خون کا سودا
24 فروری کو امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ کے مطابق ’’ریمنڈ ڈیوس پاکستانی عوام کی نظر میں دشمن نمبر ایک کا کردار۔۔۔‘‘
اکثر تحاریر، کہانیوں اور کالموں کے پیچھے کوئی نہ کوئی خیال یا حقیقی خبر کارفرما ہوتی ہے۔ آج کے اس کالم کا محرک بھی ایک چھوٹی سی خبر ہی ہے جو متعلق ہے شاہ زیب قتل کیس سے۔ آج کل الیکٹرانک میڈیا ہو یا پرنٹ، سوشل میڈیا ہر طرف شاہ زیب قتل کیس کے تذکرے ہیں اور اسی واقعے سے منسوب ایک خبر یا افواہ جو اس کالم کا محرک بنی وہ یہ ہے کہ شاہ زیب کے والد کو 25 کروڑ قصاص کی آفر ہوئی ہے۔ یہ خبر سچ ہے یا جھوٹ... اس تذکرے سے پہلے آپ کو دو سال پہلے کی ''خبری دنیا'' کی سیر کرانا مقصود ہے۔
واقعے کی ابتدا ہم 27 جنوری 2011 سے کرتے ہیں جب لاہور میں ایک امریکی ریمنڈ ڈیوس نے فائرنگ کرکے دو پاکستانیوں کو ہلاک کردیا تھا جبکہ اسے مشتعل ہجوم سے بچانے کے لیے امریکی سفارت خانے کے ڈرائیور نے تیزی اور لاپرواہی سے ڈرائیونگ کرتے ہوئے ایک شہری کو کچل ڈالا تھا۔ واقعہ چونکہ محض دو سال پرانا ہے اس لیے آپ سب کو یاد ہوگا کہ پاکستان بھر میں اس پر کیا ردعمل سامنے آیا تھا۔ قارئین کی یادداشت کو واضح کرنے کے لیے ہم تمام واقعہ اختصار اور دیگر مستند حوالوں کے ساتھ دوبارہ پیش کرتے ہیں۔
27 جنوری 2011 کو ریمنڈ ڈیوس نے لاہور میں دو پاکستانیوں کو فائرنگ کرکے ہلاک کردیا۔29 جنوری کو ریمنڈ کو عدالت میں پیش کیا گیا اور اسے 6 روزہ ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کردیا گیا۔ ریمنڈ ڈیوس نے اپنی پہلی پیشی پر موقف اختیار کیا کہ اس نے یہ اقدام اپنے دفاع کی خاطر اٹھایا۔ جبکہ ڈپٹی پراسیکیوٹر جنرل رانا بختیار کے مطابق دونوں مقتولین کو پیچھے سے گولیاں ماری گئیں جسے سیلف ڈیفنس قرار نہیں دیا جاسکتا۔ بعد ازاں ڈپٹی پراسیکیوٹر جنرل کو ان کے بیان کے بعد کہ ملزم کو سفارتی استثنیٰ حاصل نہیں پر ریمنڈ ڈیوس کیس سے علیحدہ کردیا گیا جس پر رانا بختیار نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا۔
واضح رہے کہ امریکی سفارت خانے کی طرف سے بار بار یہ بیان جاری کیا گیا کہ ''امریکی سفارتکار کو گرفتار کرنا سفارتی تعلقات کے ویانا کنونشن کی خلاف ورزی ہے، گرفتار شدہ ان کا سفارتکار امریکی سفارتخانے میں متعین ہے۔'' جبکہ امریکی ٹی وی اے بی سی نیوز اور ہوفنگٹن پوسٹ اخبار کے مطابق ریمنڈ ڈیوس ہائپریون پروٹیکٹو کنسلٹنٹ ایل ایل سی کا ملازم تھا۔ ریاست فلوریڈا کے شہر اورلینڈو میں قائم یہ کمپنی سی آئی اے جیسی کارروائی کرتی ہے لیکن بظاہر کیڑے مار ادویات اور دیگر خدمات فراہم کرتی ہے۔ بالآخر 22 فروری کو امریکی حکام نے ریمنڈ ڈیوس کو سی آئی اے کا اہلکار تسلیم کرلیا۔
6 فروری 2011 کو مقتول فہیم کی 18 سالہ حاملہ بیوہ شمائلہ کنول نے انصاف نہ ملنے کے خدشے پر دلبرداشتہ ہو کر زہریلی گولیاں کھالیں، اسپتال میں شمائلہ کنول نے مرنے سے پہلے ایکسپریس نیوز کو بیان دیا کہ اس کے شوہر کے امریکی قاتل کو سزا دینے کے بجائے مہمان بنا کر رکھا گیا ہے، اسے حکومت سے انصاف کی توقع نہیں۔
ہفتہ 12 فروری کے اخبارات میں یہ رپورٹ شائع ہوئی کہ پولیس ذرائع کے مطابق ریمنڈ نے مقتولین کو دانستہ قتل کرنے کا اعتراف جرم کرلیا ہے۔ 15 فروری کی خبروں کے مطابق ریمنڈ ڈیوس کو قتل کیس میں سزا سے بچانے کے لیے اہم شخصیات متحرک ہوگئیں جو کیس کے مدعیوں کو بھاری معاوضہ دلوا کر معافی نامہ لکھوانے میں مصروف عمل تھیں۔ مقتولین کے ورثا کو امریکی شہریت کی پیشکش بھی کروائی جارہی تھی۔
تفتیشی افسران کا کہنا تھا کہ پولیس کی طرف سے قتل کا چالان بھیجا گیا ہے لیکن اب ریمنڈ کو صرف اسلامی قانون ہی بچائے گا جس میں مدعیوں کو قصاص دے کر معافی دلوائی جائے گی۔ قابل افسوس بات یہ ہے کہ اس رپورٹ کے بعد بھی فوزیہ وہاب ڈیوس کا دفاع کرتے ہوئے نظر آئیں کہ ریمنڈ کو استثنیٰ حاصل ہے اسے کسی صورت گرفتار نہیں کیا جاسکتا۔ بعد ازاں 20 فروری کے اخبارات میں فوزیہ وہاب کے پارٹی عہدے سے استعفے کی خبر شائع ہوئی جس میں فوزیہ وہاب نے ریمنڈ ڈیوس سے متعلق بیان کے حوالے سے لاہور ہائی کورٹ جانے پر پارٹی عہدہ چھوڑنے کو ترجیح دی۔
16 فروری کے اخبارات میں مقتول فیضان کے بھائی کا بیان شائع ہوا کہ ''خون بہا لیں گے اور نہ ہی کوئی راضی نامہ ہوگا، امریکی صدر بھی آجائیں تو اپنے موقف سے پیچھے نہیں ہٹیں گے، کیس واپس نہیں لیں گے، خون کا بدلہ خون چاہتے ہیں۔'' 19 فروری کو مقتول فہیم کے بھائی وسیم کا بیان شائع ہوا ''پرائیویٹ نمبرز سے ٹیلی فون آرہے ہیں کہ پیسے اور امریکا کا ویزا لے کر ریمنڈ ڈیوس کو معاف کردو، اس کیس سے کچھ نہیں ہوگا بلکہ تمام اہل خانہ شدید مشکلات میں مبتلا ہوجائو گے۔'' لواحقین کا کہنا تھا کہ بعض سیاسی شخصیات بھی دبائو ڈال رہی ہیں، انھوں نے کہا کہ ہم اپنے بچوں کا خون نہیں بیچیں گے اور ملزمان کو معاف نہیں کریں گے۔ اور اس عزم کا اظہار تینوں مقتولین کے ورثا فیصلے کے آخری دن تک کرتے رہے۔
اسی روز کے اخبارات میں صدر، وزیراعظم اور آرمی چیف جنرل کی ملاقات کی بریفنگ شائع ہوئی جس میں واضح کیا گیا کہ ریمنڈ کیس کا فیصلہ عوامی خواہشات کے مطابق کیا جائے گا اور جو بھی فیصلہ ہوگا اس پر قوم کو بھی اعتماد میں لیا جائے گا۔ (یعنی اب یہ کیس دو فریقین کے درمیان نہیں بلکہ مجرم اور ایک قوم کے درمیان آگیا)
24 فروری کو امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ کے مطابق ''ریمنڈ ڈیوس پاکستانی عوام کی نظر میں دشمن نمبر ایک کا کردار اختیار کرگیا ہے۔''
یہ سب خبریں اور اخباری بیانات جاری تھے کہ 16 مارچ 2011 کو ریمنڈ ڈیوس کو 2.4 ملین ڈالر (20 کروڑ روپے) دیت ادا کرنے پر رہا کردیا گیا۔ اسلامی قانون کے مطابق دیت کی ادائیگی متاثرہ خاندان کی مرضی پر منحصر ہے جبکہ انھیں کسی طرح مجبور نہ کیا جائے لیکن الجزیرہ ٹی وی کے مطابق دونوں خاندانوں کو دیت لینے پر مجبور کیا گیا۔ آئندہ کے اخبارات میں عوامی ردعمل آیا کہ ورثا کا یہ اقدام قوم کے ساتھ مذاق کے مترادف تھا۔ مزید خبروں کے مطابق مقتولین کے ورثا اپنے خاندان سمیت پاکستان سے باہر منتقل ہوگئے۔ افسوس راقم کو کوشش کے باوجود مزید فالو اپ نہیں مل سکا کہ وہ ورثا اب کہاں ہیں؟ زندہ بھی ہیں یا نہیں؟
اس طویل تر تمہید کا مقصد صرف ریمنڈ ڈیوس کیس کی یاد دہانی نہیں بلکہ آج کل ملک میں اٹھنے والا شاہ زیب قتل کیس کا غلغلہ ہے۔ اور وہ چھوٹی خبر یا افواہ جو اس کالم کا محرک بنی وہ یہ ہے کہ شاہ زیب کے والد کو بھی 25 کروڑ دیت کی آفر ہوئی ہے۔ بے شک شاہ زیب کے والد نے یہ آفر ٹھکرا دی ہے اور اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ وہ اپنے بیٹے کے قاتلوں کو کیفر کردار تک پہنچائیں گے۔ لیکن ایک خدشہ ذہن میں اٹھتا ہے کہ آج جس کیس کی مدعی پوری قوم ہے کیا اس کا منطقی انجام بھی ریمنڈ ڈیوس کیس کی طرح ہوگا؟ ریمنڈ ڈیوس اور شاہ زیب قتل کیس میں بظاہر کوئی مماثلت نہیں، لیکن موازنہ کرنے پر کافی کچھ یکساں لگتا ہے، وہاں ظلم کرنے والے غیر تھے لیکن آج اپنے ہم قوم ہیں لیکن طاقت کی زبان وہاں تھی تو یہاں بھی امارت کا گھمنڈ ہے۔
وہاں بھی قوم مظلوم کے ساتھ تھی یہاں بھی پوری قوم کے بوڑھے و جوان شاہ زیب کے والد کے ساتھ ہیں۔ اُس کیس میں مقتول کا بھائی رپورٹ درج کرانے میں ناکام تھا اور یہاں والد ڈی ایس پی ہوتے ہوئے مجبور تھا جب تک کہ عدالت نے نوٹس نہ لے لیا۔ اُس دوران بھی پوری قوم سراپا احتجاج تھی اور آج بھی الیکٹرانک، پرنٹ اور سوشل میڈیا پر احتجاج و مذمت جاری ہے۔ مجرم کو بچانے کے لیے طاقت کا استعمال وہاں بھی تھا اور یہاں بھی کیس ختم کرنے کے لیے دبائو ڈالا جارہا ہے۔
اب ذرا دھیان دیجیے 9 جنوری کو گواہوں کا عدالت میں بیان لیا جاتا ہے لیکن مرکزی ملزم شاہ رخ جتوئی کا نام تک نہیں لیا جاتا، ایک خدشہ پیدا ہوتا ہے کہ کہیں گواہوں کو خرید تو نہیں لیا گیا لیکن11 جنوری کو دو عینی گواہ عدالت میں پیش ہوتے ہیں اور بیان دیتے ہیں کہ گولیاں شاہ رخ جتوئی اور سکندر تالپور نے چلائیں۔ کیس ابھی کس سمت جائے گا فی الحال کچھ کہنا مشکل ہے، ہم صرف امید ہی کرسکتے ہیں کہ اس مرتبہ قوم کے جذبات و احساسات کا خیال رکھا جائے گا۔
واقعے کی ابتدا ہم 27 جنوری 2011 سے کرتے ہیں جب لاہور میں ایک امریکی ریمنڈ ڈیوس نے فائرنگ کرکے دو پاکستانیوں کو ہلاک کردیا تھا جبکہ اسے مشتعل ہجوم سے بچانے کے لیے امریکی سفارت خانے کے ڈرائیور نے تیزی اور لاپرواہی سے ڈرائیونگ کرتے ہوئے ایک شہری کو کچل ڈالا تھا۔ واقعہ چونکہ محض دو سال پرانا ہے اس لیے آپ سب کو یاد ہوگا کہ پاکستان بھر میں اس پر کیا ردعمل سامنے آیا تھا۔ قارئین کی یادداشت کو واضح کرنے کے لیے ہم تمام واقعہ اختصار اور دیگر مستند حوالوں کے ساتھ دوبارہ پیش کرتے ہیں۔
27 جنوری 2011 کو ریمنڈ ڈیوس نے لاہور میں دو پاکستانیوں کو فائرنگ کرکے ہلاک کردیا۔29 جنوری کو ریمنڈ کو عدالت میں پیش کیا گیا اور اسے 6 روزہ ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کردیا گیا۔ ریمنڈ ڈیوس نے اپنی پہلی پیشی پر موقف اختیار کیا کہ اس نے یہ اقدام اپنے دفاع کی خاطر اٹھایا۔ جبکہ ڈپٹی پراسیکیوٹر جنرل رانا بختیار کے مطابق دونوں مقتولین کو پیچھے سے گولیاں ماری گئیں جسے سیلف ڈیفنس قرار نہیں دیا جاسکتا۔ بعد ازاں ڈپٹی پراسیکیوٹر جنرل کو ان کے بیان کے بعد کہ ملزم کو سفارتی استثنیٰ حاصل نہیں پر ریمنڈ ڈیوس کیس سے علیحدہ کردیا گیا جس پر رانا بختیار نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا۔
واضح رہے کہ امریکی سفارت خانے کی طرف سے بار بار یہ بیان جاری کیا گیا کہ ''امریکی سفارتکار کو گرفتار کرنا سفارتی تعلقات کے ویانا کنونشن کی خلاف ورزی ہے، گرفتار شدہ ان کا سفارتکار امریکی سفارتخانے میں متعین ہے۔'' جبکہ امریکی ٹی وی اے بی سی نیوز اور ہوفنگٹن پوسٹ اخبار کے مطابق ریمنڈ ڈیوس ہائپریون پروٹیکٹو کنسلٹنٹ ایل ایل سی کا ملازم تھا۔ ریاست فلوریڈا کے شہر اورلینڈو میں قائم یہ کمپنی سی آئی اے جیسی کارروائی کرتی ہے لیکن بظاہر کیڑے مار ادویات اور دیگر خدمات فراہم کرتی ہے۔ بالآخر 22 فروری کو امریکی حکام نے ریمنڈ ڈیوس کو سی آئی اے کا اہلکار تسلیم کرلیا۔
6 فروری 2011 کو مقتول فہیم کی 18 سالہ حاملہ بیوہ شمائلہ کنول نے انصاف نہ ملنے کے خدشے پر دلبرداشتہ ہو کر زہریلی گولیاں کھالیں، اسپتال میں شمائلہ کنول نے مرنے سے پہلے ایکسپریس نیوز کو بیان دیا کہ اس کے شوہر کے امریکی قاتل کو سزا دینے کے بجائے مہمان بنا کر رکھا گیا ہے، اسے حکومت سے انصاف کی توقع نہیں۔
ہفتہ 12 فروری کے اخبارات میں یہ رپورٹ شائع ہوئی کہ پولیس ذرائع کے مطابق ریمنڈ نے مقتولین کو دانستہ قتل کرنے کا اعتراف جرم کرلیا ہے۔ 15 فروری کی خبروں کے مطابق ریمنڈ ڈیوس کو قتل کیس میں سزا سے بچانے کے لیے اہم شخصیات متحرک ہوگئیں جو کیس کے مدعیوں کو بھاری معاوضہ دلوا کر معافی نامہ لکھوانے میں مصروف عمل تھیں۔ مقتولین کے ورثا کو امریکی شہریت کی پیشکش بھی کروائی جارہی تھی۔
تفتیشی افسران کا کہنا تھا کہ پولیس کی طرف سے قتل کا چالان بھیجا گیا ہے لیکن اب ریمنڈ کو صرف اسلامی قانون ہی بچائے گا جس میں مدعیوں کو قصاص دے کر معافی دلوائی جائے گی۔ قابل افسوس بات یہ ہے کہ اس رپورٹ کے بعد بھی فوزیہ وہاب ڈیوس کا دفاع کرتے ہوئے نظر آئیں کہ ریمنڈ کو استثنیٰ حاصل ہے اسے کسی صورت گرفتار نہیں کیا جاسکتا۔ بعد ازاں 20 فروری کے اخبارات میں فوزیہ وہاب کے پارٹی عہدے سے استعفے کی خبر شائع ہوئی جس میں فوزیہ وہاب نے ریمنڈ ڈیوس سے متعلق بیان کے حوالے سے لاہور ہائی کورٹ جانے پر پارٹی عہدہ چھوڑنے کو ترجیح دی۔
16 فروری کے اخبارات میں مقتول فیضان کے بھائی کا بیان شائع ہوا کہ ''خون بہا لیں گے اور نہ ہی کوئی راضی نامہ ہوگا، امریکی صدر بھی آجائیں تو اپنے موقف سے پیچھے نہیں ہٹیں گے، کیس واپس نہیں لیں گے، خون کا بدلہ خون چاہتے ہیں۔'' 19 فروری کو مقتول فہیم کے بھائی وسیم کا بیان شائع ہوا ''پرائیویٹ نمبرز سے ٹیلی فون آرہے ہیں کہ پیسے اور امریکا کا ویزا لے کر ریمنڈ ڈیوس کو معاف کردو، اس کیس سے کچھ نہیں ہوگا بلکہ تمام اہل خانہ شدید مشکلات میں مبتلا ہوجائو گے۔'' لواحقین کا کہنا تھا کہ بعض سیاسی شخصیات بھی دبائو ڈال رہی ہیں، انھوں نے کہا کہ ہم اپنے بچوں کا خون نہیں بیچیں گے اور ملزمان کو معاف نہیں کریں گے۔ اور اس عزم کا اظہار تینوں مقتولین کے ورثا فیصلے کے آخری دن تک کرتے رہے۔
اسی روز کے اخبارات میں صدر، وزیراعظم اور آرمی چیف جنرل کی ملاقات کی بریفنگ شائع ہوئی جس میں واضح کیا گیا کہ ریمنڈ کیس کا فیصلہ عوامی خواہشات کے مطابق کیا جائے گا اور جو بھی فیصلہ ہوگا اس پر قوم کو بھی اعتماد میں لیا جائے گا۔ (یعنی اب یہ کیس دو فریقین کے درمیان نہیں بلکہ مجرم اور ایک قوم کے درمیان آگیا)
24 فروری کو امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ کے مطابق ''ریمنڈ ڈیوس پاکستانی عوام کی نظر میں دشمن نمبر ایک کا کردار اختیار کرگیا ہے۔''
یہ سب خبریں اور اخباری بیانات جاری تھے کہ 16 مارچ 2011 کو ریمنڈ ڈیوس کو 2.4 ملین ڈالر (20 کروڑ روپے) دیت ادا کرنے پر رہا کردیا گیا۔ اسلامی قانون کے مطابق دیت کی ادائیگی متاثرہ خاندان کی مرضی پر منحصر ہے جبکہ انھیں کسی طرح مجبور نہ کیا جائے لیکن الجزیرہ ٹی وی کے مطابق دونوں خاندانوں کو دیت لینے پر مجبور کیا گیا۔ آئندہ کے اخبارات میں عوامی ردعمل آیا کہ ورثا کا یہ اقدام قوم کے ساتھ مذاق کے مترادف تھا۔ مزید خبروں کے مطابق مقتولین کے ورثا اپنے خاندان سمیت پاکستان سے باہر منتقل ہوگئے۔ افسوس راقم کو کوشش کے باوجود مزید فالو اپ نہیں مل سکا کہ وہ ورثا اب کہاں ہیں؟ زندہ بھی ہیں یا نہیں؟
اس طویل تر تمہید کا مقصد صرف ریمنڈ ڈیوس کیس کی یاد دہانی نہیں بلکہ آج کل ملک میں اٹھنے والا شاہ زیب قتل کیس کا غلغلہ ہے۔ اور وہ چھوٹی خبر یا افواہ جو اس کالم کا محرک بنی وہ یہ ہے کہ شاہ زیب کے والد کو بھی 25 کروڑ دیت کی آفر ہوئی ہے۔ بے شک شاہ زیب کے والد نے یہ آفر ٹھکرا دی ہے اور اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ وہ اپنے بیٹے کے قاتلوں کو کیفر کردار تک پہنچائیں گے۔ لیکن ایک خدشہ ذہن میں اٹھتا ہے کہ آج جس کیس کی مدعی پوری قوم ہے کیا اس کا منطقی انجام بھی ریمنڈ ڈیوس کیس کی طرح ہوگا؟ ریمنڈ ڈیوس اور شاہ زیب قتل کیس میں بظاہر کوئی مماثلت نہیں، لیکن موازنہ کرنے پر کافی کچھ یکساں لگتا ہے، وہاں ظلم کرنے والے غیر تھے لیکن آج اپنے ہم قوم ہیں لیکن طاقت کی زبان وہاں تھی تو یہاں بھی امارت کا گھمنڈ ہے۔
وہاں بھی قوم مظلوم کے ساتھ تھی یہاں بھی پوری قوم کے بوڑھے و جوان شاہ زیب کے والد کے ساتھ ہیں۔ اُس کیس میں مقتول کا بھائی رپورٹ درج کرانے میں ناکام تھا اور یہاں والد ڈی ایس پی ہوتے ہوئے مجبور تھا جب تک کہ عدالت نے نوٹس نہ لے لیا۔ اُس دوران بھی پوری قوم سراپا احتجاج تھی اور آج بھی الیکٹرانک، پرنٹ اور سوشل میڈیا پر احتجاج و مذمت جاری ہے۔ مجرم کو بچانے کے لیے طاقت کا استعمال وہاں بھی تھا اور یہاں بھی کیس ختم کرنے کے لیے دبائو ڈالا جارہا ہے۔
اب ذرا دھیان دیجیے 9 جنوری کو گواہوں کا عدالت میں بیان لیا جاتا ہے لیکن مرکزی ملزم شاہ رخ جتوئی کا نام تک نہیں لیا جاتا، ایک خدشہ پیدا ہوتا ہے کہ کہیں گواہوں کو خرید تو نہیں لیا گیا لیکن11 جنوری کو دو عینی گواہ عدالت میں پیش ہوتے ہیں اور بیان دیتے ہیں کہ گولیاں شاہ رخ جتوئی اور سکندر تالپور نے چلائیں۔ کیس ابھی کس سمت جائے گا فی الحال کچھ کہنا مشکل ہے، ہم صرف امید ہی کرسکتے ہیں کہ اس مرتبہ قوم کے جذبات و احساسات کا خیال رکھا جائے گا۔