سمندر
ہزاروں سال پہلے ایک بہت بڑا سمندر تھا۔ اتنا بڑا کہ کسی نے بھی اس کا کنارہ نہیں دیکھا تھا۔
SAN FRANCISCO:
ہزاروں سال پہلے ایک بہت بڑا سمندر تھا۔ اتنا بڑا کہ کسی نے بھی اس کا کنارہ نہیں دیکھا تھا۔ عظیم سمندرمیں ہر طرح کی مخلوق تھی۔ مہیب آبی جانور، قوی ہیکل اور ضعیف مچھلیاں۔ پہاڑ جیسے آکٹوپس، مگرمچھ، دریائی گھوڑے اور سانپ۔ پانی کی تہہ اوپرسے توکسی ارتعاش کے بغیرنظرآتی تھی مگر ذرا سا نیچے پوری ایک دنیا آباد تھی۔
ایک مختلف طرح کی کائنات۔ پہاڑوں کے کالے رنگ کے لامتناہی سلسلے، آبی جنگلات، چٹانیں اوربرف کے سیکڑوں لمبے تودے۔ صرف ایک مسئلہ تھا کہ ہر دوچار سال بعدزلزلہ ضرور آتا تھا۔ جھٹکوں سے پہاڑوں کے اندرتوازن بگڑ جاتا تھا۔ اکثر لاوہ اُبلنا شروع ہوجاتا تھا۔ سرخ رنگ کا گرم لاواپانی میں جہاں بھی گرتا تھا وہاں تمام جانور یا تو مرجاتے تھے یازخمی ہوکر ناکارہ ہوجاتے تھے۔
سمندرکی تہہ میں ایک بہت بڑا آکٹوپس رہتا تھا۔ انتہائی طاقتوراورجاندار۔ اتنا بڑا تھا کہ پورے سمندرمیں اس کے مقابلے کا کوئی جانورنہیں تھا۔ اس کے درجنوں ہاتھ اور آنکھیں تھیں۔ پہاڑکی غارمیں رہتا تھا۔ آکٹوپس بے حد ذہین تھا۔لگتا تھا کہ اس کے درجنوں دماغ بھی ہیں۔ لاکھوں مچھلیوں، دریائی گھوڑوں اورمگرمچھوں کی ایک فوج بنارکھی تھی۔ پل پل کی خبررکھتاتھا۔ پانی میں جوکچھ بھی ہورہا ہوتا تھا،اسکومعلوم تھا۔ ہر صبح غار سے نکلتا تھا۔ سب سے پہلے دریائی گھوڑے سمندرکاحال بتاتے تھے۔پھرمچھلیاں اپنی زبان میں مکمل واقعات بیان کرتی تھیں۔مگرمچھ دوردورکی کاروائی گوش گزارکرتے تھے۔
آکٹوپس پورے سمندر کا بے تاج بادشاہ تھا۔ عنان حکومت اس کے پاس تھی۔ہرجگہ اس کا حکم مانا جاتا تھا۔ آکٹوپس میں بہت خوبیاں تھیں۔ حاکم کے طور پرہرفریق کاخیال رکھتاتھا۔مضبوط اورناتواں، تمام جانور اس کے لیے بالکل برابر تھے۔ اس کا انصاف اور طرزِ زندگی کمال حدتک شفاف تھا۔کوئی مگرمچھ کسی کمزورمچھلی کوکھا نہیں سکتا تھا۔ ہر جانور کو بس اتنی اجازت تھی کہ جائزبھوک مٹا سکے۔ زیادتی کرنے کاتصوربھی پیدا نہیں ہوتا تھا۔
ایک مرتبہ ایک وہیل مچھلی سمندرکی تہہ میں گئی۔وہاں تک پہلے کبھی بھی سفر نہیں کیاتھا۔تہہ کے ساتھ چھوٹی چھوٹی سنہری مچھلیاں رہ رہیں تھیں۔ امن پسند مچھلیوں کی آنکھیں نہیں تھیں۔روشنی کا بھی علم نہیں تھا۔سونگھ کر اپنا راستہ تلاش کرتی تھیں اورکبھی بھی خاص علاقے سے باہرنہیں جاتی تھیں۔ لاکھوں کی تعدادمیں یہ سنہری مچھلیاں انتہائی شریفانہ زندگی گزاررہی تھیں۔ وہیل مچھلی کوجب یہ نظر آیا کہ نابینا مچھلیاں آسان شکار ہیں، تو اپنے ساتھیوں کو بھی فوری طورپربلایا۔ مشورہ کرکے بے بس نابینا مچھلیوں پرحملہ کردیا۔اَن گنت چھوٹی چھوٹی ننھی منی مچھلیاں ان کی خوراک بن گئیں۔باقی وہاں سے بھاگ کر جان بچانے میں کامیاب ہوگئیں۔
اتفاق سے سنہری مچھلیوں کی ملکہ بچ گئی۔ بھاگتے بھاگتے آکٹوپس کی غارکے سامنے کھڑی ہوگئی۔وہاں ایک دریائی گھوڑاپہرادے رہا تھا۔کہنے لگی کہ فوری طورپربادشاہ کوجگاؤکیونکہ اس کے ساتھ بہت ظلم ہواہے۔آکٹوپس کاحکم تھا کہ اگرکہیں بھی کوئی مسئلہ ہو، تو اسے فوراًاطلاع دی جائے۔دریائی گھوڑے نے اسے جگایا اورساری روداد سنائی۔
آکٹوپس غارسے باہرآیا۔اس نے دوسری مخبرمچھلیوں سے بھی ساری معلومات لیں۔پتہ چلاکہ واقعی ان ناتواں مخلوق کے ساتھ بہت زیادتی ہوئی ہے۔ بادشاہ غصے میں آگیا۔حکم جاری کیاکہ دریائی گھوڑوں کی فوج جائے اوروہیل مچھلی کوگرفتارکرکے پیش کیا جائے۔ حکم پرعمل کیاگیا۔ آکٹوپس نے سزاسنائی کہ دس دن کے لیے تنہا رہیگی اورا س کی غذابندکردی جائے گی۔وہیل مچھلی کی مجال نہ تھی کہ بادشاہ وقت کی بات ٹالے۔لہذاحکم کی تعمیل ہوئی۔ وہیل مچھلی کوناتواں مخلوق کوبے جاتنگ کرنے پربھرپورسزادی گئی۔
وہیل مچھلی نے سزاتوبھگت لی مگر بہت زیادہ بے عزتی محسوس ہوئی۔اس کے گروہ میں ایک بہت شرارتی رکن بھی تھا۔ اس نے وہیل کوکہاکہ تم توبہت طاقتوراورعظیم ہو۔یہ تو تمہارا حق تھاکہ کسی بھی کمزورسے کمزور جانور کو کھا سکوں۔ تمہیں روک کرپورے قبیلے کی بے عزتی کی گئی ہے۔ لہذابدلہ لینا چاہیے۔وہیل مچھلیاں سوچتی رہیں کہ بے عزتی کابدلہ کیسے لیا جائے۔آکٹوپس کی حکومت کوکیسے ختم کیاجائے اور کیسے سبق سکھایاجائے۔ایک زیرک نے مشورہ دیاکہ عظیم سمندر میں ایک کیکڑہ ہے۔ اکیلاکیکڑہ زلزلے پیدا کرنے والے پہاڑوں کے درمیان رہتا ہے۔ لاوہ جب اپنی حدت کھودیتاہے تو وہاں اپنا گھر بنا لیتا ہے۔
تیس برس پہلے بادشاہ نے کسی زیادتی پردربارسے نکال دیاتھااوراکیلارہنے کی سزادی تھی۔تیس سال سے کیکڑا اکیلے ہی رہ رہا ہے۔ مگر بادشاہ کے سخت خلاف ہے۔ خیروہیل مچھلی انتہائی خفیہ طریقے سے کیکڑے کے پاس پہنچی۔ ساری روداداس آبی جانورکوسنائی کہ کس طرح بادشاہ نے اسے بے عزت کیاہے اورکس طرح طاقتور ہونے کے باوجودایک کمزورفریق کوترجیح دی ہے۔کیکڑا اندرسے بہت خوش ہواکہ اب ایک مضبوط ساتھی مل گیا ہے۔ کہا کہ یہ توبہت آسان کام ہے۔آکٹوپس کو برباد کرنا بالکل مشکل نہیں۔
وہیل مچھلیوں نے ہرجگہ کہناشروع کردیاکہ ایک طرح کے آبی جانوروں کوایک ساتھ رہناچاہیے۔اسلیے کہ سمندر کے حالات بہت خراب ہیں۔کبھی بھی زلزلہ آسکتا ہے۔ اب پورا سمندرلاتعدادجتھوں میں تقسیم ہوگیا۔ مختلف رنگ، جسم اور نسل کے جانورایک دوسرے سے نفرت کرنے لگے۔باہمی اتفاق بہت کم ہوگیا۔کالے رنگ کی مچھلیاں صرف اورصرف اپنے رنگ کی مچھلیوں میں تیرتی رہتی تھیں۔ بڑے جسم کے جانوراپنے ہی جیسے مہیب جانوروں کے ساتھ زندگی گزارنے لگے۔
پورا سمندر ایک ایسے نفاق کا شکارہوگیاکہ ہر قبیلہ دوسرے کا جانی دشمن بن گیا۔ آکٹوپس سمجھتا تھا کہ سب کچھ سچ بتارہی ہے۔چھوٹی مچھلیاں اور جانور ڈرکرصحیح بات نہیں کرسکتے تھے۔ایک مچھلی نے کوشش کی کہ آکٹوپس کو سچ بتایا جائے۔ مگرتھوڑے وقت کے بعداس مچھلی کو مار دیا گیا۔ بادشاہ کویہی بتایا گیا کہ ایک حادثے کا شکار ہوچکی ہے۔ خیرآکٹوپس سازش کونہ پہچان سکااوراپنی زندگی میں مگن رہا۔
آکٹوپس کی لاپرواہی اور،عیارکیکڑے اور طاقتور مچھلیوں کے ملاپ نے پُرامن سمندرکوجوہری طورپرتبدیل کردیا۔ہرچیزتقسیم ہوگئی۔ایک رات چھوٹی سی مچھلی بھوک سے بے قرارہوکراپنے مختص علاقے سے متصل علاقے میں غذا ڈھونڈنے چلی گئی۔وہاں سے تھوڑی دیربعدواپس آگئی۔یہ انتہائی بے ضررسی حرکت تھی۔مگراب جنگ شروع ہوگئی۔غول درغول لڑائی شروع ہوگئی۔کمزورفریق دوسرے کا شکارکرنے لگا۔
حد تو یہ ہوئی کہ کمزورفریق سمندرکے متصل کناروں میں پناہ لینے پرمجبورہوگئے۔اب کیکڑے کی منصوبہ بندی کادوسرادرجہ شروع ہوگیا۔پہلامرحلہ توبالکل کامیاب تھا۔نفرت،نفاق،ظلم اورجبرہرطرف پھیل چکے تھے۔کیکڑے کو اندازہ تھاکہ زلزلہ کب آئیگااورلاواکب نکلے گا۔ساری معلومات وہیل کے حوالے کیں۔ساتھ ہی کہاکہ سوائے آکٹوپس کے ہرایک کوبتادوکہ حفاظت کاانتظام کر لے۔یہ بھی مشہورکردے کہ بادشاہ تواس قدرغفلت میں ہے کہ رعایاکے مفادات کابالکل کوئی خیال نہیں۔اس کی بے خبری تواس درجہ ہے کہ رعایا کو زلزلہ آنے کی پیشگی اطلاع تک نہ دے سکا۔
وہیل مچھلیوں کے پورے گروہ نے سمندر میں اعلان کردیاکہ ٹھیک دس دن کے بعدشدیدزلزلہ آئیگا اور بہت زیادہ لاوہ اُبلے گا۔لاواکئی صدیوں کی مقدارسے بھی بڑاہوگااوراس سے بہت تباہی پھیلے گی۔ وہیل کے گروہ نے پورے سمندر میں معلومات اس طرح پھیلائی کہ واہ واہ شروع ہوگئی۔جانورمداح ہونے لگے۔ خیر دس دن بعد شدیدترین زلزلہ آیا۔لاوے کاسیلاب اُمڈ آیا۔ کیکڑے نے ایساانتظام کررکھاتھاکہ لاوے کارخ آکٹوپس کی طرف ہوجائے اوراپنے غار میں ہی فنا ہوجائے۔ بالکل ایسے ہی ہوا۔ترکیب کامیاب رہی۔
سرخ لاوا پانی کو چیرتا ہوا بادشاہ کی غارتک پہنچ گیا۔ کیکڑاساتھ ساتھ تھا۔کمال ہوشیاری سے غارکے منہ پرایک چٹان رکھ دی۔آکٹوپس کوپتہ ہی نہیں چلااورلاوے کی ذدمیں آگیا۔اب میدان بالکل صاف تھا۔آکٹوپس یعنی بادشاہ مرچکاتھا۔انصاف کرنے والاخودختم ہوچکاتھا۔غارکے سامنے کیکڑے نے زبردست جشن منایا۔وہیل مچھلی نے تمام جانوروں کو بتایاکہ کیکڑے کی وجہ سے تمام زلزلے اورلاوے سے محفوظ رہے ہیں۔ معصوم جانوربھی اس جشن میں شامل ہوگئے۔سب خوشی سے ناچ رہے تھے کہ نجات دہندہ آگیااوراب ان کی تکالیف دورہوجائینگی۔
کیکڑاسمندرکابادشاہ بن گیا۔سمندرکہنے کوتوایک تھا مگر اس کے ہزاروں حصے ہوچکے تھے۔ہرجانوردوسرے کو دشمن سمجھتاتھا۔گروہوں کوشک کی بنیادپرایسے لڑوایاگیاکہ کئی نسلیں ختم ہوگئیں۔ہرطرف طاقتورکاحکم چلنے لگا۔چھوٹے جانورمارے گئے یاہجرت کرگئے۔وہیل مچھلیاں خوش تھیں کہ کمزور رعایا کو چیرپھاڑ سکتی تھیں۔ کمزور فریق بالکل دب کر رہ گیا، بلکہ برباد ہوگیا۔ کیکڑے کی بادشاہت قائم ہوگئی۔
سمندر غریب، کمزور اور لاغر کے لیے لاوے کا جہنم بن گیا۔ نفاق،اس درجہ کاتھاکہ پھرکبھی بھی اتحاداوریگانگت واپس نہیں آسکی۔اس کے بعدسمندرکاکیاحال ہوا،کسی کوکچھ معلوم نہیں۔اس بے ربط تحریرکاہمارے عظیم ملک کے حالات سے کوئی تعلق نہیں۔ خیال ہے کہ اس طرح کی باتیں لکھنا اورپڑھناوقت کاضیاع ہے۔