کچن کو باغیچہ بنائیں سبزیاں اُگائیں
اگر آپ تہیہ کرلیں تو پھر چھوٹے سے گھر یا فلیٹ وغیرہ میں بھی تازہ سبزیاں خود اُگاسکتی ہیں۔
اگر گھر بڑا ہو اور وہاں تھوڑی سی کچی زمین بھی دستیاب ہو تو اسے ایک چھوٹے سے باغیچے کی شکل دی جاسکتی ہے جس میں آپ موسم کی سبزیاں اگاسکتی ہیں۔
اگر آپ تہیہ کرلیں تو پھر چھوٹے سے گھر یا فلیٹ وغیرہ میں بھی تازہ سبزیاں خود اُگاسکتی ہیں۔ جیسے توری، پودینہ، ہری مرچ، دھنیا اور ٹماٹر وغیرہ۔گھر اگر بڑا ہے اور اس میں کچی زمین کا ٹکڑا موجود ہے تو اسے کیاریوں کی شکل دے کر اس میں دوسری موسمی سبزیاں بھی کاشت کی جاسکتی ہیں۔ گھریلو کاشت کاری کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ اس بڑھتی ہوئی مہنگائی کے دور میں تازہ اور بالکل مفت سبزیاں ہر وقت گھر میں مل سکتی ہیں یوں مہنگی سبزیوں سے جان چھوٹ جائے گی اور بچت بھی ہوگی۔
شہروں میں عام طور پر گھر چھوٹے ہوتے ہیں جہاں کیاریاں بنانے کے لیے جگہ نہیں ہوتی۔ اس صورت میں آپ سبزیاں اگانے کے لیے گملوں کے علاوہ پلاسٹک کی بوتلیں، بالٹیاں اور درمیانے سائز کے ٹب استعمال کرسکتی ہیں۔ اس بات کا اطمینان کرلیں کہ آپ نے جو گملا منتخب کیا ہے اس کے پیندے میں سوراخ ہو تاکہ پانی کا اخراج ممکن ہوسکے۔گملے میں پانی جمع رہے گا تو پودے کی جڑوں کو نقصان پہنچائے گا اور پودا مُرجھا جائے گا۔
مٹی کے گملوں کے علاوہ ریزن، فائبر گلاس یا پلاسٹک کے گملے بھی استعمال کیے جاسکتے ہیں۔ ان کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ یہ کم وزن ہوتے ہیں، اس لیے انھیں ایک جگہ سے دوسری جگہ لانا لے جانا آسان ہوتا ہے اور یہ موسمی اثرات سے بھی محفوظ رہتے ہیں۔ ایک اور فائدہ یہ ہے کہ ان میں نمی جذب کرنے کی صلاحیت نہیں ہوتی لہٰذا پودوں کی نمی تا دیر برقرار رہتی ہے۔
گملوں اور کیاریوں میں سبزیاں اگانے کے لیے ایسی جگہ کا انتخاب کریں جہاں دھوپ اور ہوا باآسانی پہنچ سکے۔ اس ضمن میں نرسری سے معلومات حاصل کی جاسکتی ہیں کہ کس پودے کو کتنی دھوپ اور چھاؤں کی ضرورت ہوتی ہے۔ کچھ پودے چڑیوں کی مرغوب غذا ہوتے ہیں جیسے، مرچیں، توری، دھنیا وغیرہ۔ ان کی بطور خاص حفاظت کرنی پڑتی ہے۔
باغبانی میں سب سے اہم عنصر مٹی ہے۔ کیاریوں اور گملوں کی مٹی جتنی اچھی ہوگی اتنی ہی اچھی سبزیاں پیدا ہوں گی۔ مٹی آپ قریبی نرسری سے حاصل کرسکتی ہیں۔ اس میں کھاد بھی شامل ہوتی ہے۔ اب گملے کو مٹی سے بھرلیں۔ عام طور پر مٹی میں تھوڑا سا پانی ملاتے ہیں اور ہاتھ سے اچھی طرح گوند لیتے ہیں ۔ جب مٹی بھیگے ہوئے اسفنج کی طرح معلوم ہونے لگے تو سمجھ لیں کہ یہ گملے میں ڈالنے کے لیے تیار ہے۔ سب سے پہلے گملے میں پانی کی نکاسی کے لیے بنے سوراخ پر کوئی جالی یا ٹھیکری وغیرہ رکھ دیں۔ اس سے مٹی پانی کے ساتھ بہے گی نہیں۔ گیلی مٹی اب گملے میں ڈال دیں اور پھر اس میں بیج بو دیں۔
اکثر سبزیوں کے بیج آپ کو گھر ہی پر دستیاب ہوسکتے ہیں۔گھر میں جو سبزی آئے اس کے بیج نکال کر سُکھالیں۔ بیج نرسریوں سے بھی حاصل کیے جاسکتے ہیں۔
گملے دار پودوں کو زمین میں اُگے ہوئے پودوں کے مقابلے میں زیادہ کھاد کی ضرورت ہوتی ہے۔ آپ جس قدر پانی دیں گے اسی قدر مٹی سے معدنیات بہ کر ضایع ہوتی رہیں گی۔ اگر آپ چاہتی ہیں کہ پودا خوب پھولے پھلے اور ہرا بھرا رہے تو ہر دو ہفتے کے بعد اس میں کھاد ڈالیں۔ اس مقصد کے لیے خشک پسے ہوئے پتے، گنے کی پرت یا اگر جانوروں کا فضلہ آسانی سے دستیاب ہوسکے تو اسے بہ طور کھاد استعمال کیا جاسکتا ہے۔
کیاری یا گملے میںبیج بونے کے بعد ہر چند روز کے بعد اس میں پانی ڈالتی رہیں۔ کچھ دنوں کے بعد بیج پھوٹ نکلیں گے۔ بچوں اور پرندوں سے ان کی حفاظت کا معقول انتظام کرنا ضروری ہے۔ ورنہ آپ کی محنت ضایع ہوسکتی ہے۔ پودے کچھ بڑے ہوجائیں تو دیکھیں کہ ان کی جڑیں آپس میں الجھی ہوئی نہ ہوں۔ اگر ایسا ہو تو جڑوں کو آہستگی اور نرمی کے ساتھ ایک دوسرے سے الگ کرلیں۔ ہر پودے کی جڑ کو اچھی طرح مٹی میں دبا دیں۔ اب گملے میں پانی ڈالیں اس طرح جڑیں اپنی جگہ پر جم جائیں گی۔ پانی زیادہ مقدار میں نہ ڈالیں، ورنہ پودا سوکھ جائے گا۔
بعض خواتین گھر میں سبزیاں یا پودے لگانے سے گھبراتی ہیں۔ ان کا خیال ہوتا ہے کہ پودے لگانے سے گھر میں کیڑے مکوڑے پھیل جائیں گے۔ اگر گملوں اور کیاریوں کی صفائی ستھرائی پر توجہ دی جائے تو کیڑے مکوڑے پھیلنے کا خدشہ کافی حد تک ختم ہوجاتا ہے۔ دوسری بات یہ کہ حشرات تو گھر خاص طور پر باورچی خانے میں ویسے بھی پیدا ہوجاتے ہیں۔ لیکن گھریلو کاشت کاری سے کم از کم سبزیاں تو تازہ اور صحت بخش ملیں گی اور پیسے کی بچت بھی ہوگی۔ یہ فائدہ کچھ کم نہیں۔ علاوہ ازیں پودوں سے گھر بھی خوش نما نظر آتا ہے۔
اگر آپ تہیہ کرلیں تو پھر چھوٹے سے گھر یا فلیٹ وغیرہ میں بھی تازہ سبزیاں خود اُگاسکتی ہیں۔ جیسے توری، پودینہ، ہری مرچ، دھنیا اور ٹماٹر وغیرہ۔گھر اگر بڑا ہے اور اس میں کچی زمین کا ٹکڑا موجود ہے تو اسے کیاریوں کی شکل دے کر اس میں دوسری موسمی سبزیاں بھی کاشت کی جاسکتی ہیں۔ گھریلو کاشت کاری کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ اس بڑھتی ہوئی مہنگائی کے دور میں تازہ اور بالکل مفت سبزیاں ہر وقت گھر میں مل سکتی ہیں یوں مہنگی سبزیوں سے جان چھوٹ جائے گی اور بچت بھی ہوگی۔
شہروں میں عام طور پر گھر چھوٹے ہوتے ہیں جہاں کیاریاں بنانے کے لیے جگہ نہیں ہوتی۔ اس صورت میں آپ سبزیاں اگانے کے لیے گملوں کے علاوہ پلاسٹک کی بوتلیں، بالٹیاں اور درمیانے سائز کے ٹب استعمال کرسکتی ہیں۔ اس بات کا اطمینان کرلیں کہ آپ نے جو گملا منتخب کیا ہے اس کے پیندے میں سوراخ ہو تاکہ پانی کا اخراج ممکن ہوسکے۔گملے میں پانی جمع رہے گا تو پودے کی جڑوں کو نقصان پہنچائے گا اور پودا مُرجھا جائے گا۔
مٹی کے گملوں کے علاوہ ریزن، فائبر گلاس یا پلاسٹک کے گملے بھی استعمال کیے جاسکتے ہیں۔ ان کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ یہ کم وزن ہوتے ہیں، اس لیے انھیں ایک جگہ سے دوسری جگہ لانا لے جانا آسان ہوتا ہے اور یہ موسمی اثرات سے بھی محفوظ رہتے ہیں۔ ایک اور فائدہ یہ ہے کہ ان میں نمی جذب کرنے کی صلاحیت نہیں ہوتی لہٰذا پودوں کی نمی تا دیر برقرار رہتی ہے۔
گملوں اور کیاریوں میں سبزیاں اگانے کے لیے ایسی جگہ کا انتخاب کریں جہاں دھوپ اور ہوا باآسانی پہنچ سکے۔ اس ضمن میں نرسری سے معلومات حاصل کی جاسکتی ہیں کہ کس پودے کو کتنی دھوپ اور چھاؤں کی ضرورت ہوتی ہے۔ کچھ پودے چڑیوں کی مرغوب غذا ہوتے ہیں جیسے، مرچیں، توری، دھنیا وغیرہ۔ ان کی بطور خاص حفاظت کرنی پڑتی ہے۔
باغبانی میں سب سے اہم عنصر مٹی ہے۔ کیاریوں اور گملوں کی مٹی جتنی اچھی ہوگی اتنی ہی اچھی سبزیاں پیدا ہوں گی۔ مٹی آپ قریبی نرسری سے حاصل کرسکتی ہیں۔ اس میں کھاد بھی شامل ہوتی ہے۔ اب گملے کو مٹی سے بھرلیں۔ عام طور پر مٹی میں تھوڑا سا پانی ملاتے ہیں اور ہاتھ سے اچھی طرح گوند لیتے ہیں ۔ جب مٹی بھیگے ہوئے اسفنج کی طرح معلوم ہونے لگے تو سمجھ لیں کہ یہ گملے میں ڈالنے کے لیے تیار ہے۔ سب سے پہلے گملے میں پانی کی نکاسی کے لیے بنے سوراخ پر کوئی جالی یا ٹھیکری وغیرہ رکھ دیں۔ اس سے مٹی پانی کے ساتھ بہے گی نہیں۔ گیلی مٹی اب گملے میں ڈال دیں اور پھر اس میں بیج بو دیں۔
اکثر سبزیوں کے بیج آپ کو گھر ہی پر دستیاب ہوسکتے ہیں۔گھر میں جو سبزی آئے اس کے بیج نکال کر سُکھالیں۔ بیج نرسریوں سے بھی حاصل کیے جاسکتے ہیں۔
گملے دار پودوں کو زمین میں اُگے ہوئے پودوں کے مقابلے میں زیادہ کھاد کی ضرورت ہوتی ہے۔ آپ جس قدر پانی دیں گے اسی قدر مٹی سے معدنیات بہ کر ضایع ہوتی رہیں گی۔ اگر آپ چاہتی ہیں کہ پودا خوب پھولے پھلے اور ہرا بھرا رہے تو ہر دو ہفتے کے بعد اس میں کھاد ڈالیں۔ اس مقصد کے لیے خشک پسے ہوئے پتے، گنے کی پرت یا اگر جانوروں کا فضلہ آسانی سے دستیاب ہوسکے تو اسے بہ طور کھاد استعمال کیا جاسکتا ہے۔
کیاری یا گملے میںبیج بونے کے بعد ہر چند روز کے بعد اس میں پانی ڈالتی رہیں۔ کچھ دنوں کے بعد بیج پھوٹ نکلیں گے۔ بچوں اور پرندوں سے ان کی حفاظت کا معقول انتظام کرنا ضروری ہے۔ ورنہ آپ کی محنت ضایع ہوسکتی ہے۔ پودے کچھ بڑے ہوجائیں تو دیکھیں کہ ان کی جڑیں آپس میں الجھی ہوئی نہ ہوں۔ اگر ایسا ہو تو جڑوں کو آہستگی اور نرمی کے ساتھ ایک دوسرے سے الگ کرلیں۔ ہر پودے کی جڑ کو اچھی طرح مٹی میں دبا دیں۔ اب گملے میں پانی ڈالیں اس طرح جڑیں اپنی جگہ پر جم جائیں گی۔ پانی زیادہ مقدار میں نہ ڈالیں، ورنہ پودا سوکھ جائے گا۔
بعض خواتین گھر میں سبزیاں یا پودے لگانے سے گھبراتی ہیں۔ ان کا خیال ہوتا ہے کہ پودے لگانے سے گھر میں کیڑے مکوڑے پھیل جائیں گے۔ اگر گملوں اور کیاریوں کی صفائی ستھرائی پر توجہ دی جائے تو کیڑے مکوڑے پھیلنے کا خدشہ کافی حد تک ختم ہوجاتا ہے۔ دوسری بات یہ کہ حشرات تو گھر خاص طور پر باورچی خانے میں ویسے بھی پیدا ہوجاتے ہیں۔ لیکن گھریلو کاشت کاری سے کم از کم سبزیاں تو تازہ اور صحت بخش ملیں گی اور پیسے کی بچت بھی ہوگی۔ یہ فائدہ کچھ کم نہیں۔ علاوہ ازیں پودوں سے گھر بھی خوش نما نظر آتا ہے۔