ملائیشیا میں مردوزن کا امتیاز خاصی حد تک ختم ہوگیا ہے
سیکیوریٹی فراہم کرنے والی سب سے بڑی ملائیشین کمپنی کی خاتون سربراہ مزنہ حمید سے مکالمہ
''میری ہمیشہ سے یہ خواہش رہی ہے کہ دنیا بھر کی خواتین مردوں کے شانہ بشانہ ہر شعبہ حیات میں تیزی سے آگے بڑھیں۔''
یہ الفاظ اس ملائی خاتون کے ہیں، جو 40برس سے ان تھک محنت کرتے ہوئے آج ملائیشیا کی ایک کام یاب سیاسی شخصیت اور بزنس وومین ہیں۔ وہ غالباً دنیا کی پہلی خاتون ہیں، جنہوں نے نہ صرف نجی شعبے میں سیکیوریٹی ایجنسی قائم کی، بلکہ اسے کام یابی سے چلا بھی رہی ہیں۔
30 برس قبل سیکیوریٹی فورس (Securiforce) کے نام سے قائم کی گئی یہ سیکیوریٹی ایجنسی اس وقت ملائیشیا میں حفاظتی عملہ مہیا کرنے والی سب سے بڑی سیکیوریٹی ایجنسی ہے۔ اس کمپنی کے بینر تلے کئی کمپنیاں قائم کی گئیں، جن میں دانولومایان(Danau Lumayan)تعمیراتی کمپنی ہے جس کے سربراہ ان کے پاکستانی نژاد شوہر شاہین مرزا حبیب ہیں۔ اس کے علاوہ سیکیوریٹی فورس لاجسٹک سروسزکلیئرنگ اینڈفارورڈنگ کا بڑا ادارہ ہے، جس کی شاخیں پورے ملائیشیا کے علاوہ سنگاپور، تھائی لینڈ، چین، کوریا، ترکی اور جرمنی میں قائم ہیں۔
سیاست میں وہ یونائٹیڈ ملائی نیشنل آرگنائزیشن(UMNO)کے خواتین ونگ کی صدر ہیں۔ اس جماعت نے چند چھوٹی جماعتوں کو ساتھ ملاکر بریساں نیشنل (نیشنل فرنٹ) قائم کیا ہے، جو آزادی کے بعد سے اب تک اقتدار میں ہے۔ اس کے علاوہ وہ انجمنِ مقررین اور ملائیشیا کے پروفیشنل وومن فورم کی بھی صدر ہیں۔ وہ ملائیشیا کی شمالی ریاست کڈاکے سلطان عبدالحلیم محب شاہ کے نام پر قائم فلاحی ٹرسٹ کی نگراں ہیں۔ وہ جنوب مشرقی ایشیا کی واحد خاتون ہیں جن کے الیکٹرونک اور پرنٹ میڈیا میں سب سے زیادہ انٹرویوز نشر اور شائع ہوئے ہیں، جب کہ اخبارات اور جرائد صفحہ اول پران کی تصاویر شائع کرتے ہیں۔
ملائیشیا کے اپنے حالیہ سفر میں ہم نے مزنہ حمید سے ملاقات کی۔ ان سے ہونے والی گفتگو قارئین کی نذر ہے۔
مزنہ حمید اس مقام تک پہنچنے کے لیے جن مراحل سے گزریں ان کے بارے میں وہ کہتی ہیں کہ مجھے اپنے زندگی میں بہت طویل اور صبرآزما جدوجہد کرنا پڑی ہے۔ کوئی عورت اس کا تصور بھی نہیں کرسکتی۔ ابھی میں بہت چھوٹی تھی کہ میرے والدین کے درمیان اختلافات کے نتیجے میں طلاق ہوگئی۔ میری سپردگی نے ایک نیا قضیہ کھڑا کردیا۔ یوں بہت چھوٹی عمر میں کچہری اور اس کی کارروائی سے میری شناسائی ہوئی۔ کئی مہنیوں پر محیط تھکادینے والی عدالتی کارروائی کے بعد بالآخر مجھے میرے ناناکے سپرد کردیا گیا، جن کی کڈا کے ایک گائوں میں تھوڑی سی زرعی زمین تھی، جس پر پام اور ربر کا باغ تھا۔
نانا اور نانی نے گو والدین کی کمی محسوس نہیں ہونے دی، لیکن میرے ذہن میں بہرحال ایک کسک موجود رہی۔ میرے والد دوسری شادی کرکے دوسری ریاست میں چلے گئے، جب کہ والدہ نے بھی دوسری شادی کرلی اور وہ بھی گائوں سے شہر منتقل ہوگئیں۔ اس ماحول اور کم آمدنی میں رہتے ہوئے میں نے Oلیول پاس کیا اور اعلیٰ تعلیم کے ایک قریبی شہر چلی گئی، جہاں سے میں نے کامرس کے مضامین کے ساتھ گریجویشن کیا اور قسمت آزمانے کوالالمپور آگئی۔ کوالالمپور میں ایک فرم میں ملازم ہوگئی۔ اس دوران میری ملاقات ایک پاکستانی نژاد شاہین مرزا سے ہوئی، جو انتہائی شریف اور شرمیلے نوجوان تھے۔
شاہین مرزا ایک دوسری فرم میں بطور اکائونٹینٹ خدمات سرانجام دے رہے تھے۔ ان کی پرورش بھی ان کے نانا نے کی تھی، جو کوالالمپور سے60کلومیٹر دور ایک قصبہ سرمبن میں رہتے تھے۔ ہماری دوستی جلد ہی محبت میں تبدیل ہوگئی اور ہم نے بزرگوں کی رضامندی سے1979ء میں شادی کرلی۔
شادی کے بعد ہم دونوں نے فیصلہ کیا کہ ہم اپنا ذاتی کاروبار شروع کریں گے اور اپنی زندگی کو اس طرح ملازمتوں کی نذر نہیں کریں گے۔ ہمارے پاس بہت ہی قلیل رقم تھی، جو ہم نے پس انداز کی تھی۔ کوئی بڑا کاروبار اس سے شروع نہیں ہوسکتا تھا۔ اس زمانے میں سیکیوریٹی ایجنسیوں کا رواج ابھی زیادہ عام نہیں ہوا تھا، جو ایجنسیاں کام کررہی تھیں وہ زیادہ تر ریٹائر فوجیوں کی تھیں۔
اتفاق سے ایک ریٹائر میجر صاحب سے ملاقات ہوئی، جن کی سیکیوریٹی ایجنسی خسارے میں جارہی تھی اور وہ اسے بند کرنا چاہ رہے تھے۔ ہم نے محکمۂ داخلہ میں رجسٹریشن کی درخواست دی اور سیکیوریٹی ایجنسی چلانے کا لائسنس حاصل کرلیا۔ اس کے بعد ان میجر صاحب سے درخواست کی کہ وہ نصف رقم نقد اور نصف قسطوں میں لے لیں۔ وہ شاید ضرورت مند تھے یا پھر اس ایجنسی سے جان چھڑانا چاہتے تھے۔ اس لیے فوراً رضامند ہوگئے۔ چناںچہ ہم نے انہیں 5ہزار رنگٹ نقد ادا کردیے اور بقیہ تین سال میں قسط وار ادا کرنے کا معاہدہ کرلیا۔
اس زمانے میں بھی سیکیوریٹی ایجنسی چلانے کے لیے کم از کم 5 لاکھ رنگٹ ہاتھ میں ہونا ضروری تھا۔ بہر حال ہم نے اﷲ کا نام لے کر 1981میں کام کا آغاز کردیا۔ اﷲ تعالیٰ کی مہربانی اور ہم دونوں کی انتھک محنت کا یہ نتیجہ نکلا کہ ہمیں مختلف کمپنیوں اور فرموں سے گارڈ مہیا کرنے کے کنٹریکٹ ملنا شروع ہوگئے۔ 1984ء تک ہماری سیکیوریٹی فرم کوالالمپور کی چند بڑی سیکیوریٹی ایجنسیوں میں شمار ہونے لگی۔
یوں رفتہ رفتہ اپنی انتھک محنت سے آج ہم اس مقام تک پہنچے ہیںکہ ہماری فرم کی شاخیں پورے ملک میں قائم ہیں۔ اس وقت ہماری فرم میں6ہزار ملازمین کام کرتے ہیں اور ملک کے 60 شہروں میں اس کی شاخیں قائم ہیں، جب کہ ہزاروں کی تعداد میں جدید آتشین اسلحہ اور ڈھائی سو کے قریب آرمرڈ گاڑیاں فرم کی ملکیت ہیں۔
بہ حیثیت خاتون اپنی پیشہ ورانہ زندگی کی مشکلات بتاتے ہوئے وہ کہتی ہیں کہ مردوں کے اس معاشرے میں خواتین کے لیے کام کرنا انتہائی دشوار ہے۔ حالاںکہ ملائیشیا میں ماحول تنگ نظری کا نہیں ہے، پھر بھی یہ مردوں کی دنیا ہے، جہاں عورت کو قدم قدم پر مردوں سے کئی گنا زیادہ دشواریوں سے گزرنا پڑتا ہے۔ مجھے فخر ہے کہ ازدواجی زندگی کے حوالے سے میرا انتخاب شان دار تھا۔
میرے شوہر میرے لیے Three-in-one ہیں، یعنی ایک مخلص دوست، بااعتماد جیون ساتھی اور نیک نیت بزنس پارٹنر۔ وہ میرے ساتھ بھرپور تعاون کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ انہوں نے ہمیشہ میری سیاسی اور سماجی سرگرمیوں کی حوصلہ افزائی کی، جس کی وجہ سے مجھے کھل کر اپنی صلاحیتوں کے اظہار کا موقع مل سکا اور میں ایک سیکیوریٹی فرم کی چیر پرسن ہوں۔
ملائیشیا اور دیگر مسلم ممالک میں صنفی امتیاز کے حوالے سے موازنہ کرتے ہوئے وہ کہتی ہیں کہ ملائیشیا دیگر مسلم ممالک سے خاصا مختلف ہے۔ یہاں دوسرے ملکوں کی طرح خواتین کے کام کرنے پر کوئی قدغن نہیں ہے، لیکن معاشرے کی کچھ ثقافتی پابندیاں ضرور ہیں۔ ملائیشیا مسلم دنیا کا وہ واحد ملک ہے، جہاں خواتین کے کام کرنے کو معیوب نہیں سمجھا جاتا۔
ریاستی قوانین بھی خواتین کو ہر پیشہ اختیار کرنے کی اجازت دیتے ہیں اور انہیں مکمل تحفظ بھی فراہم کرتے ہیں۔ لیکن آپ کو سب سے پہلے مغرب اور مشرق کے فرق کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ ملائیشیا ایک مسلم ملک ہے، جہاں تمام شہری بشمول خواتین اسلامی روایات کی بھرپور انداز میں پاس داری کرتے ہیں۔ اگر ہم مغرب کی طرح مادر پدر آزاد نہیں ہیں تو مشرق وسطیٰ یا دیگر مسلم ممالک کی طرح بند معاشرہ بھی نہیں ہیں۔ ملائیشیا میں 1970ء کے بعد تیز رفتار ترقی اور اس کے نتیجے میں اربنائزیشن ہوئی ہے۔ اس لیے ملائیشیا کے سماج کو جدید لبرل اربنائزڈ معاشرت کے ساتھ ایک اسلامی معاشرے کے طور پر دیکھنا چاہیے۔
ہماری خواتین دفاتر اور فیکٹریوں میں کام کرتی ہیں، ساتھ ہی مساجد میں نماز بھی ادا کرتی ہیں۔ چوںکہ ہم لوگ شافعی فقہہ کے ماننے والے ہیں، جس میں خواتین کو مساجد میں نماز ادا کرنے کی اجازت ہے، چناں چہ ہر مسجد میں خواتین کے لیے جگہ مخصوص ہوتی ہے۔ لہٰذا ہماری جدیدیت ہماری اپنی ثقافتی روایات اور مذہبی احکامات کے تابع ہے۔ یوں آپ کہہ سکتے ہیں کہ ملائیشیا ایک کھلا معاشرہ ہے، جہاں مردوزن کے درمیان امتیاز دیگر مسلم ممالک کے مقابلے میں نہ ہونے کے برابر ہے اور خواتین کو مکمل معاشی بااختیاریت حاصل ہے۔
پیشہ ورانہ اور سماجی مصروفیات کے گھریلو زندگی پر اثرانداز ہونے سے متعلق سوال کے جواب میں مزنہ حمید نے کہا کہ میرے شوہر نے مجھ سے بھرپور تعاون کیا۔ ہمارے عزیز واقارب بھی ہمارے یہاں آتے رہتے تھے۔ میرے شوہر کے نانا زیادہ تر ہمارے ساتھ ہی رہتے تھے۔ میں اپنے منہ سے اپنی تعریف کرنا پسند نہیں کروں گی،لیکن آپ میرے شوہر سے اس بات کی تصدیق کرسکتے ہیں کہ جس زمانے میں ہمارا کاروبار ابھی نیا نیا تھااور ہم گھریلوملازمین رکھنے کی استعداد نہیں رکھتے تھے، میںکئی برس تک دوپہر کو دفتر سے گھر آکر اپنے ناناسسر کے لیے کھانا تیار کرکے انہیں دیا کرتی تھی، اس کے بعد دوبارہ دفتر جایا کرتی تھی۔
1990 میں شاہین کے والدین بھی پاکستان سے مستقلاً یہاں آگئے اور یوں ہم ایک مشرقی خاندان کے طور پر ساتھ رہنے لگے۔ میں نے کبھی اس خاندانی نظام پر اعتراض نہیں کیا۔ دراصل میرے شوہر نے ہر موقع پر میرا بھرپور ساتھ دیا اور انہوں نے ماں باپ اور بیوی کے رشتے میں توازن قائم رکھا۔ انہوں نے ہمیشہ میری سرگرمیوں کی حوصلہ افزائی کی جس کی وجہ سے مجھے گھریلو زندگی میں کسی قسم کی الجھن نہیں ہوئی۔ آج بھی ہمارے گھر میں مہمانوں کا تانتا بندھا رہتا ہے اور کبھی میرے، کبھی میرے شوہر کے رشتے دار ہفتوں کے حساب سے ہمارے یہاں قیام کرتے ہیں۔ شاہین کی نانی تو مستقلاً ہمارے ساتھ ہی رہتی ہیں، وہ بہت مہمان نواز ہیں اس لیے مہمانوں کو گھر میں میری عدم موجودگی کا احساس نہیں ہوتا۔
مزنہ حمید کے پانچ بچے ہیں تین بیٹیاں اور دو بیٹے۔ سب سے بڑی بیٹی نے انگلستان سے معاشیات میں گریجویشن کی ہے۔ ان کی اپنی سیکیوریٹی ایجنسی ہے۔ ان کی شادی موجودہ وزیراعظم نجیب رزاق کے بیٹے نزار سے ہوئی ہے۔ ان کے تین بیٹے ہیں۔ مزنہ کے بڑے بیٹے رضا نے امریکا کی نیویارک سٹی یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کی ہے۔ وہ تعمیرات کے شعبہ سے وابستہ ہیں اور اپنی کمپنی چلارہے ہیں۔ دوسری بیٹی شمیم چارٹرڈ اکائونٹینٹ ہیں۔ وہ بھی شادی شدہ اور ایک بیٹی کی ماں ہیں۔ اس کا بھی اپنا ذاتی کاروبار ہے۔
چھوٹے بیٹے نے حال ہی میں لندن سے گریجویشن کی ہے اور ابھی کاروبار کے بارے میں سیکھ رہا ہے۔ سب سے چھوٹی بیٹی کالج میں ہے اور یہاں تعلیم مکمل کرنے کے بعد اعلیٰ تعلیم کے لیے انگلستان یا امریکا جائے گی۔ مزنہ کہتی ہیں کہ میں اپنی تمام تر مصروفیات کے باوجود بچوں کی تعلیم سے کبھی غافل نہیں رہی۔ میرے شوہر نرم طبیعت ہیں، اس لیے میں نے بچوں کے ساتھ قدرے سخت رویہ اختیار کیا ہے، تاکہ توازن برقرار رہے۔
مزنہ عملی سیاست میں متحرک اور حکم راں جماعت UMNO کے خواتین ونگ کی صدر ہیں۔ وہ کہتی ہیں، میں صرف سیاسی طور پر ہی فعال نہیں ہوں بلکہ سماجی طور پر بھی خاصی فعال ہوں۔ میں اپنی ریاست کڈا کے سلطان کے قائم کردہ فلاحی ٹرسٹ کی رکن ہونے کے علاوہ پیشہ ور خواتین کی انجمن کی صدر بھی ہوں۔ اس کے علاوہ حکم راں جماعت کے لیے خواتین کو موبلائز بھی کرتی ہوں۔ سابق وزیراعظم مہاتیر محمد سے ہمارے قریبی خاندانی مراسم ہیں، جب کہ موجودہ وزیراعظم میرے سمدھی ہیں، لیکن میں نے آج تک اپنی جماعت سے کوئی غیرضروری یا غیرقانونی مراعت نہیں لی ہے۔ ہمارے دامن پر کسی قسم کی کرپشن کا کوئی دھبا نہیں ہے، جس کی وجہ سے ہمارا کاروبار دن دونی رات چونی ترقی کررہا ہے اور ہماری جماعت بھی عام انتخابات میں مسلسل کام یابی حاصل کرتی چلی آرہی ہے۔
مزنہ حمید کا پاکستانی خواتین سے رابطہ رہتا ہے۔ وہ کہتی ہیں، میں اب تک جتنی بھی پاکستانی خواتین سے ملی ہوں مجھے ان میں بہت پوٹینشیل نظر آیا ہے۔ میں نے محسوس کیا ہے کہ پاکستان میں شرح خواندگی خاص طور پر خواتین میں بہت کم ہے، جس کی وجہ سے خواتین اعتماد سے محروم ہیں۔ اس کے علاوہ آپ کے معاشرے میں قدیم قبائلی اور جاگیردارانہ روایات بھی خاصی مضبوط ہیں، جو خواتین کے ساتھ امتیازی سلوک کا سبب ہیں۔ میرے خیال میں آپ کی سول سوسائٹی کو تعلیم کے فروغ پر خصوصی توجہ دینی چاہیے۔
میں اکثر اخبارات میں پاکستان میں خواتین کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کے بارے میں پڑھتی رہتی ہوں، جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس پس ماندگی کا اصل سبب خواندگی کی شرح میں تشویش ناک حد تک کمی ہے۔ ہم نے 1957ء میں آزادی کے بعد سب سے پہلا کام یہی کیا تھا کہ تعلیم کو عام کیا جائے۔ آپ کو حیرت ہوگی کہ جنوب مشرقی ایشیائی ممالک میں ہمارا تعلیمی بجٹ سب سے زیادہ ہے۔ ہمارے اسکول بچوں کوAلیول تک مفت تعلیم مہیا کرنے کے علاوہ مستحق طلبہ وطالبات کو کتابیں اور یونیفارم بھی فراہم کرتے ہیں۔ Aلیول میں امتیازی نمبر حاصل کرنے والے طلبہ وطالبات کو بیرون ملک تعلیم کے لیے وظائف بھی دیے جاتے ہیں۔ تعلیم، صنعت کاری اور دیگر معاشی سرگرمیوں نے ملائیشیا کو تیزرفتار ترقی کی راہ پر گام زن کیا ہے اور ہم نے ایک روشن خیال معاشرہ تشکیل دیا ہے، جس میں مردوزن کے امتیاز کو خاصی حد تک ختم کردیا ہے۔
یہ الفاظ اس ملائی خاتون کے ہیں، جو 40برس سے ان تھک محنت کرتے ہوئے آج ملائیشیا کی ایک کام یاب سیاسی شخصیت اور بزنس وومین ہیں۔ وہ غالباً دنیا کی پہلی خاتون ہیں، جنہوں نے نہ صرف نجی شعبے میں سیکیوریٹی ایجنسی قائم کی، بلکہ اسے کام یابی سے چلا بھی رہی ہیں۔
30 برس قبل سیکیوریٹی فورس (Securiforce) کے نام سے قائم کی گئی یہ سیکیوریٹی ایجنسی اس وقت ملائیشیا میں حفاظتی عملہ مہیا کرنے والی سب سے بڑی سیکیوریٹی ایجنسی ہے۔ اس کمپنی کے بینر تلے کئی کمپنیاں قائم کی گئیں، جن میں دانولومایان(Danau Lumayan)تعمیراتی کمپنی ہے جس کے سربراہ ان کے پاکستانی نژاد شوہر شاہین مرزا حبیب ہیں۔ اس کے علاوہ سیکیوریٹی فورس لاجسٹک سروسزکلیئرنگ اینڈفارورڈنگ کا بڑا ادارہ ہے، جس کی شاخیں پورے ملائیشیا کے علاوہ سنگاپور، تھائی لینڈ، چین، کوریا، ترکی اور جرمنی میں قائم ہیں۔
سیاست میں وہ یونائٹیڈ ملائی نیشنل آرگنائزیشن(UMNO)کے خواتین ونگ کی صدر ہیں۔ اس جماعت نے چند چھوٹی جماعتوں کو ساتھ ملاکر بریساں نیشنل (نیشنل فرنٹ) قائم کیا ہے، جو آزادی کے بعد سے اب تک اقتدار میں ہے۔ اس کے علاوہ وہ انجمنِ مقررین اور ملائیشیا کے پروفیشنل وومن فورم کی بھی صدر ہیں۔ وہ ملائیشیا کی شمالی ریاست کڈاکے سلطان عبدالحلیم محب شاہ کے نام پر قائم فلاحی ٹرسٹ کی نگراں ہیں۔ وہ جنوب مشرقی ایشیا کی واحد خاتون ہیں جن کے الیکٹرونک اور پرنٹ میڈیا میں سب سے زیادہ انٹرویوز نشر اور شائع ہوئے ہیں، جب کہ اخبارات اور جرائد صفحہ اول پران کی تصاویر شائع کرتے ہیں۔
ملائیشیا کے اپنے حالیہ سفر میں ہم نے مزنہ حمید سے ملاقات کی۔ ان سے ہونے والی گفتگو قارئین کی نذر ہے۔
مزنہ حمید اس مقام تک پہنچنے کے لیے جن مراحل سے گزریں ان کے بارے میں وہ کہتی ہیں کہ مجھے اپنے زندگی میں بہت طویل اور صبرآزما جدوجہد کرنا پڑی ہے۔ کوئی عورت اس کا تصور بھی نہیں کرسکتی۔ ابھی میں بہت چھوٹی تھی کہ میرے والدین کے درمیان اختلافات کے نتیجے میں طلاق ہوگئی۔ میری سپردگی نے ایک نیا قضیہ کھڑا کردیا۔ یوں بہت چھوٹی عمر میں کچہری اور اس کی کارروائی سے میری شناسائی ہوئی۔ کئی مہنیوں پر محیط تھکادینے والی عدالتی کارروائی کے بعد بالآخر مجھے میرے ناناکے سپرد کردیا گیا، جن کی کڈا کے ایک گائوں میں تھوڑی سی زرعی زمین تھی، جس پر پام اور ربر کا باغ تھا۔
نانا اور نانی نے گو والدین کی کمی محسوس نہیں ہونے دی، لیکن میرے ذہن میں بہرحال ایک کسک موجود رہی۔ میرے والد دوسری شادی کرکے دوسری ریاست میں چلے گئے، جب کہ والدہ نے بھی دوسری شادی کرلی اور وہ بھی گائوں سے شہر منتقل ہوگئیں۔ اس ماحول اور کم آمدنی میں رہتے ہوئے میں نے Oلیول پاس کیا اور اعلیٰ تعلیم کے ایک قریبی شہر چلی گئی، جہاں سے میں نے کامرس کے مضامین کے ساتھ گریجویشن کیا اور قسمت آزمانے کوالالمپور آگئی۔ کوالالمپور میں ایک فرم میں ملازم ہوگئی۔ اس دوران میری ملاقات ایک پاکستانی نژاد شاہین مرزا سے ہوئی، جو انتہائی شریف اور شرمیلے نوجوان تھے۔
شاہین مرزا ایک دوسری فرم میں بطور اکائونٹینٹ خدمات سرانجام دے رہے تھے۔ ان کی پرورش بھی ان کے نانا نے کی تھی، جو کوالالمپور سے60کلومیٹر دور ایک قصبہ سرمبن میں رہتے تھے۔ ہماری دوستی جلد ہی محبت میں تبدیل ہوگئی اور ہم نے بزرگوں کی رضامندی سے1979ء میں شادی کرلی۔
شادی کے بعد ہم دونوں نے فیصلہ کیا کہ ہم اپنا ذاتی کاروبار شروع کریں گے اور اپنی زندگی کو اس طرح ملازمتوں کی نذر نہیں کریں گے۔ ہمارے پاس بہت ہی قلیل رقم تھی، جو ہم نے پس انداز کی تھی۔ کوئی بڑا کاروبار اس سے شروع نہیں ہوسکتا تھا۔ اس زمانے میں سیکیوریٹی ایجنسیوں کا رواج ابھی زیادہ عام نہیں ہوا تھا، جو ایجنسیاں کام کررہی تھیں وہ زیادہ تر ریٹائر فوجیوں کی تھیں۔
اتفاق سے ایک ریٹائر میجر صاحب سے ملاقات ہوئی، جن کی سیکیوریٹی ایجنسی خسارے میں جارہی تھی اور وہ اسے بند کرنا چاہ رہے تھے۔ ہم نے محکمۂ داخلہ میں رجسٹریشن کی درخواست دی اور سیکیوریٹی ایجنسی چلانے کا لائسنس حاصل کرلیا۔ اس کے بعد ان میجر صاحب سے درخواست کی کہ وہ نصف رقم نقد اور نصف قسطوں میں لے لیں۔ وہ شاید ضرورت مند تھے یا پھر اس ایجنسی سے جان چھڑانا چاہتے تھے۔ اس لیے فوراً رضامند ہوگئے۔ چناںچہ ہم نے انہیں 5ہزار رنگٹ نقد ادا کردیے اور بقیہ تین سال میں قسط وار ادا کرنے کا معاہدہ کرلیا۔
اس زمانے میں بھی سیکیوریٹی ایجنسی چلانے کے لیے کم از کم 5 لاکھ رنگٹ ہاتھ میں ہونا ضروری تھا۔ بہر حال ہم نے اﷲ کا نام لے کر 1981میں کام کا آغاز کردیا۔ اﷲ تعالیٰ کی مہربانی اور ہم دونوں کی انتھک محنت کا یہ نتیجہ نکلا کہ ہمیں مختلف کمپنیوں اور فرموں سے گارڈ مہیا کرنے کے کنٹریکٹ ملنا شروع ہوگئے۔ 1984ء تک ہماری سیکیوریٹی فرم کوالالمپور کی چند بڑی سیکیوریٹی ایجنسیوں میں شمار ہونے لگی۔
یوں رفتہ رفتہ اپنی انتھک محنت سے آج ہم اس مقام تک پہنچے ہیںکہ ہماری فرم کی شاخیں پورے ملک میں قائم ہیں۔ اس وقت ہماری فرم میں6ہزار ملازمین کام کرتے ہیں اور ملک کے 60 شہروں میں اس کی شاخیں قائم ہیں، جب کہ ہزاروں کی تعداد میں جدید آتشین اسلحہ اور ڈھائی سو کے قریب آرمرڈ گاڑیاں فرم کی ملکیت ہیں۔
بہ حیثیت خاتون اپنی پیشہ ورانہ زندگی کی مشکلات بتاتے ہوئے وہ کہتی ہیں کہ مردوں کے اس معاشرے میں خواتین کے لیے کام کرنا انتہائی دشوار ہے۔ حالاںکہ ملائیشیا میں ماحول تنگ نظری کا نہیں ہے، پھر بھی یہ مردوں کی دنیا ہے، جہاں عورت کو قدم قدم پر مردوں سے کئی گنا زیادہ دشواریوں سے گزرنا پڑتا ہے۔ مجھے فخر ہے کہ ازدواجی زندگی کے حوالے سے میرا انتخاب شان دار تھا۔
میرے شوہر میرے لیے Three-in-one ہیں، یعنی ایک مخلص دوست، بااعتماد جیون ساتھی اور نیک نیت بزنس پارٹنر۔ وہ میرے ساتھ بھرپور تعاون کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ انہوں نے ہمیشہ میری سیاسی اور سماجی سرگرمیوں کی حوصلہ افزائی کی، جس کی وجہ سے مجھے کھل کر اپنی صلاحیتوں کے اظہار کا موقع مل سکا اور میں ایک سیکیوریٹی فرم کی چیر پرسن ہوں۔
ملائیشیا اور دیگر مسلم ممالک میں صنفی امتیاز کے حوالے سے موازنہ کرتے ہوئے وہ کہتی ہیں کہ ملائیشیا دیگر مسلم ممالک سے خاصا مختلف ہے۔ یہاں دوسرے ملکوں کی طرح خواتین کے کام کرنے پر کوئی قدغن نہیں ہے، لیکن معاشرے کی کچھ ثقافتی پابندیاں ضرور ہیں۔ ملائیشیا مسلم دنیا کا وہ واحد ملک ہے، جہاں خواتین کے کام کرنے کو معیوب نہیں سمجھا جاتا۔
ریاستی قوانین بھی خواتین کو ہر پیشہ اختیار کرنے کی اجازت دیتے ہیں اور انہیں مکمل تحفظ بھی فراہم کرتے ہیں۔ لیکن آپ کو سب سے پہلے مغرب اور مشرق کے فرق کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ ملائیشیا ایک مسلم ملک ہے، جہاں تمام شہری بشمول خواتین اسلامی روایات کی بھرپور انداز میں پاس داری کرتے ہیں۔ اگر ہم مغرب کی طرح مادر پدر آزاد نہیں ہیں تو مشرق وسطیٰ یا دیگر مسلم ممالک کی طرح بند معاشرہ بھی نہیں ہیں۔ ملائیشیا میں 1970ء کے بعد تیز رفتار ترقی اور اس کے نتیجے میں اربنائزیشن ہوئی ہے۔ اس لیے ملائیشیا کے سماج کو جدید لبرل اربنائزڈ معاشرت کے ساتھ ایک اسلامی معاشرے کے طور پر دیکھنا چاہیے۔
ہماری خواتین دفاتر اور فیکٹریوں میں کام کرتی ہیں، ساتھ ہی مساجد میں نماز بھی ادا کرتی ہیں۔ چوںکہ ہم لوگ شافعی فقہہ کے ماننے والے ہیں، جس میں خواتین کو مساجد میں نماز ادا کرنے کی اجازت ہے، چناں چہ ہر مسجد میں خواتین کے لیے جگہ مخصوص ہوتی ہے۔ لہٰذا ہماری جدیدیت ہماری اپنی ثقافتی روایات اور مذہبی احکامات کے تابع ہے۔ یوں آپ کہہ سکتے ہیں کہ ملائیشیا ایک کھلا معاشرہ ہے، جہاں مردوزن کے درمیان امتیاز دیگر مسلم ممالک کے مقابلے میں نہ ہونے کے برابر ہے اور خواتین کو مکمل معاشی بااختیاریت حاصل ہے۔
پیشہ ورانہ اور سماجی مصروفیات کے گھریلو زندگی پر اثرانداز ہونے سے متعلق سوال کے جواب میں مزنہ حمید نے کہا کہ میرے شوہر نے مجھ سے بھرپور تعاون کیا۔ ہمارے عزیز واقارب بھی ہمارے یہاں آتے رہتے تھے۔ میرے شوہر کے نانا زیادہ تر ہمارے ساتھ ہی رہتے تھے۔ میں اپنے منہ سے اپنی تعریف کرنا پسند نہیں کروں گی،لیکن آپ میرے شوہر سے اس بات کی تصدیق کرسکتے ہیں کہ جس زمانے میں ہمارا کاروبار ابھی نیا نیا تھااور ہم گھریلوملازمین رکھنے کی استعداد نہیں رکھتے تھے، میںکئی برس تک دوپہر کو دفتر سے گھر آکر اپنے ناناسسر کے لیے کھانا تیار کرکے انہیں دیا کرتی تھی، اس کے بعد دوبارہ دفتر جایا کرتی تھی۔
1990 میں شاہین کے والدین بھی پاکستان سے مستقلاً یہاں آگئے اور یوں ہم ایک مشرقی خاندان کے طور پر ساتھ رہنے لگے۔ میں نے کبھی اس خاندانی نظام پر اعتراض نہیں کیا۔ دراصل میرے شوہر نے ہر موقع پر میرا بھرپور ساتھ دیا اور انہوں نے ماں باپ اور بیوی کے رشتے میں توازن قائم رکھا۔ انہوں نے ہمیشہ میری سرگرمیوں کی حوصلہ افزائی کی جس کی وجہ سے مجھے گھریلو زندگی میں کسی قسم کی الجھن نہیں ہوئی۔ آج بھی ہمارے گھر میں مہمانوں کا تانتا بندھا رہتا ہے اور کبھی میرے، کبھی میرے شوہر کے رشتے دار ہفتوں کے حساب سے ہمارے یہاں قیام کرتے ہیں۔ شاہین کی نانی تو مستقلاً ہمارے ساتھ ہی رہتی ہیں، وہ بہت مہمان نواز ہیں اس لیے مہمانوں کو گھر میں میری عدم موجودگی کا احساس نہیں ہوتا۔
مزنہ حمید کے پانچ بچے ہیں تین بیٹیاں اور دو بیٹے۔ سب سے بڑی بیٹی نے انگلستان سے معاشیات میں گریجویشن کی ہے۔ ان کی اپنی سیکیوریٹی ایجنسی ہے۔ ان کی شادی موجودہ وزیراعظم نجیب رزاق کے بیٹے نزار سے ہوئی ہے۔ ان کے تین بیٹے ہیں۔ مزنہ کے بڑے بیٹے رضا نے امریکا کی نیویارک سٹی یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کی ہے۔ وہ تعمیرات کے شعبہ سے وابستہ ہیں اور اپنی کمپنی چلارہے ہیں۔ دوسری بیٹی شمیم چارٹرڈ اکائونٹینٹ ہیں۔ وہ بھی شادی شدہ اور ایک بیٹی کی ماں ہیں۔ اس کا بھی اپنا ذاتی کاروبار ہے۔
چھوٹے بیٹے نے حال ہی میں لندن سے گریجویشن کی ہے اور ابھی کاروبار کے بارے میں سیکھ رہا ہے۔ سب سے چھوٹی بیٹی کالج میں ہے اور یہاں تعلیم مکمل کرنے کے بعد اعلیٰ تعلیم کے لیے انگلستان یا امریکا جائے گی۔ مزنہ کہتی ہیں کہ میں اپنی تمام تر مصروفیات کے باوجود بچوں کی تعلیم سے کبھی غافل نہیں رہی۔ میرے شوہر نرم طبیعت ہیں، اس لیے میں نے بچوں کے ساتھ قدرے سخت رویہ اختیار کیا ہے، تاکہ توازن برقرار رہے۔
مزنہ عملی سیاست میں متحرک اور حکم راں جماعت UMNO کے خواتین ونگ کی صدر ہیں۔ وہ کہتی ہیں، میں صرف سیاسی طور پر ہی فعال نہیں ہوں بلکہ سماجی طور پر بھی خاصی فعال ہوں۔ میں اپنی ریاست کڈا کے سلطان کے قائم کردہ فلاحی ٹرسٹ کی رکن ہونے کے علاوہ پیشہ ور خواتین کی انجمن کی صدر بھی ہوں۔ اس کے علاوہ حکم راں جماعت کے لیے خواتین کو موبلائز بھی کرتی ہوں۔ سابق وزیراعظم مہاتیر محمد سے ہمارے قریبی خاندانی مراسم ہیں، جب کہ موجودہ وزیراعظم میرے سمدھی ہیں، لیکن میں نے آج تک اپنی جماعت سے کوئی غیرضروری یا غیرقانونی مراعت نہیں لی ہے۔ ہمارے دامن پر کسی قسم کی کرپشن کا کوئی دھبا نہیں ہے، جس کی وجہ سے ہمارا کاروبار دن دونی رات چونی ترقی کررہا ہے اور ہماری جماعت بھی عام انتخابات میں مسلسل کام یابی حاصل کرتی چلی آرہی ہے۔
مزنہ حمید کا پاکستانی خواتین سے رابطہ رہتا ہے۔ وہ کہتی ہیں، میں اب تک جتنی بھی پاکستانی خواتین سے ملی ہوں مجھے ان میں بہت پوٹینشیل نظر آیا ہے۔ میں نے محسوس کیا ہے کہ پاکستان میں شرح خواندگی خاص طور پر خواتین میں بہت کم ہے، جس کی وجہ سے خواتین اعتماد سے محروم ہیں۔ اس کے علاوہ آپ کے معاشرے میں قدیم قبائلی اور جاگیردارانہ روایات بھی خاصی مضبوط ہیں، جو خواتین کے ساتھ امتیازی سلوک کا سبب ہیں۔ میرے خیال میں آپ کی سول سوسائٹی کو تعلیم کے فروغ پر خصوصی توجہ دینی چاہیے۔
میں اکثر اخبارات میں پاکستان میں خواتین کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کے بارے میں پڑھتی رہتی ہوں، جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس پس ماندگی کا اصل سبب خواندگی کی شرح میں تشویش ناک حد تک کمی ہے۔ ہم نے 1957ء میں آزادی کے بعد سب سے پہلا کام یہی کیا تھا کہ تعلیم کو عام کیا جائے۔ آپ کو حیرت ہوگی کہ جنوب مشرقی ایشیائی ممالک میں ہمارا تعلیمی بجٹ سب سے زیادہ ہے۔ ہمارے اسکول بچوں کوAلیول تک مفت تعلیم مہیا کرنے کے علاوہ مستحق طلبہ وطالبات کو کتابیں اور یونیفارم بھی فراہم کرتے ہیں۔ Aلیول میں امتیازی نمبر حاصل کرنے والے طلبہ وطالبات کو بیرون ملک تعلیم کے لیے وظائف بھی دیے جاتے ہیں۔ تعلیم، صنعت کاری اور دیگر معاشی سرگرمیوں نے ملائیشیا کو تیزرفتار ترقی کی راہ پر گام زن کیا ہے اور ہم نے ایک روشن خیال معاشرہ تشکیل دیا ہے، جس میں مردوزن کے امتیاز کو خاصی حد تک ختم کردیا ہے۔