ایک تھے محمد علی
دراصل زندگی موت کی حقیقت کا سب سے بڑا نام ہے اسی لیے دنیا کو فانی کہا گیا ہے
اداکار محمدعلی کی موت ایک وجود،ایک آدمی کی موت نہیں بلکہ ایسے ہشت پہلوفنکارکی وفات ہے جس سے لاکھوں لوگ بے پناہ محبت کرتے تھے اورکرتے رہیں گے۔ وہ بلاشبہ پاکستانی فلمی صنعت کے ان معدودے چند لوگوں میں سے ایک تھے، جنھیں انتہائی قدرواحترام کی نگاہ سے ہمیشہ دیکھا گیا۔
یہ بھی درست ہے کہ محمد علی عبقری تھے اعلیٰ تعلیم یافتہ نہ ہونے کے باوجود علم و ادب سے بے پناہ آگاہی انھیں حاصل تھی اور وہ انتہائی وسیع المطالعہ بھی تھے۔ ادیبوں، شاعروں اور دانشوروں کی اپنی رہائش گاہ پر ماہانہ نشستیں رکھوا کر وہ خود کو''دیدہ ور'' تسلیم کراچکے تھے۔
ان کے فنی کریئرکے ابتدائی اوروسطی دور پر نگاہ کی جائے تو پتا چلتا ہے کہ وہ وقت کے نبض شناس تھے، انھوں نے عوام وخواص کے اندر اچھی ایکٹنگ (کردار نگاری) کا شعوروادراک پیدا کیااوراس بے زبان انبوہ کو زبان دی۔ مگر وہ جوکہتے ہیں کہ بڑوں کی غلطیاں بھی بڑی ہوتی ہیں چنانچہ محمد علی سے بھی ان کے دور عروج میں بعض ایسی فاش غلطیاں سرزد ہوئیں (کرداروں کے انتخاب کے حوالے سے) جنھوں نے مستقبل کے اس صورت گرکو ماضی کا حصہ بنادیا۔
اسے محمدعلی یا ان کے فن کا بہت بڑا المیہ ہی کہا جائے گا کہ انھوں نے اس وقت اپنی فنی صلاحیتوں کومحفوظ نہیں رکھا جب اس کی ضرورت اہل فن کو تھی اور خود ان کے فنی کریئر کو بھی۔ لیکن انھوں نے صرف اور صرف معاوضے کو ہی اپنا مطمع نظر بنالیا اور اپنے فنی حجم سے صرف نظرکرتے ہوئے انتہائی سطحی، کمزور یا بے جان کرداروں میں آ آ کر خود کو مس یوزکرتے چلے گئے اوریہ ان کے فنی کریئر کا بہت ہی حساس اورمشکل دور تھا۔ اس دور میں وہ خودکو صحیح معنوں میں ''عہد ساز'' ثابت کرسکتے تھے لیکن وائے افسوس وہ ایسا نہ کرسکے۔
محمد علی کا فنی کریئر 34 برسوں پر محیط رہا، ان کی مجموعی فلموں کی تعداد 272 کے لگ بھگ ہے،ان کی پہلی فلم ''چراغ جلتا رہا'' 9 مارچ 1962 کو اورآخری فلم ''دم مست قلندر'' 21 اپریل 1995 کو ریلیزہوئی تھی۔ محمد علی کی بہترین اور ناقابل فراموش کردار نگاری سے آراستہ فلموں میں خاموش رہو، صاعقہ، آگ کا دریا، کنیز، جاگ اٹھا انسان، محل، انسان اور آدمی، گھرانہ انصاف اور قانون، حقیقت، دشمن، راجہ جانی، تم سلامت رہو، بارات، ٹیپوسلطان، پھول میرے گلشن کا، حیدرعلی، دل اک آئینہ، افسانہ زندگی کا، وحشی، پروفیسر، آس، سنگرام، خدا اورمحبت، دامن اور چنگاری، آئینہ اورصورت، سلاخیں اورتیرے بنا کیا جینا خاص طورپر قابل ذکر فلمیں ہیں جنھیں کبھی بھی باذوق فلم بین بھلا نہ سکیں گے۔
اس بات میں بھی دو رائے نہیں ہوسکتی کہ پاکستانی سینما کی تاریخ کے سب سے منفرد، عہد آفریں اورصاحب طرزفنکار محمد علی کی ہمہ صفت شخصیت اورطرز اداکاری کے مطالعے پر ایک کتاب کی ضرورت ہمیشہ سے تھی اور ہمیشہ رہے گی، بالخصوص ان کی طویل فنی جدوجہد، شخصیت کی انفرادیت وعظمت اورمنفرد اسلوب اداکاری کا احاطہ کرنے والی کتاب جوایشیا کے اس بہترین اداکارکی لگن اورفنی مہارت کے مطالعے وتجزیے کا پورا حق ادا کرسکے۔
محمدعلی کا شمار ان معدودے چند لوگوں میں بھی کیا جاسکتا ہے جو بظاہر ایک کھلی کتاب کی طرح نظر آتے ہیں لیکن جب انھیں پڑھنے کی کوشش کریں توپتا چلتا ہے کہ زبان مشکل اورالجھی ہوئی اور کتابوں کے جا بجا ورق غائب ہیں۔ لفظ کہیں پھیل گئے ہیں،کہیں مٹ گئے ہیں، خود محمد علی نے اپنی شخصیت کی کتاب کے کچھ اوراق پھاڑ دیے،کچھ باب ان کی اہلیہ زیبا کی وجہ سے بند ہوگئے اور کچھ محمدعلی کی جذباتیت اوربعض تضادات کے باعث پڑھے نہیں جاسکتے۔کتاب کے بعض حصے خود انھوں نے انگلیوں سے رگڑ رگڑ کرمٹادیے اورکچھ دوسرے ہاتھوں نے مٹا ڈالے۔
یہ ایک تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ ریڈیو پاکستان پر زیڈ اے بخاری کی تربیت فلم میں محمد علی کے بہت کام آئی، ڈرامہ بولنے میں ان کی پاٹ دار آواز فلم بینوں کو ساکت وجامد کردیتی تھی۔ محمد علی واقعی فن اداکاری کے اسکول آف تھاٹ میں اپنے ڈیل ڈول کی طرح اس حوالے سے ہمیشہ انفرادی اہمیت کے حامل رہیں گے کہ انھیں چہرے کے تاثرات (فیس ایکسپریشن) فلم کے منظر کے حوالے سے دینے میں ملکہ حاصل تھا اور جذبات نگاری کے مظاہرمیں تو انھیں یدطولیٰ حاصل تھا۔
رونے کی اداکاری کرنے میں انھوں نے کبھی گلیسرین آنکھوں میں استعمال نہیں کی وہ منظرکے تاثر میں خود کو پوری طرح جذب کرکے قدرتی آنسوؤں سے روپڑتے اور سیٹ پر اورسینماؤں میں موجود لوگوں کو دم بخود کردیتے تھے۔ ہدایت کار شباب کیرانوی کی فلم ''انصاف اور قانون'' میں مہدی حسن کا ایک گیت بہت ہی مقبول ہوا تھا جس کے بول تھے:
سو برس کی زندگی میں ایک پل
اس گیت کی پکچرائزیشن میں انھوں نے جس غضب کے چہرے کے تاثرات دیے اگر اس کا تقابل برصغیرکے لیجنڈری اداکاردلیپ کمارکی تمام فلموں کے فیس ایکسپریشن سے موازنہ کیا جائے تو محمدعلی کا انصاف اورقانون کا فیس ایکسپریشن کا پلڑہ بھاری دکھائی دے گا۔ لیکن افسوس محمد علی دلیپ کمارکے اصول اورطرز عمل کو فالو نہ کرسکے جو اس گریٹ اداکار نے فن اداکاری کے حوالے سے اپنے لیے وضع کیے تھے۔ محمد علی اگر اپنے فنی سفر میں دلیپ کمارکے ان اصولوں پر خود کوکاربند کرلیتے تو وہ اس پریشانی سے بچ جاتے جو بعد میں انھیں اٹھانی پڑی اور ان کا فنی کریئر متاثر ہوا۔
یہ ایک مسلمہ امر ہے کہ ملکی نظام ہو یا اس کا کوئی بھی شعبہ حیات، علم ہو یا فن سبھی اصولوں کا کھیل ہوتا ہے اور اصولوں کی عمر ہمیشہ انسان کی زندگی سے زیادہ طویل ہوتی ہے۔ یہ سقراط کا اصول تھا جس نے مرنے کے بعد بھی ڈھائی ہزار سال تک اسے زندہ رکھا۔ یہ اصول ہی تھے جنھوں نے حیدرعلی، ٹیپوسلطان، نواب سراج الدولہ، لیاقت علی خان اورقائد اعظم جیسے لوگوں کو آج تک تاریخ میں مرنے نہیں دیا بلکہ انھیں امرکردیا۔
تاہم حقیقت یہی ہے کہ زندگی اتنی ناپائیدار اوراس قدر بے ثبات ہے کہ نہ ماں کی گود اور بچپن کی معصومیت ہمیشہ ساتھ دیتی ہے اور نہ ہی محبوب کی بانھوں کا حصار اورموسموں کا عشق عمر بھر ساتھ دیتا ہے۔ ہر چیزاپنا رنگ اورجلوہ دکھا کر غائب ہوجاتی ہے، کیونکہ یہ سب کا سب نظام قدرت ہے۔
دراصل زندگی موت کی حقیقت کا سب سے بڑا نام ہے اسی لیے دنیا کو فانی کہا گیا ہے۔ جس نے ماں کی گود دیکھی وہ قبرکی آغوش سے بھی آشنا ہوگا لیکن پھر بھی کون ایسا جی دار ہوگا جوکسی اپنے پیارے کو موت کی آغوش میں جاتا دیکھے، پھر بھی ہر چشم کو اپنے پیاروں کی جدائی کے لیے نمناک ہونا پڑتا ہے۔ ہم سب کے محمدعلی آج ہی کے دن یعنی بروز اتوار 19 مارچ 2006 کو اپنے پیاروں کو چھوڑکر بالآخر اس سفر پر نکل گئے جس سے کوئی مسافر واپس آتا نہیں دیکھا گیا۔
آج محمدعلی کی گیارہویں برسی کے موقعے پر ہمیں یہ کہنے میں کوئی عار نہیں ہے کہ وہ ایک دور میں اپنے فن کو اس مقام تک لے گئے تھے جہاں تک پہنچنے کی لوگوں کی حسرت ہی رہتی ہے۔ محمدعلی جیسے لوگ جہان فانی سے رخصت ہونے کے باوجود ہر ذی روح کے مقدر بننے کے متمنی ہوتے ہوئے عقیدت مندوں کے دلوں میں موجود رہتے ہیں اوران کی تخلیقی یا خداداد صلاحیت زندہ و تابندہ رہتی ہے۔
محمد علی اپنی بشری کمزوریوں اورکوتاہیوں کے باوجود ہمارے بلکہ ہم سب کے پسندیدہ فنکار تھے اور اپنی فنی صلاحیتوں اور اپنی فلموں کے حوالے سے ہماری ان سے جذباتی وابستگی، انسیت اورمحبت تھی اور محبت کے نصاب میں فراموشی کا کوئی باب نہیں ہوتا۔