بہت میں نے سنی ہے آپ کی تقریر مولانا

جناب مولانا صاحب! آپ کا پروگرام ہمارے سر آنکھوں پر ہے، بالکل یہی پروگرام عوام کا بھی ہے، مگر آپ ہمارے ساتھ ساتھ...

اس مصرعے کو آج کا موضوع بنایا ہے، تو میرے کانوں میں حبیب جالب کی دلکش مترنم آواز گونج رہی ہے۔ یہ نظم انھوں نے اس فارمولے میں لکھی تھی کہ جب جمی کارٹر امریکا کا صدر ہوتا تھا۔ اس نظم کو جب حبیب جالب جلسوں میں سناتے تھے تو سازشی عناصر اور سازشوں کی گتھیاں کھلنے لگتی تھیں۔ وقت کے بڑے لوگ (یہی میر غوث بخش بزنجو اور اہل علم و دانش کی ایک لمبی فہرست ہے) کہتے تھے کہ جالب شاعری کے ذریعے عوام کی سمت درست رکھتا تھا، اور بابائے بلوچستان میر غوث بخش بزنجو نے تو یہاں تک کہا کہ ''جب ہماری تحریک رک جاتی تھی اور آگے بڑھنے کا راستہ نظر نہیں آتا تھا تو جالب کی شاعری ہمیں راستہ دکھاتی تھی۔''

یہ نظم ان دنوں مجھے یوں شدت سے یاد آرہی ہے کہ حضرت مولاناطاہر القادری صاحب کی بالکل اچانک واپسی ہوئی ہے اور انھوں نے بقول شخصے نہ آؤ دیکھا اور نہ تاؤ دیکھا، سب کچھ تلپٹ کرنے کا اعلان کردیا ہے اور ان کے ارشادات کا لب لباب یہ ہے کہ ''الیکشن چھوڑو اور جاگیرداروں، سرمایہ داروں، ٹیکس چوروں، لٹیروں، ظالموں کے خلاف لڑنے مرنے کے لیے تیار ہوجاؤ۔'' وہ طویل خودساختہ جلاوطنی کے بعد یہ نعرہ پاکستانی عوام کے لیے بطور سوغات لائے ہیں کہ ''سیاست نہیں، ریاست بچائو''جناب مولانا طاہر القادری صاحب کے خیالات سے کوئی بھی اختلاف نہیں کرسکتا، ان کا پروگرام، ان کے ارادے، بہت درست ہیں۔ یادگار پاکستان لاہور کے وسیع میدان میں فقید المثال جلسے سے خطاب کرتے ہوئے، انھوں نے لاکھوں کے مجمع کے سامنے قرآن کی قسم کھا کر حلفیہ بیانات جاری کیے۔

یہ سب بھی درست، قادری صاحب کا جلسہ بھی لاہور کے چار پانچ بڑے جلسوں میں سے ایک تھا۔ حضرت مولانا کے خطابت کے جوہر کا بھی ایک زمانہ معترف ہے۔ یہ سب کچھ صحیح ہے۔ مگر ہم پاکستانیوں کے ساتھ ہمارے غمگسار اور جاں نثار بن کر آنیوالوں نے اتنا لوٹا کھسوٹا ہے کہ اب سوائے جسموں کے ہمارے پاس کچھ نہیں رہا اور ظالم اب ہمارے جسم بھی بھنبھوڑ رہے ہیں، اور جانیں لے رہے ہیں۔ حضرت مولانا! بھلا آپ سے بہتر یہ بات اور کون سمجھ سکتا ہے کہ چودہ سو سال پہلے کربلا کے میدان میں نیک اور اعلیٰ صفات انسانوں کے لاشے، گھوڑوں کے سموں سے روندے گئے، آج بھی بربریت کا مظاہرہ کرنے والوں کی نسلیں موجود ہیں اور انسانوں کو قتل کرکے ان کے چہرے مسخ کیے جاتے ہیں، اعضاء کاٹے جاتے ہیں، آج بھی وہی ظالمانہ عالم ہے۔ جالب کا شعر نذر امام حسین سن لیجیے:

صعوبتوں کے سفر میں ہے کاروان حسینؑ

یزید چین سے مسند نشین آج بھی ہے

تو حضرت مولانا! عوام نے بہت دھوکے کھائے ہیں، ایسے میں آپ خود ہی فیصلہ کریں کہ آپ چھ سال تک کینیڈا کی برفیلی فضاؤں میں ٹھنڈے ٹھار ہوتے رہے اور یہاں عوام سخت گرمی میں جھلستے رہے اور آپ ہمیں بچانے کے لیے نہیں آئے۔ آپ دنیا کے رہنما بن کر ملکوں ملکوں اسلام پھیلاتے پھرتے رہے اور اسلام کے قلعے پاکستان کے رہنما بننے کا آپ کو خیال تک نہیں آیا۔ حضرت مولانا صاحب! آپ دنیا بھر میں پھیلے اندھیروں کے خلاف لڑتے رہے مگر

کیا فائدہ کہ اپنے دیاروں میں شب رہے

ہم نے بہت دھوکے کھائے ہیں اس لیے

نہ فریب دے سکے گی ہمیں اب کسی کی چاہت

کہ رلا چکی ہیں ہم کو تری کم سخن نگاہیں

کوئی دم کی بات ہے' کوئی پل کی رات ہے یہ

نہ رہے گا کوئی قاتل' نہ رہیں گی قتل گاہیں


عوام تو صبح امید کا دیا جلائے یقین کے ساتھ چل رہے ہیں۔ بس اب کچھ ہی دیر بعد وہ سورج طلوع ہونے کو ہے کہ جس کی روشنی کچے گھروں تک بھی پہنچے گی۔

جناب مولانا صاحب! آپ کا پروگرام ہمارے سر آنکھوں پر ہے، بالکل یہی پروگرام عوام کا بھی ہے، مگر آپ ہمارے ساتھ ساتھ جیئیں اور ہمارے ساتھ ساتھ مصیبتیں برداشت کریں، چھوڑیں ''سب کچھ'' اور غریبوں کی کٹیاؤں میں بسیرا کرلیں۔ آپ تو ماشاء اللہ شیخ الاسلام بھی ہیں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ آپ عوام کو ان کے حقوق دلانے کا انقلابی پروگرام لے کر اٹھے ہیں تو آپ کا اوڑھنا بچھونا عوام، عوام اور بس عوام ہی ہونا چاہیے۔ دنیا کے ارب پتی ہنری فورڈ (فورڈ کار کا بانی) کا پوتا ہنری فورڈ دوئم، گوتم بدھ کی طرح سب ٹھاٹ باٹ چھوڑ چھاڑ کے نیپال کے ایک آشرم میں بیٹھا ہوا ہے اور مانگے تانگے سے زندگی گزار رہا ہے۔ آپ کو اللہ تعالیٰ نے خطابت کے جوہر سے نواز رکھا ہے تو عطاء اللہ شاہ بخاری بن جائیں۔ آپ کو اللہ نے ''اچانک'' دردمند دل عطا فرما دیا ہے تو اپنی صلاحیتوں کو فکر انقلاب میں ڈھال کر محمد عربی کے غریبوں کے ساتھ رچ بس جائیں، ''ورنہ یہ زندگی کا سفر رائیگاں تو ہے''۔

حضرت مولانا! میری ادنیٰ سی رائے بھی یہی ہے جو سب آپ سے کہہ رہے ہیں کہ انتخابات بالکل سر پر آن پہنچے ہیں، آپ انتخابات میں حصہ لیں، پورے ملک میں اپنے فن خطابت کے ذریعے عوام کو ایجوکیٹ کریں، پھر دیکھیے گا کہ عوام مسلسل آپ کو اپنے درمیان پا کر کس طرح آپ پر قربان ہوں گے۔ آپ بے شک کینیڈا کی شہریت نہ چھوڑیں، ملکہ کی وفاداری بھی نبھائیں، مگر ذرا ڈیڑھ دو سال پاکستان میں گزاریں، لوڈشیڈنگ، گیس بند، سیلاب کے مصائب، ذرا خود کو کندن بنائیں۔ حضرت جی! دنیا نہیں اپنے علم و فضل کے جھنڈے اپنے وطن میں گاڑیں۔ اس امید کے ساتھ کہ ''شاید کہ تیرے دل میں اتر جائے مری بات''۔ حبیب جالب کے وہ اشعار بھی سن لیں جن کا مصرعہ کالم کا عنوان بنا ہے۔

بہت میں نے سنی ہے آپ کی تقریر مولانا

مگر بدلی نہیں اب تک مری تقدیر مولانا

خدارا شکر کی تلقین اپنے پاس ہی رکھیں

یہ لگتی ہے میرے سینے پہ بن کر تیر مولانا

نہیں میں بول سکتا جھوٹ اس درجہ ڈھٹائی سے

یہی ہے جرم میرا' اور یہی تقصیر مولانا

حقیقت کیا ہے' یہ تو آپ جانیں یا خدا جانے

سنا ہے! ''جمی کارٹر'' آپ کا ہے پیر مولانا

کروڑوں کیوں نہیں مل کر فلسطین کے لیے لڑتے

دعا ہی سے فقط کٹتی نہیں زنجیر مولانا
Load Next Story