اسلام میں اتحاد و اتفاق کی تعلیمات

جب تمام انسان اللہ کی رسی کو مضبوط پکڑلیں گے تو اُن کا سر صرف ایک خدا کے سامنے جھکے گا۔

قرآن کریم کی آیتوں اور حضور ﷺ کے ارشادات سے یہ بات واضح ہوگئی کہ مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں۔ فوٹو؛ فائل

ایک باپ اپنی اولاد کو ایک دوسرے سے علیحدہ اور آپس میں لڑتا ہوا پسند نہیں کرتا اُس کی آرزو ہوتی ہے کہ اُس کے سب بچے مل جُل کر اور محبت و اتفاق سے رہیں۔ اسی طرح انسانوں کا حقیقی مالک انسانوں کا اختلاف، لڑائی جھگڑے اور آپس میں ایک دوسرے سے نفرت اور دشمنی کو پسند نہیں کرتا۔ بل کہ خدا تو یہ چاہتا ہے کہ تمام انسان اتحاد و اتفاق کے ساتھ زندگی گزاریں۔

دنیا کی اس زندگی میں ایک دوسرے کی مدد کریں۔ لہٰذا اللہ نے تمام انسانوں کو ایک چیز کو پکڑ کر جمع ہونے کا حُکم دیا اور آپس کے اختلافات سے منع کیا۔ اللہ تعالی فرماتا ہے: '' اور اللہ کی رسیّ کو مضبوط پکڑلو سب مل کر۔ '' یعنی اللہ کی رسی کو مضبوط پکڑ نے کا مطلب یہ ہے کہ تمام انسان صرف ایک اللہ کی عبادت کریں، اور حضرت محمد ﷺ کا حکم مانیں اور اسلام کی بتائی ہوئی ہر بات پر عمل کریں۔ اللہ کے اس حکم کو ماننا تمام انسانوں میں اتحاد و اتفاق کا ذریعہ ہے۔ جب تمام انسان اللہ کی رسی کو مضبوط پکڑلیں گے تو اُن کا سر صرف ایک خدا کے سامنے جھکے گا۔ اور تمام انسان شکل و صورت، رنگ و بولی اور ملکوں کے اختلاف کے باوجود ایک ہوجائیں گے۔

اسی لیے ﷲ تعالیٰ نے فرمایا: ترجمہ '' ایک دوسرے سے علیحدہ مت ہو۔'' یعنی جو انسان اللہ کی رسی کو مضبوط پکڑلیں اور پھر وہ شکل و صورت، رنگ و بولی، دولت و غربت یا ملکوں کے اختلاف کی وجہ سے ایک دوسرے سے علیحدہ نہ ہوں۔ بل کہ اب اگر کسی معاملے میں اختلاف بھی ہوجائے تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ترجمہ '' اور اگر مسلمانوں کے دو گروہ آپس میں لڑیں تو ان میں صلح کرا دو۔'' ( الحجرات )

اس کا مطلب یہ ہے کہ رائے میں یا معاملات میں اختلاف ہوسکتا ہے، لیکن یہ اختلاف جھگڑے اور دشمنی کا سبب نہیں بننا چاہیے اور اگر کبھی مسلمانوں میں کوئی جھگڑا ہو بھی جائے تو دوسرے مسلمانوں کو یہ جھگڑا ختم کرانے کی کوشش کرنا چاہیے۔ کیوں کہ سب مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں اور بھائیوں کو اول تو لڑنا ہی نہیں چاہیے اور اگر دو بھائی اگر کبھی لڑ پڑیں تو دوسرے بھائیوں کو لڑائی ختم کراکے آپس میں صلح کرا دینے کی کوشش کرنا چاہیے۔

اتحاد و اتفاق کا یہ سبق تو قرآن کریم نے دیا اس کی اور زیادہ تفصیل معلوم کرنے کے لیے ہمیں رسول کریم حضرت محمد ﷺ کے ارشادات پر بھی غور کرنا چاہیے۔

آپ ﷺ نے فرمایا: '' مسلمان دوسرے مسلمان کے لیے بنیاد کی اینٹوں کی طرح ہے، کہ اس سے ایک دوسرے کو قوت ملتی ہے، پھر آپ ﷺ نے ایک ہاتھ کی انگلیوں کو دوسرے ہاتھ کی انگلیوں میں ڈال کر دکھایا۔''

اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح کسی مکان کی بنیاد میں جوڑ کر اینٹیں لگائی جاتی ہیں تو وہ اس قدر مضبوط ہوجاتی ہے کہ پورے مکان کا بوجھ اپنے اوپر اٹھا لیتی ہیں۔ اسی طرح مسلمان کو ایک دوسرے سے مل کر محبت کے ساتھ بالکل اس طرح رہنا چاہیے جیسے دونوں ہاتھوں کی اُنگلیاں ایک دوسرے میں ڈالی جاتی ہیں تو وہ بالکل مل جاتی ہیں۔ اگر مسلمان آپس میں اتنی محبت پیدا کرلیں اور اتنے مل جُل کر رہا کریں تو کوئی بوجھ کوئی مصیبت انہیں تکلیف نہیں پہنچا سکتی۔

نبی کریم ﷺ نے ایک دوسرے موقع پر فرمایا : '' مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں۔'' یعنی مسلمانوں کے درمیان اتنی محبت ہونا چاہیے کہ کوئی مسلمان اپنے دوسرے بھائی کے لیے اپنی زبان سے ایسا لفظ نہ نکالے، جس سے دوسرے بھائی کا دل دکھے اور نہ اپنے مسلمان بھائی کو اپنے ہاتھ سے کوئی تکلیف پہنچائے کیوں کہ ایک دوسرے کو تکلیف پہنچانے سے اتحاد باقی نہیں رہ سکتا۔

حضرت محمد ﷺ نے فرمایا : '' تم میں سے کوئی کامل مومن نہیں ہوسکتا جب تک کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کے لیے وہی چیز پسند نہ کرے جو وہ اپنے لیے پسند کرتا ہے۔''

یعنی مسلمانوں میں ایسی محبت ہونا چاہیے کہ ایک مسلمان بھائی اگر اپنے لیے یہ بات پسند نہیں کرتا کہ کوئی اس کو گالی دے تو اُسے یہ بھی پسند نہیں کرنا چاہیے کہ وہ خود کسی مسلمان بھائی کو گالی دے۔ ہر مسلمان کو اپنے بھائی کی عزت اسی طرح کرنا چاہیے جیسے وہ دوسروں سے اپنی عزت کرانا چاہتا ہے۔ ایسے ہی ایک مسلمان جو چیز خود کھانا یا پہننا پسند نہیں کرتا، اُس کو اپنے دوسرے بھائی کے لیے بھی پسند نہیں کرنا چاہیے۔ جس چیز سے مسلمانوں کو خود تکلیف ہو اُسے یہی سمجھنا چاہیے کہ اس سے میرے مسلمان بھائی کو بھی تکلیف ہوگی۔

حضرت محمد مصطفی ﷺ نے فرمایا: '' جو دوسروں پر رحم نہیں کرتا، اس پر بھی رحم نہیں کیا جائے گا۔ ''


مطلب یہ ہے کہ مسلمانوں میں آپس میں محبت پیدا کرنے کے لیے ایک دوسرے پر رحم کرنا ضروری ہے۔ دولت مند غریبوں پر رحم کریں، صحت مند بیماروں پر رحم کریں، بڑے، چھوٹوں پر رحم کریں۔ اسی طرح ہر طاقت ور اپنے کم زوروں پر رحم کریں۔ اس حکم کی پابندی کرانے کے لیے فرمایا گیا۔ اگر مسلمان آپس میں رحم نہیں کریں گے تو دنیا اور آخرت میں اللہ بھی ان پر رحم نہیں فرمائے گا۔

حضرت محمد مصطفی ﷺ نے فرمایا : ''جو اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہے، اُسے چاہیے کہ جو بات کہے تو اچھی کہے، ورنہ خاموش رہے۔''

یعنی زبان سے جب مسلمان کوئی بات نکالے تو پہلے سوچ لے کہ اچھی ہے یا نہیں۔ اگر اچھی ہو تو کرے ورنہ خاموش رہنا بہتر ہے کیوں کہ اکثر مسلمانوں کے درمیان اختلاف صرف بیکار اور بیہودہ باتوں کی وجہ سے ہوجاتا ہے، لہٰذا ایسی بات ہی نہ کی جائے جس سے اختلاف کا خطرہ ہو ۔

رسول کریم حضرت محمد ﷺ نے فرمایا: '' جنت میں وہی جائے گا جو مومن ہوگا اور مومن وہی ہو سکتا ہے جس کے دل میں مسلمانوں کی محبت ہو۔''

یعنی جنت تو مسلمانوں کے ہی داخل ہونے کی جگہ ہے لیکن کلمہ طیبہ پڑھنے کے بعد بغیر کسی سزا کے جنت میں داخل ہونے کے لیے ہر مومن کو اپنے اندر کچھ خوبیاں پیدا کرنا پڑیں گی اور اُنہی خوبیوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ کلمہ پڑھنے والے کے دل میں اپنے مسلمان بھائی کی محبت ہو اور اتنی محبت ہوکہ مسلمان بھائی کا رنگ چاہے سفید ہو یا سیاہ، وہ کوئی بھی زبان بولتا ہو اور کسی جگہ بھی رہتا ہو، لیکن اگر اس کو کوئی تکلیف ہو تو دوسرے مسلمان چاہے اس سے کتنی ہی دور ہوں بے چین ہوجائیں اور ان کو اس وقت تک چین نہ ملے جب تک ان کے مسلمان بھائی کی مصیبت دور نہ ہو جائے۔

رسول اکرم حضرت محمد مصطفی ﷺ نے فرمایا : ''مسلمان کو گالی دینا فسق ہے اور اس سے جھگڑا کرنا کفر ہے۔''

یعنی مسلمان کے لیے دوسرے مسلمان کی عزت و آبرو اتنی ہی قیمتی اور پیاری ہونا چاہیے جتنی کسی کو اپنی عزت و آبرو پیاری ہوتی ہے۔ لہٰذا کوئی مسلمان نہ کسی کو گالی دے سکتا ہے، اور نہ ہی اس سے جھگڑا کرسکتا یا مار سکتا ہے۔ لیکن اگر کسی نے اپنے مسلمان بھائی کو گالی دی تو سخت گناہ کا کام کیا اور اگر کسی نے اس سے بھی بڑھ کر مسلمان بھائی سے لڑائی کی یا اُس کو قتل کر ڈالا تو اُس نے کفر کیا۔

قرآن کریم کی آیتوں اور حضور ﷺ کے ارشادات سے یہ بات واضح ہوگئی کہ مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں۔ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے فرمان کے مطابق ان مسلمان بھائیوں کو مل جل کر رہنا چاہیے، ہر قسم کے اختلاف سے بچ کر اپنے اندر اتحاد و اتفاق پیدا کرنا چاہیے۔

مسلمانوں کے ا ندر اس خوبی کو پیدا کرنے کے غرض سے بہت سے ایسے کام حرام کردیے گئے کہ جن کی وجہ سے آپس میں ضرور اختلاف پیدا ہوجاتا ہے۔ جیسے مسلمانوں کے لیے جُوا کھیلنا حرام کردیا گیا۔ کیوں کہ جُوا کھیلنے والے آپس میں لڑتے جھگڑتے ہیں اور کبھی تو ان کا جھگڑا اتنا بڑھتا ہے کہ وہ ایک دوسرے کی جان تک کے دشمن ہوجاتے ہیں۔ اور پھر لڑائی جھگڑا صرف جُوا کھیلنے والوں ہی کے درمیان نہیں ہوتا، بل کہ جُواری کے گھر والے، رشتے دار سب ہی اس سے لڑتے اور نفرت کرتے ہیں۔ اگر مسلمانوں کو جُوا کھیلنے کی اجازت ہوتی تو پھر اتحاد و اتفاق کیسے پیدا ہوسکتا تھا۔

اسی طرح مسلمانوں کے لیے ''سُود '' لینا حرام کردیا گیا۔ کیوں کہ اگر ایک مسلمان اپنی ضرورت سے مجبور ہوکر کسی سے قرض لیتا ہے اور اسی کو قرض ادا کرنے کے ساتھ کچھ روپیہ اور زاید دینا پڑتا ہے تو اس قرض لینے والے کے دل میں ایسے قرض دینے والے کی کبھی محبت نہیں ہوسکتی جو اس سے سو روپیہ کے بہ جائے ایک سو دس لے رہا ہے۔

اگر تمام مسلمانوں کو سود کے ساتھ لین دین اور کاروبار کی اجازت ہوتی تو اُن میں آپس میں محبت کے بہ جائے نفرت بڑھتی رہتی اور اس طرح کبھی ان کے اندر اتحاد و اتفاق پیدا نہیں ہوسکتا تھا۔ کم تولنا، دھوکا دے کر خراب مال بیچنا، جھوٹ بولنا، چیزوں میں ملاوٹ کرنا، کسی کی غیبت کرنا، کسی کی طرف سے بُرا خیال کرنا، کسی کے عیب کو ظاہر کرنا، بغیر تحقیق کے کسی پر الزام لگانا، زنا کرنا، کسی کا مال چھین لینا، اسلام نے ان تمام بُری عادتوں کو مسلمانوں کے لیے حرام کردیا۔ کیوں کہ جن لوگوں میں بھی یہ عادتیں ہوں گی۔ ان میں آپس میں اتحاد و اتفاق ہو ہی نہیں سکتا۔ ان بُری عادتوں والے ہمیشہ ایک دوسرے سے لڑتے جھگڑتے رہتے ایک دوسرے کو مارتے پیٹتے رہتے ہیں۔

ایسی چیزوں کو مسلمانوں کے لیے حرام قرار دیا گیا، جن سے اتحاد و اتفاق کو نقصان ہوسکتا ہے اور ان تمام کاموں کو ضروری کردیا گیا یا اُن کے کرنے کی اجازت دی گئی جن سے اتحاد و اتفاق بڑھتا اور محبت و الفت کی بنیادیں مضبوط ہوتی ہیں۔
Load Next Story