نئی خطرناک کشمکش
عمران خان ایک توازن کے ساتھ اسلام پسندوں کے ساتھ کھڑے دکھائی دیتے ہیں
ویلنٹائن ڈے کے حوالے سے ہونے والی ''خرافات'' پر اسلام آباد ہائی کورٹ کے ایک جج نے ناپسندیدگی کا اظہار کیا۔ عاصمہ جہانگیر نے اس پر کہاکہ جج صاحب کو کسی مسجد میں خطیب ہونا چاہیے۔ یہ اسلام پسندوں اور سیکولرز کی ایک نئی کشمکش ہے۔ مولانا تھانوی اور بیگم رعنا سے شروع ہونے والی کشمکش کا سلسلہ قیامت کی صبح تک جاری رہنے کی بات ''عزم نو'' میں کہی گئی تھی۔ نہ رکنے والی بحث اور نہ تھمنے والے طنز اپ تک جاری ہیں۔
قیام پاکستان کے 70 ویں برس میں یہ شاید 70 واں ٹاکرا ہو جسے مہذب الفاظ میں ان صفحات پر ''علما و بیگمات کی کشمکش قرار دیا گیا تھا، سوشل میڈیا پر گستاخانہ مواد اور پنجاب میں حجاب پہننے والی طالبات کے لیے اضافہ 5 نمبر واقعتاً ایک نئی کشمکش ہے۔
وزیراعظم کی دوسری شادی پر تکرار محمد علی بوگرہ کے دور میں سنی گئی۔ ایوب دور میں مسلم فیملی لاء پر اسلامی پارٹیوں اور ترقی پسندوں کی کھینچا تانی تاریخ کے صفحات پر نقش ہے۔ بھٹو کے بارے میں طے نہیں ہوسکتا کہ انھوں نے لبرلز کی زیادہ مدد کی یا اسلام پسندوں کی۔ جنرل ضیا کا دور تو مکمل ہی محاذ آرائی سے پر تھا۔ ماڈرن خواتین کو ان کا ''حدود آرڈیننس'' ناپسند تھا تو لبرل حضرات کو ان کا مذہب پر اس قدر پر اعتماد ہونا نہ بھاتا تھا۔
مشرف کو ابتدا میں سیکولرز نے پسند کیا کہ انھوں نے کتوں کے ساتھ تصویر کھنچواکر مغرب کو پیغام دیا تھا۔ وقت گزرنے پر مختاراں مائی کے معاملے پر ایک جملے نے این جی اوز کی خواتین کو ناراض کردیا۔ آصف زرداری دونوں گروہوں کی تنقید سے بچ بچاکر چلنے کی کوشش میں بڑی حد تک کامیاب ثابت ہوئے ہیں۔ مسلم لیگ نے نئی صدی میں نیا روپ لیا ہے، نواز شریف کے بیانات اور اقدامات نے انھیں ماڈرن طبقے کی نظروں میں ہیرو بنادیا ہے۔
عمران خان ایک توازن کے ساتھ اسلام پسندوں کے ساتھ کھڑے دکھائی دیتے ہیں۔ یہ ہے پاکستان کی ستر سالہ تاریخ اور تین مقبول سیاست دانوں کے خیالات۔ دو ہفتوں میں دو واقعات پیش آئے۔ بلاگرز کو قانون کے کٹہرے میں لانے کا مطالبہ اور پنجاب کے تعلیمی اداروں میں حجاب کرنے والی طالبات کو پانچ فیصد اضافی نمبرز دینا۔ ہفتہ رفتہ میں یہ دو اہم واقعات پیش آئے ہیں جن کی بدولت ماڈرن طبقے اور روایت پسندوں کے درمیان ایک نئی کشمکش نے جنم لیا ہے۔
سوشل میڈیا پر متبرک ہستیوں کو تنقید کا نشانہ بنائے جانے پر ناپسندیدگی کا اظہار کیا گیا۔ یہ چنگاری اس وقت شعلہ بنی جب چار پانچ بلاگرز غائب ہوگئے۔ کھوج لگانے پر انکشاف ہوا کہ برگزیدہ شخصیات کے حوالے سے نازیبا سائٹس بنانے والے کون تھے۔ چند ہفتوں بعد یہ تمام بلاگرز گھروں پر واپس آگئے۔ ایک جانب اسلام پسندوں کا مطالبہ تھا کہ ان کو قانون کے کٹہرے میں لایا جائے۔ مطالبات دھیمے سروں میں تھے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے توہین آمیز مواد کے سوشل میڈیا پر آنے کا نوٹس لے لیا۔ جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے وزارت داخلہ کو گستاخانہ مواد ہٹانے اور مشتبہ افراد کے نام ای سی ایل میں ڈالنے کا حکم دیا۔
لبرل ازم دہشت گردی سے زیادہ خطرناک ہے۔ محسن انسانیتؐ کی گستاخی نہ روکی گئی تو ملک میں خانہ جنگی ہوجائے گی۔ یہ وارننگ اسلام آباد ہائی کورٹ کے کمرہ عدالت سے پوری دنیا میں پھیل گئی۔ یہ ہے وہ نازک صورت حال جس نے کشمکش کو تیز تر کردیا ہے۔ اس میں دو باتیں بالکل انوکھی ہیں جو اس سے قبل نہیں ہوئی تھیں۔ اپوا کے قیام اور قرارداد مقاصد سے شروع ہونے والی اس جنگ نے نیا اور خطرناک رخ اختیار کیا ہے اس سے قبل سیکولر طبقے کی جانب سے ملا تو ہدف تنقید بنایا جاتا تھا تو اسلام پسندوں کی جانب سے ماڈرن خواتین و حضرات کو مغرب زدہ کا طعنہ دیا جاتاتھا۔
دوسری شادی کرنے والے کو نشانے پر رکھا جاتا تو گرل فرینڈز اور دوستیوں کو ہدف بنایا جاتا۔ پردے کے حوالے سے برقعوں کو چلتے پھرتے خیمے قرار دیا جاتا تو دوسری جانب سے ماڈرن خواتین کی بے باکی وعریانی و فحاشی پر ملامت کی جاتی۔ یہ ہلکی پھلکی موسیقی تھی جو ستر برسوں سے جاری ہے۔ اس مرتبہ گستاخانہ مواد نے تمام حدود کو پارکرلیا ہے۔
مسلمانوں کے مرکز محبت پر حملہ کیا گیا اور پہلی مرتبہ یہ گستاخی پاکستانی مسلمانوں نے کی۔ بھارت میں راج پال کی بے باکی کا بھرپور جواب غازی علم الدین نے دیا تھا۔ سلمان رشدی کی گستاخی اور تسلیمہ نسرین کی بے ادبی انوکھی تھی۔ دونوں نام نہاد کلمہ گو تھے لیکن غیر پاکستانی۔ یورپ میں شان رسالتؐ پر گستاخانہ خاکے بنانے والے نہ مسلمان تھے نہ پاکستانی، اسلامی جمہوریہ کی سات عشروں کی تاریخ میں پہلی مرتبہ مسلمان پاکستانیوں نے سوشل میڈیا پر آگ سے کھیلنے کی کوشش کی ہے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج نے فرض کفایہ ادا کرتے ہوئے معاملے کی سماعت کی۔ متنازع مواد پر چھ پیجز کو بلاک کردیاگیا۔ گستاخانہ مواد کی تشہیر کا مقدمہ درج کیا گیا۔ ایف آئی اے کے سائبر کرائم ونگ کو کیس کی تحقیقات کی ہدایات جاری کردی گئیں۔ حضور اکرمؐ، صحابہ کرامؓ اور اہل بیت عظام کے حوالے سے مسلمانوں کے جذبات کو بھڑکانے کی کوشش کی گئی۔ پڑھے لکھے مسلمان پاکستانیوں کی جانب سے یہ گستاخی حیرت انگیز ایسا کبھی نہیں ہوا تھا کہ پرنٹ میڈیا پر سنسر شپ کا موثر انتظام ہوتا ہے۔ الیکٹرانک میڈیا پر بھی ممکن نہیں ہوتا کہ یوں تمام حدود کو پار کرلیا جائے۔
سوشل میڈیا کی بے لگام آزادی نے اسلامی جمہوریہ کے نام نہاد کلمہ گو لبرلز کے خبث باطن کو ظاہر کردیا ہے۔ جب علم ہے کہ گستاخی رسولؐ کے بعد کسی کے لیے بھی مسلمان معاشرے میں آزادی سے چلنا پھرنا ممکن نہیں ہوتا۔ کہا جاسکتا ہے کہ کسی کو قانون ہاتھ میں نہیں لینا چاہیے۔ بجا لیکن دیکھنا چاہیے کہ ابتدا کس طرف سے ہوتی ہے۔
مسلمانوں نے کبھی کسی مذہب کی بزرگ ہستیوں کے بارے میں بے احتیاطی نہیں کی، ہم یہودی اور عیسائی مذہب کے پیغمبروں کی تعظیم کے بغیر مسلمان ہی نہیں رہ سکتے۔ ہندوستان کی ہزار سالہ تاریخ میں کسی مسلمان کا نام نہیں آتا کہ اس نے ہندوؤں اور سکھوں کی برگزیدہ ہستیوں کی توہین کی ہو۔ پھر مسلمانوں کے مرکز محبت پر حملہ کیوں؟
حجاب پہننے والی طالبات کی حوصلہ افزائی ان دنوں ایک اور موضوع ہے جس پر اسلام پسندوں اور لبرلز کے درمیان کشمکش جاری ہے اس تجویز کے مخالفین مانتے ہیں کہ لباس میں حیاداری کا رجحان بہت حد تک بدل گیا ہے، وہ یہ بھی مانتے ہیں کہ بچیوں کو ایسے ملبوسات سے گریز کی تربیت دینی ضروری ہے جس میں صرف نمائش ہو وہ یہ بھی مانتے ہیں کہ جسمانی اعضا کی نا مناسب نمائش سے گریز ہونا چاہیے۔
ترقی پسند اپنے گھروں میں اپنی بچیوں کے لباس کو دیکھ کر دوپٹے کے استعمال کو بھی پسندیدہ قرار دیتے ہیں، کہا جاسکتا ہے کہ معاملہ ابھی تجویز کے مرحلے میں ہے، نواز شریف اور مسلم لیگ کا جدیدیت کی جانب رجحان اس تجویز پر عمل درآمد میں ایک رکاوٹ ہوسکتا ہے، یہ طے ہے کہ اس میں جبر کا پہلو نہیں بلکہ صرف حوصلہ افزائی ہے۔ یہ بچیوں کے لیے صرف ایک ترغیب ہے۔
پاکستان کے اسلام پسند اور لبرلز ایک نازک مقام پر آگئے ہیں، یہ جنگ کوئی نئی نہیں اب تک کا معاملہ نظریاتی تھا اور ایک حد کے اندر تھا۔ دوسری شادی، حجاب، اسلامی سزاؤں، سود و شراب جیسے معاملات پر مہذب انداز میں علمی بحث میں کوئی مضائقہ نہیں۔ چلیں ملا اور مغرب زدہ کی اصطلاحیں ترک نہیں کرنا چاہتے تو کوئی بات نہیں۔ لیکن یاد رکھا جانا چاہیے کہ گنہگار سے گنہگار مسلمان بھی اپنے مرکز محبت پر حملے کو گوارا نہیں کرے گا۔
دوسروں کے بزرگوں اور سیاسی و مذہبی رہنماؤں کی بے حرمتی گوارا نہیں ہوتی تو محسن انسانیتؐ کے بارے میں تصور بھی کیسے کرلیا جائے، جب عدالت، دفاعی اداروں اور پارلیمنٹ کی گستاخی ممنوع ہے تو نبی مہربان کے بارے میں برے خیالات کا سوچا بھی نہیں جانا چاہیے۔ یقیناً سب کو گریز کرنا چاہیے ایسے نازک معاملات سے اور بچنا چاہیے اس نئی خطرناک کشمکش سے۔