آپ کتنے فیصد انسان ہیں
علم اور شعور یہ دو پیمانے ہیں جن پرہم کسی مخلوق کو پرکھتے ہیں۔ اِس کسوٹی پر پورا اُترنے والا انسان کہلانے کا حقدار ہے۔
پچھلے دنوں فیس بُک پر ایک صاحب نے غصّے میں کہا، ''تم دو ٹکے کے آدمی ہو۔'' تو میں نے سوچا کہ یہ جملہ تو اب ہمارے معاشرے میں عام ہوچکا ہے اور لوگ ازراہِ تمسخر یا کسی کو بے عزت کرنے کے لئے سرِعام بے شرمی سے بولتے چلے جاتے ہیں۔ میں سوچنے لگا کہ آخر وہ کیا پیمانہ ہو جس میں ہم انسان کو ناپ سکیں؟ کیسے معلوم ہو کہ فلاں آدمی دوٹکے کا ہے یا 16 آنے کا؟ اور ایک قدم مزید پیچھے ہٹ کر دیکھتے ہیں کہ آیا وہ شخص آدمی کہلانے کے لائق بھی ہے یا نہیں؟
اکثر بچے پوچھتے ہیں کہ سر میں بڑا آدمی بننا چاہتا ہوں۔ میں ان سے اتنی ہی عرض کرتا ہوں کہ چلو پہلے آدمی تو بنیں، بڑا چھوٹا بہت بعد کی باتیں ہیں۔ آئیے سب سے پہلے مخلوقات میں فرق کو دیکھ لیتے ہیں۔ تین بنیادی جبلتیں ہیں جن پر شعور کی عمارت کھڑی ہوتی ہے۔ عقل، غصّہ اور جنس۔
علم اور شعور یہ دو پیمانے ہیں جن پر ہم کسی مخلوق کو پرکھتے ہیں۔ اِس کسوٹی پر پورا اُترنے والا انسان کہلانے کا حقدار ہے۔ علم کہتے ہیں اپنے آس پاس موجود اشیاء و حالات سے ارتباط کو۔ تعلق قائم کرنے کو کہ انہیں ہم اپنی بہتری کے لئے کیسے استعمال کرسکتے ہیں۔ اِس میں درجہ بدرجہ انسان و جانور دونوں ایک ہی ہیں۔ فرق ہے تو معیار اور درجے کا۔
ٹرک کے سامنے چھلانگ لگادوں گا تو موت یقینی ہے۔ اتنا علم انسان کے پاس بھی ہے اور جانور کے پاس بھی، طبیعت خراب ہو تو بلی کو بھی پتہ ہے کہ گھاس کھانی ہے۔ تیراکی سے لے کر اُڑنے تک اور گھونسلہ بنانے سے لے کر گروہ کی شکل میں پرواز قائم رکھنے تک، آپ کو ہزاروں مثالیں ایسی مل جائیں گی جس میں انسان و جانور اپنے ماحول، حالات اور دستیاب اشیاء سے اپنی بہتری کا سامان کرنا جانتے ہیں۔
انسان کا تو کام ہی یہ ہے کہ یا تو علم حاصل کرے یا علم بانٹتا پھرے، اُس بادل کی طرح جو کھیت و ریگستان، جنگل و دریا پر یکساں برستا ہے، اور جو وقت بچ جائے اُس میں اللہ کی عبادت کرے کہ اللہ کا نام بغیر توجّہ کے ہی کیوں نہ لیا جائے اپنا اثر چھوڑتا ہے۔
ایک انسان سے علم کا صدور گاہے بگاہے ہوتا ہی رہتا ہے۔ امام مالک رحمتہ اللہ علیہ کے ایک شاگرد کا کہنا ہے کہ وہ امام صاحب کی مجلس میں 30 سال تک جاتا رہا، اور ہمیشہ کوئی نئی بات سیکھی۔ اب آپ خود سوچیں کہ امام صاحب کے علم کے صدور کا کنکشن نجانے کہاں جاکر جُڑا ہوا تھا۔ یاد رکھنے کی بات ہے کہ علم کا صدور انسان ہونے کی نشانیوں میں سے ہے، جانوروں میں نہیں ہوتا۔
اب بات کرتے ہیں شعور کی۔ شعور اپنے اندر کے باطنی اِنتشار کو اخلاقِ صالح پر غالب نہ آنے دینے کا نام ہے۔ آپ کی عقل وحی کے تابع رہے، آپ کی خواہشات آپ کی حدود سے آگے نہ نکل جائیں۔ اِس قوت، اِس فیصلے، اِس چوکیدار کا نام شعور ہے۔ یہ ہر انسان میں پیدائشی طور پر بائے ڈیفالٹ بِلٹ اِن ہوتا ہے اور جیسا کہ اوپر ذکر ہوا کہ شعور کے تین دروازے ہیں۔ عقل، غصّہ اور جنس۔ اِن پر نگاہ رکھنی چاہئیے۔
عقل کے کرشمے اور اِس کے بے قابو اور بے لگام ہونے کے واقعات تو روز مرہ کے مشاہدات ہیں کیونکہ آپ کو بولنا آتا ہے، آپ چرب زبان ہیں، چاہیں تو سچ کو جھوٹ اور جھوٹ کو سچ میں بدل دیں۔ جیسے چاہیں کسی کو ذلیل کردیں۔ ٹاک شوز میں مدِمقابل کو ہرانے کے لئے من گھڑت واقعات، قصّے کہانیاں، جھوٹے خواب اور باطل بشارتیں لے آئیں۔ کسی کا پلاٹ ہتھیا لیں۔ میاں بیوی کی لڑائی کروا دیں۔ کسی کی عزت پر بہتان لگادیں۔ ایک جملہ ایسا کہہ دیں کہ کسی کی سال بھر کی محنت اکارت ہوجائے۔ کوئی ایسا کمنٹ لکھ دیں کہ کسی غریب کی پروموشن رک جائے یا ایسی چال چلیں، ایسا پلان بنائیں کہ کسی کی نوکری ہی چلی جائے۔ عقل اگر وحی کے تابع نہ ہو تو اندھیرا ہے۔ آپ کی چرب زبانی کسی کی زبان بند کرا سکتی ہے، دل نہیں جیت سکتی۔
بندہ بچایا کریں، جملے توڑ دیا کریں۔ بڑی ہمت چاہئیے جب آپ کو پتہ ہو کہ آپ کا ایک جملہ سامنے والے کو پاش پاش کردے گا۔ وہاں آدمی کچھ سیکنڈ کو رک جائے اور سوچے کہ عقل کا استعمال کہاں کررہا ہے۔ باطنی انتشار کا سیلابی ریلا جو آپ کے اخلاقِ صالحہ کو سب سے پہلے بہا کر لے جاتا ہے وہ اِسی عقل کے دروازے سے آتا ہے۔ یہ باطنی اِنتشار فرد میں ہو تو فرد برباد، قوم میں ہو تو ملک برباد۔
چالاکی، جھوٹ، بہتان، طنز، غیبت، کردار کشی، بدیانتی، خیانت، رشوت، اختیارات کا ناجائز استعمال اور مخلوق کو تنگ کرنے کے نت نئے بہانے یہ سب اِسی دروازے کے بیل بوٹے ہیں۔
اب کسی میں اگر دیانتداری کا وصف نہیں تو اسے کہیں گے دو ٹکے کا آدمی کہ شوہر بیوی کو بات بتاتے ہوئے ڈرے اور باپ بیٹے سے چھپائے کہ اُسے بتانا تو شہر میں ڈھنڈورا پیٹنے جیسا ہے۔ قرآن پاک گزشتہ ظالم اقوام کو جانوروں سے بندر و خنزیر سے تشبیہ دیتا ہے کہ انسانی شعور کی خصوصیات تو ان سے رخصت ہوچکی تھیں۔
شعور کا اگلا دروازہ غصّہ ہے۔ انا، ضد، میں، خود پرستی، حاکمیت، غرور، تکبر، بغض، کینہ، حسد، ظلم اور نشہ اِس دروازے کے بیل بوٹے۔
میرے سامنے کوئی بولنے کی جرات نہیں کرسکتا، میں تو منہ پر کہتا ہوں، تیری اوقات کیا ہے۔ مجھے سب سے پہلے سرو کیا جائے۔ میری رائے سب سے آخر میں پوچھی جائے۔ میں روٹی کے کنارے کیوں کھاوں؟ میں اپنا کام اپنے ہاتھوں سے کیوں کروں؟ ایسا ہی ہوگا کیونکہ میں نے ایسا کہا ہے، ایسا چاہا ہے۔ میرا جہاز سونے کا ہوگا۔ میرا باورچی میرے ساتھ جہاز میں جائے گا۔ میں ایسا کرکے دکھاؤں گا وغیرہ وغیرہ۔
غصّہ بڑی ہی قبیح شے ہے۔ اإس سے بچنا جاہئیے۔ غصّہ اور غیرت میں فرق ہے۔ غیرت اُس حفاظتی جذبے کا نام ہے جو غیر کو آپ کی ملکیت میں تصرف کی اجازت نہیں دیتا۔ یہ ہونا بھی چاہئیے۔ بڑی اچھی چیز ہے۔ غصّہ نام ہے اپنے مزاج کے برعکس کسی بات کو برداشت کرنے کا۔ یہاں احتیاط بہت ضروری ہے۔ جتنی بار بندہ اللہ سے معافی مانگے کم از کم اتنی بار تو لوگوں کو بھی معاف کر دینا چاہئیے۔
متکبر لوگ قیامت میں چیونٹیاں بنا دئیے جائیں گے اور لوگ انہیں روندتے پھریں گے۔ کوشش کریں اِس دروازے سے کسی جذبے کو اندر نہ آنے دیں۔ کسی شخص کو اگر غصّے میں قابو نہیں تو وہ 33 فیصد کم انسان ہوا۔ بے حسی بھی اِسی دروازے سے آتی ہے۔ یہی بات ہے نا کہ میں معزز ترین ہوں اور اِس بات سے بے نیاز کہ کسی اور پر کیا گزرے۔ جانوروں کی خاصیت ہے۔ ایک ریوڑ میں سے شیر کسی ہرن یا نیل گائے کو شکار کرکے کھا لیتا ہے اور باقی تمام قریب ہی کھڑے یہ منظر دیکھتی ہیں اور پھر سے گھاس چرنے لگتی ہیں۔ بے حس آدمی بھی صرف اِسی قابل ہوتا ہے کہ گھاس چرلے۔ وہ آدمی جس سے غصّہ برداشت نہیں عموماََ بد تمیز، بے ادب اور ظالم بھی ہوتا ہے۔ یاد رکھنے کی بات ہے کہ ہر وہ شخص جو دوسروں کی توجہ کا طالب ہو اِس قابل بھی نہیں ہوتا کہ کسی پر توجہ کرسکے۔
شعور کی عمارت کا تیسرا اور سب سے زیادہ خطرناک دروازہ ہے جنس کا۔ نوجوانی میں دنیا بھر کے گناہ ایک طرف اور جنس ایک طرف۔ اس کی شرارتوں سے بندہ بچ کر نکل جائے تو خوب ورنہ بہت بُرا گرا اور بڑی چوٹ لگی۔ زبان کے چٹخارے، آنکھوں کے اِشارے، عشق کی کارستانیاں، محبتوں کے فریب، الفاظ کی ملمع کاری، جنسِ مخالف کی طرفداری و ستائش، پیٹ بھرنے کو حقوقِ نسواں کی ہاہاکار، بھونڈے مسیجز، لغو اور فحش باتیں، موبائل پیکجز اور حُسن کو شو آف کرنے کی لگن۔ سبھی اِس ایک دروازے کے مرہونِ منت ہیں۔ ہمیں خود ہی دیکھنا چاہئیے اور اپنا محاسبہ کرنا چاہئیے کہ کون کون، کب، کہاں اور کیسے اس دروازے سے اندر جھانکا، سانجھ سمے کس نے چوری کی؟ دل کی کشتی میں سوراخ کون کرگیا؟ کوڑیوں کے بول، لاکھوں کی نیکیاں کون لے گیا؟ اور کس کا ضبط کہاں ٹوٹا؟ کس کا صبر کہاں بکھرا؟ ہر شخص کی برداشت الگ ہے۔
کسی کو ایک بے ضرر سا جملہ وہ آگ لگاتا ہے کہ پانی سے نہ بجھے تو کسی کے سامنے سارے رنگ مل کر بھی بلیک اینڈ وائٹ رہتے ہیں۔ سب سے زیادہ باریک و خطرناک یہ دروازہ ہے۔ یہاں سے گناہ چھن چھن کر، رینگتے ہوئے اندر آجاتے ہیں اور پتہ بھی نہیں لگتا۔ آئیے حساب لگاتے ہیں کہ ہم کتنے فیصد انسان ہیں اور کوشش کرتے ہیں کہ مرنے سے پہلے صرف انسان ہی بن جائیں تو کیا کہنے۔
اکثر بچے پوچھتے ہیں کہ سر میں بڑا آدمی بننا چاہتا ہوں۔ میں ان سے اتنی ہی عرض کرتا ہوں کہ چلو پہلے آدمی تو بنیں، بڑا چھوٹا بہت بعد کی باتیں ہیں۔ آئیے سب سے پہلے مخلوقات میں فرق کو دیکھ لیتے ہیں۔ تین بنیادی جبلتیں ہیں جن پر شعور کی عمارت کھڑی ہوتی ہے۔ عقل، غصّہ اور جنس۔
- فرشتوں میں عقل ہوتی ہے غصّہ اور جنس نہیں۔
- نباتات میں جنس ہوتی ہے، تھوڑی بہت عقل بھی مگر غصّہ نہیں۔
- جانوروں میں جنس اور غصّہ ہوتے ہیں، عقل کوئی خاص نہیں۔
- انسانوں اور جنات میں یہ تینوں جبلتیں بدرجہ اتّم موجود ہوتی ہیں۔
علم اور شعور یہ دو پیمانے ہیں جن پر ہم کسی مخلوق کو پرکھتے ہیں۔ اِس کسوٹی پر پورا اُترنے والا انسان کہلانے کا حقدار ہے۔ علم کہتے ہیں اپنے آس پاس موجود اشیاء و حالات سے ارتباط کو۔ تعلق قائم کرنے کو کہ انہیں ہم اپنی بہتری کے لئے کیسے استعمال کرسکتے ہیں۔ اِس میں درجہ بدرجہ انسان و جانور دونوں ایک ہی ہیں۔ فرق ہے تو معیار اور درجے کا۔
ٹرک کے سامنے چھلانگ لگادوں گا تو موت یقینی ہے۔ اتنا علم انسان کے پاس بھی ہے اور جانور کے پاس بھی، طبیعت خراب ہو تو بلی کو بھی پتہ ہے کہ گھاس کھانی ہے۔ تیراکی سے لے کر اُڑنے تک اور گھونسلہ بنانے سے لے کر گروہ کی شکل میں پرواز قائم رکھنے تک، آپ کو ہزاروں مثالیں ایسی مل جائیں گی جس میں انسان و جانور اپنے ماحول، حالات اور دستیاب اشیاء سے اپنی بہتری کا سامان کرنا جانتے ہیں۔
انسان کا تو کام ہی یہ ہے کہ یا تو علم حاصل کرے یا علم بانٹتا پھرے، اُس بادل کی طرح جو کھیت و ریگستان، جنگل و دریا پر یکساں برستا ہے، اور جو وقت بچ جائے اُس میں اللہ کی عبادت کرے کہ اللہ کا نام بغیر توجّہ کے ہی کیوں نہ لیا جائے اپنا اثر چھوڑتا ہے۔
ایک انسان سے علم کا صدور گاہے بگاہے ہوتا ہی رہتا ہے۔ امام مالک رحمتہ اللہ علیہ کے ایک شاگرد کا کہنا ہے کہ وہ امام صاحب کی مجلس میں 30 سال تک جاتا رہا، اور ہمیشہ کوئی نئی بات سیکھی۔ اب آپ خود سوچیں کہ امام صاحب کے علم کے صدور کا کنکشن نجانے کہاں جاکر جُڑا ہوا تھا۔ یاد رکھنے کی بات ہے کہ علم کا صدور انسان ہونے کی نشانیوں میں سے ہے، جانوروں میں نہیں ہوتا۔
اب بات کرتے ہیں شعور کی۔ شعور اپنے اندر کے باطنی اِنتشار کو اخلاقِ صالح پر غالب نہ آنے دینے کا نام ہے۔ آپ کی عقل وحی کے تابع رہے، آپ کی خواہشات آپ کی حدود سے آگے نہ نکل جائیں۔ اِس قوت، اِس فیصلے، اِس چوکیدار کا نام شعور ہے۔ یہ ہر انسان میں پیدائشی طور پر بائے ڈیفالٹ بِلٹ اِن ہوتا ہے اور جیسا کہ اوپر ذکر ہوا کہ شعور کے تین دروازے ہیں۔ عقل، غصّہ اور جنس۔ اِن پر نگاہ رکھنی چاہئیے۔
عقل کے کرشمے اور اِس کے بے قابو اور بے لگام ہونے کے واقعات تو روز مرہ کے مشاہدات ہیں کیونکہ آپ کو بولنا آتا ہے، آپ چرب زبان ہیں، چاہیں تو سچ کو جھوٹ اور جھوٹ کو سچ میں بدل دیں۔ جیسے چاہیں کسی کو ذلیل کردیں۔ ٹاک شوز میں مدِمقابل کو ہرانے کے لئے من گھڑت واقعات، قصّے کہانیاں، جھوٹے خواب اور باطل بشارتیں لے آئیں۔ کسی کا پلاٹ ہتھیا لیں۔ میاں بیوی کی لڑائی کروا دیں۔ کسی کی عزت پر بہتان لگادیں۔ ایک جملہ ایسا کہہ دیں کہ کسی کی سال بھر کی محنت اکارت ہوجائے۔ کوئی ایسا کمنٹ لکھ دیں کہ کسی غریب کی پروموشن رک جائے یا ایسی چال چلیں، ایسا پلان بنائیں کہ کسی کی نوکری ہی چلی جائے۔ عقل اگر وحی کے تابع نہ ہو تو اندھیرا ہے۔ آپ کی چرب زبانی کسی کی زبان بند کرا سکتی ہے، دل نہیں جیت سکتی۔
بندہ بچایا کریں، جملے توڑ دیا کریں۔ بڑی ہمت چاہئیے جب آپ کو پتہ ہو کہ آپ کا ایک جملہ سامنے والے کو پاش پاش کردے گا۔ وہاں آدمی کچھ سیکنڈ کو رک جائے اور سوچے کہ عقل کا استعمال کہاں کررہا ہے۔ باطنی انتشار کا سیلابی ریلا جو آپ کے اخلاقِ صالحہ کو سب سے پہلے بہا کر لے جاتا ہے وہ اِسی عقل کے دروازے سے آتا ہے۔ یہ باطنی اِنتشار فرد میں ہو تو فرد برباد، قوم میں ہو تو ملک برباد۔
چالاکی، جھوٹ، بہتان، طنز، غیبت، کردار کشی، بدیانتی، خیانت، رشوت، اختیارات کا ناجائز استعمال اور مخلوق کو تنگ کرنے کے نت نئے بہانے یہ سب اِسی دروازے کے بیل بوٹے ہیں۔
اب کسی میں اگر دیانتداری کا وصف نہیں تو اسے کہیں گے دو ٹکے کا آدمی کہ شوہر بیوی کو بات بتاتے ہوئے ڈرے اور باپ بیٹے سے چھپائے کہ اُسے بتانا تو شہر میں ڈھنڈورا پیٹنے جیسا ہے۔ قرآن پاک گزشتہ ظالم اقوام کو جانوروں سے بندر و خنزیر سے تشبیہ دیتا ہے کہ انسانی شعور کی خصوصیات تو ان سے رخصت ہوچکی تھیں۔
شعور کا اگلا دروازہ غصّہ ہے۔ انا، ضد، میں، خود پرستی، حاکمیت، غرور، تکبر، بغض، کینہ، حسد، ظلم اور نشہ اِس دروازے کے بیل بوٹے۔
میرے سامنے کوئی بولنے کی جرات نہیں کرسکتا، میں تو منہ پر کہتا ہوں، تیری اوقات کیا ہے۔ مجھے سب سے پہلے سرو کیا جائے۔ میری رائے سب سے آخر میں پوچھی جائے۔ میں روٹی کے کنارے کیوں کھاوں؟ میں اپنا کام اپنے ہاتھوں سے کیوں کروں؟ ایسا ہی ہوگا کیونکہ میں نے ایسا کہا ہے، ایسا چاہا ہے۔ میرا جہاز سونے کا ہوگا۔ میرا باورچی میرے ساتھ جہاز میں جائے گا۔ میں ایسا کرکے دکھاؤں گا وغیرہ وغیرہ۔
غصّہ بڑی ہی قبیح شے ہے۔ اإس سے بچنا جاہئیے۔ غصّہ اور غیرت میں فرق ہے۔ غیرت اُس حفاظتی جذبے کا نام ہے جو غیر کو آپ کی ملکیت میں تصرف کی اجازت نہیں دیتا۔ یہ ہونا بھی چاہئیے۔ بڑی اچھی چیز ہے۔ غصّہ نام ہے اپنے مزاج کے برعکس کسی بات کو برداشت کرنے کا۔ یہاں احتیاط بہت ضروری ہے۔ جتنی بار بندہ اللہ سے معافی مانگے کم از کم اتنی بار تو لوگوں کو بھی معاف کر دینا چاہئیے۔
متکبر لوگ قیامت میں چیونٹیاں بنا دئیے جائیں گے اور لوگ انہیں روندتے پھریں گے۔ کوشش کریں اِس دروازے سے کسی جذبے کو اندر نہ آنے دیں۔ کسی شخص کو اگر غصّے میں قابو نہیں تو وہ 33 فیصد کم انسان ہوا۔ بے حسی بھی اِسی دروازے سے آتی ہے۔ یہی بات ہے نا کہ میں معزز ترین ہوں اور اِس بات سے بے نیاز کہ کسی اور پر کیا گزرے۔ جانوروں کی خاصیت ہے۔ ایک ریوڑ میں سے شیر کسی ہرن یا نیل گائے کو شکار کرکے کھا لیتا ہے اور باقی تمام قریب ہی کھڑے یہ منظر دیکھتی ہیں اور پھر سے گھاس چرنے لگتی ہیں۔ بے حس آدمی بھی صرف اِسی قابل ہوتا ہے کہ گھاس چرلے۔ وہ آدمی جس سے غصّہ برداشت نہیں عموماََ بد تمیز، بے ادب اور ظالم بھی ہوتا ہے۔ یاد رکھنے کی بات ہے کہ ہر وہ شخص جو دوسروں کی توجہ کا طالب ہو اِس قابل بھی نہیں ہوتا کہ کسی پر توجہ کرسکے۔
شعور کی عمارت کا تیسرا اور سب سے زیادہ خطرناک دروازہ ہے جنس کا۔ نوجوانی میں دنیا بھر کے گناہ ایک طرف اور جنس ایک طرف۔ اس کی شرارتوں سے بندہ بچ کر نکل جائے تو خوب ورنہ بہت بُرا گرا اور بڑی چوٹ لگی۔ زبان کے چٹخارے، آنکھوں کے اِشارے، عشق کی کارستانیاں، محبتوں کے فریب، الفاظ کی ملمع کاری، جنسِ مخالف کی طرفداری و ستائش، پیٹ بھرنے کو حقوقِ نسواں کی ہاہاکار، بھونڈے مسیجز، لغو اور فحش باتیں، موبائل پیکجز اور حُسن کو شو آف کرنے کی لگن۔ سبھی اِس ایک دروازے کے مرہونِ منت ہیں۔ ہمیں خود ہی دیکھنا چاہئیے اور اپنا محاسبہ کرنا چاہئیے کہ کون کون، کب، کہاں اور کیسے اس دروازے سے اندر جھانکا، سانجھ سمے کس نے چوری کی؟ دل کی کشتی میں سوراخ کون کرگیا؟ کوڑیوں کے بول، لاکھوں کی نیکیاں کون لے گیا؟ اور کس کا ضبط کہاں ٹوٹا؟ کس کا صبر کہاں بکھرا؟ ہر شخص کی برداشت الگ ہے۔
کسی کو ایک بے ضرر سا جملہ وہ آگ لگاتا ہے کہ پانی سے نہ بجھے تو کسی کے سامنے سارے رنگ مل کر بھی بلیک اینڈ وائٹ رہتے ہیں۔ سب سے زیادہ باریک و خطرناک یہ دروازہ ہے۔ یہاں سے گناہ چھن چھن کر، رینگتے ہوئے اندر آجاتے ہیں اور پتہ بھی نہیں لگتا۔ آئیے حساب لگاتے ہیں کہ ہم کتنے فیصد انسان ہیں اور کوشش کرتے ہیں کہ مرنے سے پہلے صرف انسان ہی بن جائیں تو کیا کہنے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لئے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔