دیکھا تیرا امریکا انیسویں قسط
امریکہ میں جتنے بھی پارک ہیں، وہ چھانگا مانگا کی طرز کے فاریسٹ پارک ہیں، جہاں ندیاں اور گھنے جھنڈ ہیں۔
اسکوٹی والی لڑکی
خاموشی کی آواز ہوا کے دوش پر سوار میرے کانوں سے ٹکرائی تو احساس ہوا کہ میں کسی اجنبی جگہ آگیا ہوں۔ یہاں نیویارک کی گہما گہمی اور ہجوم نہیں تھا، درختوں کی بہتات نے اِس جگہ کو ساؤنڈ پروف بنادیا تھا۔ یہاں کی ہوا بھی کثافت سے پاک اور ہلکی ہلکی محسوس ہورہی تھی۔ جس نے مجھے ایک لمبی سی سانس کھینچنے پر مجبور کردیا اور میرے رگ و پے میں فرحت کی ایک لہر دوڑ گئی۔ مین ہاٹن کے جزیرے کے اندر اونچی اونچی عمارتوں میں گھرے سرسبز جزیرے میں کھڑا تھا جسے امریکا نوز سینٹرل پارک کہتے ہیں۔
مجھے انتہائیں بے چین کردیتی ہیں، وہ چاہے میری لینڈ میں عدیل کے فلیٹ میں آتی فائر بریگیڈ کی کرخت آواز ہو یا سینٹرل پارک کا سناٹا۔ عدیل نے کہا یہ درخت اور یہاں کا ماحول کتنا سرسبز لگ رہا ہے، ذرا ایک دو ماہ گزر جانے دیں پھر یہی منظر خزاں کے تکلیف دہ منظر میں بدل جائے گا۔ پتے جب رنگ بدلتے ہیں تو وہ منظر بھی بڑا خوبصورت ہوتا ہے، یہی سبز رنگ پتے جب جون بدل کر سرخ ہوتے ہیں تو منظر بڑا ہی دلکش ہوجاتا ہے۔
یہی سرخی، جوانی کی جوالا مُکھی ہوتی ہے میں نے ہنستے ہوئے کہا، اور جب زردی پتوں کو اپنی لپیٹ میں لیتی ہے تو آناََ فاناََ موت پتوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے اور پتے ڈالی سے ٹوٹ کر مٹی پر آگرتے ہیں، پھر یہی مٹی پتوں کو چاٹ جاتی ہے۔ آپ بہت مشکل مشکل باتیں کرنے لگتے ہیں کبھی کبھی، ہم ذرا جھیل کی طرف جا رہے ہیں آپ آجائیے گا آہستہ آہستہ، عدیل نے یہ کہہ کر اپنی رفتار بڑھا دی۔
انسان جب پت جھڑ کے موسم میں پہنچ جاتا ہے تو گویا اکھاڑے سے باہر بیٹھا پہلوان ہوجاتا ہے۔ اکھاڑے میں لڑتے، کسرت کرتے، بازوؤں کی مچھلیاں پھڑپھڑاتے نوجوان پہلوانوں کو دیکھ کر استاد پہلوان کے ڈھلکے ہوئے تمام اعضاء بھی پھڑ پھڑانے کی ناکام کوشش کرتے ہیں۔ میں بھی اب اکھاڑے سے باہر بیٹھا ہوا پہلوان تھا جس کے گالوں کی سرخی میں تھوڑی تھوڑی زردی نظر آنے لگی تھی۔ امریکہ میں جب درختوں پر خزاں اُترتی ہے تو پہلے وہ سرخ ہوتے ہیں پھر زردی مائل اور پھر ہوا کا ایک جھونکا انہیں درختوں سے کہیں دور اُڑا لے جاتا ہے۔
سینٹرل پارک بھی اتنا ہی سرسبز ہے جتنا سارا امریکہ۔ میں اِسی سبزے سے آنکھوں کو تر و تازگی بخشتا دھیرے دھیرے جھیل کی جانب بڑھ رہا تھا کہ اچانک درمیانی راستے پر چلتے چلتے ایک جانب ایستادہ ایک مجسمہ دیکھ کر میں ٹھٹھک سا گیا کہ یہ ویسا ہی تھا جیسا نیویارک پبلک لائبریری سے ملحقہ یادگار میں دیکھا تھا۔ میری یاداشت نے دھوکا نہیں کھایا تھا۔ یہ امریکہ کے معروف رومانوی شاعر اور ایوننگ پوسٹ (اب نیویارک پوسٹ) کے ایڈیٹر ولیم کیولن برئینٹ کا ہی مجسمہ تھا، جس نے امریکہ کے پہلے لینڈ اسکیپ آرکیٹیکٹ انڈریو جیکسن کے ساتھ مل کر آواز بلند کی تھی کہ نیویارک کی آبادی کے بڑھتے ہوئے رجحان کے پیشِ نظر ایک پبلک پارک کی ضرورت ہے۔
دیکھا تیرا امریکا (تیسری قسط)
دیکھا تیرا امریکا (چوتھی قسط)
دیکھا تیرا امریکا (پانچویں قسط)
دیکھا تیرا امریکا (چھٹی قسط)
دیکھا تیرا امریکا (ساتویں قسط)
دیکھا تیرا امریکا (آٹھویں قسط)
دیکھا تیرا امریکا (نویں قسط)
دیکھا تیرا امریکا (دسویں قسط)
دیکھا تیرا امریکا (گیارہویں قسط)
دیکھا تیرا امریکا (بارہویں قسط)
دیکھا تیرا امریکا (تیرہویں قسط)
دیکھا تیرا امریکا (چودہویں قسط)
دیکھا تیرا امریکا (پندرہویں قسط)
دیکھا تیرا امریکا( سولہویں قسط)
دیکھا تیرا امریکا (سترہویں قسط)
دیکھا تیرا امریکا ( اٹھارہویں قسط)
ایک ایسی خوبصورت جگہ جہاں وہ کھلی فضا میں سانس لے سکیں، بالکل لندن کے ہائیڈ پارک کی مانند۔ ولیم کیولن برئینٹ کے اِس مطالبے کی گونج تا دیر سنائی دیتی رہی، حتیٰ کہ 1853ء میں نیویارک کے قانون سازوں نے اسٹریٹ 59 سے اسٹریٹ 106 کے درمیانی علاقے پر پارک کی تعمیر کی منظوری دے دی۔ اِن سڑکوں کا درمیانی علاقہ 3.41 کلومیٹر یعنی 843 ایکڑ پر پھیلا ہوا ہے۔ اِس زمانے میں یہ ایک ایسا علاقہ تھا جہاں دلدلیں اور جنگلی جانوروں کی بھرمار تھی۔ اِس علاقے کو پارک میں تبدیل کرنے کے لئے پارک کا تھیم پیش کرنے کا مقابلہ کرایا گیا۔ یہ مقابلہ جیتنے پر حکومت نے فریڈرک اور کلورٹ نامی فرموں کو اِس پارک کا آرکیٹیکٹ مقرر کیا جنہوں نے اس علاقے کو ایک عظیم سیرگاہ میں تبدیل کردیا، جہاں پہاڑیاں ہیں کہ دلدلی زمین کو پتھر ڈال کر پُر کیا گیا ہے۔
مصنوعی جھلیں ہیں، جنگل نما علاقہ بھی ہے کہ امریکہ میں جتنے بھی پارک ہیں، وہ چھانگا مانگا کی طرز کے فاریسٹ پارک ہیں۔ جہاں ندیاں اور گھنے جھنڈ ہیں۔ جہاں چڑیا گھر ہیں، مصنوعی قلعے بنائے گئے ہیں، خوبصورت پُل بنے ہوئے ہیں۔ کہتے ہیں اِس علاقے میں ربط رکھنے کے لیے 36 پُل بنائے گئے ہیں۔ رب نے دنیا بنائی اور پھر اِس پر سب کچھ رکھ دیا۔ یہاں بھی وہ سب کچھ ہے جو قدرت تخلیق کرتی ہے۔
عنایہ کی پرام دھکیلتے ہوئے عدیل اور رابعہ دور چلے گئے تھے، ہماری بیگم بھی اُن کی ہم رکاب تھیں، جبکہ میں تھا جو اِدھر اُدھر دیکھتے ہوئے دھیرے دھیرے چل رہا تھا، اور بھی جوڑے تھے جو بچوں کو پرام میں ڈالے اِدھر اُدھر چل رہے تھے۔ اِس درمیانی راستے کے دونوں جانب خوانچہ فروشوں نے اپنے اسٹال سجا رکھے تھے۔ ایک صاحب پورٹریٹ بنا رہے تھے، یہ بول کچھ نہیں رہے تھے کیونکہ تصویر بنانے میں مصروف تھے، لیکن لکھ کر بورڈ لگایا ہوا تھا،
''آپ کا پورٹریٹ صرف دس ڈالر میں''
اُس نے کچھ تصویریں، چند تصویرِ بُتاں اپنے اسٹال پر آویزاں کر رکھی تھیں، یہ تصاویر اُس کے فن، اُس کے ہُنر کا منہ بولتا ثبوت تھیں کہ یہ بوڑھا تصویروں کو بھی زبان دے سکتا ہے۔ ایسی تصاویر کہ لگتا تھا ابھی بول اٹھیں گیں۔ یہ تو نصیب نصیب کی بات ہے کہ وہ اسٹوڈیو بنا کر مہنگے داموں نہیں بِک رہا تھا۔ حالانکہ اُس کی تصاویر کسی شاہکار سے کم نہ تھیں۔ ایسا لگتا تھا کہ اُس کے نصیب نے یاوری نہیں کی اور وہ سینٹرل پارک کی ایک سڑک کنارے سوت کی اٹی کے عوض اپنا فن بیچ رہا تھا۔
ارے یہ کون ہے؟ یہ بھی آرٹسٹ ہی ہے لوگوں کی جانب دیکھ رہا ہے، کوئی اُس کی جانب دیکھ لے تو کہنے لگتا ہے۔
''اپنا کیری کیچر بنوائیے اور جان جائیے کہ آپ کتنے مخولیئے لگتے ہیں''
ویسے کہا اُس نے کارٹون تھا، اُس سے کارٹون بنوانے سے بہتر تھا کہ ہم بھاگ لیتے، سو ہم نے اُس سے آنکھیں چار کرنا مناسب نہ سمجھا اور وہاں سے آگے چل دئیے۔ میری کوشش تھی کہ سڑک کے انتہائی کنارے پر چلوں اور اُس میں کامیاب بھی تھا۔ چلتے چلتے اچانک میرے جسم کو ایک جھٹکا سا لگا، میرے پیر میں درد کی ایک ٹیس سی اُٹھی اور میں گرتے گرتے بچ گیا کہ میرے دونوں ہاتھ ایک درخت سے ٹکرا چکے تھے۔ اِس ساری صورتحال میں جب میرے ہوش کچھ ٹھکانے آئے اور میں نے مڑ کر دیکھا تو معلوم ہوا کہ میرے پیروں سے ایک عدد اسکوٹی اپنے مالک سمیت ٹکرائی تھی۔
اِس سے پہلے کہ میں اپنے پاکستانی اسٹائل میں اپنے غصے کا اظہار کرتا، وہ نوخیز سی لڑکی سوری سوری کرتی ہوئی اپنی گرنے والی اسکوٹی کو سنبھالنے کی کوشش کرتے ہوئے ایک بار پھر مجھ سے ٹکرا گئی۔ پاس سے گزرتے ہوئے ایک لڑکے نے میرا ہاتھ پکڑ کر مجھے سیدھا کیا۔ اِس حسین ٹکراؤ کے بعد میں گالیاں تو جیسے بھول ہی گیا اور ویسے بھی انگریزی کی گالیاں مجھے آتی نہیں تھیں۔ میں لنگڑاتا ہوا تھوڑی دور چلا تو پیر کے کھینچاؤ میں اگرچہ کچھ کمی آگئی لیکن چلنے میں ابھی بھی تکلیف باقی تھی۔ جھیل تک پہنچنے کے لئے سیڑھیاں اترنا پڑتی ہیں، اِس لئے بچے اوپر ہی میرا انتظار کر رہے تھے۔ مجھے دور سے تھوڑا لنگڑا کر آتا دیکھ کر عدیل نے پوچھا، کیا ہوا؟ میں نے کہا کچھ نہیں ایک اسکوٹی مجھ سے ٹکرا گئی تھی۔
جھیل تک پہنچنے کے لئے دس، پندرہ سیڑھیاں اترنا پڑتی ہیں جہاں ایک خوبصورت فوارہ ہے اور اُس کے بعد جھیل کا خوبصورت نظارہ ہے۔ ہم سیڑھیاں اتر کر جھیل کنارے جا بیٹھے۔ جھیل کی گہرائیوں میں جھانکتے، اُس کے پانیوں میں پیر مارتے، اُن سے بنتے بھنوروں کو دور تک پھیلتے اور پھر سامنے سے آتی کشتیوں سے ٹکرا کر ٹوٹتے دیکھتے خاصی دیر ہوگئی تو عدیل نے واپسی کا بگل بجا دیا۔
جھیل کنارے سے نکل کر سینٹرل پارک کے باہر اسٹریٹ 59 کے قرب و جوار میں پارک کی ہوئی گاڑی تک جانے کے لئے بالکل وہی رستہ اپنانا تھا، جس سے آئے تھے۔ اچانک وہی نوخیز سی لڑکی ایک بار پھر ہمارے بہت ہی قریب سے اسکوٹی پر گزری، میری طرف دیکھ کر مسکرائی اور سوری کہتی ہوئی گزر گئی۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لئے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔