پیشہ وارانہ مہارت اور نیک نیتی سے ہی جرائم میں کمی ممکن ہے
لاہور پولیس نے اسلحہ چھیننے، اندھے قتل اور اغواء کی وارداتوں کا کامیابی سے سراغ لگایا۔
گزشتہ سال پولیس اہلکاروں کے لیے کافی خطرنا ک سال ثابت ہوا،دہشت گردوں کی جانب سے پولیس اہلکاروں کو نشانہ بنایا گیا جس کے باعث متعدد پولیس اہلکاروں نے جام شہادت نوش کیا۔
مگر پولیس کا مورال پھر بھی قائم رہا،تاہم دوسری جانب لاہور پولیس نے بہترین کارکردگی دکھائی اور اپنی پیشہ وارانہ صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے دہشت گردوں کونہ صرف ٹریس کیا بل کہ گرفتار کرکے پولیس کے مورال میں اضافہ بھی کیا،بلاشبہ ایسے خطرناک ملزمان کی گرفتاری پولیس کا کارنامہ ہے ۔ دہشت گردی کے واقعات میں ملوث ملزمان کی گرفتاری کے ساتھ ساتھ انویسٹی گیشن پولیس نے شہریوںکے اندھے قتل ٹریس بھی کیے جو فرض شناسی اور پیشہ وارانہ مہارت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
سینکڑوں ڈکیت گینگ کے ارکان گرفتار ہوئے، ان سے کروڑوں روپے کی نقدی اور دیگر سامان برآ مد کیا گیا،جس سے سنگین جرائم میں ملوث ملزمان کی گرفتاری سے صوبائی دارالحکومت میں جرائم کی شرح میں واضح کمی واقع ہوئی ۔سی آئی اے پولیس نے دو سال قبل لوئر مال کے علاقے میں ناکے پر کھڑے دو پولیس اہلکاروں پر فائرنگ کر کے شہید کرنے اورسرکاری رائفل چھیننے ، تھانہ شاہدرہ ٹائون کے علاقے میں دوران واردات مزاحمت پر پولیس اہلکار کو زخمی کرنے،تھانہ مصری شاہ اور بادامی باغ کے علاقوں سے پولیس اہلکاروں سے گن پوائنٹ پر سرکاری اسلحہ چھیننے سمیت مختلف اضلاع میں ڈکیتی کی وارداتیں کرنے والے بین الاضلاعی گروہ کے دو ملزموں کو گرفتار کیا گیا اور ان کی نشاندہی پر پولیس اہلکاروں سے چھینی ہوئی سرکاری رائفلیں بر آمد کر لیں۔
یہ وارداتیں پولیس کے لیے بہت بڑا چیلنج تھیں ابتدا میں ایسے لگتا تھا جیسے کوئی دہشت گرد ملوث ہیں ان وارداتوں کی سنگینی کا اندازہ کرتے ہوئے ملزمان کی گرفتاری کے لیے وزیر اعلی پنجاب میاں محمد شہباز شریف نے ڈی آئی جی انویسٹی گیشن چودھری شفیق احمد، ڈی آئی جی آپریشن لاہور رائے محمد طاہر کو خصوصی ٹاسک سونپا تھا۔جنہوں نے ایس پی سی آئی اے محمد عمر ورک اور دیگر افسران کی نگرانی میں پولیس ٹیم تشکیل دی جس نے ملزمان کو گرفتار کیا۔ڈی آئی جی انویسٹی گیشن چوہدری شفیق احمد اور ڈی آئی جی آپریشن لاہور رائے محمد طاہر نے بتایا کہ 2011 ء میں گھوڑا ہسپتال کے قریب پولیس ناکے پر کھڑے پولیس اہلکاروں پر نامعلوم ملزمان نے اندھا دھند فائرنگ کر دی تھی جس کے نتیجے میں دو پولیس اہلکار شہید ہوئے اور ملزمان پولیس اہلکاروں سے سرکاری رائفل چھین کر فرار ہو گئے تھے۔
جس پر سی آئی اے کی مختلف ٹیمیں تشکیل دے کر ان کو ملزموں کی گرفتاری کا ٹارگٹ دیا گیا ۔ سی آئی اے کی ٹیم کو اطلاع ملی کہ ان وارداتوں میں ملوث ملزم شاہد عرف کالا جو ہیروئن کے نشے کا عادی ہے اکثر ہیروئن لینے کے لیے شمالی لاہور کے علاقوں میں دیکھا گیا ہے جس پر پولیس ٹیم نے ان علاقوں کی نگرانی شروع کر دی اور بالاخر ایک روز ملزم شاہد عرف کالا مصری شاہ کے علاقے سے گرفتار کر لیا ، دوران تفتیش یہ انکشاف ہوا کہ وہ کوٹلی ضلع بھمبھر آزاد کشمیر کا رہائشی ہے اور اپنے ساتھی ندیم عرف موچھا کے ہمراہ لاہور کے علاوہ فیصل آباد گجرات اور منڈی بہاالدین میں پولیس اہلکاروں پر فائرنگ کر کے زخمی کرنے کے علاوہ سرکاری اسلحہ چھیننے کے ساتھ ساتھ شہریوں کو گن پوائنٹ پر لوٹنے کی 30 سے زائد وارداتیں کر چکا ہے۔
ملزم شاہد کی نشاندہی پر اس کے ساتھی ندیم عرف موچھا کو دربار پیر مکی سے ناجائز اسلحہ سمیت گرفتار کیا گیا جس نے دوران تفتیش بتایا کہ انہوں نے شاہدرہ ٹائون ، مصری شاہ اور بادامی باغ کے علاقوں سے پولیس اہلکاروں سے سرکاری اسلحہ چھین کر انہیں زخمی کرنے کے علاوہ لاہور سمیت مختلف شہروں میں ڈکیتی اور راہزنی کی درجنوں وارداتیں کیں ہیں یہ امر قابل ذکر ہے کہ ملزمان ہیروئن کے نشے کے عادی ہیں جو نشہ کرتے ہی سفاک درندوں کا روپ دھار لیتے تھے اور لوٹ مار کے لیے نکل پڑتے ۔ پولیس اہلکاروں پر فائرنگ کرکے انہیں شہید و زخمی کرنے اور اسلحہ چھیننے سے انہیں بڑی تسکین ملتی تھی جبکہ دوران واردات مزاحمت پر یہ شہریوں پر تشدد سے بھی گریز نہیں کرتے تھے۔ یہ ذمہ داری سی آئی اے نے چیلنج سمجھ کر قبول کی اور کامیاب رہی اور آج یہ ملزمان قانون کی گرفت میں ہیں۔
علاوہ ازیں اقبال ٹاون پولیس نے پانچ ماہ قبل ہونے والے اندھے قتل کا سراغ لگا کر ملزم کو گرفتار کرلیا،ملزم نے اعتراف جرم کرلیا ہے۔اقبال ٹاون کے علاقہ مون مارکیٹ میں سمن آباد کے رہائشی ٹیلر ماسٹر محمد شبیر کو نامعلوم افراد نے دکان کے اندر گھس کر سر میں آہنی چیز کے وار کرکے بے دردی سے قتل کردیا تھا اور جاتے وقت دکان سے ہزاروں روپے کی نقدی،قیمتی سوٹ اور دیگر سامان بھی لے گئے تھے۔مقتول تین بچوں کا باپ اور گھرکا واحد کفیل تھا،قاتل مقتول کا دوست عثمان نکلا جس کو گرفتار کرکے حوالات میں بند کردیا گیا ہے۔اندھے قتل کا سراغ لگانے کے لیے ڈی آئی جی انویسٹی گیشن چودھر ی شفیق احمد اور ڈی آئی جی آپریشن لاہور رائے محمد طاہر نے ایس پی امتیاز سروراور ایس پی صاحبزادہ بلال عمر کو احکامات جاری کیے تھے۔
پولیس کے مطابق قتل کی واردات کے بعد دکان پر آنے جانے والے لوگوں اور مقتول کے قریبی دوستوں کے بیان ریکارڈ کیے گئے اور مارکیٹ میں اس وقت موجود دکانداروں سے بھی اس حوالے سے پوچھ گچھ کی گئی ،جس کے بعد چند لوگوں کو حراست میں لیکر تفتیش شرو ع کی گئی تو عثمان جو کہ مقتول کا قریبی دوست تھا اُس نے اپنے بیانات بدلے اور اس کی حرکات بھی مشکوک تھیں اوراسے شامل تفتیش کرلیا گیا،دوران تفتیش ملزم نے اپنے جرم کا اعتراف کرلیا اور پولیس کو بیان دیا ہے کہ وہ مقتول شبیر کے ہمراہ شراب پیتا تھا وقوعہ کے روز وہ شراب پی رہے تھے کہ اس دوران دونوں میں تلخ کلامی ہوگئی،جس پر میں نے اشتعال میں آکر سلائی مشین شبیر کے سر پر دے ماری اور واقع کو ڈکیتی کا رنگ دینے کے لیے نقدی اور دیگر سامان اٹھا کرموقع سے فرار ہوگیا،ایس پی کے مطابق ملزم نے اعتراف جرم کرلیا ہے۔
حساس ادارے کے رکن کا گھریلوملازم پراسرار طور پر غائب ہوگیا،جس کا سراغ لگانے کے لیے وزیر اعلی پنجاب نے ڈی آئی جی انویسٹی گیشن چودھری شفیق احمد اور ڈی آئی جی آپریشن لاہور رائے محمد طاہر کو خصوصی ٹاسک سونپا ۔جس پر ڈی ایس پی آفتاب پھلروان کی نگرانی میں انچارج انویسٹی گیشن شفیق آباد انسپکٹر چودھری اعظم منہیس اور اہلکاروں کی خصوصی ٹیم تشکیل دیتے ہوئے مغوی کی بازیابی اور ملزمان کی گرفتاری کا پروگرام بنایا۔دوران تفتیش پولیس کو علم ہوا کہ مغوی نے فہمیدہ نامی خاتون سے ناجائز تعلقات بنا رکھے تھے اور بعدازاںاُس نے فہمیدہ کی بہن شکیلہ اور بھانجی عاصمہ سے بھی تعلقات استوار کرلیے تھے اور ان سے ملنے فیصل آباد جایا کرتا تھا۔
مغوی کے موبائل فون کے ریکارڈ کے مطابق آخری کال شکیلہ بی بی کے موبائل فون پر کی گئی تھی پولیس نے تفتیش کا دائرہ کار بڑھاتے ہوئے فیصل آباد کے علاقہ میں جھمرہ روڈ کے نواحی گائوں پر چھاپہ مار کر ملزمہ فہمیدہ اور ملزم لطیف عرف کاکا کو گرفتار کرلیا۔ ملزمان نے دوران تفتیش اپنے جرم کا انکشاف کرلیا۔لاہور میں جرائم پیشہ عناصر کے خلاف کریک ڈاون ، ا ندھے قتل کوٹریس کرکے ملزمان کی گرفتاری پر وزیر اعلی پنجاب نے ڈی آئی جی انویسٹی گیشن چوہدری شفیق احمد، ڈی آئی جی آپریشن لاہور رائے محمد طاہر اور ان کی ٹیم کو شاباش دیتے ہوئے مجرمان کے خلاف کریک ڈاون کو مزید تیز کرنے کے احکامات جاری کیے ہیں۔
مگر پولیس کا مورال پھر بھی قائم رہا،تاہم دوسری جانب لاہور پولیس نے بہترین کارکردگی دکھائی اور اپنی پیشہ وارانہ صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے دہشت گردوں کونہ صرف ٹریس کیا بل کہ گرفتار کرکے پولیس کے مورال میں اضافہ بھی کیا،بلاشبہ ایسے خطرناک ملزمان کی گرفتاری پولیس کا کارنامہ ہے ۔ دہشت گردی کے واقعات میں ملوث ملزمان کی گرفتاری کے ساتھ ساتھ انویسٹی گیشن پولیس نے شہریوںکے اندھے قتل ٹریس بھی کیے جو فرض شناسی اور پیشہ وارانہ مہارت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
سینکڑوں ڈکیت گینگ کے ارکان گرفتار ہوئے، ان سے کروڑوں روپے کی نقدی اور دیگر سامان برآ مد کیا گیا،جس سے سنگین جرائم میں ملوث ملزمان کی گرفتاری سے صوبائی دارالحکومت میں جرائم کی شرح میں واضح کمی واقع ہوئی ۔سی آئی اے پولیس نے دو سال قبل لوئر مال کے علاقے میں ناکے پر کھڑے دو پولیس اہلکاروں پر فائرنگ کر کے شہید کرنے اورسرکاری رائفل چھیننے ، تھانہ شاہدرہ ٹائون کے علاقے میں دوران واردات مزاحمت پر پولیس اہلکار کو زخمی کرنے،تھانہ مصری شاہ اور بادامی باغ کے علاقوں سے پولیس اہلکاروں سے گن پوائنٹ پر سرکاری اسلحہ چھیننے سمیت مختلف اضلاع میں ڈکیتی کی وارداتیں کرنے والے بین الاضلاعی گروہ کے دو ملزموں کو گرفتار کیا گیا اور ان کی نشاندہی پر پولیس اہلکاروں سے چھینی ہوئی سرکاری رائفلیں بر آمد کر لیں۔
یہ وارداتیں پولیس کے لیے بہت بڑا چیلنج تھیں ابتدا میں ایسے لگتا تھا جیسے کوئی دہشت گرد ملوث ہیں ان وارداتوں کی سنگینی کا اندازہ کرتے ہوئے ملزمان کی گرفتاری کے لیے وزیر اعلی پنجاب میاں محمد شہباز شریف نے ڈی آئی جی انویسٹی گیشن چودھری شفیق احمد، ڈی آئی جی آپریشن لاہور رائے محمد طاہر کو خصوصی ٹاسک سونپا تھا۔جنہوں نے ایس پی سی آئی اے محمد عمر ورک اور دیگر افسران کی نگرانی میں پولیس ٹیم تشکیل دی جس نے ملزمان کو گرفتار کیا۔ڈی آئی جی انویسٹی گیشن چوہدری شفیق احمد اور ڈی آئی جی آپریشن لاہور رائے محمد طاہر نے بتایا کہ 2011 ء میں گھوڑا ہسپتال کے قریب پولیس ناکے پر کھڑے پولیس اہلکاروں پر نامعلوم ملزمان نے اندھا دھند فائرنگ کر دی تھی جس کے نتیجے میں دو پولیس اہلکار شہید ہوئے اور ملزمان پولیس اہلکاروں سے سرکاری رائفل چھین کر فرار ہو گئے تھے۔
جس پر سی آئی اے کی مختلف ٹیمیں تشکیل دے کر ان کو ملزموں کی گرفتاری کا ٹارگٹ دیا گیا ۔ سی آئی اے کی ٹیم کو اطلاع ملی کہ ان وارداتوں میں ملوث ملزم شاہد عرف کالا جو ہیروئن کے نشے کا عادی ہے اکثر ہیروئن لینے کے لیے شمالی لاہور کے علاقوں میں دیکھا گیا ہے جس پر پولیس ٹیم نے ان علاقوں کی نگرانی شروع کر دی اور بالاخر ایک روز ملزم شاہد عرف کالا مصری شاہ کے علاقے سے گرفتار کر لیا ، دوران تفتیش یہ انکشاف ہوا کہ وہ کوٹلی ضلع بھمبھر آزاد کشمیر کا رہائشی ہے اور اپنے ساتھی ندیم عرف موچھا کے ہمراہ لاہور کے علاوہ فیصل آباد گجرات اور منڈی بہاالدین میں پولیس اہلکاروں پر فائرنگ کر کے زخمی کرنے کے علاوہ سرکاری اسلحہ چھیننے کے ساتھ ساتھ شہریوں کو گن پوائنٹ پر لوٹنے کی 30 سے زائد وارداتیں کر چکا ہے۔
ملزم شاہد کی نشاندہی پر اس کے ساتھی ندیم عرف موچھا کو دربار پیر مکی سے ناجائز اسلحہ سمیت گرفتار کیا گیا جس نے دوران تفتیش بتایا کہ انہوں نے شاہدرہ ٹائون ، مصری شاہ اور بادامی باغ کے علاقوں سے پولیس اہلکاروں سے سرکاری اسلحہ چھین کر انہیں زخمی کرنے کے علاوہ لاہور سمیت مختلف شہروں میں ڈکیتی اور راہزنی کی درجنوں وارداتیں کیں ہیں یہ امر قابل ذکر ہے کہ ملزمان ہیروئن کے نشے کے عادی ہیں جو نشہ کرتے ہی سفاک درندوں کا روپ دھار لیتے تھے اور لوٹ مار کے لیے نکل پڑتے ۔ پولیس اہلکاروں پر فائرنگ کرکے انہیں شہید و زخمی کرنے اور اسلحہ چھیننے سے انہیں بڑی تسکین ملتی تھی جبکہ دوران واردات مزاحمت پر یہ شہریوں پر تشدد سے بھی گریز نہیں کرتے تھے۔ یہ ذمہ داری سی آئی اے نے چیلنج سمجھ کر قبول کی اور کامیاب رہی اور آج یہ ملزمان قانون کی گرفت میں ہیں۔
علاوہ ازیں اقبال ٹاون پولیس نے پانچ ماہ قبل ہونے والے اندھے قتل کا سراغ لگا کر ملزم کو گرفتار کرلیا،ملزم نے اعتراف جرم کرلیا ہے۔اقبال ٹاون کے علاقہ مون مارکیٹ میں سمن آباد کے رہائشی ٹیلر ماسٹر محمد شبیر کو نامعلوم افراد نے دکان کے اندر گھس کر سر میں آہنی چیز کے وار کرکے بے دردی سے قتل کردیا تھا اور جاتے وقت دکان سے ہزاروں روپے کی نقدی،قیمتی سوٹ اور دیگر سامان بھی لے گئے تھے۔مقتول تین بچوں کا باپ اور گھرکا واحد کفیل تھا،قاتل مقتول کا دوست عثمان نکلا جس کو گرفتار کرکے حوالات میں بند کردیا گیا ہے۔اندھے قتل کا سراغ لگانے کے لیے ڈی آئی جی انویسٹی گیشن چودھر ی شفیق احمد اور ڈی آئی جی آپریشن لاہور رائے محمد طاہر نے ایس پی امتیاز سروراور ایس پی صاحبزادہ بلال عمر کو احکامات جاری کیے تھے۔
پولیس کے مطابق قتل کی واردات کے بعد دکان پر آنے جانے والے لوگوں اور مقتول کے قریبی دوستوں کے بیان ریکارڈ کیے گئے اور مارکیٹ میں اس وقت موجود دکانداروں سے بھی اس حوالے سے پوچھ گچھ کی گئی ،جس کے بعد چند لوگوں کو حراست میں لیکر تفتیش شرو ع کی گئی تو عثمان جو کہ مقتول کا قریبی دوست تھا اُس نے اپنے بیانات بدلے اور اس کی حرکات بھی مشکوک تھیں اوراسے شامل تفتیش کرلیا گیا،دوران تفتیش ملزم نے اپنے جرم کا اعتراف کرلیا اور پولیس کو بیان دیا ہے کہ وہ مقتول شبیر کے ہمراہ شراب پیتا تھا وقوعہ کے روز وہ شراب پی رہے تھے کہ اس دوران دونوں میں تلخ کلامی ہوگئی،جس پر میں نے اشتعال میں آکر سلائی مشین شبیر کے سر پر دے ماری اور واقع کو ڈکیتی کا رنگ دینے کے لیے نقدی اور دیگر سامان اٹھا کرموقع سے فرار ہوگیا،ایس پی کے مطابق ملزم نے اعتراف جرم کرلیا ہے۔
حساس ادارے کے رکن کا گھریلوملازم پراسرار طور پر غائب ہوگیا،جس کا سراغ لگانے کے لیے وزیر اعلی پنجاب نے ڈی آئی جی انویسٹی گیشن چودھری شفیق احمد اور ڈی آئی جی آپریشن لاہور رائے محمد طاہر کو خصوصی ٹاسک سونپا ۔جس پر ڈی ایس پی آفتاب پھلروان کی نگرانی میں انچارج انویسٹی گیشن شفیق آباد انسپکٹر چودھری اعظم منہیس اور اہلکاروں کی خصوصی ٹیم تشکیل دیتے ہوئے مغوی کی بازیابی اور ملزمان کی گرفتاری کا پروگرام بنایا۔دوران تفتیش پولیس کو علم ہوا کہ مغوی نے فہمیدہ نامی خاتون سے ناجائز تعلقات بنا رکھے تھے اور بعدازاںاُس نے فہمیدہ کی بہن شکیلہ اور بھانجی عاصمہ سے بھی تعلقات استوار کرلیے تھے اور ان سے ملنے فیصل آباد جایا کرتا تھا۔
مغوی کے موبائل فون کے ریکارڈ کے مطابق آخری کال شکیلہ بی بی کے موبائل فون پر کی گئی تھی پولیس نے تفتیش کا دائرہ کار بڑھاتے ہوئے فیصل آباد کے علاقہ میں جھمرہ روڈ کے نواحی گائوں پر چھاپہ مار کر ملزمہ فہمیدہ اور ملزم لطیف عرف کاکا کو گرفتار کرلیا۔ ملزمان نے دوران تفتیش اپنے جرم کا انکشاف کرلیا۔لاہور میں جرائم پیشہ عناصر کے خلاف کریک ڈاون ، ا ندھے قتل کوٹریس کرکے ملزمان کی گرفتاری پر وزیر اعلی پنجاب نے ڈی آئی جی انویسٹی گیشن چوہدری شفیق احمد، ڈی آئی جی آپریشن لاہور رائے محمد طاہر اور ان کی ٹیم کو شاباش دیتے ہوئے مجرمان کے خلاف کریک ڈاون کو مزید تیز کرنے کے احکامات جاری کیے ہیں۔