بُک شیلف
زیر نظر کتابوں میں علمی، ادبی، سماجی اور سیاسی موضوعات پر لکھے نہایت جاندار کالم موجود ہیں۔
تحریک ختم نبوت، آغاز سے کامیابی تک
مصنف: سید سعود ساحر،قیمت:450 روپے
ناشر:راحیل پبلی کیشنز، اردو بازار ،کراچی
ویسے تو قادیانی مسلمانوں ہی کا ایک حصہ بن کر قیام پاکستان سے پہلے بھی رہ رہے تھے، وہ اور مختلف مسلم مسالک باہم علمی مکالمے کیا کرتے تھے، ایک دوسرے کو ناحق ثابت کرتے تھے تاہم پاکستان قائم ہونے کے چند برس بعد یہ اختلافات شدید ہوگئے۔ کیوں؟
''قائداعظم کی حیات اور لیاقت علی خان کے قتل تک تو معاملات ٹھیک چلے مگرجونہی خواجہ ناظم الدین وزیراعظم بنے اور سارے اختیارات نوکر شاہی کے کارندے غلام محمد کے ہاتھ میں آئے تو وزیرخارجہ سرظفراللہ خان قادیانی نے پیرپھیلانے شروع کئے... وزارت خارجہ میں بڑی تعداد میں قادیانیوں کو بھرتی کیا جنھیں مختلف ممالک میں سفارتی ذمہ داریاں دی گئیں، جہاں ان قادیانی افسروں نے اپنے تبلیغی مشن قائم کئے، بعض عرب ممالک میں خفیہ اہلکار متعین کئے جو عالمی سامراج کی ہدایت پر کام کرتے رہے۔ مرزا محمود قادیانی اپنی تقریروں میں اپنے پیروکاروں پر زور دیتا کہ وہ زیادہ سے زیادہ سرکاری محکموں کی ملازمت اختیار کریں بالخصوص فوج، پولیس، خزانہ، کسٹم، انتظامیہ، اکاؤنٹس اور انجینئرنگ پر چھاجائیں''۔
اس سے بخوبی اندازہ لگایاجاسکتاہے کہ قیام پاکستان کے بعد قادیانیوں اور مسلمانوں کے درمیان کشاکش تیز کیوں ہوئی۔ زیرنظرکتاب میں سرظفراللہ خان کی سرکشی کا بھی ذکر موجود ہے ، جبکہ وزیراعظم خواجہ ناظم الدین بے بس ہوکر خاموش ہوجاتے تھے۔ اس کے بعد کیا ہوا؟سب کچھ مرحلہ بہ مرحلہ پوری تفصیل سے بیان کیا گیاہے۔ قومی اسمبلی کی خصوصی کمیٹی میں قادیانیوں کے تین بڑوں پر ہونے والی جرح، ان کے جوابات اور دوسری تفصیلات کو پوری ذمہ داری، توجہ اور احتیاط سے کتاب کا حصہ بنادیاگیاہے۔
یادرہے کہ یہ ساری کارروائی قومی اسمبلی کے ریکارڈ میں تحریر اور آواز کی صورت میں محفوظ ہے۔ کتاب میں وزیراعظم ذوالفقارعلی بھٹو کا قومی اسمبلی سے مکمل خطاب بھی شامل ہے جس میں انھوں نے قادیانی مسئلہ پر بحث کو سمیٹا۔ جناب سید سعود ساحر کی پرلطف نثر پڑھنے والے کو خوب مسحور کرتی ہے۔ یہ کتاب ہر مسلمان بالخصوص پاکستانی گھرانے کی لائبریری کا حصہ ہونا چاہئے۔
ان کہی سیاست
مصنف: منیر احمد منیر،قیمت:400 روپے،صفحات:220
ناشر:آتش فشاں، علامہ اقبال ٹاؤن، لاہور
انکشاف کی خوبی ہے کہ وہ انسان کو حیران و پریشان کر دیتا ہے، کیونکہ اس سے قبل وہ بات صیغہ راز میں ہوتی ہے یا لوگ اس کے بارے میں کچھ اور گمان کر رہے ہوتے ہیں مگر وہ کچھ اور نکلتی ہے۔ ایسے افراد جن کا تعلق کسی نہ کسی حوالے سے حکومتی ایوانوں سے رہا ہو، ان کے منہ سے نکلی ہوئی باتیں نا صرف حکومتی رازوں سے پردہ اٹھاتی ہیں بلکہ تاریخ بھی مرتب کرتی ہیں۔ ایسا بھی ہوتا ہے کہ وہ ایسے بہت سے راز فاش کر دیتے ہیں جس سے تاریخ کی اصلاح ہوتی ہے۔ ان کہی سیاست بھی انکشافات سے بھرپور ہے یہ سید مرید حسین کا طویل انٹرویو ہے جو قومی اسمبلی کے ممبر منتخب ہونے کے علاوہ پارلیمانی کمیٹیوں کے ممبر بھی رہے۔
اس کے علاوہ ان کی اعلیٰ حکومتی عہدیداروں سے دوستی اور قربت بھی رہی۔ یوں ایسے راز بھی ان کی نظر میں رہتے تھے جن کی عوام کو بھنک تک نہیں ملتی تھی۔ جیسے'' جنرل ایوب نے گورنر جنرل غلام محمد سے استعفے پر زبردستی دستخط کرائے۔ اکبر بگٹی کی سزائے موت بحال ہوتے ہوتے رہ گئی۔ پولیس حوالدار چوہدری ظہور الٰہی سے استعفٰی لیا گیا تو وہ رو پڑا مگر پھر اس پر دولت کی دیوی مہربان ہو گئی۔ صدر ایوب نے کرمانی کو ٹھڈے مارے ۔۔۔ پھر وزیر بنا دیا''۔ زیر تبصرہ کتاب ایسے ہی انکشافات سے بھری پڑی ہے۔ تاریخ سے دلچسپی رکھنے والوں کے لئے یہ کتاب سرمایہ ہے۔
تضحیک اللغات
مصنف: زاہد مسعود،قیمت: 400 روپے،صفحات: 136
ناشر: بک ہوم، مزنگ روڈ، لاہور
مزاح نگاری کہنے سننے میں آسان مگر اسے عملی جامہ پہنانا بہت مشکل کام ہے، اس لئے مزاح نگاری کو فن کا درجہ حاصل ہے یعنی مزاح نگار بہت بڑا فنکار ہوتا ہے جو معاشرے میں ناصرف خوشیاں بکھیرتا ہے بلکہ ایک بامعنی پیغام بھی دیتا ہے۔ کہنے کو تو بہت سے لوگ پھکڑ پن اور گھٹیا جگت بازی کو بھی مزاح قرار دے دیتے ہیں مگر اسے کسی بھی طرح مزاح کا درجہ نہیں دیا جا سکتا ہے کیونکہ اس کے معاشرے پر مثبت کی بجائے منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
تضحیک اللغات میں مصنف کا انداز بہت بامعنی، مثبت اور دوسروں سے جدا ہے۔ مزاح کو اس انداز میں پہلے کم ہی برتا گیا ہے، یعنی الفاظ کو ایسے برتنا کہ سماجی، سیاسی اور معاشی حالات کا تجزیہ بھی پیش کیا جا سکے اور مزاح کا عنصر بھی اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ موجود رہے۔ عطاء الحق قاسمی کہتے ہیں '' تضحیک اللغات کے چند صفحات میری نظر سے گزرے ہیں وہ پڑھتے ہوئے تین وجوہ کی بناء پر خوشی ہوئی۔
ایک تو موضوع نیا تھا، دوسرا اس میں طنز و مزاح کی بھرپورچاشنی تھی اور تیسرے یوں کہ ہمارا مزاحیہ ادب آہستہ آہستہ بیوہ یا رنڈوا ہوتا چلا جا رہا ہے، بڑے مزاح نگار ایک ایک کر کے رخصت ہو گئے ہیں یا وہ مزید نہیں لکھ رہے ہیں، ان کی جگہ چند نوجوان لے رہے ہیںان میں ایک اضافہ زاہد مسعود کا بھی ہے۔'' مجلد کتاب کو دیدہ زیب ٹائٹل کے ساتھ شائع کیا گیا ہے۔
جھرنے
مصنف : پیروز بخت قاضی
ناشر: گلیکسی پرنٹر،G5-A ، فیصل گھمن روڈ' نشاط کالونی' لاہور
قیمت : 400 روپے
لوری مور امریکا کی مشہور افسانہ نگار ہے۔ اس کا قول ہے: ''افسانہ عشق ہے' تو ناول شادی! افسانہ تصویر ہے' تو ناول فلم !'' یہ قول افسانوی ادب کی اہمیت خوبصورت انداز میں عیاں کرتا ہے۔ زیر تبصرہ کتاب بھی افسانوں اور مصنف پر گزرے تجربات کا قابل مطالعہ مجموعہ ہے۔ پیروز بخت صاحب ایڈیشنل کمشنر کی حیثیت سے ریٹائرڈ ہوئے۔ دوران ملازمت لکھنے لکھانے کا مشغلہ بھی جاری رہا۔
جھرنے میں نو کہانیاں' پانچ ترجمہ شدہ افسانے اور پینتیس منظومات شامل ہیں۔ دیار غیر پہنچ کر نوجوان پاکستانیوں کو جن غیرمتوقع تجربات سے گزرنا پڑتا ہے' وہ ابتدائی چار کہانیوں کا موضوع ہیں۔ کتاب کی بقیہ کہانیاں بھی تلخ و شیریں معاشرتی واقعات کا بیان ہیںجبکہ ترجمہ شدہ افسانے مغربی تہذیب کے انہونے گوشے نمایاں کرتے ہیں۔یقینا جھرنے کی تخلیقات کتاب پر کیے گئے خرچ کی قیمت بخوبی ادا کر تی ہیں۔ کتاب کی پیش کش عمدہ اور کاغذ معیاری ہے۔ اس ادبی تحفے کو اپنے کتاب خانے کا حصّہ ضرور بنایئے۔
آئینہ گر(افسانے)
مصنفہ: منزہ احتشام گوندل
قیمت:400 روپے،ناشر: بک کارنر، جہلم
دیہاتی خاتون دیہاتی ہی رہتی ہے، جو بات جی میں ہوتی ہے، راست راست ، بلاکم وکاست کہہ دیتی ہے۔ وہ صاف اندازمیں سوچتی ہے اور صاف اندازمیں کہہ دیتی ہے، کسی کا ڈر نہ کسی کو خوش کرنے کی خواہش۔ افسانوں کے زیر نظر مجموعہ کی مصنفہ بھی ایسی ہی دیہاتی نکلیں، وہ ضلع سرگودھا کے ایک سرکاری کالج کی پرنسپل ہیں ۔ وہ اپنے آپ کو آزادی کی جنگجو کہتی ہیں، اپنے تخیل میں آزاد ہیں تاہم باہر سمجھوتے ہیں، دیواریںاور رکاوٹیں ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ ناراض ہیں بلکہ بغاوت پر اتری ہوئی ہیں۔
ان کے تمام افسانے اس ناراضی اور بغاوت کا کھلا اظہار ہیں۔ ''آخری خواہش''، ''تقلیب''، ''اوڈکالونی''، ''آئنہ گر''، ''غلام بنت غلام''، ''جنس گراں''، ''کمرے سے کمرے تک''، ''سیملے کیڑے''، ''کبالہ''، ''دم کشی''، ''تاریخ کا جنم''، ''تصویر''، ''خانے اور خوف''، ''تمام دکھ ہے''، ''یک بوسہ شیریں''، ''وجود''، ''قیدی''، ''یہ زمیں چپ ہے''، ''یہ دنیا چاردن کی ہے''، ''زندگی اور موت کے بیچ کی سیٹی'' اور ''بس یونہی''، ان سب افسانوں کی صورت میں افسانہ نگار نے غلط انسانی رویوں پر تاک تاک کر نشانہ لگایا ہے۔
کیا پاکستانی نیشنلزم کی کمی نہیں ؟
مصنف: عارف میاں ،صفحات: 168،قیمت: 450
ناشر: نیڈ کونسل، انڈسٹریل ایریا، گلبرگ لاہور
پاکستانی قومیت بہ ظاہر ایک ایسا موضوع ہے جو مسئلے سے زیادہ معمہ بن چکا ہے۔ اپنے قیام کے روز ِ اول سے لے کر آج تک جسے ہم حل نہیں کر پائے۔ ہمیں آج بھی اپنی شناخت کا مسئلہ درپیش ہے۔ بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح ؒ کی تقاریر میں تو پتا چلتا ہے کہ وہ پاکستانی قومیت کی بات کرتے اور پاکستان کو ایک قوم قراردیتے ہیں لیکن ان کی وفات کے بعد جوں جوں وقت گزرتا چلا گیا ہم '' ترقی '' کرکے ایک قوم سے کئی قوموں میں تقسیم ہوگئے۔
ہم پاکستان اور پاکستانیت کی بات تو ضرور کرتے ہیں لیکن عملًا ہمیں نہ پاکستان سے غرض ہے اور نہ ہی پاکستانیت سے جس کا نتیجہ ترقی معکوس یا تنزلی کا وہ سفر ہے جو بڑی سرعت کے ساتھ جاری ہے۔ عارف میاں ہمارے وہ نوجوان دانش ور اور لکھاری ہیں جن کا ایک واضح نظریہ، ایک اپنا اندازِ فکر اور اپنی ایک سوچ ہے۔ وہ دیگر پاکستانیوں کی طرح نہ تو جذباتی ہیں اور نہ ہی وہ مستعار سوچ رکھتے ہیں حالات کا منطقی انداز میں تجزیہ اور چیزوں کو ان کی حقیقی صورت میں سمجھنے اور پرکھنے کا انہیں ملکہ حاصل ہے اور پھر کسی نتیجے پر پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں۔ زیر تبصرہ کتاب ان کے اسی طرز ِ فکر اور طرز استدلال کی غماضی کرتی ہے۔
اس کتاب میں انہوں نے پاکستانی نیشنلزم کی بحث چھیڑی ہے اور مختلف نقطہ ہائے نظر اور حوالہ جات کی مدد سے اپنے اس مقدمے کو بیان کیا ہے کہ پاکستان میں پاکستانی نیشنلزم کی کمی ہے جس کی وجہ سے ہم مسائل کی دلدل میں دھنستے چلے جا رہے ہیں۔ انہوں نے بانیانِ پاکستان سمیت ان بہت سی شخصیات کی زندگی، ان کی فکر اور نظریات کے مختلف پہلووں کو اجاگر کرتے ہوئے یہ واضح کیا ہے پاکستان کا قیام ایک بے ثمر جدوجہد کا نتیجہ ہے۔ انہوں نے اس کے مقابلے میں ہمسایہ ممالک ہندوستان، بنگلہ دیش کی مثالیں بھی پیش کی ہیں اور اپنی بات کو اس جملے پر ختم کر کے اہلِ دانش کو دعوت دی ہے کہ ''نیشنل ازم کی کمی نہ ہوتی تو پاکستان کے حالات ضرور '' کچھ'' بہتر ہوتے ۔'' پاکستان کے اہل الرائے کے لیے اس پر سوچنے، غور وفکر کرنے اور اس بحث کو آگے بڑھانے اور اسے نتیجہ خیز بنانے کا یہ نادر موقع ہے۔
اٹلی ہے دیکھنے کی چیز ( سفر نامہ)
مصنفہ:سلمیٰ اعوان ، صفحات: 224 ، قیمت: 450/ روپے
ناشر : دوست پبلی کیشنز، اسلام آباد
سلمیٰ اعوان ہمارے دور کی ان خواتین ادیبوں میں سے ہیں جن کی شخصیت کی طرح تحریر بھی شگفتگی اور چاشنی لیے ہوئے ہے۔انہیں بات کرنے اور بیان کا ہنر خوب آتا ہے ۔ناول ہوںیا افسانے ان کا قلم یکساں روانی اور سلاست کے ساتھ چلتا ہے ۔سفر ناموں میں بھی انہوںنے خوب طبع آزمائی کی ہے۔ زیر تبصرہ سفر نامہ اٹلی کے حوالے سے ہے انہوں نے اپنے اس سفر نامے کے ذریعے جہاں اٹلی کے بہت سے شہروں ، اہم مقامات کی سیر کرائی ہے وہاں وہ اٹلی کی سیاسی ، سماجی ، تاریخی اہمیت، لوگوں کے رویوں او روہاں کی بودو باش کے بارے میں بھی قاری کو آگاہ کرتیں اور بڑے خوبصورت پیرائے میں بیش از بیش معلومات کا ذخیرہ قاری کے سامنے انڈیل دیتی ہیں ۔
خاتون ہونے کے باوجود انہوں نے سفر نامے کے حوالے سے کسی قسم کی تشنگی محسوس نہیں ہونے دی انہوںنے وہاں بیتے روز وشب کو بھی اسی اندا ز میں بیان کیا ہے کہ پڑھنے والا اس میں بوریت محسوس نہیں کرتا بلکہ پوری دلچسپی لیتا ہے۔ یہ کیفیت آغاز سے لے کر کتاب کے اختتام تک برقرار رہتی ہے۔ مواد کے ساتھ ساتھ کتاب کی طباعت اور گٹ اپ بھی اس قدر خوبصورت اور نفاست سے آراستہ ہے کہ کتاب دیکھنے میں بھی بھلی لگتی ہے ۔
عشق امربیل سہی
شاعرہ:عرفانہ امر ، صفحات : 144، قیمت: 500/ روپے
ناشر : ماورا پبلشرز، لاہور
عرفانہ امر بہ ظاہر ایک غیرمانوس نام محسوس ہوتا ہے کہ ہماری شاعرات میں ان کا نام کم کم ہی سننے میں آیا ہے پھر ہمارے ہاں ہونے والے مشاعروں میں شرکت کرنے والی شاعرات میں بھی ان کو کبھی دیکھنے یا سننے کا اتفاق نہیں ہوا لیکن ان کی شاعری اس قدر پختہ ہے کہ رشک آتا ہے۔اس کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ ہماری اردو شاعری میں ایسی خواتین شاعرات کا حصہ نسبتاً کم ہے جو نہ صرف ' خود ' شعر کہتی بلکہ جنہیں بات کہنے کا سلیقہ بھی آتا ہے۔
عرفانہ امر کی شعری مہارت کی داد ان کے ناشر معروف شاعرخالد شریف اور اعتبار ساجد ہی نہیں دیتے، معروف ماہر تعلیم اور استاد ڈاکٹر احسان ملک بھی ان کے شعری اسلوب کے مداح ہیں ۔کتاب میں غزلوں کے علاوہ نظمیں، ایک عدد قطعہ اور چند متفرق اشعار بھی شامل ہیں۔کتاب کا انتساب بشریٰ رحمان کے نام ہے۔کتاب کا سرورق مشہور مصور انیس یعقوب کے موء قلم کا شاہکار ہے۔ پس سرورق شاعرہ کی تصویر کے ساتھ ان کے اس شعر سے مزین ہے :
مجھے حرف حرف نہ لکھ کے رکھ ، مجھے بس زبانی ہی یاد کر
تیری داستاں میں نہیں ہوں میں، مجھے دھڑکنوں میں تلاش کر
مجموعی طور پر خواتین شاعرات کے شائع ہونے والے شعری مجموعوں میں یہ ایک اچھا اضافہ ہے قیمت البتہ عام قاری کی پہنچ سے باہر ہے۔ ( تبصرہ نگار: شہبازانورخان )
زنگار
مصنف: عامر خاکوانی، ناشر: دوست پبلی کیشنز، پلاٹ نمبر 110، سٹریٹ 15، 1-9/2، اسلام آباد۔ فون: 051-4102784 قیمت: 600 روپے
یہ 2000ء کی بات ہے جب راقم ماہانہ اردو ڈائجسٹ کے شعبہ ادارت سے وابستہ ہوا۔ عامر ہاشم خاکوانی سے وہیں ملاقات ہوئی۔ میل ملاپ بڑھا، تو پتا چلا کہ لحیم شحیم سراپے میں نرم ، شفیق اور محبت بھرا دل دھڑکتا ہے۔ صحرائے چولستان کا باسی ہونے کے ناتے ظرف بھی بے پایاں و لامحدود ہے،ان سے طویل رفاقت میں آج تک یہ نہیں دیکھا کہ انہوں نے کسی کا بُرا چاہا ہو۔ لکھنے لکھانے کا باقاعدہ آغاز ماہنامے ہی سے ہوا پھر عامر نے صحافت کے پُرخار میدان میں قدم رکھ دیا۔لاہور میں روزنامہ ایکسپریس کی بنیاد ڈالنے میں سرگرم حصّہ لیا۔ 2004ء میں کالم نگاری کا آغاز کیا تو پھر پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا اور جلد صف اول میں شمار ہونے لگے۔ ''زنگار'' انہی کالموں کا مجموعہِ انتخاب ہے۔
کہا جاتا ہے کہ اخبار کی طرح کالم بھی عموماً ایک روزہ زندگی رکھتا ہے مگر عامر خاکوانی کے کالموں میں خاصی بڑی تعداد ایسے کالموں کی ہے جو اپنی مقصدیت کے باعث اس کُلیے سے مبرّا ہیں۔ دراصل وہ اس روایت کے امین ہیں جس کا آغاز سرسیّد نے کیا تھا۔ انہوں نے اصلاحی و تعمیری مضامین لکھ کر راہ گم کردہ نوجوانانِ قوم کی اصلاح کا بیڑہ اٹھایا اورخاصی حد تک کامیاب بھی رہے۔ زیر نظر کتاب میں علمی، ادبی، سماجی اور سیاسی موضوعات پر لکھے نہایت جاندار کالم موجود ہیں جن کی افادیت وقت گذرنے کے ساتھ کم نہیں ہوتی۔ ان میں زیادہ تر کالم وہ ہیں جن کا موضوع انسانی شخصیت و کردار کی تعمیر ہے۔ یہ کالم قاری کو زندگی گزارنے کا سلیقہ ،طریقہ بتاتے اور سمجھاتے ہیں کہ راہِ حیات کی مشکلات سے نبرد آزما ہوکر کامیابی کس طرح حاصل کی جائے۔ عملی زندگی میں قدم رکھنے والے ایک ناتجربے کار پاکستانی نوجوان کے لیے یہ کالم ایک استاد، ایک رہنما کی حیثیت رکھتے ہیں۔ یہی ان کالموں کا نمایاں ترین وصف ہے۔
انسان اکثر کتابیں پڑھ کر ایک طرف رکھ دیتا ہے۔ مگر ''زنگار'' کا شمار ان گنی چنی کُتب میں ہوتا ہے جو طویل و کٹھن سفرِ زندگی میں رہنمائی پانے کی خاطر بار بار پڑھی جاتی ہیں۔ یہ مبالغہ نہیں کہ کالموں میں بکھرے قیمتی خیالات و نظریات تھکے ہارے دل و دماغ کو نیا جوش و ولولہ عطا کرتے اور اسے نئی اُمنگوں اور اُمیدوں سے لیس کر کے کار زار حیات کے اکھاڑے میں اتار دیتے ہیں۔مصنف کی سادگی وہ دلربائی کے مصداق کتاب بھی نفاست و دلکشی کا خوبصورت مرقع ہے۔کاغذ معیاری و دیرپا ہے اور چھپائی نہایت نفیس۔ کتاب کی معنوی و صوری خوبیاں دیکھتے ہوئے قیمت مناسب ہے۔ ہم جسم کی بھوک مٹاتے ہوئے پل بھر میں ہزارہا روپے خرچ کرڈالتے ہیں۔ روح کی غذا مطالعہ ہے۔مگر اپنی روح کو ''زنگار'' جیسی بامقصد اور معنی خیز کتب ہی سے شاد کام کیجیے۔
مصنف: سید سعود ساحر،قیمت:450 روپے
ناشر:راحیل پبلی کیشنز، اردو بازار ،کراچی
ویسے تو قادیانی مسلمانوں ہی کا ایک حصہ بن کر قیام پاکستان سے پہلے بھی رہ رہے تھے، وہ اور مختلف مسلم مسالک باہم علمی مکالمے کیا کرتے تھے، ایک دوسرے کو ناحق ثابت کرتے تھے تاہم پاکستان قائم ہونے کے چند برس بعد یہ اختلافات شدید ہوگئے۔ کیوں؟
''قائداعظم کی حیات اور لیاقت علی خان کے قتل تک تو معاملات ٹھیک چلے مگرجونہی خواجہ ناظم الدین وزیراعظم بنے اور سارے اختیارات نوکر شاہی کے کارندے غلام محمد کے ہاتھ میں آئے تو وزیرخارجہ سرظفراللہ خان قادیانی نے پیرپھیلانے شروع کئے... وزارت خارجہ میں بڑی تعداد میں قادیانیوں کو بھرتی کیا جنھیں مختلف ممالک میں سفارتی ذمہ داریاں دی گئیں، جہاں ان قادیانی افسروں نے اپنے تبلیغی مشن قائم کئے، بعض عرب ممالک میں خفیہ اہلکار متعین کئے جو عالمی سامراج کی ہدایت پر کام کرتے رہے۔ مرزا محمود قادیانی اپنی تقریروں میں اپنے پیروکاروں پر زور دیتا کہ وہ زیادہ سے زیادہ سرکاری محکموں کی ملازمت اختیار کریں بالخصوص فوج، پولیس، خزانہ، کسٹم، انتظامیہ، اکاؤنٹس اور انجینئرنگ پر چھاجائیں''۔
اس سے بخوبی اندازہ لگایاجاسکتاہے کہ قیام پاکستان کے بعد قادیانیوں اور مسلمانوں کے درمیان کشاکش تیز کیوں ہوئی۔ زیرنظرکتاب میں سرظفراللہ خان کی سرکشی کا بھی ذکر موجود ہے ، جبکہ وزیراعظم خواجہ ناظم الدین بے بس ہوکر خاموش ہوجاتے تھے۔ اس کے بعد کیا ہوا؟سب کچھ مرحلہ بہ مرحلہ پوری تفصیل سے بیان کیا گیاہے۔ قومی اسمبلی کی خصوصی کمیٹی میں قادیانیوں کے تین بڑوں پر ہونے والی جرح، ان کے جوابات اور دوسری تفصیلات کو پوری ذمہ داری، توجہ اور احتیاط سے کتاب کا حصہ بنادیاگیاہے۔
یادرہے کہ یہ ساری کارروائی قومی اسمبلی کے ریکارڈ میں تحریر اور آواز کی صورت میں محفوظ ہے۔ کتاب میں وزیراعظم ذوالفقارعلی بھٹو کا قومی اسمبلی سے مکمل خطاب بھی شامل ہے جس میں انھوں نے قادیانی مسئلہ پر بحث کو سمیٹا۔ جناب سید سعود ساحر کی پرلطف نثر پڑھنے والے کو خوب مسحور کرتی ہے۔ یہ کتاب ہر مسلمان بالخصوص پاکستانی گھرانے کی لائبریری کا حصہ ہونا چاہئے۔
ان کہی سیاست
مصنف: منیر احمد منیر،قیمت:400 روپے،صفحات:220
ناشر:آتش فشاں، علامہ اقبال ٹاؤن، لاہور
انکشاف کی خوبی ہے کہ وہ انسان کو حیران و پریشان کر دیتا ہے، کیونکہ اس سے قبل وہ بات صیغہ راز میں ہوتی ہے یا لوگ اس کے بارے میں کچھ اور گمان کر رہے ہوتے ہیں مگر وہ کچھ اور نکلتی ہے۔ ایسے افراد جن کا تعلق کسی نہ کسی حوالے سے حکومتی ایوانوں سے رہا ہو، ان کے منہ سے نکلی ہوئی باتیں نا صرف حکومتی رازوں سے پردہ اٹھاتی ہیں بلکہ تاریخ بھی مرتب کرتی ہیں۔ ایسا بھی ہوتا ہے کہ وہ ایسے بہت سے راز فاش کر دیتے ہیں جس سے تاریخ کی اصلاح ہوتی ہے۔ ان کہی سیاست بھی انکشافات سے بھرپور ہے یہ سید مرید حسین کا طویل انٹرویو ہے جو قومی اسمبلی کے ممبر منتخب ہونے کے علاوہ پارلیمانی کمیٹیوں کے ممبر بھی رہے۔
اس کے علاوہ ان کی اعلیٰ حکومتی عہدیداروں سے دوستی اور قربت بھی رہی۔ یوں ایسے راز بھی ان کی نظر میں رہتے تھے جن کی عوام کو بھنک تک نہیں ملتی تھی۔ جیسے'' جنرل ایوب نے گورنر جنرل غلام محمد سے استعفے پر زبردستی دستخط کرائے۔ اکبر بگٹی کی سزائے موت بحال ہوتے ہوتے رہ گئی۔ پولیس حوالدار چوہدری ظہور الٰہی سے استعفٰی لیا گیا تو وہ رو پڑا مگر پھر اس پر دولت کی دیوی مہربان ہو گئی۔ صدر ایوب نے کرمانی کو ٹھڈے مارے ۔۔۔ پھر وزیر بنا دیا''۔ زیر تبصرہ کتاب ایسے ہی انکشافات سے بھری پڑی ہے۔ تاریخ سے دلچسپی رکھنے والوں کے لئے یہ کتاب سرمایہ ہے۔
تضحیک اللغات
مصنف: زاہد مسعود،قیمت: 400 روپے،صفحات: 136
ناشر: بک ہوم، مزنگ روڈ، لاہور
مزاح نگاری کہنے سننے میں آسان مگر اسے عملی جامہ پہنانا بہت مشکل کام ہے، اس لئے مزاح نگاری کو فن کا درجہ حاصل ہے یعنی مزاح نگار بہت بڑا فنکار ہوتا ہے جو معاشرے میں ناصرف خوشیاں بکھیرتا ہے بلکہ ایک بامعنی پیغام بھی دیتا ہے۔ کہنے کو تو بہت سے لوگ پھکڑ پن اور گھٹیا جگت بازی کو بھی مزاح قرار دے دیتے ہیں مگر اسے کسی بھی طرح مزاح کا درجہ نہیں دیا جا سکتا ہے کیونکہ اس کے معاشرے پر مثبت کی بجائے منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
تضحیک اللغات میں مصنف کا انداز بہت بامعنی، مثبت اور دوسروں سے جدا ہے۔ مزاح کو اس انداز میں پہلے کم ہی برتا گیا ہے، یعنی الفاظ کو ایسے برتنا کہ سماجی، سیاسی اور معاشی حالات کا تجزیہ بھی پیش کیا جا سکے اور مزاح کا عنصر بھی اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ موجود رہے۔ عطاء الحق قاسمی کہتے ہیں '' تضحیک اللغات کے چند صفحات میری نظر سے گزرے ہیں وہ پڑھتے ہوئے تین وجوہ کی بناء پر خوشی ہوئی۔
ایک تو موضوع نیا تھا، دوسرا اس میں طنز و مزاح کی بھرپورچاشنی تھی اور تیسرے یوں کہ ہمارا مزاحیہ ادب آہستہ آہستہ بیوہ یا رنڈوا ہوتا چلا جا رہا ہے، بڑے مزاح نگار ایک ایک کر کے رخصت ہو گئے ہیں یا وہ مزید نہیں لکھ رہے ہیں، ان کی جگہ چند نوجوان لے رہے ہیںان میں ایک اضافہ زاہد مسعود کا بھی ہے۔'' مجلد کتاب کو دیدہ زیب ٹائٹل کے ساتھ شائع کیا گیا ہے۔
جھرنے
مصنف : پیروز بخت قاضی
ناشر: گلیکسی پرنٹر،G5-A ، فیصل گھمن روڈ' نشاط کالونی' لاہور
قیمت : 400 روپے
لوری مور امریکا کی مشہور افسانہ نگار ہے۔ اس کا قول ہے: ''افسانہ عشق ہے' تو ناول شادی! افسانہ تصویر ہے' تو ناول فلم !'' یہ قول افسانوی ادب کی اہمیت خوبصورت انداز میں عیاں کرتا ہے۔ زیر تبصرہ کتاب بھی افسانوں اور مصنف پر گزرے تجربات کا قابل مطالعہ مجموعہ ہے۔ پیروز بخت صاحب ایڈیشنل کمشنر کی حیثیت سے ریٹائرڈ ہوئے۔ دوران ملازمت لکھنے لکھانے کا مشغلہ بھی جاری رہا۔
جھرنے میں نو کہانیاں' پانچ ترجمہ شدہ افسانے اور پینتیس منظومات شامل ہیں۔ دیار غیر پہنچ کر نوجوان پاکستانیوں کو جن غیرمتوقع تجربات سے گزرنا پڑتا ہے' وہ ابتدائی چار کہانیوں کا موضوع ہیں۔ کتاب کی بقیہ کہانیاں بھی تلخ و شیریں معاشرتی واقعات کا بیان ہیںجبکہ ترجمہ شدہ افسانے مغربی تہذیب کے انہونے گوشے نمایاں کرتے ہیں۔یقینا جھرنے کی تخلیقات کتاب پر کیے گئے خرچ کی قیمت بخوبی ادا کر تی ہیں۔ کتاب کی پیش کش عمدہ اور کاغذ معیاری ہے۔ اس ادبی تحفے کو اپنے کتاب خانے کا حصّہ ضرور بنایئے۔
آئینہ گر(افسانے)
مصنفہ: منزہ احتشام گوندل
قیمت:400 روپے،ناشر: بک کارنر، جہلم
دیہاتی خاتون دیہاتی ہی رہتی ہے، جو بات جی میں ہوتی ہے، راست راست ، بلاکم وکاست کہہ دیتی ہے۔ وہ صاف اندازمیں سوچتی ہے اور صاف اندازمیں کہہ دیتی ہے، کسی کا ڈر نہ کسی کو خوش کرنے کی خواہش۔ افسانوں کے زیر نظر مجموعہ کی مصنفہ بھی ایسی ہی دیہاتی نکلیں، وہ ضلع سرگودھا کے ایک سرکاری کالج کی پرنسپل ہیں ۔ وہ اپنے آپ کو آزادی کی جنگجو کہتی ہیں، اپنے تخیل میں آزاد ہیں تاہم باہر سمجھوتے ہیں، دیواریںاور رکاوٹیں ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ ناراض ہیں بلکہ بغاوت پر اتری ہوئی ہیں۔
ان کے تمام افسانے اس ناراضی اور بغاوت کا کھلا اظہار ہیں۔ ''آخری خواہش''، ''تقلیب''، ''اوڈکالونی''، ''آئنہ گر''، ''غلام بنت غلام''، ''جنس گراں''، ''کمرے سے کمرے تک''، ''سیملے کیڑے''، ''کبالہ''، ''دم کشی''، ''تاریخ کا جنم''، ''تصویر''، ''خانے اور خوف''، ''تمام دکھ ہے''، ''یک بوسہ شیریں''، ''وجود''، ''قیدی''، ''یہ زمیں چپ ہے''، ''یہ دنیا چاردن کی ہے''، ''زندگی اور موت کے بیچ کی سیٹی'' اور ''بس یونہی''، ان سب افسانوں کی صورت میں افسانہ نگار نے غلط انسانی رویوں پر تاک تاک کر نشانہ لگایا ہے۔
کیا پاکستانی نیشنلزم کی کمی نہیں ؟
مصنف: عارف میاں ،صفحات: 168،قیمت: 450
ناشر: نیڈ کونسل، انڈسٹریل ایریا، گلبرگ لاہور
پاکستانی قومیت بہ ظاہر ایک ایسا موضوع ہے جو مسئلے سے زیادہ معمہ بن چکا ہے۔ اپنے قیام کے روز ِ اول سے لے کر آج تک جسے ہم حل نہیں کر پائے۔ ہمیں آج بھی اپنی شناخت کا مسئلہ درپیش ہے۔ بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح ؒ کی تقاریر میں تو پتا چلتا ہے کہ وہ پاکستانی قومیت کی بات کرتے اور پاکستان کو ایک قوم قراردیتے ہیں لیکن ان کی وفات کے بعد جوں جوں وقت گزرتا چلا گیا ہم '' ترقی '' کرکے ایک قوم سے کئی قوموں میں تقسیم ہوگئے۔
ہم پاکستان اور پاکستانیت کی بات تو ضرور کرتے ہیں لیکن عملًا ہمیں نہ پاکستان سے غرض ہے اور نہ ہی پاکستانیت سے جس کا نتیجہ ترقی معکوس یا تنزلی کا وہ سفر ہے جو بڑی سرعت کے ساتھ جاری ہے۔ عارف میاں ہمارے وہ نوجوان دانش ور اور لکھاری ہیں جن کا ایک واضح نظریہ، ایک اپنا اندازِ فکر اور اپنی ایک سوچ ہے۔ وہ دیگر پاکستانیوں کی طرح نہ تو جذباتی ہیں اور نہ ہی وہ مستعار سوچ رکھتے ہیں حالات کا منطقی انداز میں تجزیہ اور چیزوں کو ان کی حقیقی صورت میں سمجھنے اور پرکھنے کا انہیں ملکہ حاصل ہے اور پھر کسی نتیجے پر پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں۔ زیر تبصرہ کتاب ان کے اسی طرز ِ فکر اور طرز استدلال کی غماضی کرتی ہے۔
اس کتاب میں انہوں نے پاکستانی نیشنلزم کی بحث چھیڑی ہے اور مختلف نقطہ ہائے نظر اور حوالہ جات کی مدد سے اپنے اس مقدمے کو بیان کیا ہے کہ پاکستان میں پاکستانی نیشنلزم کی کمی ہے جس کی وجہ سے ہم مسائل کی دلدل میں دھنستے چلے جا رہے ہیں۔ انہوں نے بانیانِ پاکستان سمیت ان بہت سی شخصیات کی زندگی، ان کی فکر اور نظریات کے مختلف پہلووں کو اجاگر کرتے ہوئے یہ واضح کیا ہے پاکستان کا قیام ایک بے ثمر جدوجہد کا نتیجہ ہے۔ انہوں نے اس کے مقابلے میں ہمسایہ ممالک ہندوستان، بنگلہ دیش کی مثالیں بھی پیش کی ہیں اور اپنی بات کو اس جملے پر ختم کر کے اہلِ دانش کو دعوت دی ہے کہ ''نیشنل ازم کی کمی نہ ہوتی تو پاکستان کے حالات ضرور '' کچھ'' بہتر ہوتے ۔'' پاکستان کے اہل الرائے کے لیے اس پر سوچنے، غور وفکر کرنے اور اس بحث کو آگے بڑھانے اور اسے نتیجہ خیز بنانے کا یہ نادر موقع ہے۔
اٹلی ہے دیکھنے کی چیز ( سفر نامہ)
مصنفہ:سلمیٰ اعوان ، صفحات: 224 ، قیمت: 450/ روپے
ناشر : دوست پبلی کیشنز، اسلام آباد
سلمیٰ اعوان ہمارے دور کی ان خواتین ادیبوں میں سے ہیں جن کی شخصیت کی طرح تحریر بھی شگفتگی اور چاشنی لیے ہوئے ہے۔انہیں بات کرنے اور بیان کا ہنر خوب آتا ہے ۔ناول ہوںیا افسانے ان کا قلم یکساں روانی اور سلاست کے ساتھ چلتا ہے ۔سفر ناموں میں بھی انہوںنے خوب طبع آزمائی کی ہے۔ زیر تبصرہ سفر نامہ اٹلی کے حوالے سے ہے انہوں نے اپنے اس سفر نامے کے ذریعے جہاں اٹلی کے بہت سے شہروں ، اہم مقامات کی سیر کرائی ہے وہاں وہ اٹلی کی سیاسی ، سماجی ، تاریخی اہمیت، لوگوں کے رویوں او روہاں کی بودو باش کے بارے میں بھی قاری کو آگاہ کرتیں اور بڑے خوبصورت پیرائے میں بیش از بیش معلومات کا ذخیرہ قاری کے سامنے انڈیل دیتی ہیں ۔
خاتون ہونے کے باوجود انہوں نے سفر نامے کے حوالے سے کسی قسم کی تشنگی محسوس نہیں ہونے دی انہوںنے وہاں بیتے روز وشب کو بھی اسی اندا ز میں بیان کیا ہے کہ پڑھنے والا اس میں بوریت محسوس نہیں کرتا بلکہ پوری دلچسپی لیتا ہے۔ یہ کیفیت آغاز سے لے کر کتاب کے اختتام تک برقرار رہتی ہے۔ مواد کے ساتھ ساتھ کتاب کی طباعت اور گٹ اپ بھی اس قدر خوبصورت اور نفاست سے آراستہ ہے کہ کتاب دیکھنے میں بھی بھلی لگتی ہے ۔
عشق امربیل سہی
شاعرہ:عرفانہ امر ، صفحات : 144، قیمت: 500/ روپے
ناشر : ماورا پبلشرز، لاہور
عرفانہ امر بہ ظاہر ایک غیرمانوس نام محسوس ہوتا ہے کہ ہماری شاعرات میں ان کا نام کم کم ہی سننے میں آیا ہے پھر ہمارے ہاں ہونے والے مشاعروں میں شرکت کرنے والی شاعرات میں بھی ان کو کبھی دیکھنے یا سننے کا اتفاق نہیں ہوا لیکن ان کی شاعری اس قدر پختہ ہے کہ رشک آتا ہے۔اس کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ ہماری اردو شاعری میں ایسی خواتین شاعرات کا حصہ نسبتاً کم ہے جو نہ صرف ' خود ' شعر کہتی بلکہ جنہیں بات کہنے کا سلیقہ بھی آتا ہے۔
عرفانہ امر کی شعری مہارت کی داد ان کے ناشر معروف شاعرخالد شریف اور اعتبار ساجد ہی نہیں دیتے، معروف ماہر تعلیم اور استاد ڈاکٹر احسان ملک بھی ان کے شعری اسلوب کے مداح ہیں ۔کتاب میں غزلوں کے علاوہ نظمیں، ایک عدد قطعہ اور چند متفرق اشعار بھی شامل ہیں۔کتاب کا انتساب بشریٰ رحمان کے نام ہے۔کتاب کا سرورق مشہور مصور انیس یعقوب کے موء قلم کا شاہکار ہے۔ پس سرورق شاعرہ کی تصویر کے ساتھ ان کے اس شعر سے مزین ہے :
مجھے حرف حرف نہ لکھ کے رکھ ، مجھے بس زبانی ہی یاد کر
تیری داستاں میں نہیں ہوں میں، مجھے دھڑکنوں میں تلاش کر
مجموعی طور پر خواتین شاعرات کے شائع ہونے والے شعری مجموعوں میں یہ ایک اچھا اضافہ ہے قیمت البتہ عام قاری کی پہنچ سے باہر ہے۔ ( تبصرہ نگار: شہبازانورخان )
زنگار
مصنف: عامر خاکوانی، ناشر: دوست پبلی کیشنز، پلاٹ نمبر 110، سٹریٹ 15، 1-9/2، اسلام آباد۔ فون: 051-4102784 قیمت: 600 روپے
یہ 2000ء کی بات ہے جب راقم ماہانہ اردو ڈائجسٹ کے شعبہ ادارت سے وابستہ ہوا۔ عامر ہاشم خاکوانی سے وہیں ملاقات ہوئی۔ میل ملاپ بڑھا، تو پتا چلا کہ لحیم شحیم سراپے میں نرم ، شفیق اور محبت بھرا دل دھڑکتا ہے۔ صحرائے چولستان کا باسی ہونے کے ناتے ظرف بھی بے پایاں و لامحدود ہے،ان سے طویل رفاقت میں آج تک یہ نہیں دیکھا کہ انہوں نے کسی کا بُرا چاہا ہو۔ لکھنے لکھانے کا باقاعدہ آغاز ماہنامے ہی سے ہوا پھر عامر نے صحافت کے پُرخار میدان میں قدم رکھ دیا۔لاہور میں روزنامہ ایکسپریس کی بنیاد ڈالنے میں سرگرم حصّہ لیا۔ 2004ء میں کالم نگاری کا آغاز کیا تو پھر پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا اور جلد صف اول میں شمار ہونے لگے۔ ''زنگار'' انہی کالموں کا مجموعہِ انتخاب ہے۔
کہا جاتا ہے کہ اخبار کی طرح کالم بھی عموماً ایک روزہ زندگی رکھتا ہے مگر عامر خاکوانی کے کالموں میں خاصی بڑی تعداد ایسے کالموں کی ہے جو اپنی مقصدیت کے باعث اس کُلیے سے مبرّا ہیں۔ دراصل وہ اس روایت کے امین ہیں جس کا آغاز سرسیّد نے کیا تھا۔ انہوں نے اصلاحی و تعمیری مضامین لکھ کر راہ گم کردہ نوجوانانِ قوم کی اصلاح کا بیڑہ اٹھایا اورخاصی حد تک کامیاب بھی رہے۔ زیر نظر کتاب میں علمی، ادبی، سماجی اور سیاسی موضوعات پر لکھے نہایت جاندار کالم موجود ہیں جن کی افادیت وقت گذرنے کے ساتھ کم نہیں ہوتی۔ ان میں زیادہ تر کالم وہ ہیں جن کا موضوع انسانی شخصیت و کردار کی تعمیر ہے۔ یہ کالم قاری کو زندگی گزارنے کا سلیقہ ،طریقہ بتاتے اور سمجھاتے ہیں کہ راہِ حیات کی مشکلات سے نبرد آزما ہوکر کامیابی کس طرح حاصل کی جائے۔ عملی زندگی میں قدم رکھنے والے ایک ناتجربے کار پاکستانی نوجوان کے لیے یہ کالم ایک استاد، ایک رہنما کی حیثیت رکھتے ہیں۔ یہی ان کالموں کا نمایاں ترین وصف ہے۔
انسان اکثر کتابیں پڑھ کر ایک طرف رکھ دیتا ہے۔ مگر ''زنگار'' کا شمار ان گنی چنی کُتب میں ہوتا ہے جو طویل و کٹھن سفرِ زندگی میں رہنمائی پانے کی خاطر بار بار پڑھی جاتی ہیں۔ یہ مبالغہ نہیں کہ کالموں میں بکھرے قیمتی خیالات و نظریات تھکے ہارے دل و دماغ کو نیا جوش و ولولہ عطا کرتے اور اسے نئی اُمنگوں اور اُمیدوں سے لیس کر کے کار زار حیات کے اکھاڑے میں اتار دیتے ہیں۔مصنف کی سادگی وہ دلربائی کے مصداق کتاب بھی نفاست و دلکشی کا خوبصورت مرقع ہے۔کاغذ معیاری و دیرپا ہے اور چھپائی نہایت نفیس۔ کتاب کی معنوی و صوری خوبیاں دیکھتے ہوئے قیمت مناسب ہے۔ ہم جسم کی بھوک مٹاتے ہوئے پل بھر میں ہزارہا روپے خرچ کرڈالتے ہیں۔ روح کی غذا مطالعہ ہے۔مگر اپنی روح کو ''زنگار'' جیسی بامقصد اور معنی خیز کتب ہی سے شاد کام کیجیے۔