فاٹا کا خیبر پختونخوا میں انضمام

حکومتی و اپوزیشن رہنماؤں اور عسکری و قانونی ماہرین کی ’’ایکسپریس فورم پشاور‘‘ میں گفتگو۔


فیصلہ خوش آئند، قبائل بھی اب ملکی ترقی سے فائدہ اٹھا سکیں گے۔ فوٹو: ایکسپریس

ISLAMABAD: فاٹا ہمیشہ ہی سے ایک ایشو کے طورپر موجود رہاجہاں بسنے والے آزادقبائل ہونے کے دعویدار رہے لیکن کبھی تو ان قبائلی عوام کو ایف سی آر کی بیڑیاں پہنائی گئیں اور کبھی انہیں دہشت گردوں کے ہاتھوں یرغمال ہونا پڑاجس سے ان کی آزادی تار،تار ہوتی رہی۔ دنیا ترقی کرتے، کرتے چاند پر پہنچ گئی اور ستاروں سے آگے نئے جہاں کھوجنے چل نکلی لیکن قبائلی عوام کو نہ سکول میسر آئے اور نہ ہی ہسپتال۔

ایک معاہدہ کے تحت ڈیورنڈ لائن وجود میں آگئی، افغانستان الگ ملک قرارپایا اور ہندوستان الگ لیکن قبائلی علاقہ جات میں بسنے والے لاکھوں لوگ بنیادی انسانی حقوق کے حصول کے لیے ترستے رہے اور انہیں پولیٹیکل ایجنٹ کے رحم وکرم پر چھوڑ دیا گیا۔ قبائلی علاقہ جات کے نمائندے ایوان بالا میں بھی موجود ہیں اور قومی اسمبلی میں بھی لیکن حیران کن طور پر پورے ملک کے لیے قانون سازی کرنے والے یہ نمائندے خود ان علاقوں کے لیے قانون سازی کے حق سے محروم رہے کہ جہاں کی یہ نمائندگی کرتے ہیں کیونکہ فاٹا کو ملک کے دیگر حصوں والا سٹیٹس مل ہی نہیں پایا۔

فاٹا کا علاقہ الگ قانون کے تحت سانس لیتارہا اور قبائلی عوام آزاد پاکستان میں بھی محکوموں کی سی زندگی بسر کرتے رہے ،اگرچہ گئی حکومتوں نے وقتاً فوقتاً مختلف قوانین کو فاٹا تک توسیع دی لیکن کسی کو بھی یہ خیال نہ آیا کہ فاٹا کو ایف سی آر کی بیڑیوں سے آزادی دلاتے ہوئے ملک کے دیگر علاقوں کے برابر لائے۔ پاکستان مسلم لیگ(ن)کی موجودہ حکومت نے اس سلسلے میں ایک کمیٹی تشکیل دی ،مشیر برائے خارجہ امور سرتاج عزیز اس کمیٹی کے سربراہ بنے اور دیگر ممبران کے ساتھ انہوںنے تمام قبائلی ایجنسیوں کا دورہ کرنے کے بعد اپنی رپورٹ وزیراعظم کو پیش کردی۔

رپورٹ پر پارلیمان میں بحث بھی ہوئی اور یہ وفاقی کابینہ کے ایجنڈے تک بھی پہنچ گئی لیکن پھر جے یو آئی اس کے آڑے آگئی اور یہ رپورٹ ایجنڈے سے ڈراپ ہوگئی۔ پس پردہ کچھ وعدے ہوئے،کچھ کہا گیا، کچھ سنا گیا اور پھر اچانک ایک مرتبہ پھر کابینہ کے ایجنڈے پر یہ رپورٹ آگئی اور کابینہ نے اس رپورٹ کی منظوری دیتے ہوئے پانچ سالوں کے دوران بتدریج فاٹا میں اصلاحات کرتے ہوئے اسے خیبرپختونخوا میں ضم کرنے کی منظوری دے دی، یہ منظوری بھی دی گئی کہ آئندہ عام انتخابات جو2018ء میں منعقد ہوں گے، میں فاٹا کو صوبائی اسمبلی میں نمائندگی دی جائے گی۔

سب نے اس فیصلے کا خیر مقدم کیا لیکن مولانا فضل الرحمن اور ان کی جماعت اس فیصلے کے مخالفین کے روپ میں سامنے آئی اور وہ بدستور اس فیصلے کو مسترد اوراس پر احتجاج کررہے ہیں۔ اس تمام تر صورتحال کے تناظر میں ''فاٹا کے خیبرپختونخوا میں انضمام'' کے حوالے سے پشاور میں ''ایکسپریس فورم'' کا انعقاد کیا گیا جس میں حکومتی و اپوزیشن جماعتوں کے نمائندوں، سیاسی رہنماؤں اور عسکری و قانونی ماہرین کو مدعو کیا گیا جنہوں نے اپنے اپنے خیالات کااظہار کیا۔ فورم کی روداد قارئین کی خدمت میں پیش کی جارہی ہے ۔

عنایت اللہ خان (سینئر وزیر بلدیات، خیبر پختونخوا ورہنما جماعت اسلامی)

جماعت اسلامی وہ پہلی جماعت تھی جواس سلسلے میں سب سے پہلے میدان میں نکلی اورہم نے مطالبہ کیا کہ فاٹا کو فوری طور پر خیبرپختونخوا میں ضم کیاجائے۔ ہم نے فاٹا سیاسی اتحاد کی تشکیل کی جس میں تمام سیاسی جماعتوں کی نمائندگی موجود ہے ۔ جب کابینہ ریفارمز کمیٹی نے ہم سے رابطہ کیا تو حکومتی سطح پر ہم نے مشاورت کی اورساتھ ہی ہم نے مختلف سیاسی جماعتوں کی رائے بھی لی۔ گورنر ہاؤس پشاور میں منعقدہ اجلاس میں وزیراعلیٰ اور دو سینئر وزراء نے شرکت کی اور ہم نے ان سے مطالبہ کیا کہ 2018ء کے عام انتخابات میں فاٹا کے لیے صوبائی اسمبلی کی نشستیں مختص کی جائیں۔

2017ء میں فاٹا میں بلدیاتی انتخابات کا انعقاد کیاجائے، ایف سی آرکا خاتمہ کیا جائے، سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے دائرہ کار کو فاٹا تک توسیع دی جائے ،این ایف سی میں فاٹا کو الگ سے حصہ دیاجائے ،فاٹا کے لیے خصوصی ترقیاتی پیکیج دیاجائے جو کم ازکم دس سالوں کے لیے ہو اورفاٹا کے حوالے سے جتنی بھی کمیٹیاں تشکیل دی جائیں ان میں خیبرپختونخوا کے وزیراعلیٰ، چیف سیکرٹری، ایڈیشنل چیف سیکرٹری، آئی جی پی اور سیکرٹری داخلہ کو شامل کیاجائے۔

جیسا ہم چاہتے تھے سو فیصد ویسے عمل تو نہیں ہوا لیکن اس کے باوجود ہم نے وفاقی کابینہ کے اس فیصلے کا خیر مقدم کیا کیونکہ یہ ایک تاریخی فیصلہ ہے جس سے قبائلی عوام کی تقدیر بدل جائے گی اوراس سے قبائلی عوام کی محرومیاں ختم ہوں گی، جو امتیازی سلوک ان سے روارکھاجارہاہے وہ ختم ہوگا۔ صوبائی حکومت ہو یا جماعت اسلامی فاٹا سے متعلق کی جانے والی اصلاحات کے نفاذ کے سلسلے میں ہم مکمل طور پر معاونت کریں گے۔

یہ کہنا کسی بھی طور پر مناسب نہیں ہوگا کہ فاٹا کے خیبرپختونخوا میں انضمام سے صوبہ پر بوجھ پڑے گا کیونکہ ابھی جب فاٹا صوبہ میں شامل نہیں تو تب بھی قبائلی عوام ہمارے سکول، کالجز، یونیورسٹیاں، اسپتال اور انفراسٹرکچر استعمال کررہے ہیں، آئی ڈی پیز کا بوجھ صوبہ نے اٹھایا، ہم ان کے ساتھ سب کچھ شیئر کررہے ہیں جبکہ اب وفاقی کابینہ نے جو فیصلہ کیاہے اس کے تحت تو این ایف سی میں ہمارا حصہ بھی بڑھ جائے گا پھر یہ بھی واضح رہے کہ 2001ء سے پہلے تک فاٹا کے تمام امورچیف سیکرٹری خیبرپختونخوا ہی کے توسط سے طے ہواکرتے تھے، تمام تقرر وتبادلے بھی صوبہ ہی سے ہوتے تھے جو بعد میں فاٹا سیکرٹریٹ بننے سے الگ حیثیت اختیار کرگئے اس لیے اگر یہ تمام معاملات واپس صوبے کے پاس آتے ہیں تو اس پر کوئی بوجھ نہیں پڑے گا۔

بریگیڈئیر (ر) محمود شاہ (سابق سیکرٹری سیکورٹی فاٹا)

قبائلی عوام قبائل کی شکل میں اس لیے مل کر رہتے ہیں کیونکہ انہیں تحفظ حاصل نہیں ،انفرادی طور پراگر وہ رہنا شروع کردیں تو وہ تحفظ کے لیے کس کے پاس جائیں گے ۔ فاٹا کو خیبرپختونخوا میں ضم کرنے کے حوالے سے کام کا آغاز2001ء میں شرو ع ہوا اور 200 ماہرین سے اس بارے میں رائے لی گئی جس کے بعد دو آپشنز سامنے آئے کہ پانچ سالوں تک فاٹا میں اصلاحاتی عمل جاری رکھاجائے اور اس کے بعد فاٹا کو خیبرپختونخوا میں ضم کر دیا جائے۔

جہاں تک رواج ایکٹ کی بات ہے تو چونکہ قبائلی عوام پولیس کے نام سے چر کھاتے ہیں تو پولیس کے لیے حمیت فورس اور تھانے کے لیے حمیت چوکی کے نام سامنے آئے جبکہ وہاں پر توسیع پانے والے عدالتی نظام کی معاونت کے لیے عدالت کی جگہ جرگہ کا لفظ استعمال کیاگیا اور جج کے لیے منصف کا لفظ سامنے آیا، موجودہ نظام فاٹا میں ڈیلیور نہیں کر پا رہا اور ان کے پاس اس کے متبادل کے طور پر کوئی دوسرا نظام نہیں ہے۔

قبائلی نظام بتدریج ختم ہوگا تاہم اس سے معیشت بہتر ہوگی، فاٹا میں بہنے والے دریا گومل، ٹوچی ،کرم اور باڑہ اہم کردار ادا کریں گے جن کی وجہ سے معاشی سرگرمیاں شروع ہوں گی، فاٹا کے لیے ایک سیکرٹری اور چھوٹا سا نظام بنایاگیا لیکن بعد میں اسے پورے سیکرٹریٹ اور سیکرٹری کو ایڈیشنل چیف سیکرٹری فاٹا بنادیا گیا۔

فاٹا کے خیبرپختونخوا میں انضمام کے حوالے سے کوئی ابہام نہیں، صدر ایک ایکٹ تو کیا پورے 1973ء کے آئین کو اکھٹے ہی فاٹا تک توسیع دے سکتے ہیں،جو ترامیم ضروری ہوں گی وہ بھی کرلی جائیں گی جبکہ فاٹا کا اسپیشل اسٹیٹس ختم ہوجائے گا۔ جہاں تک روایات اور رواج کی بات ہے تو یہ سب جگہ ہی الگ ہوتے ہیں اورچلتے رہتے ہیں، بندوبستی علاقوں میں بھی بہت سے فیصلے جرگوں کے ذریعے کیے جاتے ہیں اورلوگ تھانے کچہری سے بچنے کی کوشش کرتے ہیں۔

جہاں تک مولانا فضل الرحمن کا تعلق ہے تو انہیں نہ تو ناراض کرنا چاہیے اور نہ ہی ان کے حوالے سے کوئی غلط اندازہ قائم کرنا چاہیے بلکہ ان سے بات کی جانی چاہیے ۔پاکستان اور افغانستان کے درمیان موجود سرحد جو ڈیورنڈ لائن کے نام سے مشہور ہے یہ ایک بین الاقوامی سرحد ہے جسے افغانستان 1947ء میں اقوام متحدہ کے پلیٹ فارم پر تسلیم کرچکا ہے، اس لیے اگر یہ ایشو ہے تو میڈیا کی حد تک ہے یا پھر ایک ٹی وی اینکر اور سابق افغان صدر حامد کرزئی تک محدود، افغانستان اقوام متحدہ میں جائے یا پھر عالمی عدالت میں لیکن ڈیورنڈ لائن کے حوالے جو معاہدہ ہوا تھا وہ بڑا واضح ہے جو5شقوں پر مشتمل ہے۔ اس لیے اس معاملہ پر نہ تو مذاکرات کی ضرورت ہے اور نہ ہی کسی قسم کی مصالحت کی کیونکہ اگر اس مسئلہ پر بات شروع کی گئی تو افغانستان نے پشتونستان کی بات شروع کردینی ہے۔

افغانستان کو چاہیے کہ وہ فاٹا کے خیبرپختونخوا میں انضمام کو چھوڑ کر افغانستان میں فارسی اورپشتون کے حوالے سے معاملات کو حل کرے۔ افسوس کی بات ہے کہ یہاں کے لوگوں کو اپنے لوگوں کی بجائے افغانستان اور وہاں بسنے والے پختونوں کی فکر کھائے جاتی ہے حالانکہ دنیا کے بہت سے خطوں میں ایسی اقوام موجود ہیں جو دو، دو ممالک میں آباد ہیں۔

یہ بات بالکل واضح ہے کہ بھارت ،افغانستان کے ذریعے پاکستان کو نقصان پہنچانے کی کوششیں کر رہا ہے جبکہ افغانستان کی شروع ہی سے یہ پالیسی رہی ہے کہ وہ دو قوتوں کو آپس میں لڑاتاہے اور اس وقت افغانستان ،پاکستان اور بھارت کو آپس میں لڑانے کا کردار ادا کررہاہے اور پاکستان کو اشتعال دلایا جارہا ہے کہ وہ سرحد پارکرکے افغانستان میں کارروائی کرے لیکن یہاں کی حکومت اور عسکری قیادت دونوں ہی کی یہ پالیسی ہے کہ فاٹا کو قومی دھارے میں لایا جائے، بارڈرمینجمنٹ کی جائے اور افغان مہاجرین کو ان کے وطن واپس بھیجا جائے اور اسی لائن پر کام ہورہا ہے۔

شوکت علی یوسفزئی (پارلیمانی سیکرٹری ومرکزی رہنما پاکستان تحریک انصاف)

مرکز کے فاٹا سے مفادات وابستہ ہیں جہاں بڑے پیمانے پر کرپشن ہوتی ہے۔ فاٹا کے لیے اربوں روپے کے فنڈز مختص کیے جاتے ہیں لیکن وہ غائب ہوجاتے ہیں جبکہ بارڈر کی آمدن الگ ہے ۔ وہاں نہ تو کوئی بڑا ہسپتال ہے اور نہ ہی یونیورسٹی ،تعلیمی ادارے ہیں نہ ہی انفراسٹرکچرجبکہ ایف سی آر کا ظالمانہ نظام بھی نافذ ہے۔ وہاں پر نہ تو کاروبار ہے اور نہ ہی کوئی سرمایہ کاری جبکہ دہشت گرد بڑی سہولت کے ساتھ ایکسپورٹ ہوتے ہیں۔

افغانستان سے کوئی بھی شخص 200 روپے دے کر ادھر آجاتا ہے،فاٹا بارود کا ڈھیر بنا ہوا ہے کیونکہ ہم نے قبائلی عوام کو کبھی اپنا سمجھا ہی نہیں۔ دو الگ قوانین چل رہے ہیں،بندوبستی علاقوں میں الگ قانون اور فاٹا میں الگ قانون ،اس لیے ہم چاہتے تھے کہ فاٹا کو فوری طورپر خیبرپختونخوا میں ضم کردیاجائے تاکہ انہیں بھی وہی حقوق حاصل ہوسکیں جو دیگر ملک کے شہریوں کو حاصل ہیں اورجس دہشت گردی کا سامنا فاٹا نے کیاہے اس میں کمی آئے گی۔

چاہیے تو یہ تھا کہ جس طرح سوات میں فوجی آپریشن کے فوراًبعد سویلین سیٹ اپ کے حوالے سارا نظام کردیاگیااسی طرح فاٹا میں بھی آپریشن ضرب عضب کے بعد سویلین سیٹ اپ کو معاملات حوالے کردیئے جاتے تو تمام مشکلات ختم ہوجاتیں لیکن ایسا نہیں کیاگیا۔ مرکز نے مایوس کیا اور اب بھی پانچ سال کی بات کی گئی ہے، یہ سب تاخیری حربے ہیں جس کی کوئی گنجائش نہیں بنتی۔

آخر 5 سال کیوں؟ فوری طور پر کیوں نہیں؟ یہ بات تو سمجھ میں آتی ہے کہ بھارت اور افغانستان، فاٹا کے خیبرپختونخوا میں انضمام کی مخالفت کررہے ہیں لیکن اپنے لوگ کیوں؟ فاٹا کے لوگ لاکھوں کی تعداد میں آئی ڈی پیز بنے اور الٹا انہیں ہی برا بھلا کہا گیا ،یہ لوگ بغیر تنخواہ کے ہمارے سپاہی ہیں جنہوں نے ہمیشہ پاکستانی سرحدوںکی حفاظت کی لیکن بھارت نے جو بیج بوئے اس کی وجہ سے ان قبائلی عوام کو شک کی نگاہ سے دیکھاگیا اور انہیں ہی مار پڑی جس کا ہمارے پاس کوئی جواب نہیں۔

مولانا عطاء الحق درویش (نائب امیرجمعیت علماء اسلام(ف))

آج سے پندرہ،سولہ برس قبل مولانا فضل الرحمن نے سب سے پہلے قبائل کا معاملہ اٹھایا اور یہ مطالبہ کیاتھا کہ ایف سی آر کا قبائلی علاقہ جات سے خاتمہ کیاجائے اور اس کے بعد ہر فورم پر مولانا فضل الرحمن اور ہماری پارٹی یہ مسئلہ اٹھاتی رہی ہے۔ اب بھی سب سے پہلے ہم نے پانچ برس قبل فاٹا کی تمام اقوام اور نمائندوں پر مشتمل گرینڈ جرگہ تشکیل دیا۔

پشاور میں دو جرگوں کے بعد اسلام آباد کے کنونشن ہال میں جرگہ کا انعقاد کیا جس میں متفقہ طور پر باتیں کی گئیں اور کئی امور پر اتفاق کیا گیا۔ اس میں جب فاٹا کو خیبرپختونخوا میں ضم کرنے کی بات کی گئی تو ہم یہ بات میڈیا کے سامنے لے کر آئے، ہم فاٹا کو خیبرپختونخوا میں ضم کرنے کے مخالف نہیں اور نہ ہی ہم یہ کہتے ہیں کہ ایف سی آر کا خاتمہ نہ کیاجائے ،ہم تو فاٹا میں اصلاحات کے حامی ہیںلیکن اس وقت صورت حال یہ ہے کہ تین لاکھ سے زائد قبائلی عوام نے افغانستان ہجرت کررکھی ہے، لاکھوں کی تعداد میں قبائلی اپنے ہی ملک میں مہاجر بنے بیٹھے ہیں اورہم یہ چاہتے ہیںکہ پہلے ان قبائلی آئی ڈی پیز اور ہجرت کرنے والوں کو واپس لاکر بسایاجائے، ان کے تباہ حال مکانات کو دوبارہ بنایا جائے اور ان میں پائے جانے والے احساس محرومی کا خاتمہ کیا جائے جس کے بعد ہی انضمام کی بات کی جاسکتی ہے۔

پہلے ان قبائلی عوام پر ایف سی آر مسلط کی گئی اور اب ان پر نیا نظام مسلط کیاجارہاہے اور دونوں ہی مرتبہ ان سے کوئی رائے نہیں لی گئی حالانکہ ان کی رائے لینے کے لیے ریفرنڈم کا انعقاد ضروری تھا تاکہ ان کی رائے سامنے آ سکتی لیکن ایسا نہیں کیاگیااور جب ہم عوامی رائے لینے کی بات کرتے ہیں تو کہاجاتاہے کہ 2013ء کے عام انتخابات میں جتنے ووٹ جے یو آئی نے حاصل کیے تھے اس سے زائد ووٹ دیگر پارٹیوں کو ملے تھے اوردیگر تمام جماعتیں فاٹا کے خیبرپختونخوا میں انضمام کی حامی ہیں، اس لیے ان کی رائے کو تسلیم کیاجانا چاہیے لیکن ہم یہ کہتے ہیں کہ پاکستان میں شمولیت کے وقت بھی سندھ اورپنجاب کی اسمبلیوں نے قراردادیں پاس کی تھیں جبکہ خیبرپختونخوا کی عوام کی رائے لینے کے لیے ریفرنڈم کا انعقاد کیا گیا تھا تو اب ریفرنڈم کے انعقاد میں کیا حرج ہے؟ ہم تو آج بھی ریفرنڈم کی بات کرتے ہیں۔

1947ء میں جب ریفرنڈم ہوسکتاہے تو آج کیوں نہیں؟ہم نے دیگر جماعتوں کے ساتھ پیدا ہونے والی مخالفت کے حوالے سے بھی معاملات کو سلجھانے کی کوشش کی کمیٹی بنائی گئی جس میں اس بات پر اتفاق کیاگیا کہ انضمام کی بجائے فاٹا کو قومی دھارے میں لانے کی بات کی جائے۔ عوامی رائے لینے کے لیے ریفرنڈم کی بات کی گئی لیکن جب دیگر پارٹیوں نے اس کی مخالفت کی تو وسیع تر مشاورت پر زور دیاگیااور یہ بات بھی کی گئی کہ یہ انضمام 5 سال بعد ہوگا لیکن اس اتفاق رائے کے بعد اچانک وفاقی کابینہ نے جے یو آئی کو نظر انداز کردیا جو فاٹا کی سب سے اکثریتی پارٹی اور پارلیمان میں فاٹا سے نمائندگی رکھتی ہے اور فیصلہ کرلیاگیا کہ فاٹا کو خیبرپختونخوا میں ضم کیاجارہاہے۔ اس لیے ہم اس فیصلہ کو مسترد کرتے ہیں اورہم احتجاج بھی کریں گے کیونکہ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ اس فیصلہ کی وجہ سے قانونی طور پر بہت سی مشکلات پیدا ہوں گی، 2018ء کے عام انتخابات میں فاٹا کو خیبرپختونخوا اسمبلی میں نمائندگی دینے کے سلسلے میں قانونی وآئینی مسائل درپیش ہوں گے۔

فاٹا کو قانونی حیثیت اب ملے گی اور اس کا بوجھ صوبہ پر آجائے گا۔ جب بھی اکثریتی پارٹیوں کو نظر انداز کیاجاتاہے تو اس سے مشکلات پیدا ہوتی ہیں ،اس فیصلہ سے صوبہ بھی متاثر ہوگا اور پورا ملک بھی کیونکہ یہ متفقہ نہیں بلکہ آمرانہ فیصلہ ہے اسی لیے ہم اس کے خلاف احتجاج جاری رکھیں گے۔

ارباب محمد طاہر (مرکزی رہنما عوامی نیشنل پارٹی)

1998ء میں خیبر پختونخوا اسمبلی سے قرارداد ہم نے منظوری کرائی تھی جس کے ذریعے مطالبہ کیاگیاتھا کہ فاٹا کو خیبرپختونخوامیں ضم کرتے ہوئے اس کا حصہ بنادیاجائے ،ہم وفاقی کابینہ کے فیصلے کی حمایت کرتے ہیں، یہ فیصلہ 1947ء میں ہوجانا چاہیے تھا تاہم دیر آید درست آید، آج تو فاٹا کو خیبرپختونخوا کا حصہ بنانے کا آغاز ہوگیاہے جس میں یقینی طور پر قانونی اور آئینی مشکلات ضرور ہوں گی لیکن تمام سیاسی پارٹیاں اس فیصلے سے متفق ہیں جو پارلیمان کے اندر ان مشکلات کا حل تلاش کریں گی اور مل کر مشکلات کو ختم کریں گی۔

فاٹا میں بسنے والوں کا معیار زندگی بہت نیچے ہے اسی لیے ہم نے مطالبہ کیاتھا کہ این ایف سی ایوارڈ کے تحت مجموعی قومی وسائل کا5فیصد فاٹا کے لیے مختص کیاجائے۔ ہمیں ان کی ضروریات کو مد نظر رکھنا ہوگا۔ آج فاٹا جس دہشت گردی اور بنیاد پرستی کا شکارہے یہ سب ان محرومیوں کا نتیجہ ہے ،اگر یہ محرومیاں نہ ہوتیں تو آج صورت حال مختلف ہوتی۔ نہ تو فاٹا مخصوص تنظیموں کا ٹھکانہ بنتا اور نہ ہی وہ فساد ہوتا جس کے خاتمے کیلئے آج آپریشن ردالفساد شروع کرنا پڑااور نہ ہی ملک کو وہ مشکلات درپیش ہوتیں جو آج درپیش ہیں۔

وفاقی کابینہ نے جو فیصلہ کیاہے اس کی وجہ سے پورے فاٹا میں جشن کا سا سماں ہے، سب ہی اس فیصلہ پر خوش ہیں،بڑا ہی خوش آئند فیصلہ ہے کہ 2018ء کے عام انتخابات میں فاٹا کوخیبرپختونخوا اسمبلی میں نمائندگی ملے گی لیکن اس کے ساتھ یہ بھی مشروط کیاجائے کہ صوبائی کابینہ میں فاٹا کو ایک مخصوص تناسب سے نمائندگی دی جائے تاکہ انہیں اپنے مسائل حل کرنے میں سہولت ہوسکے اور وہ اپنا کردار ادا کریں۔

اعجاز مہمند ایڈووکیٹ (قانون دان قبائلی علاقہ جات)

میں اس معاملہ کوالگ انداز سے دیکھ رہاہوں۔ مولانا فضل الرحمٰن ہمیشہ ہر معاملہ کو آئین کے تناظر میں ہی دیکھتے ہیںاورہم ان کے اس علم کی تعریف کرتے ہیں لیکن فاٹا کے حوالے سے وہ ریفرنڈم کی بات کرتے ہیں حالانکہ ریفرنڈم کا آئین میں کہیں پر بھی ذکر نہیں اس کے لیے تو پارلیمان میں الگ بل لانا پڑے گا۔ جہاں تک اس فیصلے کا تعلق ہے تو یہ فیصلہ راتوں رات نہیں ہوابلکہ اس کے پیچھے بڑی طویل جدوجہد ہے ۔ 2012ء میں صوبائی اسمبلی نے بل پاس کیا تھا حالانکہ اس وقت فاٹا کے انضمام کی بات کرنا بھی مشکل تھا جبکہ آج تو یہ نہایت ہی آسان ہوچکاہے۔

2013ء میں یہ بل ہائی کورٹ کے کنونشن میں پیش کیاگیا اور اس کی منظوری دی گئی جبکہ اس کے بعد یہ بل سپریم کورٹ بار کے کنونشن میں منظور کیاگیا جبکہ اس پر جاگ قبائل جاگ کے نام سے بھی پروگرام کیا گیا جبکہ اس پر دو مرتبہ آل پارٹیز کانفرنسز کا بھی انعقاد کیاگیا جن میں سے ایک امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے بلائی تھی جس میں خود جے یو آئی سے تعلق رکھنے والے سینیٹر مولانا عطاء الرحمٰن نے اس اعلامیے پر دستخط کیے تھے جس میں فاٹا کو خیبرپختونخوا میں ضم کرنے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔

جو بل خیبرپختونخوا اسمبلی میں منظور کیا گیا وہی بل بعد میں 2015ء میں سینیٹ میں پیش کیاگیا پھر ہم نے سپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق کے ساتھ اس سلسلے میں بات کی تو انہوں نے کہا کہ اگر یہ بل قبائلی ارکان کی جانب سے پیش کیاجائے تو اس پر انہیں کوئی اعتراض نہیں ،جہاں تک فاٹا کے خیبرپختونخوا میں انضمام کی مخالفت کا تعلق ہے تو اس کے بارے میں وجوہات کا جائزہ لینا چاہیے۔

فاٹا کے بارے میں بات کرتے ہوئے ہمیں بین الاقوامی حالات کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔ اس بارے میں کہا گیا تھا کہ اگر فاٹا کو خیبرپختونخوا میں ضم نہ کیا گیا تو پاکستان کا وجود قائم رہنا مشکل ہوجائے گا لیکن بھارت اور افغانستان فاٹا کا انضمام نہیں چاہتے۔ جو لوگ اس انضمام کے مخالف ہیں وہ اب کنفیوژن پھیلارہے ہیں حالانکہ ان کے ساتھ کسی قسم کا کوئی دھوکہ نہیں ہوا ،وزیراعظم نے جو کمیٹی فاٹا اصلاحات کے حوالے سے بنائی تھی اس کی سفارشات کومن وعن تسلیم کیا گیا کیونکہ اس کمیٹی نے تجویز دی کہ آڈٹ کے نظام کو فاٹا تک توسیع دی جائے، راہداری پرمٹ ختم کیے جائیں، بینکنگ کے نظام اوراعلیٰ عدلیہ کو فاٹا تک توسیع دی جائے،رواج ایکٹ نافذ کیا جائے جس کے ذریعے فاٹا کا اپنا جرگہ کا نظام نافذ رہے گا۔

فاٹا میں جو جرگے بنائے جاتے ہیں وہ ''اے پی اے'' کی جانب سے تشکیل دیئے جاتے ہیں اور قواعدوضوابط کی تشکیل بھی انہی کی جانب سے کی جاتی ہے۔ فاٹا میں رواج ایکٹ کے تحت جو قاضی کام کرینگے وہ بنیادی طور پر سیشن جج ہوں گے جن کے کسی بھی فیصلے کے خلاف عدالت عالیہ سے رجوع کیا جاسکے گا، البتہ فاٹا کے خیبرپختونخوا میں انضمام کے فیصلہ پر پنجاب خفا ہے کیونکہ اس میں پنجاب کا نقصان ہوگا،فاٹا کے انضمام کے بعد خیبرپختونخوا دوسرا بڑا صوبہ بن جائے گا جس سے یہاں پر بھی ترقی ہوگی اور یہاں پر بھی خوشحالی آئے گی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں