بھوک اور خوف کا منطقی انجام آخری حصہ
14 جنوری آئے گی اور گزر جائے گی، سارے تجزیے دھرے کے دھرے رہ جائیں گے کہ لانگ مارچ کے پیچھے کون ہے اور کون نہیں ہے؟
اگر آپ بغور جائزہ لیں تو ہم بھی کئی عشروں سے اسی بھوک اورخوف کی کیفیت میں مبتلا ہیں یا مبتلا کردیے گئے ہیں۔بالخصوص گزشتہ پانچ برسوں سے قوم کی اکثریت صرف روٹی کے حصول کے لیے ماری ماری پھررہی ہے۔ہمارے معاشرے پر بھی جمود طاری ہوچکا ''تھا'' جس کے نتیجے میں ہر قسم کی ترقی رک چکی ہے۔ اسی لیے اٹھارہ کروڑ عوام کو اب تبدیلی کی لہریں امڈتی ہوئی صاف نظر آرہی ہیں، یہ تبدیلی خواہ عمران خان کی شکل میں ہو، طاہر القادری کے لانگ مارچ کی صورت میں ہو یا پھر الطاف حسین کی عدلیہ سے غیر مشروط معافی کے الفاظ میں ڈھل کر سامنے آئے۔
یہ تمام اشارے میری ناقص رائے میں ایک پرامن تبدیلی کے منطقی انجام کی طرف، جمہوری انداز سے بڑھتے نظر آرہے ہیں۔ اسی لیے اوپر میں نے جمود کے لیے ''تھا'' کا صیغہ استعمال کیا ہے۔ یہ جمود گزشتہ کچھ عرصے سے رفتہ رفتہ ٹوٹنے لگا تھا، جس کی رفتار حالیہ دنوں میں اچانک بہت تیز ہوگئی ہے۔ ہمارے معاشرے میں بھوک اور خوف تو موجود ہیں، جو کسی بھی تبدیلی، بسا اوقات خون ریز تبدیلی کی بنیاد بنتے ہیں۔ لیکن ہمارے یہاں اظہار رائے کی آزادی، یعنی آزاد میڈیا اور دوسرا مضبوط ریاستی ستون عدلیہ موجود ہے۔ ان دونوں اداروں نے ہمارے معاشرے میں کھولتے ہوئے لاوے کے لیے ''سیفٹی والوز'' کا کردار بڑی خوش اسلوبی سے ادا کیا ہے۔
لہٰذا 14 جنوری کو اسلام آباد میں کچھ بھی نہیں ہوگا۔ اسلام آباد اور التحریر چوک میں سرے سے کوئی مماثلت ہی نہیں ہے۔ تیونس، مصر، لیبیا اور یمن کے معاشروں میں ''سیفٹی والوز'' موجود ہی نہیں تھے۔ وہاں لاوا بالکل ایسے پریشر ککرز کی مانند پھٹ گیا، جن کے سیفٹی والوز بند ہوجاتے ہیں۔ یہاں معاشرے کے تمام طبقات ڈیموکریسی پر متفق ہوچکے ہیں، جن میں فوج بھی شامل ہے۔ اس اتفاق رائے میں حکومتی اتحاد کا کوئی کمال نہیں ہے۔ بلکہ اس اتفاق رائے کے لیے عوام نے پچھلے پانچ برسوں میں بے پناہ قربانیاں دی ہیں۔ ہاں، صدر زرداری کا واحد کمال یہ ہے کہ ان کے دورِ حکومت میں کوئی سیاسی قیدی موجود نہیں ہے۔عوامی کتھارسس کے ہزار راستے موجود ہیں۔رونے دھونے کی بھی آزادی ہے۔ اظہار رائے پر حکومتی جبر نہیں ہے۔ اور اب سرکاری یا غیر سرکاری جبر ہو بھی نہیں سکتا۔
7 جنوری کو پی بی اے نے جو متفقہ پالیسی منظور کی ہے، جس کے تحت تمام الیکٹرانک چینلز، کسی بھی چینل پر پابندی کی صورت میں باہم مل کر بائیکاٹ کریں گے۔ اس اتحاد کے نتیجے میں میڈیا ہمارے ملک میں اور زیادہ مضبوط ہوجائے گا۔ آزاد اور مضبوط میڈیا کی موجودگی کا دوسرا مطلب یہی ہے کہ عوام کی آواز کو دبانا اب کسی کے لیے ممکن نہ ہوگا۔کوئی پریشر گروپ یا سیاسی جماعت اور تنظیم آزادی صحافت کو دبائو میں لانے کی جرات نہیں کرسکے گی ۔ یہ سب تبدیلی کی لہریں ہیں، جن کی آوازیں اب تیز ہوگئی ہیں، لب بستگی کی سیاہ رات کٹنے والی ہے۔ یہ اسٹیٹس کو کے تڑخنے کی آوازیں ہیں۔
ان تبدیلیوں کو آپ باآسانی محسوس کرسکتے ہیں۔ کہاں 12 مئی 2007 کا خون ریز دن اور کہاں متوسط طبقے کو اسمبلیوں میں بھیجنے والی واحد جماعت ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین کا ذاتی اَنا بالائے طاق رکھ کر عدلیہ کے سامنے احترام سے جھک جانے کا فیصلہ؟ کیا ایسا فیصلہ کوئی جاگیردار، سرمایہ دار یا جدی پشتی سیاستدان کرسکتا تھا؟ ہرگز نہیں۔ الطاف حسین کی یہ غیر مشروط معافی، متوسط طبقے، آزاد عدلیہ اور آزاد میڈیا کی جیت کے ساتھ ساتھ، خود الطاف حسین کی سیاسی بصیرت کی بھی دلیل ہے۔ یہ تبدیلی کا وہ اشارہ ہے جو خبر دیتا ہے کہ آئندہ الیکشن کے بعد ایک مضبوط پارلیمنٹ بھی وجود میں آنے والی ہے۔ ایک ایسی پارلیمنٹ جس میں متوسط طبقے کے ارکان کی اکثریت ہوگی۔
خواہ ان ارکان کا تعلق جماعت اسلامی سے ہو، ایم کیو ایم سے ہو یا تحریک انصاف سے ہو۔ الیکشن سے قبل اگر ان تینوں متوسط طبقے کی جماعتوں کا اتحاد نہ بھی ہوا تو الیکشن کے بعد پارلیمنٹ کے اندر، حالات کا جبر ان تینوں جماعتوں کو باہم متحد ہونے پر مجبور کردے گا۔ بالکل اسی طرح جیسے حالات کے جبر نے تمام الیکٹرانک میڈیا کو متحد ہونے پر مجبور کردیا ہے۔14 جنوری کے لانگ مارچ میں تحریک انصاف اور جماعت اسلامی اگرچہ شریک نہیں ہورہی ہیں، لیکن علامہ طاہرالقادری کا یہ لانگ مارچ اگر پرامن طور پر منعقد ہوکر، بخیر و خوبی اختتام پذیر ہوجاتا ہے تو آئندہ الیکشن میں اس لانگ مارچ کا تمام تر فائدہ تحریک انصاف اور جماعت اسلامی سمیت ہر اس سیاسی جماعت کو ملے گا جو متوسط طبقے کی نمائندگی کرتی ہیں۔
14 جنوری آئے گی اور گزر جائے گی، سارے تجزیے دھرے کے دھرے رہ جائیں گے کہ لانگ مارچ کے پیچھے کون ہے اور کون نہیں ہے؟ اس مارچ کے پیچھے جو بھی ہے، دیکھنا یہ ہے کہ وہ غلط ہے یا درست؟ ایک لانگ مارچ نے عدلیہ کو مضبوط کیا تھا، اس کے پیچھے بھی تو کوئی تھا نا؟ سوال یہ ہے کہ نتیجہ اچھا نکلا یا برا؟ ذرا غور فرمائیے ''نوٹس ملیا، ککھ نہ ہلیا'' والے سوکھے پتے کی طرح ''ہل'' کر کہاں جا پہنچے؟ اور عدلیہ آج کس شان سے سر اٹھائے کھڑی ہے۔ عنقریب متوسط طبقے کی پارلیمنٹ بھی اسی آن بان کے ساتھ آپ کے سامنے موجود ہوگی۔
اور یہی خاموش وہ انقلاب کہلاتا ہے، جو انقلاب کی سب سے اعلیٰ قسم ہے۔ انقلاب میں سوائے حکمران اشرافیہ کے سب طبقے اپنا حصہ ڈالتے ہیں اور ہمارے ملک میں بھی یہی ہونے جارہا ہے، وہی جو ملائیشیا میں ہوا اور وہی جو ترکی میں بھی ہوا تھا۔ لہٰذا میرے نزدیک قانون قدرت حرکت میں آچکا ہے۔ لانگ مارچ کے مقاصد کچھ ہی کیوں نہ ہوں، نتیجہ عوام کے حق میں ہی نکلے گا۔ یوں بھی خرابی جب حد سے گزر جائے تو صرف اچھا ہی ہوسکتا ہے اور وہی ہونے جارہا ہے۔