، خدا نخواستہ اگر میں اس در سے ٹھکرادیا گیا تو پھر میرے لیے اس کے علاوہ کوئی ملجا و مأویٰ اور کوئی ٹھکانا نہیں ہوگا۔ میرے پاس اپنا کچھ نہیں ہے، جو کچھ ہے سب اللہ تعالیٰ ہی کا عطا کیا ہوا ہے، اگر اللہ تعالیٰ مجھے نہ دیتے تو دنیا میں کون ہے جو مجھے یہ سب کچھ عطا کرتا۔
عبدیت کی شان ہی یہی ہے کہ دعا مانگتے وقت بندہ اپنے پروردگار کو اس طرح نہایت عاجزی اور مسکنت کے ساتھ گڑگڑا کر پکارے کہ اس کا دل و دماغ، اس کے جذبات و احساسات اور اس کے تمام تر اعضاء و جوارح اللہ تعالیٰ کے حضور جھکے ہوئے ہوں اور اس کے ظاہر و باطن کی پوری کیفیت سے عاجزی و انکساری اور فقر و مسکنت ٹپک رہی ہو۔
دعا، انتہائی عاجزی و انکساری کے ساتھ چپکے چپکے اور دھیمی آواز سے مانگنی چاہیے تاکہ یہ آہ و زاری نام و نمود اور دکھلاوا و نمائش کا سبب نہ بن جائے۔ البتہ بعض اوقات اونچی اور بلند آواز سے بھی دعا مانگی جاسکتی ہے، لیکن ایسا یا تو تنہائی میں کرنا چاہیے یا پھر جب اجتماعی دعا کرانی ہو تو اس وقت بلند آواز سے دعا مانگی جائے تاکہ دوسرے لوگ آپ کی دعا سن کر اس پر آمین کہہ سکیں۔
دعا کی ابتدا اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا اور حضور پاکؐ پر درود و سلام بھیجنے کے ساتھ کرنی چاہیے۔ نبی اکرمؐ کا ارشاد ہے : '' جب کسی شخص کو اللہ تعالیٰ سے یا کسی انسان سے ضرورت و حاجت پوری کرنے کا معاملہ درپیش آئے تو اس کو چاہیے کہ پہلے وضو کرکے دو رکعت نماز نفل ادا کرے ، اس کے بعد اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا بیان کرے اور مجھ پر درود و سلام بھیجے اور پھر اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں اپنی حاجت کو بیان کرے۔'' ( ترمذی)
حضرت فضالہؓ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ نبی اکرمؐ مسجد میں تشریف فرما تھے کہ ایک شخص آیا اور اس نے نماز پڑھی اور نماز کے بعد یہ دعا مانگی : ترجمہ '' اے اﷲ! مجھے بخش دے! اور بس'' آپؐ نے جب یہ سنا تو اس سے فرمایا کہ : دعا مانگنے میں تم نے (بہت) جلد بازی سے کام لیا، جب نماز پڑھ چکو تو پہلے اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا بیان کیا کرو، اس کے بعد مجھ پر درود شریف پڑھا کرو اور پھر اس کے بعد (اللہ تعالیٰ سے) اپنی دعا مانگا کرو۔'' ابھی آپؐ یہ فرما ہی رہے تھے کہ ایک دوسرا شخص آیا ، اس نے نماز پڑھی اور نماز پڑھ کر پہلے اس نے اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا بیان کی، اس کے بعد درود شریف پڑھا، نبی کریم ؐ نے (اس سے) فرمایا کہ اب دعا مانگو! تمہاری دعا قبول ہوگی۔'' ( ترمذی)
ویسے تو ہر وقت ہر آن اور ہر لمحہ اللہ تعالیٰ سے اپنے لیے اور تمام مومنین اور مومنات کے لیے دعا مانگتے رہنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی فریاد سننے سے کبھی نہیں اکتاتے، لیکن احادیث مبارکہ میں چند خاص اوقات اور چند مخصوص حالات ایسے بھی بتلائے گئے ہیں کہ جن میں خصوصیت کے ساتھ بہت جلد دعا قبول ہوتی ہے۔ اس لیے ان خاص اوقات اور مخصوص حالات میں اللہ تعالیٰ سے دعا مانگنے کا خصوصی اہتمام کرنا چاہیے۔
وہ خاص اوقات اور مخصوص حالات یہ ہیں :
(1) رات کے پچھلے پہر ( یعنی اخیر حصہ میں ) (2) شب قدر میں (3) نو ذی الحجہ کے دن میدانِ عرفات میں (4) جمعے کے دن کی مخصوص گھڑی، جو خطبہ جمعہ کے شروع ہونے سے لے کر نمازِ جمعہ کے ختم ہونے تک یا نمازِ عصر کے بعد سے لے کر نمازِ مغرب تک ہوتی ہے (5) اذان کے وقت (6) میدانِ جہاد میں جب مجاہدین کی صف بندی کی جارہی ہو (7) اذان اور اقامت کے درمیانی وقفے میں (8) تمام رمضان المبارک میں عموماً اور افطاری کے وقت خصوصاً (9) تمام فرض نمازوں کے بعد (10) سجدے کی حالت میں (11) شدید رنج و غم اور مصیبت کے وقت (12) ذکر و فکر کی دینی مجالس میں (13) قرآن مجید کے ختم کے وقت ۔
حضرت حسن بصریؒ جب مکہ مکرمہ سے بصرہ جانے لگے تو آپؒ نے مکہ مکرمہ والوں کے نام ایک خط لکھا، جس میں مکہ مکرمہ میں قیام کرنے کی اہمیت اور فضائل بیان کیے اور یہ بھی واضح کیا کہ مکہ مکرمہ میں ان مندرجہ ذیل مقامات پر خصوصیت کے ساتھ دعا قبول ہوتی ہے: ملتزم کے پاس، میزاب رحمت کے نیچے، خانہ کعبہ کے اندر، زم زم کے کنویں کے پاس، صفا مروہ پر، صفا مروہ کے پاس جہاں سعی کی جاتی ہے۔ مقام ابراہیم کے پیچھے، میدانِ عرفات میں، مزدلفہ میں، منیٰ میں، جمرات کے پاس۔ ( بہ حوالہ حصن حصین)
اللہ تعالی ہمیں اپنی وافر نعمتیں عطا فرمائے اور ہمیں اپنی حاجات کے لیے صرف اپنی طرف ہی رجوع کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ ہمیں دعائیں کرنے کا سلیقہ عطا فرمائے اور ہماری دعاؤں کو مستجاب فرمائے۔ آمین
دعا، بندۂ مومن کا ہتھیار، عبادت کا جوہر اور بندگی کا نچوڑ ہے۔
جب تمام ظاہری سہارے جواب دے جاتے ہیں، توقعات کے روزن بند ہوجاتے ہیں اور امیدوں کے دریچے مقفل ہوجاتے ہیں تو اس وقت بندۂ مومن کے پاس ایک دعا ہی کی قندیل باقی رہ جاتی ہے، جس کی روشنی لیے وہ اللہ رب العزت کی بارگاہ میں جاتا ہے، درماندگی کے ساتھ گڑگڑاتا ہے، آہیں بلند ہوتی ہیں، اشک رواں ہوتے ہیں، التجائیں اٹھتی ہیں، وہ ڈرتا بھی ہے اور مانگتا بھی ہے، کپکپاتا بھی ہے اور پکارتا بھی ہے۔ بلاشبہ! شکستگی کی یہی ایک ادا بندگی کی معراج، خالق و مخلوق کے درمیان عجز و نیاز اور نصرت خداوندی کے حصول کا مؤثر ترین ذریعہ ہے۔
حدیث قدسی ہے، ﷲ تعالیٰ خود فرماتے ہیں : ''میں ٹوٹے دلوں کے ساتھ ہوں۔''
اسی وجہ سے علمائے کرام نے لکھا ہے کہ دعا صرف اور صرف اللہ تعالیٰ ہی کی ذات سے مانگنی چاہیے اس کے علاوہ کسی اور سے نہیں مانگنی چاہیے۔ اس لیے کہ حدیث شریف میں دعا کو عبادت کا مغز کہا گیا ہے اور عبادت کی مستحق تن تنہا اللہ تعالیٰ ہی کی ذات مبارک ہے۔
قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں، ترجمہ : '' اسی ( اﷲ) کو پکارنا برحق ہے۔ اور یہ لوگ اس کو چھوڑ کر جن ہستیوں کو پکارتے ہیں وہ ان کی دعاؤں کا کوئی جواب نہیں دے سکتے۔ ان کو پکارنا تو ایسا ہے جیسے کوئی شخص اپنے دونوں ہاتھ پانی کی طرف پھیلا کر چاہے کہ پانی (دور ہی سے ) اس کے منہ میں آپہنچے، حالاں کہ پانی اس تک کبھی نہیں پہنچ سکتا، بس! اسی طرح کافروں کی دعائیں بے نتیجہ بھٹکتی رہتی ہیں۔'' ( سورۃ الرعد )
بلاشبہ! حاجت روائی اور مشکل کشائی کے جملہ اختیارات اللہ تعالیٰ ہی کے قبضۂ قدرت میں ہیں، اس کے سوا مخلوق میں سے کسی کے پاس کوئی اختیار نہیں، سب اسی کے محتاج ہیں اور وہ اکیلا غنی بادشاہ ہے۔
حدیث پاک میں آتا ہے، حضور اکرمؐ نے ارشاد فرمایا : '' آدمی کو اپنی تمام تر ضرورتیں اور حاجتیں اللہ تعالیٰ ہی سے مانگنی چاہییں، یہاں تک کہ اگر جوتے کا تسمہ ( جو کہ ایک معمولی قسم کی چیز ہے ) ٹوٹ جائے تو وہ بھی اللہ تعالیٰ ہی کی ذات سے مانگے اور اگر (کبھی) نمک ( وغیرہ جیسی ہلکی چیز) کی بھی ضرورت پڑجائے تو وہ بھی اللہ تعالیٰ ہی کی ذات سے مانگے۔'' (ترمذی)
ایک دوسری حدیث میں آتا ہے، نبی اکرمؐ نے ارشاد فرمایا : '' سب سے بڑا عاجز وہ ہے جو دعا کرنے میں عاجزی اختیار کرنے والا ہے۔'' ( طبرانی)
ایک اور حدیث میں آتا ہے، نبی کریمؐ نے ارشاد فرمایا : '' اللہ تعالیٰ کے نزدیک دعا سے زیادہ عزت و اکرام والی چیز کوئی اور نہیں ہے۔'' ( ترمذی)
نبی پاکؐ نے ارشاد فرمایا : '' جو شخص اللہ تعالیٰ سے دعا نہیں مانگتا تو اللہ تعالیٰ اس پر غضب ناک ہوتے ہیں۔'' ( ترمذی)
دعا مانگنے کے آداب میں سے ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ذات سے وہی کچھ مانگنا چاہیے، جو حلال اور طیب (پاکیزہ) ہو، ناجائز مقاصد اور گناہوں کے کاموں کے لیے اللہ تعالیٰ کے حضور ہاتھ پھیلانا اور اللہ تعالیٰ کی ذات سے کچھ مانگنا انتہائی درجے کی بے ادبی اور گستاخی ہے۔ بل کہ حرام اور ناجائز مرادوں کے پورا ہونے کے لیے اللہ تعالیٰ کی ذات سے دعائیں مانگنا اور منتیں ماننا دین اسلام کے ساتھ ایک بدترین قسم کا مذاق بھی ہے۔
اسی طرح ان باتوں کے لیے بھی دعا نہیں مانگنی چاہیے جو اللہ تعالیٰ نے ازلی طور پر طے فرمادی ہیں اور ان میں اب کوئی تبدیلی ممکن نہیں، مثلاً کسی پستہ قد انسان کا اللہ تعالیٰ سے یہ دعا کرنا کہ '' یااﷲ! میرا قد لمبا کردے '' یا کسی دراز قد انسان کا اللہ تعالیٰ سے یہ دعا کرنا کہ '' یااﷲ! میرا قد چھوٹا کردے۔'' یا مثلاً کوئی جوان شخص اللہ تعالیٰ سے یہ دعا کرے کہ ''یا اﷲ! میں ہمیشہ جوان رہوں اور میرے اوپر کبھی بڑھاپا نہ آئے۔ اس قسم کی دعائیں ہرگز نہیں مانگنی چاہییں۔
دعا پوری توجہ، انہماک، یک سوئی، گہرے اخلاص، پاکیزہ نیت اور پورے حضورِ قلب کے ساتھ مانگنی چاہیے اور اس یقین کے ساتھ مانگنی چاہیے کہ جس ذات پاک سے میں دعا مانگ رہا ہوں وہ ذات میرے تمام حالات کا پورا علم رکھتی ہے اور وہ مجھ پر بے حد مہربان ہے۔
دعا مانگتے ہوئے اللہ تعالیٰ سے نیک اور اچھی امید رکھنی چاہیے۔ علمائے کرام نے لکھا ہے کہ اس شخص کی دعا درحقیقت دعا ہی نہیں کہلاتی جو دعا مانگتے وقت غفلت و بے پروائی اور لااُبالی پن کا مظاہرہ کررہا ہو، اور محض نوکِ زبان سے چند دعائیہ کلمات بے دلی کے ساتھ ادا کر رہا ہو اور اللہ تعالیٰ سے اس نے نیک اور اچھا گمان نہ رکھا ہو۔''
حدیث شریف میں آتا ہے : ''تم (اللہ تعالیٰ سے) اپنی دعاؤں کے قبول ہونے کا یقین رکھتے (حضورِ قلب) سے دعا مانگا کرو، اللہ تعالیٰ ایسی دعا قبول نہیں فرماتے جو غافل اور بے پروا دل سے نکلی ہو۔'' ( ترمذی)
دعا انتہائی عاجزی اور خشوع و خضوع کے ساتھ مانگنی چاہیے کہ دعا مانگتے وقت بندہ مومن کا دل اللہ تعالیٰ کی ہیبت و عظمت اور اس کے کبر و جلال سے لرز رہا ہو اور جسم کی ظاہری حالت پر بھی اللہ تعالیٰ کی ذات کا خو ف خوب اچھی طرح ظاہر ہورہا ہو، سر اور نگاہیں جھکی ہوئی ہوں، آواز پست ہو، اعضا ڈھیلے پڑے ہوئے ہوں، آنکھیں نم ہوں اور تمام انداز و اطوار سے عجز و مسکنت ٹپک رہی ہو۔
نبی کریم ؐ نے ایک شخص کو دیکھا کہ وہ نماز کے دوران اپنی ڈاڑھی کے بالوں سے کھیل رہا ہے تو آپؐ نے فرمایا : '' اگر اس کے دل میں خشوع ہوتا تو اس کے جسم پر بھی اس کا اثر (ضرور) نظر آتا۔'' ( الحدیث)
دراصل دعا مانگتے وقت بندۂ مومن کو یہ تصور کرلینا چاہیے کہ میں ایک درماندہ فقیر ہوں، ایک بے نوا مسکین ہوں، خدا نخواستہ اگر میں اس در سے ٹھکرادیا گیا تو پھر میرے لیے اس کے علاوہ کوئی ملجا و مأویٰ اور کوئی ٹھکانا نہیں ہوگا۔ میرے پاس اپنا کچھ نہیں ہے، جو کچھ ہے سب اللہ تعالیٰ ہی کا عطا کیا ہوا ہے، اگر اللہ تعالیٰ مجھے نہ دیتے تو دنیا میں کون ہے جو مجھے یہ سب کچھ عطا کرتا۔
عبدیت کی شان ہی یہی ہے کہ دعا مانگتے وقت بندہ اپنے پروردگار کو اس طرح نہایت عاجزی اور مسکنت کے ساتھ گڑگڑا کر پکارے کہ اس کا دل و دماغ، اس کے جذبات و احساسات اور اس کے تمام تر اعضاء و جوارح اللہ تعالیٰ کے حضور جھکے ہوئے ہوں اور اس کے ظاہر و باطن کی پوری کیفیت سے عاجزی و انکساری اور فقر و مسکنت ٹپک رہی ہو۔
دعا، انتہائی عاجزی و انکساری کے ساتھ چپکے چپکے اور دھیمی آواز سے مانگنی چاہیے تاکہ یہ آہ و زاری نام و نمود اور دکھلاوا و نمائش کا سبب نہ بن جائے۔ البتہ بعض اوقات اونچی اور بلند آواز سے بھی دعا مانگی جاسکتی ہے، لیکن ایسا یا تو تنہائی میں کرنا چاہیے یا پھر جب اجتماعی دعا کرانی ہو تو اس وقت بلند آواز سے دعا مانگی جائے تاکہ دوسرے لوگ آپ کی دعا سن کر اس پر آمین کہہ سکیں۔
دعا کی ابتدا اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا اور حضور پاکؐ پر درود و سلام بھیجنے کے ساتھ کرنی چاہیے۔ نبی اکرمؐ کا ارشاد ہے : '' جب کسی شخص کو اللہ تعالیٰ سے یا کسی انسان سے ضرورت و حاجت پوری کرنے کا معاملہ درپیش آئے تو اس کو چاہیے کہ پہلے وضو کرکے دو رکعت نماز نفل ادا کرے ، اس کے بعد اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا بیان کرے اور مجھ پر درود و سلام بھیجے اور پھر اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں اپنی حاجت کو بیان کرے۔'' ( ترمذی)
حضرت فضالہؓ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ نبی اکرمؐ مسجد میں تشریف فرما تھے کہ ایک شخص آیا اور اس نے نماز پڑھی اور نماز کے بعد یہ دعا مانگی : ترجمہ '' اے اﷲ! مجھے بخش دے! اور بس'' آپؐ نے جب یہ سنا تو اس سے فرمایا کہ : دعا مانگنے میں تم نے (بہت) جلد بازی سے کام لیا، جب نماز پڑھ چکو تو پہلے اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا بیان کیا کرو، اس کے بعد مجھ پر درود شریف پڑھا کرو اور پھر اس کے بعد (اللہ تعالیٰ سے) اپنی دعا مانگا کرو۔'' ابھی آپؐ یہ فرما ہی رہے تھے کہ ایک دوسرا شخص آیا ، اس نے نماز پڑھی اور نماز پڑھ کر پہلے اس نے اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا بیان کی، اس کے بعد درود شریف پڑھا، نبی کریم ؐ نے (اس سے) فرمایا کہ اب دعا مانگو! تمہاری دعا قبول ہوگی۔'' ( ترمذی)
ویسے تو ہر وقت ہر آن اور ہر لمحہ اللہ تعالیٰ سے اپنے لیے اور تمام مومنین اور مومنات کے لیے دعا مانگتے رہنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی فریاد سننے سے کبھی نہیں اکتاتے، لیکن احادیث مبارکہ میں چند خاص اوقات اور چند مخصوص حالات ایسے بھی بتلائے گئے ہیں کہ جن میں خصوصیت کے ساتھ بہت جلد دعا قبول ہوتی ہے۔ اس لیے ان خاص اوقات اور مخصوص حالات میں اللہ تعالیٰ سے دعا مانگنے کا خصوصی اہتمام کرنا چاہیے۔
وہ خاص اوقات اور مخصوص حالات یہ ہیں :
(1) رات کے پچھلے پہر ( یعنی اخیر حصہ میں ) (2) شب قدر میں (3) نو ذی الحجہ کے دن میدانِ عرفات میں (4) جمعے کے دن کی مخصوص گھڑی، جو خطبہ جمعہ کے شروع ہونے سے لے کر نمازِ جمعہ کے ختم ہونے تک یا نمازِ عصر کے بعد سے لے کر نمازِ مغرب تک ہوتی ہے (5) اذان کے وقت (6) میدانِ جہاد میں جب مجاہدین کی صف بندی کی جارہی ہو (7) اذان اور اقامت کے درمیانی وقفے میں (8) تمام رمضان المبارک میں عموماً اور افطاری کے وقت خصوصاً (9) تمام فرض نمازوں کے بعد (10) سجدے کی حالت میں (11) شدید رنج و غم اور مصیبت کے وقت (12) ذکر و فکر کی دینی مجالس میں (13) قرآن مجید کے ختم کے وقت ۔
حضرت حسن بصریؒ جب مکہ مکرمہ سے بصرہ جانے لگے تو آپؒ نے مکہ مکرمہ والوں کے نام ایک خط لکھا، جس میں مکہ مکرمہ میں قیام کرنے کی اہمیت اور فضائل بیان کیے اور یہ بھی واضح کیا کہ مکہ مکرمہ میں ان مندرجہ ذیل مقامات پر خصوصیت کے ساتھ دعا قبول ہوتی ہے: ملتزم کے پاس، میزاب رحمت کے نیچے، خانہ کعبہ کے اندر، زم زم کے کنویں کے پاس، صفا مروہ پر، صفا مروہ کے پاس جہاں سعی کی جاتی ہے۔ مقام ابراہیم کے پیچھے، میدانِ عرفات میں، مزدلفہ میں، منیٰ میں، جمرات کے پاس۔ ( بہ حوالہ حصن حصین)
اللہ تعالی ہمیں اپنی وافر نعمتیں عطا فرمائے اور ہمیں اپنی حاجات کے لیے صرف اپنی طرف ہی رجوع کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ ہمیں دعائیں کرنے کا سلیقہ عطا فرمائے اور ہماری دعاؤں کو مستجاب فرمائے۔ آمین