شاہ زیب شاہ رخ اور سراج کی فائرنگ سے ہلاک ہوا عینی شاہدین
دونوں گواہوں کے بیانات قلمبندکرلیے گئے،ملزمان کوفرارمیںمدداورپناہ دینے پرسکندرجتوئی کوپولیس کی تحویل میں دیاگیا
شاہزیب قتل کیس کے عینی شاہدین کاکہناہے کہ شاہ زیب کی ہلاکت شاہ رخ جتوئی اور سراج تالپورکی فائرنگ کے باعث ہوئی۔
جوڈیشل مجسٹریٹ جنوبی وقاراحمدسومرونے جمعے کو شاہ زیب قتل کیس میں دوچشم دیدگواہوں کے بیانات قلمبندکیے،گواہوں نے بتایاکہ کمرہ عدالت میں موجود تینوں افرادسجادتالپور،سراج تالپوراورمرتضی لاشاری وہی افرادہیں جنھوں نے24/25دسمبرکی درمیانی شب شاہ زیب کی گاڑی پرفائرنگ کی تھی،گواہوں نے مزیدبتایاکہ24دسمبرکوشاہ زیب کی بڑی ہمشیرہ کا ولیمہ تھا، ولیمے سے واپسی پرچھوٹی بہن پہلے گھرپہنچی،وہ گھرکا تالاکھول ہی رہی تھی کہ مرتضی لاشاری نے اس سے بدتمیزی کی کوشش کی،اس صورتحال پراس نے اپنی والدہ کو موبائل فون کے ذریعے آگاہ کیا۔
والدہ نے شاہ زیب کوبہن کی مدد کیلیے فوری پہنچنے کہا،شاہ زیب جب وہاں پہنچاتومرتضی لاشاری اس وقت تک وہاں موجود تھا، دونوں کے درمیان تکرار ہوئی اورشاہ زیب نے مرتضی لاشاری کوتھپڑرسید کردیا،ان کے جھگڑے کی اطلاع جب شاہ زیب کے والداورنگزیب کو ہوئی تووہ وہاں پہنچے اوردونوں فریقین میں صلح صفائی کرادی تاہم مرتضی لاشاری کی مددکیلیے آنے والے شاہ رخ جتوئی نے اس راضی نامے کوتسلیم نہیں کیااور لوگوں کے منتشر ہوجانے پرانھوں نے شاہ زیب کاتعاقب کیا،گاڑی میں شاہ رخ جتوئی اور سراج تالپور آگے بیٹھے تھے جبکہ سجادتالپوراوران کاملازم مرتضی لاشاری پیچھے کی نشستوں پربیٹھے تھے۔
ملزمان کے تعاقب اورفائرنگ کے نتیجے میں شاہ زیب کی گاڑی الٹ گئی ،ملزمان کی گاڑی سے پچھلی نشستوں پربیٹھے ملزمان سجاد تالپوراور ان کا ملازم مرتضی لاشاری نیچے اترے اورشاہ زیب کی گاڑی کے پاس گئے ، انھوںنے چلا کربتایاکہ شاہ زیب ابھی زخمی ہے مرانہیں،شاہ زیب کی موت یقینی بنانے کے لیے سراج اورشاہ رخ نے پھر فائرنگ کی،اس عرصے میں گواہ بھی وہاں پہنچ چکے تھے انھوں نے اسٹریٹ لائٹس کی روشنی میں ملزمان کودیکھا ، ملزمان شاہ زیب کی موت کایقین ہوجانے کے بعدوہاں سے فرارہوگیا۔ گواہوں کے مطابق انھوں نے شاہ زیب کواسپتال پہنچایا لیکن وہاں پہنچنے پرڈاکٹروں نے بتایاکہ وہ دم توڑ چکاہے۔
جمعہ کو مقدمے کے مرکزی ملزم شاہ رخ جتوئی کے والدسکندر جتوئی کوغلام مصطفی میمن پرمشتمل انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت نمبر3میں پیش کیاگیا،انہیں جمعرات کو سپریم کورٹ اسلام آبادکے باہر سے گرفتار کیاگیاتھا،استغاثہ کے مطابق سکندرجتوئی نے مقدمہ قتل میں ملوث اپنے بیٹے اوراس کے ساتھیوں کو پولیس سے چھپنے کیلیے جگہ فراہم کی اورموقع ملتے ہی انہیںفرار کرادیاتاہم 3ملزمان کو پولیس نے اندرون سندھ موروسے گر فتارکرلیا جبکہ مرکزی ملزم شاہ رخ جتوئی دبئی فرارہوگیا،اسپیشل پبلک پراسیکیوٹر عبدالمعروف نے عدالت سے استدعاکی کہ اس مقدمے کے دیگرملزمان بھی 16جنوری تک پولیس کی تحویل میں ہیں اس لیے سکندرجتوئی کو بھی ایک ہفتے کے ریمانڈپرپولیس کے حوالے کیا جائے تاکہ اس سے مفرور ملزم کے بارے میں پوچھ گچھ کی جاسکے۔
عدالت کوبتایاگیا کہ قتل میں استعمال ہونے والی گاڑیوں اوراسلحے کے حوالے سے بھی تفتیش کرناہے جبکہ گرفتار ملزم سکندرجتوئی سے ان مقامات کابھی پتہ چلاناہے جہاں اس نے ملزمان کوپناہ دی تھی ،عدالت نے درخواست منظورکرتے ہوئے سکندر جتوئی کو 16جنوری تک پولیس کی تحویل میںدیدیا،اس موقع پر ملزم سکندر جتوئی کے وکیل شوکت حیات ایڈووکیٹ نے دو درخواستیں عدالت میں پیش کیں ،ایک میں عدالت کو بتایاگیاتھاکہ ملزم کی عمر60سال سے زائد ہے ،وہ دل اورفشارخون کے امراض میں مبتلا ہے اس لیے دوران ریمانڈ پولیس کو ہدایت کی جائے کہ وہ مطلوبہ ادویہ اور دیگر ضروری سہولتیں فراہم کرے۔
سرکاری وکیل عبدالمعروف نے درخواست کی مخالفت نہیںکی اور تسلیم کیاکہ یہ ہر شخص کابنیادی آئینی حق ہے کہ اسے صحت کی سہولیات فراہم کی جائیں اوراگرملزم کی حالت کے لیے ضروری ہوتوانہیں اسپتال بھی لے جایا جائے، دوسری درخواست میں موقف اختیارکیا گیاتھا کہ مقدمے میں دفاع کیلیے قانونی مشاورت کیلیے وکلاکوملزم سے ملاقات کی اجازت دی جائے،عدالت نے یہ درخواست بھی منظورکرلی ۔
جوڈیشل مجسٹریٹ جنوبی وقاراحمدسومرونے جمعے کو شاہ زیب قتل کیس میں دوچشم دیدگواہوں کے بیانات قلمبندکیے،گواہوں نے بتایاکہ کمرہ عدالت میں موجود تینوں افرادسجادتالپور،سراج تالپوراورمرتضی لاشاری وہی افرادہیں جنھوں نے24/25دسمبرکی درمیانی شب شاہ زیب کی گاڑی پرفائرنگ کی تھی،گواہوں نے مزیدبتایاکہ24دسمبرکوشاہ زیب کی بڑی ہمشیرہ کا ولیمہ تھا، ولیمے سے واپسی پرچھوٹی بہن پہلے گھرپہنچی،وہ گھرکا تالاکھول ہی رہی تھی کہ مرتضی لاشاری نے اس سے بدتمیزی کی کوشش کی،اس صورتحال پراس نے اپنی والدہ کو موبائل فون کے ذریعے آگاہ کیا۔
والدہ نے شاہ زیب کوبہن کی مدد کیلیے فوری پہنچنے کہا،شاہ زیب جب وہاں پہنچاتومرتضی لاشاری اس وقت تک وہاں موجود تھا، دونوں کے درمیان تکرار ہوئی اورشاہ زیب نے مرتضی لاشاری کوتھپڑرسید کردیا،ان کے جھگڑے کی اطلاع جب شاہ زیب کے والداورنگزیب کو ہوئی تووہ وہاں پہنچے اوردونوں فریقین میں صلح صفائی کرادی تاہم مرتضی لاشاری کی مددکیلیے آنے والے شاہ رخ جتوئی نے اس راضی نامے کوتسلیم نہیں کیااور لوگوں کے منتشر ہوجانے پرانھوں نے شاہ زیب کاتعاقب کیا،گاڑی میں شاہ رخ جتوئی اور سراج تالپور آگے بیٹھے تھے جبکہ سجادتالپوراوران کاملازم مرتضی لاشاری پیچھے کی نشستوں پربیٹھے تھے۔
ملزمان کے تعاقب اورفائرنگ کے نتیجے میں شاہ زیب کی گاڑی الٹ گئی ،ملزمان کی گاڑی سے پچھلی نشستوں پربیٹھے ملزمان سجاد تالپوراور ان کا ملازم مرتضی لاشاری نیچے اترے اورشاہ زیب کی گاڑی کے پاس گئے ، انھوںنے چلا کربتایاکہ شاہ زیب ابھی زخمی ہے مرانہیں،شاہ زیب کی موت یقینی بنانے کے لیے سراج اورشاہ رخ نے پھر فائرنگ کی،اس عرصے میں گواہ بھی وہاں پہنچ چکے تھے انھوں نے اسٹریٹ لائٹس کی روشنی میں ملزمان کودیکھا ، ملزمان شاہ زیب کی موت کایقین ہوجانے کے بعدوہاں سے فرارہوگیا۔ گواہوں کے مطابق انھوں نے شاہ زیب کواسپتال پہنچایا لیکن وہاں پہنچنے پرڈاکٹروں نے بتایاکہ وہ دم توڑ چکاہے۔
جمعہ کو مقدمے کے مرکزی ملزم شاہ رخ جتوئی کے والدسکندر جتوئی کوغلام مصطفی میمن پرمشتمل انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت نمبر3میں پیش کیاگیا،انہیں جمعرات کو سپریم کورٹ اسلام آبادکے باہر سے گرفتار کیاگیاتھا،استغاثہ کے مطابق سکندرجتوئی نے مقدمہ قتل میں ملوث اپنے بیٹے اوراس کے ساتھیوں کو پولیس سے چھپنے کیلیے جگہ فراہم کی اورموقع ملتے ہی انہیںفرار کرادیاتاہم 3ملزمان کو پولیس نے اندرون سندھ موروسے گر فتارکرلیا جبکہ مرکزی ملزم شاہ رخ جتوئی دبئی فرارہوگیا،اسپیشل پبلک پراسیکیوٹر عبدالمعروف نے عدالت سے استدعاکی کہ اس مقدمے کے دیگرملزمان بھی 16جنوری تک پولیس کی تحویل میں ہیں اس لیے سکندرجتوئی کو بھی ایک ہفتے کے ریمانڈپرپولیس کے حوالے کیا جائے تاکہ اس سے مفرور ملزم کے بارے میں پوچھ گچھ کی جاسکے۔
عدالت کوبتایاگیا کہ قتل میں استعمال ہونے والی گاڑیوں اوراسلحے کے حوالے سے بھی تفتیش کرناہے جبکہ گرفتار ملزم سکندرجتوئی سے ان مقامات کابھی پتہ چلاناہے جہاں اس نے ملزمان کوپناہ دی تھی ،عدالت نے درخواست منظورکرتے ہوئے سکندر جتوئی کو 16جنوری تک پولیس کی تحویل میںدیدیا،اس موقع پر ملزم سکندر جتوئی کے وکیل شوکت حیات ایڈووکیٹ نے دو درخواستیں عدالت میں پیش کیں ،ایک میں عدالت کو بتایاگیاتھاکہ ملزم کی عمر60سال سے زائد ہے ،وہ دل اورفشارخون کے امراض میں مبتلا ہے اس لیے دوران ریمانڈ پولیس کو ہدایت کی جائے کہ وہ مطلوبہ ادویہ اور دیگر ضروری سہولتیں فراہم کرے۔
سرکاری وکیل عبدالمعروف نے درخواست کی مخالفت نہیںکی اور تسلیم کیاکہ یہ ہر شخص کابنیادی آئینی حق ہے کہ اسے صحت کی سہولیات فراہم کی جائیں اوراگرملزم کی حالت کے لیے ضروری ہوتوانہیں اسپتال بھی لے جایا جائے، دوسری درخواست میں موقف اختیارکیا گیاتھا کہ مقدمے میں دفاع کیلیے قانونی مشاورت کیلیے وکلاکوملزم سے ملاقات کی اجازت دی جائے،عدالت نے یہ درخواست بھی منظورکرلی ۔