حریفانہ نہیں بلکہ حلیفانہ سیاست کی ضرورت

جمہوری ترقی کا قافلہ قدم قدم چل کر ہی منزل پر پہنچے گا۔ اس کے لیے سب کو کوششیں کرنا ہوں گی۔

مولانا طاہر القادری کی بالواسطہ حمایت کرتے ہوئے ایک اخبار نویس نے اپنے10 جنوری 2013ء کے کالم میں یہ سراسر جھوٹا دعویٰ کیا ہے کہ ہمارے اکثر ارکانِ قومی و صوبائی اسمبلی آئین میں دی گئی شرائطِ نمائندگی پر پورا نہیں اترتے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ موصوف ہمارے عدالتی نظام کے ذریعے انتخابات کے وقت کی جانے والی کارروائی کے مؤثر ہونے پر شک کا اظہار فرما رہے ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ اس کے باوجود ان کی دلداری و وفاداری پر حرف نہ آئے گا مگر سوچنے کی بات یہ ہے کہ جب عدالتی اہلکار انتخابات کے وقت یہ تحقیق کر رہے ہوتے ہیں، اُس وقت موصوف اپنی یہ نادر تحقیق متعلقہ حکام کے سامنے کیوں نہیں پیش کرتے اور اہلیت نہ رکھنے والوں کے کاغذات مسترد کیوں نہیں کراتے۔

اگر اب بھی موصوف کو کسی پر اعتراض ہے تو انھیں چاہیے کہ مبہم طور پر بات کرنے کے بجائے اُس شخص کا نام لیں جو اس معیار پر پورا نہیں اترتا اور الیکشن کمیشن یا عدالت سے رجوع کریں۔ قوانین موجود ہیں۔ الیکشن کمیشن با اختیار ہے، فیصلے کر رہا ہے اور سزائیں دے رہا ہے۔ پیپلز پارٹی کے خون اور باقیوں کے پسینے کی بدولت عدلیہ آزاد ہے۔ نمائندہ ایوانوں کا احتساب ہوا اور منتخب وزیر اعظم سمیت کتنوں کو گھر بھیج دیا گیا۔ ایسے میں اہلیت نہ رکھنے والے ارکان کے بارے میں فیصلہ لینے میں کون سا امر مانع ہے۔ اگر موصوف الیکشن کمیشن یا عدالتی نظام کے ذریعے کسی کے بارے میں ایسا فیصلہ نہیں لیتے اور محض خامہ فرسائی کرتے ہیں تو یقینا انھیں حقائق جاننے یا عوام کے حقِ نمائندگی کے بجائے سنسنی پھیلانے اور کالم کے زور دار ہونے میں زیادہ دلچسپی ہے۔

جمہوری ترقی کا قافلہ قدم قدم چل کر ہی منزل پر پہنچے گا۔ اس کے لیے سب کو کوششیں کرنا ہوں گی۔ یہ کام پورے پورے گروہ پر الزام لگانے سے نہیں بلکہ ایک ایک حلقے کی جانچ پڑتال سے ہوتا ہے۔ آئین میں اہلیت واضح ہے اور پھر سے لوگ اپنے کاغذات جمع کرانے والے ہیں۔ میں سب کو دعوت دیتا ہوں کہ اپنے اپنے طور پر کوشش کریں کہ ملکی قوانین کی مدد سے اس بات کو یقینی بنائیں کہ کوئی نا اہل شخص نمائندگی کی دوڑ میں شامل نہ ہو۔ جب الیکشن کا انعقاد ہو گا، تب ایک عبوری حکومت موجود ہو گی جو کسی سیاسی جماعت کے زیرِ اثر نہ ہو گی۔ الیکشن کمیشن کی درخواست پر عدلیہ نے بھی انتخابی ڈیوٹی کے لیے عدالتی عملہ دینے پر رضامندی ظاہر کی ہے۔ اِن صاحبان کو چاہیے کہ سیاسی جماعتوں کو گالیاں دینے کے بجائے کاغذات جمع ہونے کے وقت عدالتی عملے اور الیکشن کمیشن کو اپنی معلومات سے آگاہ کریں۔

سیاست البتہ نکالنے نہیں شامل کرنے کا نام ہے۔ سیاسی عمل میں زیادہ سے زیادہ لوگوں کی شرکت ہی دراصل نظامِ مملکت اور طرزِ حکومت کو قابلِ قبول بناتی ہے۔ اسی لیے پاکستان کا آئین بناتے ہوئے شہید ذوالفقار علی بھٹو نے واضح اکثریت رکھنے کے باوجود تمام سیاسی جماعتوں کی شمولیت سے ہی آئین بنایا۔ پاکستان کا آئینی تجربہ حلیفانہ اندازِ سیاست (Consociational Politics) کی مثال ہے۔ آئین اور قانون بنانے میں پارلیمانی بحث مباحثہ اور بات چیت درکار ہوتی ہے۔ مگر سب سے بڑھ کر بڑا دل چاہیے۔ جیسا کہ شہید بھٹو کا تھا جنہوں نے غوث بخش بزنجو سے لے کر مولانا مفتی محمود تک سب کی رضا مندی سے آئین بنایا۔

تب بھی پورا پاکستان آئین کے پیچھا کھڑا تھا اور اب بھی جب آمروں کی شامل کردہ آلائشوں کو نکالنے کا مرحلہ آیا تو تمام جماعتوں کی شمولیت سے کئی مہینے تک غور و خوض کے بعد اٹھارویں ترمیم کے ذریعے آئین کے بیشتر آرٹیکل اتفاقِ رائے سے تبدیل ہو ئے۔ جن جماعتوں نے انتخابات کا بائیکاٹ کر رکھا تھا، اُن کے بھی سینیٹ میں موجود ارکان کے ذریعے ہر نوع کی سیاسی رائے کو نمائندگی دی گئی۔ اس لیے کہ ہم جانتے تھے کہ آئین تبھی چلتا ہے جب سب لوگوں کی رضا مندی سے بنایا جائے۔ اسی طرح ایک حالیہ قانونی مسودے پر ہم نے نون لیگ کی 32 ترامیم گوارہ کیں۔ پاکستان پیپلز پارٹی شمولیت، مفاہمت اور دِل جیتنے کی سیاست کرتی ہے ۔

ایسے میں اگر ایک دم کہیں سے نمودار ہونے والا کوئی شخص آ کر کہے کہ اِس طرح نہیں بلکہ اُس طرح کرو تو ہم اُسے بھی یہی کہیں گے کہ اپنی تجاویز تحریری صورت میں پارلیمان میں پیش کریں۔ اگر اِن میں جان ہوئی تو اِن پر بھی قومی اتفاقِ رائے ہو جائے گا وگرنہ فقط تحریر تحریر پکارنے سے کچھ حاصل نہ ہو گا۔ غضب تو یہ ہے کہ جب اخبار نویس محترم سے سوال کرتے ہیں کہ اس کی تفصیل کیا ہے تو فرماتے ہیں، ہم ابھی تجاویز مرتب کر رہے ہیں۔ تجاویز تیار نہیں اور دھمکیاں بے شمار۔ یوں بغیر کسی جائز مطالبے کے اتنے سخت جاڑے میں لوگوں کی خوش عقیدتی کا امتحان لینا شاید مناسب نہ ہوگا۔


پاکستان بھر میں اگر ایک پیر کے کچھ مریدین ہیں تو کسی دوسرے کے شاید اس سے بھی بڑھ کر ہوں۔ ملک بھر کے حلقوں سے اپنے عقیدت مندوں کو دارالحکومت میں اکٹھے کرنے کا یہ قطعاً مطلب نہ ہو گا کہ پورا ملک آپ کے ساتھ ہے۔ اس بات کا پتہ تو انتخابات میں ہی چلے گا کہ قوم کس کے ساتھ ہے۔گذشتہ 43 سال میں ہونے والے تمام انتخابات میں پاکستان پیپلز پارٹی نے ہمیشہ سب سے زیادہ ووٹ لیے۔ اُن انتخابات میں بھی جن میں ہمیں دھاندلی سے ہرا دیا گیا، ووٹ پی پی پی کے ہی سب سے زیادہ تھے۔ یوں اگر جلسے جلوس اور دھرنوں سے ہی مقابلہ ہونا ہو تو بھی پی پی پی کے جیالے سب سے زیادہ ہیں۔ پھر باقی جماعتوں کے بھی کارکن ہیں اور کئی دیگر پیروں کے مریدین بھی اُن سے بہت عقیدت رکھتے ہیں۔ اگر یہ سب لوگ اسلام آباد کا رُخ کریں تو،

دیکھنا اِن بستیوں کو تم کہ ویراں ہو گئیں

کوئی بھی پیچھے رہنے کو تیار نہیں ہو گا۔ اور اس میں کوئی ایک دو فیصد شاید منہاجی بھی ہوں۔ مگر لوگوں کی حمایت جانچنے کا یہ مناسب طریقہ نہیں کیوں کہ اس میں بلوے اور سر پھٹول کا احتمال ہے۔ لہٰذا ہم عالی جناب سے گذارش کرتے ہیں کہ وطن دوستی کی کوئی وطن دوست راہ اختیار کریں اور چھوٹے بڑے مارچ سے گریز کریں۔ بلوے اور مارچ عوامی رائے جاننے کا اصل طریقہ نہیں۔ آئین کے مطابق عوام کی رائے جاننے کا صحیح طریقہ عام انتخابات ہیں۔ جب مولانا خود آئین کی کتاب کھول کھول کر گھنٹوں اس کے حوالے دیتے ہیں تو اس پر عمل کیوں نہیں کیا جاتا۔

بات چیت کے بجائے لاؤ لشکر کی زبان کیوں استعمال کی جاتی ہے۔دراصل مولانا جب یہاں سے گئے تھے تو ایسی ہی سیاست ہوا کرتی تھی۔ ایک آمر بیٹھا ہوا تھا جس کی تھوڑی بہت حمایت مولانا بھی فرمایا کرتے تھے مگر اب حالات بدل چکے ہیں۔ پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی ہی نہیں بلکہ سڑکوں پر بہت سا خون بھی بہہ گیا ہے۔ ہماری قائد محترمہ بینظیر بھٹو شہید کی جا چکی ہیں۔ اے این پی سمیت بہت سی سیاسی جماعتوں کی قیادت اور کارکنوں کو شہید کیا گیا۔ بہت سی لڑائیاں ہوئیں اور بہت سی ختم ہو گئیں۔ سیاسی قیادت بلوغت کو پہنچی اور ملک میں حلیفانہ سیاست کا آغاز ہوا۔

ہم سب کو ساتھ لے کر چل رہے ہیں۔ ہم بلوے اور دشنام کی سیاست نہیں کرتے بلکہ صلح اور محبت کا پیغام عام کر رہے ہیں۔ ہم کھیل کے قوائد پر اتفاقِ رائے پیدا کر چکے تو کہیں دور سے مولانا تشریف لے آئے اور فرمانے لگے نہ کھیلوں گا اور نہ کھیلنے دوں گا۔ یہ ایک منفی انداز ہے۔ میں انھیں مثبت رویہ اپنانے کی تلقین کرتا ہوں۔ اسی میںہم سب کا اور پورے ملک کا فائدہ ہے۔ آخر میں معاصر شاعر عباس تابش کا یہ شعر مولانا کی نذر کرتا ہوں۔

میں ہوں اِس شہر میں تاخیر سے آیا ہوا شخص

مجھ کو اِک اور زمانے میں بڑی دیر لگی
Load Next Story