لانگ مارچ اور خطرات

لانگ مارچ کے کسی بھی مقام پردہشت گردگھناؤنا کھیل کھیل سکتے ہیں،خدانخواستہ ایسا ہوا تو بیسیوں جانوں کا اتلاف ہوسکتا ہے۔

لانگ مارچ کے کسی بھی مقام پردہشت گردگھناؤنا کھیل کھیل سکتے ہیں،خدانخواستہ ایسا ہوا تو بیسیوں جانوں کا اتلاف ہوسکتا ہے۔ فوٹو: اے ایف پی

تحریک منہاج القرآن کے سربراہ طاہر القادری کا لانگ مارچ ملکی سیاست کا اہم موضوع بن چکا ہے۔ جیسے جیسے لانگ مارچ کے آغاز کی ڈیڈ لائن قریب آ رہی ہے، حکومت اور عوامی حلقوں میں تشویش کی لہر شدت اختیار کر رہی ہے۔ حکومت کی تشویش یہ ہے کہ لانگ مارچ کے شرکاء کی حفاظت کا انتظام کیسے کیا جائے جب کہ عوام پریشان ہیں کہ لانگ مارچ کے نیتجے میں کیا ہو گا؟ ملک میں دہشت گردی کی صورت حال کو مدنظر رکھا جائے تو لانگ مارچ اپنے اندر شدید خطرات لیے ہوئے ہے۔ وفاقی وزیر داخلہ رحمٰن ملک نے ایک بار پھر وارننگ دی ہے کہ ڈاکٹر طاہر القادری پر حملے کی ٹھوس اطلاعات ہیں' ہم انھیں کنوئیں میں گرنے سے بچانا چاہتے ہیں۔

اس وارننگ کے باوجود ڈاکٹر طاہر القادری بضد ہیں کہ لانگ مارچ ضرور ہو گا۔ اگلے روز چارٹر آف ڈیمانڈ پیش کرتے ہوئے انھوں نے اپنا عزم دہرایا کہ لانگ مارچ کسی صورت ملتوی نہیں ہو گا۔ ادھر متحدہ قومی موومنٹ نے لانگ مارچ میں شرکت سے انکار کر دیا ہے۔ جمعے کو روز مسلم لیگ (ق) کے سربراہ چوہدری شجاعت حسین اور نائب وزیراعظم چوہدری پرویز الٰہی نے طاہر القادری سے ملاقات کی۔ اس ملاقات میں بھی طاہر القادری نے لانگ مارچ ملتوی کرنے کے بارے میں کوئی اعلان نہیں کیا البتہ چوہدری شجاعت حسین نے اتنا ضرور کہا ہے کہ طاہر القادری سے مذاکرات کا آغاز کر دیا ہے۔ امید ہے مثبت نتائج برآمد ہوں گے اور کوئی ایسا حل برآمد ہو جائے گا جو تمام سٹیک ہولڈرز کے لیے قابل قبول ہو گا۔ بہرحال اس سے یہ امید افزا اشارہ ضرور ملتا ہے کہ شاید عین موقع پر کوئی بریک تھرو ہو جائے۔

ڈاکٹر طاہر القادری کا لانگ مارچ درست ہے یا غلط' اس بحث میں پڑے بغیر اتنا ضرور کہا جا سکتا ہے کہ ملک کی اس وقت جو صورت حال ہے اس میں لاکھوں یا ہزاروں کے اجتماع میں کوئی شرارت یا دہشت گردی ہو جانا بعید از قیاس نہیں ہے۔ جس میں بہت زیادہ جانی نقصان کا خطرہ موجود ہے۔ ادھر یہ بھی حقیقت ہے کہ عمران خان' طاہر القادری اور ایم کیو ایم بڑے بڑے جلسے منعقد کر چکے ہیں۔ ملک میں ضمنی انتخابات بھی ہوئے ہیں' یوں دیکھا جائے تو ڈاکٹر طاہر القادری کو بھی لانگ مارچ کرنے کا حق حاصل ہے اور اس سلسلے میں ضرورت صرف حفاظتی اقدامات کرنے کی ہے۔ یہ تصویر کا ایک خوش کن رخ ہے۔ اگر تصویر کا دوسرا رخ دیکھا جائے تو معاملات انتہائی تشویشناک ہیں۔ حالیہ دنوں میں دہشت گردوں نے بڑی ٹارگیٹڈ وارداتیں کی ہیں اور ان میں بہت زیادہ نقصان ہوا ہے۔


خیبر پختونخوا کے سنیر وزیر بشیر احمد بلور کی شہادت ہوچکی ہے۔ طاہر القادری کے لانگ مارچ کے حوالے سے حکومت کی طرف سے خطرات کی نشاندہی بھی کی جا رہی ہے۔ ان حالات میں حکومت کی اطلاعات کو محض ہوائیاں قرار نہیں دیا جا سکتا۔ بعض تنظیموں کے حوالے سے ایسی باتیں سامنے آ چکی ہیں کہ لانگ مارچ میں دہشت گردی ہو سکتی ہے۔ یہ وقت انتہائی نازک ہے۔ اصولی طور پر جلسے جلوس ہر سیاسی جماعت کا جمہوری حق ہے۔ ڈاکٹر طاہر القادری کو حق حاصل ہے کہ وہ آئین اور قانون کے دائرے کے اندر رہتے ہوئے جلسہ کریں یا جلوس نکالیں لیکن ایک تحریک کے قائد ہونے کے ناتے ڈاکٹر صاحب کا فرض ہے کہ وہ اپنے پیروکاروں اور حامیوں کی جان و مال کے تحفظ کو بھی مدنظر رکھیں۔ موجودہ حالات میں لاہور سے اسلام آباد تک کا سفر انتہائی خطرناک ہو سکتا ہے۔

کسی بھی مقام پر دہشت گرد گھناؤنا کھیل کھیل سکتے ہیں۔ خدانخواستہ ایسا ہوا تو بیسیوں جانوں کا اتلاف ہو سکتا ہے۔ سیاستدانوں اور مذہبی اکابرین کا فرض ہے کہ وہ حالات کی نزاکت کو سمجھیں۔ پاکستان چاروں طرف سے خطرات میں گھرا ہوا ہے۔ کنٹرول لائن کی صورت حال سب کے سامنے ہے۔ افغانستان ہمارے لیے مستقل خطرہ بن چکا ہے۔ اندرون ملک دہشت گرد اور فرقہ پرست تنظیمیں اور جرائم پیشہ گروہ قتل و غارت میں مصروف ہیں۔ ایسی صورت میں سیاست برائے سیاست کرنا ملک و قوم کے ساتھ زیادتی ہے۔ موجودہ حکومت اپنی آئینی مدت پوری کرنے والی ہے۔ اگلا مرحلہ نگران سیٹ اپ کے قیام کا ہے۔ اب ملک میں سیاسی جماعتوں کو اپنی تمام تر توجہ عام انتخابات کے انعقاد پر مرکوز کرنی چاہیے۔ سیاسی اور مذہبی جماعتوں کو اپنے ایجنڈے میں دہشت گردی اور اس سے منسلک پہلوؤں کو شامل کرنا چاہیے۔

ان حالات میں کوئی سیاسی ایڈونچر ملک کے لیے نقصان کا باعث بن سکتا ہے۔ طاہر القادری کو حالات کی نزاکت کا احساس کرنا چاہیے۔ جہاں تک ڈاکٹر طاہر القادری کے چارٹر آف ڈیمانڈ کا تعلق ہے تو انھوں نے موجودہ الیکشن کمیشن کو تحلیل کر کے اس کی تشکیل نو کا مطالبہ کیا ہے، اس کے ساتھ ساتھ نگران حکومت میں تمام فریقوں سے مشاورت کا مطالبہ بھی کیا ہے۔ انھوں نے یہ بھی کہا ہے کہ الیکشن آئین کے آرٹیکل 62,63 اور 218 کے مطابق نہ ہوئے تو قبول نہیں کیے جائیں گے۔ ان مطالبات کے بارے میں صرف یہی کہا جا سکتا ہے کہ ہر معاملے میں آئین کو مقدم رکھا جائے۔

الیکشن کمیشن پر ساری جماعتوں نے اعتماد کا اظہار کر رکھا ہے، کسی سیاسی جماعت نے چیف الیکشن کمشنر کی تقرری پر بھی کھل کر اعتراض نہیں کیا۔ نگران حکومت کی تشکیل کے بارے میں آئین واضح ہے۔ حکومت اور اپوزیشن اس حوالے سے باہمی رضامندی سے نگران سیٹ اپ تشکیل دیں گے، بغور جائزہ لیا جائے تو یہ کہا جا سکتا ہے کہ اب تک تمام معاملات آئین اور قانون کے مطابق ہو رہے ہیں۔ سیاسی جماعتوں اور سیاستدانوں کا فرض یہ ہے کہ وہ الیکشن کے عمل میں شریک ہوں اور عوام سے حق حکمرانی حاصل کرنے کا مینڈیٹ لیں۔ اس موقع پر کوئی ایسا کام نہیں ہونا چاہیے جس سے ملک میں انتشار پھیلے۔
Load Next Story