دو بینظیر شخصیات
ڈاکٹر نذیر نامی دوسری شخصیت سے میری ملاقات دو سال قبل جاوید اقبال کے توسط سے ہوئی
بھارت سے سکھ یاتریوں کا جتھہ واہگہ بارڈر کے راستے پاکستان آ رہا تھا، ضلعی انتظامیہ کی طرف سے میں نے لاہور کی تین معروف شخصیات کو ہمراہ لے کر ان کا استقبال کرنا تھا اور پھر تین دن ان کے ساتھ رہ کر زیارتوں کا دورہ کروانا تھا۔ میں نے ٹیلیفون پر چوہدری عید محمد اور میاں صلاح الدین کو واہگہ چلنے کی دعوت دی اور تیسری شخصیت سے درخواست کرنے گورنمنٹ کالج لاہور کے پرنسپل آفس پہنچ گیا۔
پرنسپل صاحب کے نائب قاصد نے بتایا کہ وہ سامنے والے مین گیٹ سے بائیسکل پر سوار آتے ہی ہوں گے۔ میں ان کے دفتر میں انتظار کرنے کے بجائے آفس کے باہر گیٹ کی طرف رخ کر کے کھڑا ہو گیا۔ ذرا سی دیر بعد مین گیٹ کھلا اور ڈاکٹر نذیر احمد پرنسپل گورنمنٹ کالج لاہور سفید کرتا پاجامہ پہنے سائیکل چلاتے کالج میں داخل ہوئے۔ دفتر کے سامنے وہ سائیکل سے اترے تو نائب قاصد نے سائیکل پکڑ لیا اور میں مدعا بیان کرنے ان کے ساتھ آفس میں داخل ہو گیا۔
ڈاکٹر نذیر نام کی شخصیت سے یہ میری پہلی ملاقات تھی اور کئی سال پرانا منظر آج بھی میری نظروں کے سامنے محفوظ ہے اور آج میں ڈاکٹر نذیر صاحب کے بائیسکل کو تصور میں لاؤں تو مجھے بلٹ پروف مرسیڈیز کار بھی بے وقعت اور ہیچ محسوس ہوتی ہے۔
ڈاکٹر نذیر نامی دوسری شخصیت سے میری ملاقات دو سال قبل جاوید اقبال کے توسط سے ہوئی۔ پہلے ڈاکٹر نذیر احمد Phd جب کہ دوسرے میڈیکل ڈاکٹر تھے جنھوں نے کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج سے گریجوایشن کے بعد برطانیہ جا کر آرتھوپیڈک میں مہارت حاصل کی اور ملازمت شروع کر دی۔ پینالیس سال ملازمت کے باوجود وہ گزشتہ کئی سال سے ریٹائرمنٹ کے بعد سردیوں کے موسم میں کبھی تین اور کبھی چار ماہ کے لیے پاکستان آ کر اپنی بیٹی اور داماد اسد کے گھر میں قیام کرتے تھے۔
چند سال قبل ان کی ملاقات جاوید اقبال سے ہوئی جو دوستی میں بدل گئی اور پھر میری شمولیت بھی ان میں ہوئی جو خوشگوار صحبت کی ابتدا تھی۔ گورنمنٹ کالج کے ڈاکٹر نذیر احمد اعلیٰ تعلیم یافتہ ہونے کے باوجود سادہ مزاج اور لباس کی سادگی کی وجہ سے اونچا مقام رکھتے تھے جب کہ میڈیکل ڈاکٹر نذیر صاحب لباس کے معاملے میں انگریزوں سے بھی دس قدم آگے تھے اور سوٹ کے ساتھ میچنگ شرٹ، نیکٹائی، شوز، جرابیں اور کوٹ کی جیب میں رومال استعمال کرتے تھے۔ ان کی عینک تک لباس کے ساتھ تبدیل ہو جاتی تھی۔
پاکستان میں قیام کے بعد واپس لندن جاتے وقت وہ بیقرار بھی پائے جاتے اور اداس بھی۔ گزشتہ رمضان المبارک کے دنوں جب میں لندن میں تھا تو آٹھ روزہ قیام کے باوجود ان سے دو دن ملاقات رہی اور انھوں نے مجھے بکنگھم پیلس کے اردگرد سیر کرانے کے علاوہ خاطر و مدارت کی۔
موصوف اپنے میڈیکل کے پیشے کی بابت گفتگو سے گریز کرتے تھے لیکن لٹریچر اور اسپورٹس کے دلدادہ تھے۔ ان دنوں لاہور کے ریس کورس میں اتوار کے روز پولو میچ ہو رہے تھے لہٰذا وہ ہمیں ہر اتوار میچ دکھانے لے جاتے اور گھوڑوں کے بارے میں بتاتے کیونکہ انھوں نے لندن کے مضافاتی علاقے میں رہائش کے علاوہ گھوڑے بھی پال رکھے تھے۔ گھوڑوں کے بعد ان کا شوق موٹر کاریں تھا یا پھر پیدل سیر کرنا جو ہم لاہور ریس کورس میں پولو میچ شروع ہونے سے پہلے ضرور کرتے۔
ڈاکٹر نذیر حسین کی شخصیت کی کئی جہتیں تھیں وہ ایک کامیاب اور ماہر آرتھوپیڈک ڈاکٹر تھے جو کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج میں پڑھنے کے بعد برطانیہ میں مزید اور اعلیٰ تعلیم حاصل کرتے رہے پھر وہیں ملازمت کی اور ریٹائرمنٹ کے بعد ہر سال اپنے ملک آ کر رشتہ داروں اور دوستوں سے ملتے رہے۔ وہ ایک اسپورٹس مین تھے جو پولو جیسا مشکل اور امیرانہ کھیل کھیلتے تھے۔
انھیں شاعری کا شغف تھا اور خود صاحب دیوان شاعر تھے۔ ان کے پہلے تین شعری مجموعے ساعتیں، باتیں اور یادیں شائع ہوئے پھر تینوں کو اکٹھا کر کے احساسات، کیفیات اور جذبات کے نام سے ''کلیات نذیر'' منظر عام پر آئی۔ ان کا چوتھا مجموعہ کلام ''تیرے ملنے کا کچھ گماں سا ہے'' کے عنوان سے شائع ہوا۔ یہ سب مجموعہ ہائے کلام آغا امیر حسین نے ''کلاسیک'' پبلشنگ ہاؤس سے شائع کیے۔ ان کے چند اشعار درج ذیل ہیں؎
روز بھرتا ہوں تری یاد میں ٹھنڈی آہیں
مجھ کو کس موڑ پہ یورپ کی ہوا لے آئی
کیا گئے لوٹ کے آنے کا سفر بھول گئے
اے مرے نقش گرِ خواب مرے ہرجائی
مرے خیال میں آ، دل کی وادیوں میں اتر
میں تیرا گیت ہوں، مجھ کو تو گنگنا کر دیکھ
چلو جلدی سے کہیں اور نکل جائیں نذیر
جانے کچھ دیر میں اس شہر میں کیا ہو جائے
تو ایک بار کہے گا تو لوٹ آؤں گا
یہ کیسے سوچا کہ میں تجھ کو بھول جاؤں گا
یقین نہیں تیرے ملنے کا کچھ گماں سا ہے
کہ شہر اشک میں منظر دھواں دھواں سا ہے
ان کی نظم ''آؤ چلیں'' کی کچھ لائنیں یوں ہیں۔
اس دنیا سے بھر گیا جی
آؤ چلیں
آؤ چلیں اِس دنیا سے
آؤ چلیں اُس دنیا میں
لوگ جہاں خوش رہتے ہیں
ٹھنڈے میٹھے چشمے نور کے دریاؤں میں بہتے ہیں
یہ دنیا تو فانی ہے
فانی دنیا سے کیا لینا، آؤ چلیں اس دنیا سے''
ڈاکٹر نذیر حسین کو لندن سے لاہور بیٹی کے گھر آئے موسم سرما کے حسب سابق چار ماہ ہو چکے تھے۔ گیارہ مارچ کو ان کی واپسی فلائٹ تھی ۔ اس سے سات روز قبل وہ جاوید اقبال اور میں Lung Fung چائنیز ریسٹورنٹ کے مالک باؤ نذیر احمد کی بیٹی کی شادی میں شریک ہوئے۔ رات دس بجے جاوید اقبال نے ڈاکٹر صاحب کو ان کی بیٹی نادیہ کے گھر اتارا اسی رات وہ شدید بیمار ہو کر بے ہوش ہوگئے جہاں سے CMH منتقل کیے گئے۔ وہ ICU اور وینٹی لیٹر پر گئے اور لندن واپسی کے دن والی فلائٹ انھیں خالق حقیقی کے پاس لے گئی اور پھر اگلے روز ان کی نماز جنازہ میاں میر مسجد میں ادا ہوئی۔
ازاں بعد میاں میر کے قبرستان میں تدفین ہوگئی۔ زندہ دل انسان، ڈاکٹر اسپورٹس مین اور شاعر جو ہر وقت چہکتا تھا۔ نہایت خاموشی سے اس جہان فانی سے رخصت ہو گیا۔ اس روز ہم تقریباً ڈیڑھ گھنٹے تک حضرت میاں میر (1550-1635) کے دربار میں رہے۔ فاتحہ خوانی کی تو یاد آیا کہ سکھوں کے پانچویں گرو ارجن دیو حضرت میاں میر کے قریبی دوست تھے اور وہ گرو صاحب کی دعوت پر امرتسر گئے تھے جہاں حضرت نے گولڈن ٹمپل کا سنگ بنیاد رکھا تھا۔ ڈاکٹر نذیر حسین سوچتے ہوں گے:
دبا کے قبر میں سب چل دیے دعا نہ سلام
ذرا سی دیر میں کیا ہو گیا زمانے کو
پرنسپل صاحب کے نائب قاصد نے بتایا کہ وہ سامنے والے مین گیٹ سے بائیسکل پر سوار آتے ہی ہوں گے۔ میں ان کے دفتر میں انتظار کرنے کے بجائے آفس کے باہر گیٹ کی طرف رخ کر کے کھڑا ہو گیا۔ ذرا سی دیر بعد مین گیٹ کھلا اور ڈاکٹر نذیر احمد پرنسپل گورنمنٹ کالج لاہور سفید کرتا پاجامہ پہنے سائیکل چلاتے کالج میں داخل ہوئے۔ دفتر کے سامنے وہ سائیکل سے اترے تو نائب قاصد نے سائیکل پکڑ لیا اور میں مدعا بیان کرنے ان کے ساتھ آفس میں داخل ہو گیا۔
ڈاکٹر نذیر نام کی شخصیت سے یہ میری پہلی ملاقات تھی اور کئی سال پرانا منظر آج بھی میری نظروں کے سامنے محفوظ ہے اور آج میں ڈاکٹر نذیر صاحب کے بائیسکل کو تصور میں لاؤں تو مجھے بلٹ پروف مرسیڈیز کار بھی بے وقعت اور ہیچ محسوس ہوتی ہے۔
ڈاکٹر نذیر نامی دوسری شخصیت سے میری ملاقات دو سال قبل جاوید اقبال کے توسط سے ہوئی۔ پہلے ڈاکٹر نذیر احمد Phd جب کہ دوسرے میڈیکل ڈاکٹر تھے جنھوں نے کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج سے گریجوایشن کے بعد برطانیہ جا کر آرتھوپیڈک میں مہارت حاصل کی اور ملازمت شروع کر دی۔ پینالیس سال ملازمت کے باوجود وہ گزشتہ کئی سال سے ریٹائرمنٹ کے بعد سردیوں کے موسم میں کبھی تین اور کبھی چار ماہ کے لیے پاکستان آ کر اپنی بیٹی اور داماد اسد کے گھر میں قیام کرتے تھے۔
چند سال قبل ان کی ملاقات جاوید اقبال سے ہوئی جو دوستی میں بدل گئی اور پھر میری شمولیت بھی ان میں ہوئی جو خوشگوار صحبت کی ابتدا تھی۔ گورنمنٹ کالج کے ڈاکٹر نذیر احمد اعلیٰ تعلیم یافتہ ہونے کے باوجود سادہ مزاج اور لباس کی سادگی کی وجہ سے اونچا مقام رکھتے تھے جب کہ میڈیکل ڈاکٹر نذیر صاحب لباس کے معاملے میں انگریزوں سے بھی دس قدم آگے تھے اور سوٹ کے ساتھ میچنگ شرٹ، نیکٹائی، شوز، جرابیں اور کوٹ کی جیب میں رومال استعمال کرتے تھے۔ ان کی عینک تک لباس کے ساتھ تبدیل ہو جاتی تھی۔
پاکستان میں قیام کے بعد واپس لندن جاتے وقت وہ بیقرار بھی پائے جاتے اور اداس بھی۔ گزشتہ رمضان المبارک کے دنوں جب میں لندن میں تھا تو آٹھ روزہ قیام کے باوجود ان سے دو دن ملاقات رہی اور انھوں نے مجھے بکنگھم پیلس کے اردگرد سیر کرانے کے علاوہ خاطر و مدارت کی۔
موصوف اپنے میڈیکل کے پیشے کی بابت گفتگو سے گریز کرتے تھے لیکن لٹریچر اور اسپورٹس کے دلدادہ تھے۔ ان دنوں لاہور کے ریس کورس میں اتوار کے روز پولو میچ ہو رہے تھے لہٰذا وہ ہمیں ہر اتوار میچ دکھانے لے جاتے اور گھوڑوں کے بارے میں بتاتے کیونکہ انھوں نے لندن کے مضافاتی علاقے میں رہائش کے علاوہ گھوڑے بھی پال رکھے تھے۔ گھوڑوں کے بعد ان کا شوق موٹر کاریں تھا یا پھر پیدل سیر کرنا جو ہم لاہور ریس کورس میں پولو میچ شروع ہونے سے پہلے ضرور کرتے۔
ڈاکٹر نذیر حسین کی شخصیت کی کئی جہتیں تھیں وہ ایک کامیاب اور ماہر آرتھوپیڈک ڈاکٹر تھے جو کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج میں پڑھنے کے بعد برطانیہ میں مزید اور اعلیٰ تعلیم حاصل کرتے رہے پھر وہیں ملازمت کی اور ریٹائرمنٹ کے بعد ہر سال اپنے ملک آ کر رشتہ داروں اور دوستوں سے ملتے رہے۔ وہ ایک اسپورٹس مین تھے جو پولو جیسا مشکل اور امیرانہ کھیل کھیلتے تھے۔
انھیں شاعری کا شغف تھا اور خود صاحب دیوان شاعر تھے۔ ان کے پہلے تین شعری مجموعے ساعتیں، باتیں اور یادیں شائع ہوئے پھر تینوں کو اکٹھا کر کے احساسات، کیفیات اور جذبات کے نام سے ''کلیات نذیر'' منظر عام پر آئی۔ ان کا چوتھا مجموعہ کلام ''تیرے ملنے کا کچھ گماں سا ہے'' کے عنوان سے شائع ہوا۔ یہ سب مجموعہ ہائے کلام آغا امیر حسین نے ''کلاسیک'' پبلشنگ ہاؤس سے شائع کیے۔ ان کے چند اشعار درج ذیل ہیں؎
روز بھرتا ہوں تری یاد میں ٹھنڈی آہیں
مجھ کو کس موڑ پہ یورپ کی ہوا لے آئی
کیا گئے لوٹ کے آنے کا سفر بھول گئے
اے مرے نقش گرِ خواب مرے ہرجائی
مرے خیال میں آ، دل کی وادیوں میں اتر
میں تیرا گیت ہوں، مجھ کو تو گنگنا کر دیکھ
چلو جلدی سے کہیں اور نکل جائیں نذیر
جانے کچھ دیر میں اس شہر میں کیا ہو جائے
تو ایک بار کہے گا تو لوٹ آؤں گا
یہ کیسے سوچا کہ میں تجھ کو بھول جاؤں گا
یقین نہیں تیرے ملنے کا کچھ گماں سا ہے
کہ شہر اشک میں منظر دھواں دھواں سا ہے
ان کی نظم ''آؤ چلیں'' کی کچھ لائنیں یوں ہیں۔
اس دنیا سے بھر گیا جی
آؤ چلیں
آؤ چلیں اِس دنیا سے
آؤ چلیں اُس دنیا میں
لوگ جہاں خوش رہتے ہیں
ٹھنڈے میٹھے چشمے نور کے دریاؤں میں بہتے ہیں
یہ دنیا تو فانی ہے
فانی دنیا سے کیا لینا، آؤ چلیں اس دنیا سے''
ڈاکٹر نذیر حسین کو لندن سے لاہور بیٹی کے گھر آئے موسم سرما کے حسب سابق چار ماہ ہو چکے تھے۔ گیارہ مارچ کو ان کی واپسی فلائٹ تھی ۔ اس سے سات روز قبل وہ جاوید اقبال اور میں Lung Fung چائنیز ریسٹورنٹ کے مالک باؤ نذیر احمد کی بیٹی کی شادی میں شریک ہوئے۔ رات دس بجے جاوید اقبال نے ڈاکٹر صاحب کو ان کی بیٹی نادیہ کے گھر اتارا اسی رات وہ شدید بیمار ہو کر بے ہوش ہوگئے جہاں سے CMH منتقل کیے گئے۔ وہ ICU اور وینٹی لیٹر پر گئے اور لندن واپسی کے دن والی فلائٹ انھیں خالق حقیقی کے پاس لے گئی اور پھر اگلے روز ان کی نماز جنازہ میاں میر مسجد میں ادا ہوئی۔
ازاں بعد میاں میر کے قبرستان میں تدفین ہوگئی۔ زندہ دل انسان، ڈاکٹر اسپورٹس مین اور شاعر جو ہر وقت چہکتا تھا۔ نہایت خاموشی سے اس جہان فانی سے رخصت ہو گیا۔ اس روز ہم تقریباً ڈیڑھ گھنٹے تک حضرت میاں میر (1550-1635) کے دربار میں رہے۔ فاتحہ خوانی کی تو یاد آیا کہ سکھوں کے پانچویں گرو ارجن دیو حضرت میاں میر کے قریبی دوست تھے اور وہ گرو صاحب کی دعوت پر امرتسر گئے تھے جہاں حضرت نے گولڈن ٹمپل کا سنگ بنیاد رکھا تھا۔ ڈاکٹر نذیر حسین سوچتے ہوں گے:
دبا کے قبر میں سب چل دیے دعا نہ سلام
ذرا سی دیر میں کیا ہو گیا زمانے کو