کار ِابلیس فساد فی الارض

آپ دیکھیں کہ ﷲ کے پیغمبر میں یہ خوبی تھی کہ انہیں شیطان کی اکساہٹ اور اپنے ذاتی خیالات کا فرق معلوم تھا۔

برائے فساد مداخلت کے تحت، حضرت آدم ؑ کے دل میں اسی شیطان نے ہی وسوسہ ڈالا۔ فوٹو : فائل

انسانی زندگی میں ابلیس کی مداخلت کے دو پس منظر ہیں۔ برائے فساد اور بعد از فساد۔

ابلیس کی برائے فساد مداخلت کسی انسان کی پاک زندگی کو گناہ سے آلودہ کرنے کی کوشش ہے، جب کہ بعد از فساد مداخلت انسانی زندگی کو مزید گناہ آلود کرتی ہے۔

سورہ ابراھیم : ''جب اور کام کا فیصلہ کر دیا جائے گا تو شیطان کہے گا کہ اﷲ نے تمہیں سچا وعدہ دیا تھا اور میں نے تم سے جو وعدے کیے تھے ان کے خلاف کیا، میرا تم پر کوئی دباؤ تو نہیں تھا، ہاں میں نے تمہیں آواز دی اور تم نے میری بات مان لی، پس تم مجھے الزام نہ دو، بل کہ تم خود اپنے آپ ہی کو ملامت کرو۔''

برائے فساد مداخلت میں سورہ یوسف کی ایک آیت کی مثال ہے : '' میرے رب نے اسے سچا کر دکھایا، اس نے میرے ساتھ بڑا احسان کیا جب کہ اس نے مجھے جیل خانے سے باہر نکالا اور آپ کو صحرا سے لے آیا، اس اختلاف کے بعد جو شیطان نے مجھ میں اور میرے بھائیوں میں ڈال دیا۔''

سورہ یوسف : '' پھر اسے شیطان نے اپنے بادشاہ سے ذکر کرنا بھلا دیا اور یوسف نے کئی سال قید خانے ہی میں کاٹے۔''

سورہ کہف : '' وہیں میں مچھلی بھول گیا تھا دراصل شیطان نے ہی مجھے بھلا دیا کہ میں اس کا ذکر آپ سے کروں۔''

بعد از فساد گناہ سے آلودہ زندگی کے پس منظر میں کہ شیطان کس طرح کے لوگوں کا ساتھی بنتا ہے : سورہ زخرف : '' اور جو شخص رحمن کی یاد سے غفلت برتے ہم اس پر شیطان مقرر کر دیتے ہیں، وہی اس کا ساتھی رہتا ہے۔''

سورہ ص : '' اور ہمارے بندے ایوب کا ذکر بھی کرو، جب کہ اس نے اپنے رب کو پکارا کہ مجھے شیطان نے دکھ اور رنج پہنچایا ہے۔''

آپ دیکھیں کہ ﷲ کے پیغمبر میں یہ خوبی تھی کہ انہیں شیطان کی اکساہٹ اور اپنے ذاتی خیالات کا فرق معلوم تھا اور پھر یہ کہ انہیں معلوم تھا کہ اﷲ ہی وہ واحد پناہ ہے جو شیطان سے بچاؤ کا ذریعہ ہے۔ شیطان کوئی معمولی دشمن نہیں ہے۔ وہ اپنی زبردست چالوں اور نظر سے اوجھل ہونے کی وجہ سے اور بھی زیادہ خوف ناک بن گیا ہے۔ وہ صرف خیال ہی کے ذریعے وار کرتا ہے۔ ستم یہ ہے کہ یہ خیال بھی انسان کو اپنے خیال ہی محسوس ہوتے ہیں۔ شیطان کا اصل کام وسوسہ ڈالنے سے نکلتا ہے۔

سورہ الناس : '' جو لوگوں کے دلوں میں وسوسے ڈالتا ہے۔''

برائے فساد مداخلت کے تحت، حضرت آدم ؑ کے دل میں اسی شیطان نے ہی وسوسہ ڈالا۔ سورہ طہ : '' لیکن شیطان نے وسوسہ ڈالا کہ کیا میں تجھے دائمی زندگی کا درخت اور بادشاہت بتاؤں کہ جو کبھی پرانی نہ ہو۔''

برائے فساد مداخلت کے تحت، شیطان کا دوسرا سب سے بڑا ہتھیار انسانوں کو ان کے برے اعمال اچھے کرکے دکھانا ہے۔

سورہ عنکبوت : '' اور شیطان نے انہیں ان کی بداعمالیاں آراستہ کر دکھائیں اور انہیں سیدھی راہ سے روک دیا تھا، باوجود یہ کہ وہ آنکھوں والے اور ہوشیار تھے۔''

شیطان کے وار سے پیغمبر بھی محفوظ نہ ہوتے اگر انہیں اﷲ کی مدد نہ ہوتی۔

سورہ حج : ''ہم نے آپ سے پہلے جس نبی یا رسول کو بھیجا اس کے ساتھ یہ ہوا کہ جب وہ اپنے دل میں کوئی آرزو کرنے لگا، شیطان نے اس کی آرزو میں کچھ ملا دیا، پس شیطان کی ملاوٹ کو اﷲ دور کر دیتا ہے، پھر اپنی بات مضبوط کر دیتا ہے، اﷲ تعالی دانا اور حکمت والا ہے۔''


یہی وجہ ہے کہ اﷲ تعالی نے اپنے نبی ﷺ کے ذریعے ہر کام اور اﷲ کی ہر ہر نعمت کے استعمال سے پہلے '' بسم اﷲ الرحمن الرحیم'' پڑھنے کی تاکید کر رکھی ہے تاکہ ہر لمحے ہر نعمت کے پس منظر میں اﷲ تعالی کی ذات کا احساس جاں گزیں رہے اور فکری اعتبار سے صراط ِ مستقیم متعین رہے۔

شیطان کا کام اﷲ کی سیدھی راہ سے انسان کو ہر حال میں روکنا ہے اور اس پر اس نے اﷲ کے سامنے قسم کھا رکھی ہے۔

سورہ اعراف : '' میں قسم کھاتا ہوں کہ میں ان کے لیے آپ کی سیدھی راہ پر بیٹھوں گا، پھر ان پر حملہ کروں گا، ان کے آگے سے بھی، پیچھے سے بھی دائیں سے بھی بائیں سے بھی، اور آپ ان میں سے اکثر کو شکر گذار نہ پائیں گے۔''

کبھی آپ نے غور کیا کہ یہ آگے پیچھے، دائیں اور بائیں کیا ہے۔۔۔ ؟

یہ انسانی فکر کے وہ رستے ہیں کہ جن کے ذریعے وہ انسانی ذہن میں نقب لگاتا ہے اور انسانوں کو صراط ِ مستقیم سے گم راہ کرنے کے امکانات پیدا کرنے کی کوشش کر تا ہے۔ شیطان یہ کام کیسے کرتا ہے۔۔۔ ؟

سورہ الحج میں ارشاد ِ خداوندی ہے : '' اور لوگوں میں بعض ایسا بھی ہے کہ کنارے کنارے (رہ کر ) اﷲ کی عبادت کرتا ہے۔''

مفسرین کا قول ہے کہ یہ آیت ان اعراب کے بارے آئی ہے کہ جو مہاجر ہو کر اپنے صحرائی علاقوں سے رسول اکرم ﷺ کے پاس مدینے میں آتے۔ ان میں سے جب کوئی مدینے آتا تو اگر اس کی جسمانی صحت اچھی رہتی، اور اس کی گھوڑی بچھیری جنم لیتی اور اس کی بیوی کے بیٹا پیدا ہوتا اور اس کے مال مویشی بڑھ جاتے تو وہ راضی اور مطمین رہتا اور کہتا کہ جب سے میں اس دین میں داخل ہوا ہوں مجھے بھلائی ہی بھلائی ملی ہے اور اگر اسے مدینے کی آب و ہوا راس نہ آتی اور کوئی بیماری لگ جاتی، اس کی بیوی بیٹی جنتی، گھوڑی کا حمل ضایع ہوجاتا، اور اس کا مال جاتا رہتا یا اسے زکوۃ قدرے دیر سے ملتی تو اس کے اوپر برائے فساد مداخلت کے تحت شیطان مسلط ہو جاتا اور اس کے دل میں وسوسہ ڈالتا کہ جب سے تم دین اسلام میں داخل ہوئے ہو، تمہیں برائی کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوا، چناں چہ وہ اپنے دین سے پھر جاتا۔

عطیہ ابو سعید الحذری ؓ سے مروی ہے کہ ایک یہودی اسلام لے آیا۔ اس کی نظر جاتی رہی اور اس کا مال بھی جاتا رہا اور اس کا بچہ بھی مرگیا۔ اس نے اسلام سے بدشگونی کی۔ یعنی اس نے ایسا سمجھا کہ اسلام لانے کی وجہ سے ہی اس پر یہ مصیبت نازل ہوئی ہے۔ وہ نبی کریم ﷺ کے پاس آیا اور کہا کہ مجھے اسلام سے سبکدوش کیجیے۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ اسلام کو سبکدوش نہیں کیا جاتا۔ یہودی نے کہا مجھے اس دین سے کوئی بھلائی نہیں ملی۔ اس دین نے میری نظر، میرا مال اور میرا بچہ چھین لیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ اے یہودی ! اسلام لوگوں کو اس طرح بھٹی سے صاف کر کے نکالتا ہے، جیسے آگ لوہے چاندی اور سونے کے میل کچیل کو صاف کردیتی ہے۔

انسان کے اندر اصلاح کا ایک دائیہ ہے مگر اس دائیے کو بھی شیطان نے دہشت گردی اور انسانی خون کی ندیاں بہانے کے لیے استعمال کرکے چھوڑا، حتی کہ اسلام کو شیطان نے فرقے فرقے کر نے کے لیے اسی فکر کے رستے کو منتخب کیا۔

سورہ بقرۃ : '' اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ زمین میں فساد نہ کرو تو جواب دیتے ہیں کہ ہم تو صرف اصلاح کرنے والے ہیں۔''

سورہ النساء : '' اور انہیں راہ سے بہکاتا رہوں گا اور باطل امیدیں دلاتا رہوں گا کہ جانوروں کے کان چیر دیں اور ان سے کہوں گا کہ اﷲ کی بنائی صورتوں کو بگاڑ دیں۔'' آیت پر غور کریں کہ شیطان کہہ رہا ہے کہ '' میں انہیں کہوں گا'' ، اس سے واضح ہے کہ شیطان انسانی فکر کے رستے انسانوں کے مابین فساد فی الارض کے امکانات پیدا کرکے انہیں باہم کشت و خون کے لیے برسر پیکار کر کے چھوڑتا ہے۔

جب پیغمبروں نے اﷲ کا دین پیش کیا تو لوگوں نے شیطان کی مداخلت برائے فساد کے تحت کہا کہ ہم تو صرف اسے مانیں گے جس پر ہمارے باپ دادا عمل کرتے چلے آئے ہیں۔ سورہ اعراف : '' اور وہ لوگ جب کوئی فحش کام کرتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم نے اپنے باپ دادا کو اسی طریقے پر پایا ہے اور اﷲ نے بھی ہمیں یہی بتایا ہے آپ کہہ دیں کہ اﷲ فحش بات کی تعلیم نہیں دیتا۔''

سورہ سبا : '' اور شیطان نے ان کے متعلق اپنا گمان سچ کر دکھایا یہ لوگ سب کے سب اس کے مطیع ہوگئے، سوائے مومنوں کی ایک جماعت کہ شیطان کا ان پر کوئی زور نہ تھا۔''

سورہ نحل : '' قرآن پڑھتے وقت شیطان سے اﷲ کی پناہ مانگو، ایمان والوں اور اپنے اﷲ پر بھروسا رکھنے والوں پر اس کا مطلقاً زور نہیں چلتا، ہاں اس کا غلبہ یقیناً ان پر ہے جو اسی سے دوستی کریں اور اسے اﷲ کا شریک ٹھہرائیں۔''

اس آیت میں شیطان کو اﷲ کا شریک ٹھہرانے کا مطلب یہ ہے کہ اﷲ کی نیک باتوں کے ساتھ شیطان کی بدی کو بھی اپنائے رکھا جائے، یہی وہ فساد فی الارض ہے جو فی زمانہ پھیل چکا ہے اور اچھائی اور برائی باہم خلط ملط ہوگئے اور عام انسان چکرا کر رہ گیا ہے، یہی آواز ابلیس کا مقصد اور واردات ابلیس ہے۔ آپ ﷺ کے وسیلے سے آپ کی سنت اور کتاب ِ فرقان ہمیں اﷲ نے میسر کی ہے، یہ ذرایع اس فساد فی الارض کے سدباب کے لیے موثر ترین کمک ہیں۔
Load Next Story