مائنس ون پر اکتفا نہیں کیا جارہا اور بات اس سے آگے جارہی ہے فاروق ستار
ہم پرقائم مقدمات پر حکومت ابہام کا شکار ہے اس لئے واضح حکومتی پالیسی بنائی جائے، سربراہ ایم کیو ایم پاکستان
متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کے سربراہ فاروق ستار کا کہنا ہے کہ مائنس ون پر اکتفا نہیں کیا جارہا اور بات اس سے آگے جارہی ہے جب کہ ہم پر قائم مقدمات پر حکومت ابہام کا شکار ہے اس لئے مقدمات کے حوالے سے واضح حکومتی پالیسی بنائی جائے۔
کراچی کے علاقے پی آئی بی کالونی میں ایم کیو ایم پاکستان کے عارضی مرکز میں دیگر رہنماؤں کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے فاروق ستار کا کہنا تھا کہ شادی کی تقریب سے لوٹا تھا کہ پولیس نے راستے میں ہی ساتھ چلنے کے لئے کہا پھر تھانے لے جایا گیا جہاں ایک گھنٹے تک تحویل میں رکھا گیا تاہم یہ نہیں جانتا کہ یہ گرفتاری تھی یا صرف انٹرویو، اگر گرفتاری تھی تو 22 اگست کے مقدمات پر واضح پالیسی اختیار کی جائے، وقت آگیا ہے کہ ان مقدمات کا فیصلہ ہونا چاہیئے اور ایم کیو ایم کارکنان کو اگر اس مقدمے میں قید کیا گیا ہے تو انہیں بھی رہا ہونا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ عدالتوں کا احترام کرتے ہیں جب بلایا گیا عدالت جائیں گے لیکن ہم پر بنائے گئے تمام مقدمات سیاسی نوعیت کے ہیں۔
ایم کیو ایم پاکستان کے سربراہ نے کہا کہ 23 اگست 2016 کو غیرمعمولی اقدام کیا اور پاکستان و پاکستان کی سیاست کے لئے کھڑے ہوئے، 22 اگست کو ہونے والے واقعے کی مذمت بھی کی اور آئینی و قانونی تقاضے مکمل کرنے کے باوجود حکومتی سطح پر ابہام ہے، اگر 6 ماہ تک کوئی اس طرح کی صورتحال نہیں ہوئی تو امید ہے کہ حکومتی سطح پر مقدمات واپس لئے جائیں گے جب کہ جھوٹے مقدمات پر اپنے وکلا سے بھی مشورے کر رہے ہیں اور اگر ضرورت پڑی تو عدالتوں سے بھی رجوع کیا جائے گا۔
فاروق ستار نے کہا کہ 22 اگست کے روز جو لوگ پریس کلب کے باہر موجود تھے انہیں کوئی علم نہیں تھا کہ کیا نعرے لگنے جارہے ہیں، اس لئے اس پر ایک پالیسی فیصلہ ہونا چاہیئے کیوں کہ حکومتی سطح پر ابہام کراچی میں آزادانہ سیاسی سرگرمیوں میں بھی رکاوٹ ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہمیں جائز سیاسی اسپیس ملنی چاہیئے اور سیاسی گھٹن نہیں ہونی چاہیئے، اگر ہمارے 23 اگست کے اقدام کو دل سے نہیں مانا گیا، پاکستان زندہ باد کہنے والوں کو تھپکی نہ دی گئی ، کارکنان بازیاب نہ ہوئے تو پھر لوگ سوچنے پر مجبور ہوں گے کہ یہ مائنس ون پر اکتفا نہیں کیا جارہا اور بات اس سے آگے جارہی ہے، حادثاتی طور پر اگر ہم نے لاتعلقی اختیار کرلی اور عملی طور پر مائنس ون کا فارمولہ نافذ ہوگیا تو اس کے بعد ہمیں دفاتر واپس نہ ملے اور پھر خوف کی فضا قائم ہو تو لوگ ابہام کا شکار ہوتے ہیں۔
کراچی کے علاقے پی آئی بی کالونی میں ایم کیو ایم پاکستان کے عارضی مرکز میں دیگر رہنماؤں کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے فاروق ستار کا کہنا تھا کہ شادی کی تقریب سے لوٹا تھا کہ پولیس نے راستے میں ہی ساتھ چلنے کے لئے کہا پھر تھانے لے جایا گیا جہاں ایک گھنٹے تک تحویل میں رکھا گیا تاہم یہ نہیں جانتا کہ یہ گرفتاری تھی یا صرف انٹرویو، اگر گرفتاری تھی تو 22 اگست کے مقدمات پر واضح پالیسی اختیار کی جائے، وقت آگیا ہے کہ ان مقدمات کا فیصلہ ہونا چاہیئے اور ایم کیو ایم کارکنان کو اگر اس مقدمے میں قید کیا گیا ہے تو انہیں بھی رہا ہونا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ عدالتوں کا احترام کرتے ہیں جب بلایا گیا عدالت جائیں گے لیکن ہم پر بنائے گئے تمام مقدمات سیاسی نوعیت کے ہیں۔
ایم کیو ایم پاکستان کے سربراہ نے کہا کہ 23 اگست 2016 کو غیرمعمولی اقدام کیا اور پاکستان و پاکستان کی سیاست کے لئے کھڑے ہوئے، 22 اگست کو ہونے والے واقعے کی مذمت بھی کی اور آئینی و قانونی تقاضے مکمل کرنے کے باوجود حکومتی سطح پر ابہام ہے، اگر 6 ماہ تک کوئی اس طرح کی صورتحال نہیں ہوئی تو امید ہے کہ حکومتی سطح پر مقدمات واپس لئے جائیں گے جب کہ جھوٹے مقدمات پر اپنے وکلا سے بھی مشورے کر رہے ہیں اور اگر ضرورت پڑی تو عدالتوں سے بھی رجوع کیا جائے گا۔
فاروق ستار نے کہا کہ 22 اگست کے روز جو لوگ پریس کلب کے باہر موجود تھے انہیں کوئی علم نہیں تھا کہ کیا نعرے لگنے جارہے ہیں، اس لئے اس پر ایک پالیسی فیصلہ ہونا چاہیئے کیوں کہ حکومتی سطح پر ابہام کراچی میں آزادانہ سیاسی سرگرمیوں میں بھی رکاوٹ ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہمیں جائز سیاسی اسپیس ملنی چاہیئے اور سیاسی گھٹن نہیں ہونی چاہیئے، اگر ہمارے 23 اگست کے اقدام کو دل سے نہیں مانا گیا، پاکستان زندہ باد کہنے والوں کو تھپکی نہ دی گئی ، کارکنان بازیاب نہ ہوئے تو پھر لوگ سوچنے پر مجبور ہوں گے کہ یہ مائنس ون پر اکتفا نہیں کیا جارہا اور بات اس سے آگے جارہی ہے، حادثاتی طور پر اگر ہم نے لاتعلقی اختیار کرلی اور عملی طور پر مائنس ون کا فارمولہ نافذ ہوگیا تو اس کے بعد ہمیں دفاتر واپس نہ ملے اور پھر خوف کی فضا قائم ہو تو لوگ ابہام کا شکار ہوتے ہیں۔