آدم شماری کے بعد۔۔۔
مردم شماری کے نتائج کے متوقع اثرات پر ایک نظر۔
ISLAMABAD:
آدم شماری کا بنیادی مقصد یہی ہوتا ہے کہ انتظامی مسائل حل ہوں۔۔۔ سالانہ میزانیے سے لے کر دیگر ریاستی وسائل کی تقسیم اور ترقیاتی پروگراموں کی اٹھان متعین ہو، مختلف لسانی اور نسلی گروہوں اور ان کے مذاہب وغیرہ کی خبر ہو۔۔۔ یہاں رہنے والے غیر ملکیوں کا پتا چلے۔۔۔ دیارغیر کوچ کرنے والوں کی کچھ سُن گن ملے۔۔۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ 19 برس کے طویل عرصے بعد منعقد ہونے والی مردم شماری کے نتائج ہماری ریاست کے حوالے سے کیا اثرات مرتب کر سکتے ہیں، جو دوررَس بھی ہو سکتے ہیں۔
٭انتخابی حلقوں میں اضافہ
مردم شماری کے نتائج کا لازمی نتیجہ ملکی آبادی میں اضافے کی خبر دے گا، جس کا واضح مطلب انتخابی حلقوں میں اضافہ ہے۔ پارلیمانی طرز حکومت میں ان ہی حلقوں سے منتخب نمائندے حکومت تشکیل دیتے ہیں اور قانون سازی میں اپنا کردار ادا کرتے ہیں۔ آبادی میں اضافے کی شرح سے 2018ء کے عام انتخابات میں مختلف سیاسی جماعتوں کی نمائندگی میں اضافے کا امکان ہے، یہی نہیں بہت سی نئی جماعتوں کو بھی پارلیمان تک رسائی حاصل ہو سکتی ہے۔ گویا مردم شماری کے درست اعدادوشمار براہ راست شفاف انتخابات میں کلیدی کردار ادا کریں گے اور حقیقی معنوں میں عوامی نمائندگی مقننہ پہنچ سکے گی۔
٭این ایف سی ایوارڈ
صوبوں کے درمیان وسائل کی تقسیم بہ ذریعہ 'نیشنل فنانس کمیشن ایوارڈ' (این ایف سی) ہوتی ہے۔ 1971ء سے پہلے ملک کا مشرقی بازو آبادی میں زیادہ اور رقبے میں مغربی حصے سے کم تھا، تو وسائل کی تقسیم کے لیے رقبے کو معیار بنایا گیا۔ مشرق پاکستان کے الگ ہونے کے بعد مغربی پاکستان کے چار صوبے بحال ہوئے تو رقبے کے لحاظ سے بلوچستان سب سے بڑا تھا، لیکن اب زیادہ رقبے کے بہ جائے زیادہ آبادی کا کلیہ طے کیا گیا۔ یوں ان وسائل کی تقسیم کے لیے اب نگاہیں مردم شماری کے نتائج پر مرکوز ہیں۔ یہی نہیں ایک صوبہ دوسرے صوبے کے افراد کی تعداد کو بنیاد بناکر متعلقہ صوبے سے وسائل میں حصہ طلب کر سکتا ہے کہ ہمارے ہاں ٹھیرے ہوئے اپنے صوبے کے افراد کے اخراجات اٹھانے کی ذمے داری ادا کی جائے۔
٭مادری زبان کا غلغلہ
مردم شماری کا بگل بجتے ہی ایک عجیب وغریب مہم 'مادری زبان' کے حوالے سے بھی جاری ہے، جس میں مادری زبان کے خانے میں کسی مخصوص زبان لکھنے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔ منطقی اعتبار سے یہ نہایت بھونڈا رویہ ہے۔ یہ ایسے ہی ہے کہ کسی کو یہ کہنا کہ اپنی ماں فلاں کو قرار دو۔ باشعور اور پڑھے لکھے حلقے بھی قوم پرستی کی رو میں بہہ کر زور وشور سے ایسی باتیں کر رہے ہیں۔ مہم تو اس بات کی چلانی چاہیے کہ آپ کی جو مادری زبان ہے، مردم شماری کے کوائف میں آپ لازماً وہی زبان درج کرائیں، نہ کہ اور کوئی دوسری زبان۔ اگر ایسا نہ کیا گیا، تو یہ امر مردم شماری کی بنیادی روح کے ہی خلاف ہے۔ اگر درست مادری زبان لکھی جائے، تو امید ہے کہ ملک کے طول وارض میں بسنے والی مختلف قومیتوں کے درست اعدادوشمار سامنے آسکیں گے۔
٭سندھ کا شہری دیہی مسئلہ
1970ء کے عشرے سے گرم ہونے والی سندھ کی دیہی اور شہری تقسیم کی شدت کم ضرور ہوئی ہوگی، لیکن یہ آج بھی پوری طرح موجود ہے۔ اکثریت اور اقلیت کے خوف آج بھی سیاسی اور سماجی حلقوں میں نہایت شدومد سے محسوس کیے جا رہے ہیں۔ روایتی طور پر شہری سندھ کی آبادی کم لکھوائے جانے کے اندیشے بیان ہو رہے ہیں۔ مردم شماری میں شہری اور دیہی کے تناسب سے سندھ کے وسائل اور ملازمتوں کی تقسیم پر اثر پڑ سکتا ہے، یہی نہیں شہری سندھ کا تناسب بڑھا تو یہ وسائل کے ساتھ انتخابی سیاست پر بھی گہرے اثرات مرتب کر سکتا ہے۔
٭اقلیتوں کا تناسب
ہمارے ملک میں اقلیتوں کا تناسب بہ مشکل چار فی صد تک ہے۔ بہت سی اقلیتیں بوجوہ اپنی مذہبی وابستگی کا درست اندراج نہیں کراتیں۔ مردم شماری میں ملک کی تمام اقلیتوں کے درست اعداوشمار سامنے آنے سے فیصلہ ساز حلقوں کو اندازہ ہو سکے گا کہ وہ کس طرح اپنی کارکردگی کو بہتر بنا سکتے ہیں۔ کچھ ناخوش گوار واقعات کے نتیجے میں اقلیتوں میں عدم اطمینان بھی دیکھا گیا، جس کی وجہ سے سندھ سے بہت سے ہندوؤں نے بھارت نقل مکانی کی۔ مردم شماری سے ایسے افراد کا بھی درست شمار ہو سکے گا۔
٭کراچی کے اعدادوشمار
صوبۂ سندھ کی دیہی اور شہری تقسیم کے ساتھ صوبائی دارالحکومت کراچی کی آبادی کے اعدادوشمار صرف شہری سندھ ہی نہیں، بلکہ ملک بھر کی سیاست پر اہم اثرات مرتب کر سکتے ہیں۔ مہاجر اکثریتی شہر کے باوجود یہاں مختلف قومیتوں کی بہت بڑی تعداد آباد ہو چکی ہے۔ مردم شماری کے نتائج کے ذریعے ایک طرف اس شہر کی کُل آبادی اور اس کو حاصل سہولیات اور مسائل وغیرہ سامنے آئیں گے، بلکہ یہاں رہائش پذیر مختلف قومیتوں کے اعدادوشمار معلوم ہوسکیں گے، جس کے ذریعے یہاں کی سیاسی نمائندگی سے لے کر وسائل کی فراہمی تک بہت سے سوالات کے جواب حاصل ہوں گے۔
٭پنجاب کی دیگر قومیتیں
ملک کی تقریباً ساٹھ فی صد آبادی کے حامل صوبۂ پنجاب میں، پنجابی کے علاوہ سرائیکی، پوٹھوہاری، ہندکو (ہزاروال کی زبان)، بلوچی اور دیگر زبانیں بولنے والے بھی کثیر تعداد میں آباد ہیں۔ گذشتہ مردم شماری میں بھی سرائیکی علاقوں میں بے ضابطگی کی شکایات سامنے آئی تھیں، اگر درست اعداد وشمار کے ذریعے مختلف زبانیں بولنے والوں کی تعداد سامنے آئے، تو انتظامی اور سیاسی امور میں بہت سی تبدیلیاں رونما ہو سکتی ہیں۔
٭نئے صوبوں کے امکانات
بہت سے صوبائی حاکم اپنی آبادی بڑھنے کے حوالے سے خاصے پرجوش دکھائی دیتے ہیں، تاکہ وفاق سے زیادہ سے زیادہ وسائل طلب کیے جا سکیں، لیکن اس کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ آبادی کے دباؤ کی بنا پر نئے صوبوں کے مطالبات مضبوط ہوسکتے ہیں۔ انتظامی معاملات کو بہتر طریقے سے چلانے کے لیے عدالت یا پارلیمان کے ذریعے یہ کہا جا سکتا ہے کہ انتظامی اِکائی کے لیے آبادی کی حد اس سے زیادہ نہیں ہونی چاہیے۔ ایسے میں کم سے کم تین صوبوں میں مزید صوبوں کا قیام عمل میں آسکتا ہے۔
٭بڑے شہروں کا تعین
زرعی ملک ہونے کے ناتے یہاں کی دیہی آبادی کا تناسب کافی اہمیت کا حامل ہے، 1998ء کی مردم شماری میں سب سے زیادہ آبادی کراچی کی 93 لاکھ، لاہور کی 51 لاکھ اور فیصل آباد کی 19 لاکھ نفوس پر مشتمل تھی۔ ایک محدود اندازے کے مطابق کراچی اور لاہور کی آبادی اب بالترتیب دو کروڑ اور ایک کروڑ سے تجاوز کر رہی ہے۔ یہی نہیں فیصل آباد، حیدرآباد، پشاور اور کوئٹہ وغیرہ جیسے شہروں کی آبادی اور یہاں بڑھتی ہوئی نقل مکانی کے اعدادوشمار سامنے آئیں گے۔ صوبائی اور وفاقی حکومتیں یہاں موجود مسائل کو حل کرنے اور خصوصی طور پر معیار زندگی بلند کرنے کی سمت متوجہ ہوسکیں گی۔
آدم شماری کا بنیادی مقصد یہی ہوتا ہے کہ انتظامی مسائل حل ہوں۔۔۔ سالانہ میزانیے سے لے کر دیگر ریاستی وسائل کی تقسیم اور ترقیاتی پروگراموں کی اٹھان متعین ہو، مختلف لسانی اور نسلی گروہوں اور ان کے مذاہب وغیرہ کی خبر ہو۔۔۔ یہاں رہنے والے غیر ملکیوں کا پتا چلے۔۔۔ دیارغیر کوچ کرنے والوں کی کچھ سُن گن ملے۔۔۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ 19 برس کے طویل عرصے بعد منعقد ہونے والی مردم شماری کے نتائج ہماری ریاست کے حوالے سے کیا اثرات مرتب کر سکتے ہیں، جو دوررَس بھی ہو سکتے ہیں۔
٭انتخابی حلقوں میں اضافہ
مردم شماری کے نتائج کا لازمی نتیجہ ملکی آبادی میں اضافے کی خبر دے گا، جس کا واضح مطلب انتخابی حلقوں میں اضافہ ہے۔ پارلیمانی طرز حکومت میں ان ہی حلقوں سے منتخب نمائندے حکومت تشکیل دیتے ہیں اور قانون سازی میں اپنا کردار ادا کرتے ہیں۔ آبادی میں اضافے کی شرح سے 2018ء کے عام انتخابات میں مختلف سیاسی جماعتوں کی نمائندگی میں اضافے کا امکان ہے، یہی نہیں بہت سی نئی جماعتوں کو بھی پارلیمان تک رسائی حاصل ہو سکتی ہے۔ گویا مردم شماری کے درست اعدادوشمار براہ راست شفاف انتخابات میں کلیدی کردار ادا کریں گے اور حقیقی معنوں میں عوامی نمائندگی مقننہ پہنچ سکے گی۔
٭این ایف سی ایوارڈ
صوبوں کے درمیان وسائل کی تقسیم بہ ذریعہ 'نیشنل فنانس کمیشن ایوارڈ' (این ایف سی) ہوتی ہے۔ 1971ء سے پہلے ملک کا مشرقی بازو آبادی میں زیادہ اور رقبے میں مغربی حصے سے کم تھا، تو وسائل کی تقسیم کے لیے رقبے کو معیار بنایا گیا۔ مشرق پاکستان کے الگ ہونے کے بعد مغربی پاکستان کے چار صوبے بحال ہوئے تو رقبے کے لحاظ سے بلوچستان سب سے بڑا تھا، لیکن اب زیادہ رقبے کے بہ جائے زیادہ آبادی کا کلیہ طے کیا گیا۔ یوں ان وسائل کی تقسیم کے لیے اب نگاہیں مردم شماری کے نتائج پر مرکوز ہیں۔ یہی نہیں ایک صوبہ دوسرے صوبے کے افراد کی تعداد کو بنیاد بناکر متعلقہ صوبے سے وسائل میں حصہ طلب کر سکتا ہے کہ ہمارے ہاں ٹھیرے ہوئے اپنے صوبے کے افراد کے اخراجات اٹھانے کی ذمے داری ادا کی جائے۔
٭مادری زبان کا غلغلہ
مردم شماری کا بگل بجتے ہی ایک عجیب وغریب مہم 'مادری زبان' کے حوالے سے بھی جاری ہے، جس میں مادری زبان کے خانے میں کسی مخصوص زبان لکھنے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔ منطقی اعتبار سے یہ نہایت بھونڈا رویہ ہے۔ یہ ایسے ہی ہے کہ کسی کو یہ کہنا کہ اپنی ماں فلاں کو قرار دو۔ باشعور اور پڑھے لکھے حلقے بھی قوم پرستی کی رو میں بہہ کر زور وشور سے ایسی باتیں کر رہے ہیں۔ مہم تو اس بات کی چلانی چاہیے کہ آپ کی جو مادری زبان ہے، مردم شماری کے کوائف میں آپ لازماً وہی زبان درج کرائیں، نہ کہ اور کوئی دوسری زبان۔ اگر ایسا نہ کیا گیا، تو یہ امر مردم شماری کی بنیادی روح کے ہی خلاف ہے۔ اگر درست مادری زبان لکھی جائے، تو امید ہے کہ ملک کے طول وارض میں بسنے والی مختلف قومیتوں کے درست اعدادوشمار سامنے آسکیں گے۔
٭سندھ کا شہری دیہی مسئلہ
1970ء کے عشرے سے گرم ہونے والی سندھ کی دیہی اور شہری تقسیم کی شدت کم ضرور ہوئی ہوگی، لیکن یہ آج بھی پوری طرح موجود ہے۔ اکثریت اور اقلیت کے خوف آج بھی سیاسی اور سماجی حلقوں میں نہایت شدومد سے محسوس کیے جا رہے ہیں۔ روایتی طور پر شہری سندھ کی آبادی کم لکھوائے جانے کے اندیشے بیان ہو رہے ہیں۔ مردم شماری میں شہری اور دیہی کے تناسب سے سندھ کے وسائل اور ملازمتوں کی تقسیم پر اثر پڑ سکتا ہے، یہی نہیں شہری سندھ کا تناسب بڑھا تو یہ وسائل کے ساتھ انتخابی سیاست پر بھی گہرے اثرات مرتب کر سکتا ہے۔
٭اقلیتوں کا تناسب
ہمارے ملک میں اقلیتوں کا تناسب بہ مشکل چار فی صد تک ہے۔ بہت سی اقلیتیں بوجوہ اپنی مذہبی وابستگی کا درست اندراج نہیں کراتیں۔ مردم شماری میں ملک کی تمام اقلیتوں کے درست اعداوشمار سامنے آنے سے فیصلہ ساز حلقوں کو اندازہ ہو سکے گا کہ وہ کس طرح اپنی کارکردگی کو بہتر بنا سکتے ہیں۔ کچھ ناخوش گوار واقعات کے نتیجے میں اقلیتوں میں عدم اطمینان بھی دیکھا گیا، جس کی وجہ سے سندھ سے بہت سے ہندوؤں نے بھارت نقل مکانی کی۔ مردم شماری سے ایسے افراد کا بھی درست شمار ہو سکے گا۔
٭کراچی کے اعدادوشمار
صوبۂ سندھ کی دیہی اور شہری تقسیم کے ساتھ صوبائی دارالحکومت کراچی کی آبادی کے اعدادوشمار صرف شہری سندھ ہی نہیں، بلکہ ملک بھر کی سیاست پر اہم اثرات مرتب کر سکتے ہیں۔ مہاجر اکثریتی شہر کے باوجود یہاں مختلف قومیتوں کی بہت بڑی تعداد آباد ہو چکی ہے۔ مردم شماری کے نتائج کے ذریعے ایک طرف اس شہر کی کُل آبادی اور اس کو حاصل سہولیات اور مسائل وغیرہ سامنے آئیں گے، بلکہ یہاں رہائش پذیر مختلف قومیتوں کے اعدادوشمار معلوم ہوسکیں گے، جس کے ذریعے یہاں کی سیاسی نمائندگی سے لے کر وسائل کی فراہمی تک بہت سے سوالات کے جواب حاصل ہوں گے۔
٭پنجاب کی دیگر قومیتیں
ملک کی تقریباً ساٹھ فی صد آبادی کے حامل صوبۂ پنجاب میں، پنجابی کے علاوہ سرائیکی، پوٹھوہاری، ہندکو (ہزاروال کی زبان)، بلوچی اور دیگر زبانیں بولنے والے بھی کثیر تعداد میں آباد ہیں۔ گذشتہ مردم شماری میں بھی سرائیکی علاقوں میں بے ضابطگی کی شکایات سامنے آئی تھیں، اگر درست اعداد وشمار کے ذریعے مختلف زبانیں بولنے والوں کی تعداد سامنے آئے، تو انتظامی اور سیاسی امور میں بہت سی تبدیلیاں رونما ہو سکتی ہیں۔
٭نئے صوبوں کے امکانات
بہت سے صوبائی حاکم اپنی آبادی بڑھنے کے حوالے سے خاصے پرجوش دکھائی دیتے ہیں، تاکہ وفاق سے زیادہ سے زیادہ وسائل طلب کیے جا سکیں، لیکن اس کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ آبادی کے دباؤ کی بنا پر نئے صوبوں کے مطالبات مضبوط ہوسکتے ہیں۔ انتظامی معاملات کو بہتر طریقے سے چلانے کے لیے عدالت یا پارلیمان کے ذریعے یہ کہا جا سکتا ہے کہ انتظامی اِکائی کے لیے آبادی کی حد اس سے زیادہ نہیں ہونی چاہیے۔ ایسے میں کم سے کم تین صوبوں میں مزید صوبوں کا قیام عمل میں آسکتا ہے۔
٭بڑے شہروں کا تعین
زرعی ملک ہونے کے ناتے یہاں کی دیہی آبادی کا تناسب کافی اہمیت کا حامل ہے، 1998ء کی مردم شماری میں سب سے زیادہ آبادی کراچی کی 93 لاکھ، لاہور کی 51 لاکھ اور فیصل آباد کی 19 لاکھ نفوس پر مشتمل تھی۔ ایک محدود اندازے کے مطابق کراچی اور لاہور کی آبادی اب بالترتیب دو کروڑ اور ایک کروڑ سے تجاوز کر رہی ہے۔ یہی نہیں فیصل آباد، حیدرآباد، پشاور اور کوئٹہ وغیرہ جیسے شہروں کی آبادی اور یہاں بڑھتی ہوئی نقل مکانی کے اعدادوشمار سامنے آئیں گے۔ صوبائی اور وفاقی حکومتیں یہاں موجود مسائل کو حل کرنے اور خصوصی طور پر معیار زندگی بلند کرنے کی سمت متوجہ ہوسکیں گی۔