پرائیویٹ کار ٹیکسی سروس

کراچی کی بدبختی سب سے بڑی یہ ہے کہ یہاں ہر طرح کا مافیا اپنے پنجے مضبوطی سے گاڑے ہوئے ہے

fatimaqazi7@gmail.com

پچھلے دنوں دوخبروں نے توجہ اپنی طرف مبذول کرالی۔ پہلی خبرخواتین کے لیے ٹیکسی سروس شروع کرنے سے متعلق تھی،کہ رواں ماہ میں گلابی رنگ کی ٹیکسیاں جنھیں PAXI TAXI کا نام دیا گیا ہے، خواتین کے سفرکو آسان بنانے کے لیے شروع کی جا رہی ہیں، جن کوخواتین ڈرائیور ہی چلائیں گی اور صرف خواتین ہی ان میں سفر کریں گی۔ بہت خوب، ماشا اللہ خدا کرے یہ خبر درست ہو اور ہمارا کالم چھپنے تک ان گلابی ٹیکسیوں کا آغاز ہوچکا ہو۔اس خبر کو پڑھ کر غالبؔ کا ایک مصرعہ میرے ذہن میں گونج اٹھا:

ہے خبر گرم ان کے آنے کی

لیکن ایسا نہ ہو کہ ان ٹیکسیوں کا حال بھی پیلی ٹیکسیوں جیسا ہو۔ جو وزیراعظم کی خصوصی اسکیم کے تحت سڑکوں پہ لائی گئیں۔ مال بنانے والوں نے ان پیلی ٹیکسیوں سے خوب مال بنایا،کچھ عرصہ یہ سڑکوں پہ بھی نظرآئیں۔ آہستہ آہستہ ان ٹیکسیوں نے ''نظر نہ آنے والی مخلوق'' کے تعاون سے ہاتھ دکھادیا اورانھیں نجی کارکے طور پر استعمال کرنے کے ساتھ ساتھ ان کا رنگ بھی تبدیل کردیا۔اب یہ ڈھونڈے سے نہیں ملتیں۔ کراچی جیسے میٹرو پولیٹن شہرکو ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت چنگ چی رکشوں اور منی بس مافیا کے حوالے کردیا گیا۔

دوسری خبر کراچی کے حوالے سے دلوں کو رنجیدہ کرگئی کہ گرین بس منصوبہ سست روی اور تعطل کا شکار ہوگیا ہے اتنا بڑا شہر یہاں عوام کے لیے کچھ نہیں ہے۔البتہ تاجروں اورکاروبار کرنے والوں کے لیے بہت کچھ ہے۔ پٹرول کی، گیس کی اور ڈیزل کی قیمت بڑھتی ہے تو یکایک ہر شے کی قیمت خودبخود بڑھ جاتی ہے۔ ''ارے بھئی! دودھ کی قیمت کیوں بڑھادی؟'' ۔۔۔۔ ''پٹرول مہنگا ہوگیا ہے''۔۔۔۔ ''آلو، ٹماٹر، پیاز، گوشت کی قیمت کس نے اورکب بڑھائی؟''۔۔۔۔ ''آپ کو پتہ نہیں کہ پٹرول حکومت نے مہنگا کردیا ہے۔''

یا الٰہی یہ ماجرا کیا ہے؟ جب جب دنیا بھر میں پٹرول کی قیمت کم ہوئی تو پاکستان میں اس کا ردعمل دیکھنے میں نہیں آیا۔ مرے پہ سو درّے یہ کہ جب کبھی حکومت نے حاتم طائی کی قبر پہ لات مارتے ہوئے پٹرول اور CNG کی قیمت کم کی تو ٹرانسپورٹ کے کرایوں میں اس کا اثر زیرو تھا۔ اس لیے کہ پوچھنے والا کوئی نہیں۔ پوچھنے والوں کا خود اپنا سرمایہ ٹرانسپورٹ کے شعبوں میں لگا ہوا ہے وہ کاہے کو ان بد ذاتوں کی گردن ناپیں گے؟

کراچی کی بدبختی سب سے بڑی یہ ہے کہ یہاں ہر طرح کا مافیا اپنے پنجے مضبوطی سے گاڑے ہوئے ہے۔ سرکلر ریلوے اورلوکل ٹرین جو کبھی سفرکا آسان، محفوظ اورسستا ذریعہ تھی اسے بھی ایک مذموم سازش کے تحت بند کیا گیا۔ ریلوے لائن پر قبضہ مافیا کو بٹھادیا گیا۔ادھر چند دنوں سے سرکلر ریلوے کو ازسرنو شروع کرنے کی خبریں بھی آرہی ہیں اور ساتھ ہی قبضہ مافیا سے زمین واگزارکروانے کے لیے جانے والے سرکاری ملازمین پر سنگ باری بھی روزخبروں کا حصہ بن رہی ہے۔ ان قبضہ گروپوں کی اتنی طاقت کیسے بڑھ گئی کہ یہ ریلوے لائن پر سے تجاوزات ختم کرانے والوں کو ڈنڈے اور پتھر مارکر بھگا دیتے ہیں۔

خود سے سوچیے، ان قبضہ گروپوں کے کارندوں کی شکلیں دیکھیے تو بات بہت آسانی سے سمجھ میں آجاتی ہے کہ یہ لوگ کون ہیں؟ کہاں سے درآمد کیے گئے ہیں اور ان کی ہمتیں اتنی کس نے بڑھائی ہیں کہ سرکاری ٹیمیں ناکام واپس آجاتی ہیں۔ پھر پرانے لوگ جنھوں نے برٹش دور دیکھا ہے غلط تو نہیں کہتے کہ ''اس سے اچھا توانگریز کا دور تھا، قانون کی عملداری اور حکمرانی تو تھی۔'' آج کے حالات پر جے یو آئی کے رہنما اور رکن قومی اسمبلی مولانا شیرانی کا یہ بیان ایک سچا اورکھرا تبصرہ ہے۔ چند دن پہلے ہی انھوں نے ایک ظہرانے میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے فرمایا تھا۔


''پاکستان میں کرائے کے لیڈر، مولوی، میڈیا سب کچھ ملتا ہے۔ موجودہ پاکستان جناح کا نہیں بلکہ یحییٰ کا پاکستان ہے۔ ہمارا ملک اسٹیبلشمنٹ کے لیے ہے جو اسے اپنی جاگیر سمجھتی ہے۔ پاکستان ایک تھیٹر ہے جہاں ڈرامے اور اسٹیج سجائے جاتے ہیں۔ پاکستان میں کرائے کے قاتل، مولوی، جرنیل سب کچھ ملتا ہے۔ ضرورت پڑنے پر فتوے کے لیے علما اور لڑنے کے لیے طلبا مل جاتے ہیں، یہ ایک بین الاقوامی چوک ہے۔''

مختصر اور جامع الفاظ میں پاکستان پر اس سے بہتر تبصرہ ممکن نہیں۔ بیرونی دباؤ پڑنے پرکچھ لوگوں کو''دکھاوے'' کے لیے گھروں میں نظربند کردیا جاتا ہے،لیکن وہ اس ''نظربندی'' کے باوجود تمام کارروائیاں اپنے بیڈ روم سے کرتے ہیں اورکامیاب بھی رہتے ہیں۔

بات خواتین کی ٹیکسیوں اور ٹرانسپورٹ مافیا کے حوالے سے چلی تھی۔ ہم واپس اپنے موضوع پر آتے ہیں۔ کچھ عرصے سے لاہور اور کراچی میں ''کریم'' اور''اوبر'' نامی پرائیویٹ کار ٹیکسی بڑی کامیابی سے چل رہی تھی، کرائے بہت مناسب اور آرام دہ سفر۔ لیکن ہماری حکومت کو ہر اس کام سے عداوت ہے جس سے عوام کو فائدہ ہو، خواہ سرکلر ریلوے ہو،گرین لائن بس منصوبہ فوراً پکڑ دھکڑ شروع ہوگئی۔ سنا ہے جس طرح کراچی میں ماضی میں گورنمنٹ کی گرین سی این جی بسوں کو ایک مخصوص ٹرانسپورٹ مافیا نے بھرپور طریقے سے ناکام بنایا تھا وہی مافیا اب پھر میدان میں کودا ہے۔ اسے گوارا نہیں کہ کراچی کے شہریوں کو سفری سہولیات میسر ہوں۔

سی این جی بسوں پر وہ مخصوص گروہ پتھراؤکرتا تھا، آگ لگاتا تھا۔بسیں بھری ہوئی ہوتی تھیں لیکن حکومتی ادارے ٹرانسپورٹ مافیا سے ساز بازکرکے اسے ''خسارے'' میں دکھاتے تھے کیونکہ ان کی وحشی طبیعتیں ویگنوں میں جانوروں کی طرح بھرے لوگوں اور آئے دن ناخواندہ بغیر لائسنس کے غیر تربیت یافتہ ڈرائیوروں کے ہاتھوں تیز رفتاری کے باعث ہوتے حادثوں اور مرتے ہوئے لوگوں کا خون دیکھ کر تسکین حاصل کرتی تھیں۔ یہ کاروبار وہ بند نہیں کروانا چاہتے ''ییلو ڈیول'' دندناتے رہیں لوگ مرتے رہیں، حادثوں کا شکار ہوکر معذور ہوتے رہیں۔

ایک بات کی طرف توجہ دلانا چاہتی ہوں کہ Uber اور Careem سے لوگوں کو سہولت تو میسر ہوئی ہے لیکن صرف ان لوگوں کو جن کے پاس انٹرنیٹ اور wi-fi کی سہولت ہے۔ ایک عام شہری کے لیے یہ ٹیکسیاں بے معنی ہیں۔ان ٹیکسیوں کو آپریٹ کرنے والوں کو چاہیے کہ وہ اخبارات میں wi-fi کے علاوہ کچھ موبائل نمبر یا PTCL کے فون نمبر ضرور دیں۔ تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگ فائدہ اٹھا سکیں۔

ایک فیملی یا کوئی فرد کسی جگہ مارکیٹ میں یا اپنی ملازمت کی جگہ ٹیکسی منگوانا چاہے تو اس کے لیے یہ آسان ہوگا کہ وہ دیے گئے لینڈ لائن یا موبائل نمبر پہ کال کرکے مطلوبہ جگہ ٹیکسی منگوالے۔ ویسے بھی کراچی میں جس رفتار سے موبائل فون چھینے جا رہے ہیں اس کی وجہ سے سڑک پہ کھڑی کوئی خاتون یا خاندان کس طرح انٹرنیٹ اور wi-fi کی سہولت سے فائدہ اٹھا سکتا ہے۔ حکومت کو بھی چاہیے کہ اگر وہ خواتین کے لیے ''پیکسی ٹیکسی'' چلانے میں واقعی سنجیدہ ہے تو بکنگ فون کال کے ذریعے کی جانی چاہیے۔ نہ کہ صرف wi-fi کے ذریعے۔

گزشتہ کئی ہفتوں سے مختلف قارئین اس جانب توجہ دلا رہے تھے کہ ''اوبر'' اور ''کریم'' ٹیکسیاں عوام کو وہ فائدہ نہیں پہنچا رہیں جو انھیں پہنچانا چاہیے۔ عوام کے لیے سہولت اس میں ہوگی کہ وہ فون کال کے ذریعے لوکیشن بتا کر ٹیکسی منگوا لیں۔ اس طرح جو لوگ اس باعزت کاروبار سے منسلک ہیں ان کی آمدنی میں بھی اضافہ ہوگا اور لوگوں کو سفری سہولتیں بھی میسر آئیں گی۔ خدا را ! اس جانب توجہ دیجیے۔ اتنا تو حق بنتا ہے کراچی کے شہریوں کا کہ آسانی سے سفری سہولتوں سے فیض اٹھائیں۔
Load Next Story