انتظار گاہ میں بیٹھے ہوئے مسافر…
فطری امر ہے کہ بیٹیاں والدین کے دکھ درد کی آشنا ہوتی ہیں اور والدین کی محبت کی جڑیں ان کے وجود کی گہرائیوں میں اتر۔۔۔
ملکی فضا پر چھائے ہوئے بادلوں کی کچھ سمجھ نہیں آ رہی کہ گرجنے والے ہیں یا برسنے والے بھی۔ لانگ مارچ ہو نہ ہو اس کے ہونے کے خوف نے اعصاب کو معطل سا کر دیا ہے، سوچنے سمجھنے کی صلاحیتیں ایک مقام پر آ کر تھم گئی ہیں اور اگلے روز کے لیے کچھ پلان کرنا بھی مشکل ہو رہا ہے... ایک طرف بے یقینی کے بادل ہیں تو دوسری طرف ملک کے مختلف حصوں میں ہونے والے پے در پے دھماکوں کے سوگ کے بادل طاری کر دئیے ہیں، ایک حادثے سے سنبھل نہیں پاتے کہ دوسرے کی خبر'' بریکنگ نیوز'' بن کر ہم پر مانند برق گرتی ہے۔
یہ سب نقصانات ایک طرف مگر اس وقت ہمیں جن بڑے بڑے نقصانات کا سامنا ہے ان میں سے ایک نقصان ایسا ہے کہ جس پر جس قدر دکھ کا اظہارکیا جائے کم ہے... ملکی حالات پر تو جانے کب تک اور کتنے کالم بھی لکھ دئیے جائیں تو کچھ تبدیل ہونے والا نہیں۔
ایک خط تو لکھا رکھا تھا اور اس کا اس کے مخاطب تک پہنچنا از حد ضروری ہو چکا تھا، باقی معاملات بعد پر مگر آج ایک خط لکھے دیتے ہیں۔
پیاری سمعیہ راحیل... کون سے الفاظ ہیں جو اس دکھ کا احاطہ کر سکیں جس کا اس وقت آپ کو اور آپ کے اہل خاندان کو سامنا ہے۔ قاضی حسین احمد صاحب کہ جن کے جانے سے لاکھوں خود کو یتیم سمجھ رہے ہیں، در حقیقت ان کے جانے سے آپ ایک دست شفقت، ایک سائباں سے محروم ہوئے ہیں۔ باپ بیٹی کا رشتہ کسی تعریف کا محتاج نہیں کہ اس رشتے کی خوبصورتی کو ہمارے مذہب نے انتہائی خوب صورتی سے بیان کیا ہے، بیٹی کی پرورش احسن طریقے سے کر کے اس کا فرض ادا کرنے والے کو آنحضور ﷺ نے جنت میں اپنی قربت کی بشارت دی۔ اللہ تعالی نے اپنے نبی ﷺ کو بھی بیٹیاں دیں اور باپ کی بیٹیوں سے محبت کی انتہا ظاہر کر دی۔
فطری امر ہے کہ بیٹیاں والدین کے دکھ درد کی آشنا ہوتی ہیں اور والدین کی محبت کی جڑیں ان کے وجود کی گہرائیوں میں اتر جاتی ہیں۔ کسی بیٹی کو عمر بھر ایسا شخص نہیں ملتا جو اسے اپنے باپ کی طرح اسے شہزادی بنا کر رکھے، جو اس کے نازک احساسات کو سمجھ سکے، جو اس کی مسکراہٹ کے معانی سمجھ سکے اور اس کے آنسوؤں میں چھپے درد کو سمجھ سکے۔ آپ بھی ایک ایسی ہو بیٹی ہو جو اس وقت اپنے باپ کی شفقت سے محروم ہو کرخود کو دنیا میں کس قدر تنہا محسوس کر رہی ہو گی۔
ہر رشتہ پاس بھی ہو تو ماں باپ کی کمی کو کوئی پورا نہیں کر سکتا اور باپ بھی ایسا کہ جس کی عظمت، جس کے اصولوں کی پاسداری کی عادت کے ہم سب معترف ہیں... جس شخص نے عمر بھر کوئی لالچ نہیں پالا، نہ کسی عہدے کا نہ اقتدار کا، نہ اختیار کا... جسے اپنے اصول دنیا میں سب سے زیادہ عزیز تھے، جو علم و عرفان کا ایک منبع تھا اور جسے کبھی کوئی خرید نہ سکا۔
لال مسجد کے واقعے پر کسی اور کے کان پر جوں تک نہ رینگی اور انھوں نے اپنی قومی اسمبلی کی نشست احتجاجاً قربان کر دی... سچ ہے کہ اقتدار کی ہوس میں مبتلا اذہان بیمار اذہان ہوتے ہیں اور قاضی صاحب تو اور ہی طرح کے مرد آزاد تھے۔ انھوں نے اپنی محبت، شفقت اور ہنس مکھ طبیعت کی وجہ سے ایک جہاں کو اپنا اسیر کر رکھا تھا۔ عام مذہبی رہنماؤں کی نسبت اور ایک صحت مند اور وسیع قلب و ذہن رکھتے تھے۔ ان کا خواب تھا کہ تمام سیاسی پارٹیاں ایک پلیٹ فارم پر جمع ہو جائیں، اس ملک کی بہتری کے لیے سوچ رکھتے تھے اور اسے ترقی یافتہ دیکھنا ان کی خواہش تھی۔
6جنوری، 2013 کی رات کو وہ فقط 74 برس کی عمر میں آپ کو داغ مفارقت دے گئے، ہم سب کو بھی...
اب کس کا کاندھا ملے گا سمیعہ کہ جس پر سر رکھ کر ان کی بیٹیاں اپنے دکھ بھول جایا کریں گی؟ کون ہو گا جو بیٹیوں کے اداس چہرے دیکھ کر ان کے اندر کے دکھ جان لے گا۔ عام مذہبی لیڈروں کے بر عکس انھوں نے آپ سب کو زیور تعلیم سے آراستہ کیا اور عملی زندگی میں ہر قدم پرآپ لوگوں کا ساتھ دیا، اپنے دائرہ اختیار میں رہتے ہوئے انھوں نے آپ کی زندگی کی ہر خوشی کو پورا کیا ہو گا۔
ہم آپ کے دکھ میں برابر کے شریک ہیں، کوئی قلم ان الفاظ کا احاطہ نہیں کر سکتا جو آپ کے دکھ کی کیفیت کو مدہم کر سکے مگر آپ بھی جانتی ہیں کہ موت بر حق ہے اور ہم میں سے ہر ایک کو اس کا رس چکھنا ہے۔ ہم سب اس دنیا میں اللہ سے یہ عہد کر کے آتے ہیں کہ اس کے بلاوے پر ہم لبیک کہیں گے... جب اس کا امر ہو گا، ہم دنیا کے میلے کو چھوڑ کر چل دیں گے۔ ہم سب دنیا میں اس طرح رہ رہے ہیں جس طرح کہ کسی انتظار گاہ میں بیٹھے ہوئے مسافر... ہر کوئی اپنی فلائٹ کا، اپنی ٹرین کا یا بس کا انتظارکر رہا ہے، جس کی سواری آ جاتی ہے اس کے نام کی پکار پڑتی ہے تو وہ اپنے پیاروں کو روتا دھوتا چھوڑ کر اپنے رب کی پکار پر چل دیتا ہے... یہ بھرے میلے... یہ پیارے پیارے رشتے حتی کہ بیٹیوں کی محبت بھی رب کے بلاوے کے آگے ہیچ ہو جاتی ہے۔
ہمیں دکھ ہوتا ہے، ہمیں کمی محسوس ہوتی ہے اور محرومی ہمیں بے سکون رکھتی ہے مگر یہی حیات کی انتہا ہے، آج کسی کی باری ہے ... کل کسی کی... ہمیں بھی ایک روز یہ سب چھوڑ کر چل دینا ہے مگر جب تک انسان جیتا ہے اسے اپنے پیاروں کی جدائی کا دکھ اندر سے کھوکھلا کرتا رہتا ہے، کسی پل سکون نہیں ہوتا، کوئی لمحہ قرار کا نہیں ہوتا۔
آپ ان کے وہ رشتے ہیں جو ان کے لیے اپنی عمر تک تحائف بھجوا سکتے ہیں، آپ ان کا صدقہ جاریہ ہیں، ان کے اصولوں کی شمع تھام کر آپ اپنی زندگی انھی کے طریقے سے گزار کر انھیں سکون پہنچا سکتے ہیں۔ ان کی روح آپ کے آنسو دیکھ کر بے قرار رہے گی کہ کوئی باپ اپنی بیٹی کی آنکھ میں آنسو نہیں دیکھ سکتا۔ قاضی صاحب کو اللہ جل شانہ بلند درجات عطا فرمائے اور ان کے وضع کردہ اصول ان کے تمام چاہنے والوں اور ان کے بچوں کے لیے ان کا نظریہ حیات ہوں۔ ان کی ساری زندگی ایک مقصد کے گرد گھومتی تھی، امت مسلمہ کا اتحاد... کاش کوئی ایسی قیادت ہو جو ان کے اس مشن کو، اس خواب کو حقیقت کا رنگ دے سکے۔
آپ سے زیادہ کون جانتا ہو گا ان کو، ان کی خواہشات کو، ان کے مقاصد کو، ان کے طریقۂ کار کو اور ان کے نظریات کو۔ ملک میں اس وقت ایک سچی اور مخلص قیادت کا فقدان ہے اور ہمیں ضرورت ہے ایسے چند چراغوں کی جو خود جل کر دوسروں کو روشنی، علم، فہم اور آگہی عطا کرتے ہیں۔ ہم بھی ان کے بلند درجات کے لیے دعا گو ہیں اور آپ بھی انھیں اپنی دعاؤں کے نذرانے بھیج سکتی ہیں، اس سے انھیں بھی سکون ملے گا اور آپ کو بھی۔ اللہ تعالی آپ سب کو صبر جمیل عطا فرمائے... آمین!!!
یہ سب نقصانات ایک طرف مگر اس وقت ہمیں جن بڑے بڑے نقصانات کا سامنا ہے ان میں سے ایک نقصان ایسا ہے کہ جس پر جس قدر دکھ کا اظہارکیا جائے کم ہے... ملکی حالات پر تو جانے کب تک اور کتنے کالم بھی لکھ دئیے جائیں تو کچھ تبدیل ہونے والا نہیں۔
ایک خط تو لکھا رکھا تھا اور اس کا اس کے مخاطب تک پہنچنا از حد ضروری ہو چکا تھا، باقی معاملات بعد پر مگر آج ایک خط لکھے دیتے ہیں۔
پیاری سمعیہ راحیل... کون سے الفاظ ہیں جو اس دکھ کا احاطہ کر سکیں جس کا اس وقت آپ کو اور آپ کے اہل خاندان کو سامنا ہے۔ قاضی حسین احمد صاحب کہ جن کے جانے سے لاکھوں خود کو یتیم سمجھ رہے ہیں، در حقیقت ان کے جانے سے آپ ایک دست شفقت، ایک سائباں سے محروم ہوئے ہیں۔ باپ بیٹی کا رشتہ کسی تعریف کا محتاج نہیں کہ اس رشتے کی خوبصورتی کو ہمارے مذہب نے انتہائی خوب صورتی سے بیان کیا ہے، بیٹی کی پرورش احسن طریقے سے کر کے اس کا فرض ادا کرنے والے کو آنحضور ﷺ نے جنت میں اپنی قربت کی بشارت دی۔ اللہ تعالی نے اپنے نبی ﷺ کو بھی بیٹیاں دیں اور باپ کی بیٹیوں سے محبت کی انتہا ظاہر کر دی۔
فطری امر ہے کہ بیٹیاں والدین کے دکھ درد کی آشنا ہوتی ہیں اور والدین کی محبت کی جڑیں ان کے وجود کی گہرائیوں میں اتر جاتی ہیں۔ کسی بیٹی کو عمر بھر ایسا شخص نہیں ملتا جو اسے اپنے باپ کی طرح اسے شہزادی بنا کر رکھے، جو اس کے نازک احساسات کو سمجھ سکے، جو اس کی مسکراہٹ کے معانی سمجھ سکے اور اس کے آنسوؤں میں چھپے درد کو سمجھ سکے۔ آپ بھی ایک ایسی ہو بیٹی ہو جو اس وقت اپنے باپ کی شفقت سے محروم ہو کرخود کو دنیا میں کس قدر تنہا محسوس کر رہی ہو گی۔
ہر رشتہ پاس بھی ہو تو ماں باپ کی کمی کو کوئی پورا نہیں کر سکتا اور باپ بھی ایسا کہ جس کی عظمت، جس کے اصولوں کی پاسداری کی عادت کے ہم سب معترف ہیں... جس شخص نے عمر بھر کوئی لالچ نہیں پالا، نہ کسی عہدے کا نہ اقتدار کا، نہ اختیار کا... جسے اپنے اصول دنیا میں سب سے زیادہ عزیز تھے، جو علم و عرفان کا ایک منبع تھا اور جسے کبھی کوئی خرید نہ سکا۔
لال مسجد کے واقعے پر کسی اور کے کان پر جوں تک نہ رینگی اور انھوں نے اپنی قومی اسمبلی کی نشست احتجاجاً قربان کر دی... سچ ہے کہ اقتدار کی ہوس میں مبتلا اذہان بیمار اذہان ہوتے ہیں اور قاضی صاحب تو اور ہی طرح کے مرد آزاد تھے۔ انھوں نے اپنی محبت، شفقت اور ہنس مکھ طبیعت کی وجہ سے ایک جہاں کو اپنا اسیر کر رکھا تھا۔ عام مذہبی رہنماؤں کی نسبت اور ایک صحت مند اور وسیع قلب و ذہن رکھتے تھے۔ ان کا خواب تھا کہ تمام سیاسی پارٹیاں ایک پلیٹ فارم پر جمع ہو جائیں، اس ملک کی بہتری کے لیے سوچ رکھتے تھے اور اسے ترقی یافتہ دیکھنا ان کی خواہش تھی۔
6جنوری، 2013 کی رات کو وہ فقط 74 برس کی عمر میں آپ کو داغ مفارقت دے گئے، ہم سب کو بھی...
اب کس کا کاندھا ملے گا سمیعہ کہ جس پر سر رکھ کر ان کی بیٹیاں اپنے دکھ بھول جایا کریں گی؟ کون ہو گا جو بیٹیوں کے اداس چہرے دیکھ کر ان کے اندر کے دکھ جان لے گا۔ عام مذہبی لیڈروں کے بر عکس انھوں نے آپ سب کو زیور تعلیم سے آراستہ کیا اور عملی زندگی میں ہر قدم پرآپ لوگوں کا ساتھ دیا، اپنے دائرہ اختیار میں رہتے ہوئے انھوں نے آپ کی زندگی کی ہر خوشی کو پورا کیا ہو گا۔
ہم آپ کے دکھ میں برابر کے شریک ہیں، کوئی قلم ان الفاظ کا احاطہ نہیں کر سکتا جو آپ کے دکھ کی کیفیت کو مدہم کر سکے مگر آپ بھی جانتی ہیں کہ موت بر حق ہے اور ہم میں سے ہر ایک کو اس کا رس چکھنا ہے۔ ہم سب اس دنیا میں اللہ سے یہ عہد کر کے آتے ہیں کہ اس کے بلاوے پر ہم لبیک کہیں گے... جب اس کا امر ہو گا، ہم دنیا کے میلے کو چھوڑ کر چل دیں گے۔ ہم سب دنیا میں اس طرح رہ رہے ہیں جس طرح کہ کسی انتظار گاہ میں بیٹھے ہوئے مسافر... ہر کوئی اپنی فلائٹ کا، اپنی ٹرین کا یا بس کا انتظارکر رہا ہے، جس کی سواری آ جاتی ہے اس کے نام کی پکار پڑتی ہے تو وہ اپنے پیاروں کو روتا دھوتا چھوڑ کر اپنے رب کی پکار پر چل دیتا ہے... یہ بھرے میلے... یہ پیارے پیارے رشتے حتی کہ بیٹیوں کی محبت بھی رب کے بلاوے کے آگے ہیچ ہو جاتی ہے۔
ہمیں دکھ ہوتا ہے، ہمیں کمی محسوس ہوتی ہے اور محرومی ہمیں بے سکون رکھتی ہے مگر یہی حیات کی انتہا ہے، آج کسی کی باری ہے ... کل کسی کی... ہمیں بھی ایک روز یہ سب چھوڑ کر چل دینا ہے مگر جب تک انسان جیتا ہے اسے اپنے پیاروں کی جدائی کا دکھ اندر سے کھوکھلا کرتا رہتا ہے، کسی پل سکون نہیں ہوتا، کوئی لمحہ قرار کا نہیں ہوتا۔
آپ ان کے وہ رشتے ہیں جو ان کے لیے اپنی عمر تک تحائف بھجوا سکتے ہیں، آپ ان کا صدقہ جاریہ ہیں، ان کے اصولوں کی شمع تھام کر آپ اپنی زندگی انھی کے طریقے سے گزار کر انھیں سکون پہنچا سکتے ہیں۔ ان کی روح آپ کے آنسو دیکھ کر بے قرار رہے گی کہ کوئی باپ اپنی بیٹی کی آنکھ میں آنسو نہیں دیکھ سکتا۔ قاضی صاحب کو اللہ جل شانہ بلند درجات عطا فرمائے اور ان کے وضع کردہ اصول ان کے تمام چاہنے والوں اور ان کے بچوں کے لیے ان کا نظریہ حیات ہوں۔ ان کی ساری زندگی ایک مقصد کے گرد گھومتی تھی، امت مسلمہ کا اتحاد... کاش کوئی ایسی قیادت ہو جو ان کے اس مشن کو، اس خواب کو حقیقت کا رنگ دے سکے۔
آپ سے زیادہ کون جانتا ہو گا ان کو، ان کی خواہشات کو، ان کے مقاصد کو، ان کے طریقۂ کار کو اور ان کے نظریات کو۔ ملک میں اس وقت ایک سچی اور مخلص قیادت کا فقدان ہے اور ہمیں ضرورت ہے ایسے چند چراغوں کی جو خود جل کر دوسروں کو روشنی، علم، فہم اور آگہی عطا کرتے ہیں۔ ہم بھی ان کے بلند درجات کے لیے دعا گو ہیں اور آپ بھی انھیں اپنی دعاؤں کے نذرانے بھیج سکتی ہیں، اس سے انھیں بھی سکون ملے گا اور آپ کو بھی۔ اللہ تعالی آپ سب کو صبر جمیل عطا فرمائے... آمین!!!