پاک افغان کشیدگی
جس عمارت کی بنیاد ہی ٹیڑھی رکھی گئی ہو، اس کا سیدھا ہونا بہت مشکل ہے
جس عمارت کی بنیاد ہی ٹیڑھی رکھی گئی ہو، اس کا سیدھا ہونا بہت مشکل ہے۔ پاک افغان تعلقات کے حوالے سے تلخ حقیقت یہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ طالبان کے مختصر سے دورحکمرانی کے سوائے دونوں ممالک کے باہمی تعلقات کبھی بھی خوش گوار نہیں رہے۔ بہ ظاہر دونوں ممالک اسلام کے ناتے سے برادر ہیں اوردونوں کے درمیان ثقافتی رشتے بھی بڑے گہرے ہیں۔
افغانستان چونکہ ہر طرف سے خشکی سے گھرا ہوا ایک Landlocked ملک ہے اس لیے بھی اسے راہداری کی سہولت درکار ہے جو اسے پاکستان نے ہمیشہ سے فراہم کی ہوئی ہے، لیکن اس کے باوجود اس نے شروع سے ہی پاکستان کے خلاف مخالفانہ اورجارحانہ رویہ اختیارکیا ہوا ہے اورمسلسل احسان فراموشی کا ثبوت دیا ہے۔ پاکستان دشمنوں کی پرورش اور سرپرستی اس کے حکمرانوں کی گھٹی میں شامل رہی ہے۔
اس حقیقت کو بھلاکون بھلاسکتا ہے کہ ماضی میں پاکستان میں شورش برپا کرنے والے عناصر نے افغان حکمرانوں ہی کے سائے میں پناہ حاصل کی تھی اور یہی کہانی آج پھر دہرائی جارہی ہے۔اصل بات یہ ہے کہ افغان حکمران ازل سے ہی پاکستان کے ازلی اور سب سے بڑے دشمن بھارت کے ہاتھوں میں کٹھ پتلیاں بنے ہوئے ہیں اورشروع سے لے کر آج تک اسی کے اشاروں پر ناچ رہے ہیں۔ بھاڑے کے ٹٹو افغان حکمرانوں کی پاکستان دشمنی کا اس سے بڑا ثبوت بھلا اورکیا ہوگا کہ پاکستان کے معرض وجود میں آنے کے بعد اس نے بڑی مشکل سے اور سب سے آخر میں تسلیم کیا تھا۔
ہماری آنکھوں میں وہ منظرآج تک محفوظ ہے جب افغان حکمرانوں ظاہر شاہ اور سردار داؤد کا دہلی کے رام لیلا گراؤنڈ میں زبردست سواگت کیا جا رہا تھا اور وہ اس وقت کے بھارتی وزیراعظم پنڈت جواہر لعل نہروکے ساتھ انتہائی گرم جوشی کے ساتھ بغل گیر ہورہے تھے۔ افغان حکمرانوں کا حال آج بھی وہی ہے کیونکہ وہ پاکستان کے کھلے دشمن اور ہزاروں بھارتی مسلمانوں کے قاتل بھارتی وزیراعظم نریندر مودی (جسے موذی کہنا زیادہ مناسب ہوگا) کے آلۂ کار بن کر پاکستان کے خلاف مکروہ سازشوں کے جال بننے اور بچھانے میں مصروف ہیں۔
یہ حقیقت بھی اب کسی سے پوشیدہ نہیں ہے کہ بھارت افغان شہریوں کو پاکستان کے خلاف استعمال کرنے کے لیے اپنے یہاں ہر طرح کی سہولیات اور غیر معمولی رعایات فراہم کر رہا ہے اور داعش کا بھارت سے کرائے کے لوگ حاصل کرنا کوئی مشکل کام نہیں ہے۔
مصدقہ اطلاعات یہ ہیں کہ بھارت کی بدنام زمانہ خفیہ ایجنسی ''را''اور افغان ایجنسی ''این ڈی ایس'' پاکستان مخالف دہشت گردوں کی پشت پناہی کررہی ہے اورانھیں تمام مطلوبہ سہولتیں مہیا کررہی ہیں۔امیدکی گئی تھی کہ ماسکو میں منعقدہ سہ ملکی اجلاس کے انعقاد کے نتیجے میں جو چین، پاکستان اورروس پر مشتمل تھا۔ بدامنی اورخلفشارکا شکار افغانستان میں امن کی بحالی کی راہیں ہموار ہوجائیںگی۔ یہ بھی طے پایا تھا کہ آیندہ ہونے والے اجلاس میں افغانستان کو بھی شریک کیا جائے۔
توقع یہ بھی تھی کہ اس اجلاس کے بعد پاک افغان تعلقات میں کچھ بہتری آئے گی مگر افسوس صد افسوس کہ ان تمام امیدوں پر پانی پھرگیا اور لاہور اور سیہون شریف کے بم دھماکوں کے بعد پاک افغان تعلقات سانپ سیڑھی کے کھیل کی طرح کشیدگی کا شکار ہوکر دوبارہ پستی کی جانب چلے گئے۔ ایسا ہونا عین فطری تھا کیونکہ ان دھماکوں کے پسِ پشت ان دہشت گردوں کا ہاتھ تھا جنھوں نے سوات آپریشن اورضرب عضب کے بعد فرار حاصل کرکے افغان حکمرانوں کے زیر سایہ پناہ لے رکھی ہے۔ چنانچہ ان دھماکوں کے بعد آنے والا رد عمل قطعی فطری تھا۔
پاکستان نے افغان سفارت کارکی طلبی کی اوران واقعات میں ملوث دہشت گردوں کی فہرست اس کے ہاتھوں میں تھمادی اوران کارروائیوں میں ملوث افراد کے خلاف سخت ایکشن لینے کا مطالبہ کردیا جوکہ سراسر جائز تھا۔ دوسرے فطری اقدام کے طور پر پاکستان نے پاک افغان سرحد کو غیر معینہ مدت کے لیے بند کردیا جس پر افغان حکمران طیش میں آگئے اور چراغ پا ہوگئے۔ تناؤکی اس کیفیت میں افغانستان سے آنے والے دہشت گردوں نے پاکستان کے علاقے میں واقع مہمند ایجنسی میں گھس بیٹھ کرکے تین سرحدی چوکیوں پر حملہ کرکے ہمارے پانچ فوجی جوانوں کو شہید کردیا۔
پاک فوج کی جوابی فائرنگ کے نتیجے میں 10 سے زیادہ افغان جنگجو ہلاک ہوگئے۔ اس کے بعد دونوں ممالک کے درمیان پہلے سے موجود کشیدگی اپنی انتہائی حد کو پہنچ گئی جوکہ نہ صرف ان دونوں پڑوسی ممالک کے لیے بلکہ پورے خطے کے لیے بے حد تشویش اورخطرات کا باعث ہے۔افغانستان کی خانہ جنگی جو ایک عرصے سے مسلسل جاری ہے اب اپنے نکتۂ عروج پر ہے۔ کابل انتظامیہ جس کی باگ ڈورصدر اشرف غنی کے ہاتھوں میں ہے۔ اس کی گرفت ڈھیلی پڑتی نظر آرہی ہے جس کے نتیجے میں کابل کی داخلی صورت حال بھی بہت مخدوش دکھائی دے رہی ہے۔
ادھر شام اورعراق میں پسپائی کے بعد داعش والے افغانستان میں اپنے پنجے گاڑنے کی کوشش کررہے ہیں کیونکہ اس ملک میں انھیں پناہ گاہیں میسر آرہی ہیں۔ کابل حکمرانوں کی کمزوری اور بھارت کی خفیہ ایجنسی ''را'' کی در پردہ حمایت نے ان کے لیے راستہ ہموارکردیا ہے۔ اس کے علاوہ اس قسم کی اطلاعات بھی گردش میں ہیں کہ انتہا پسند بھارتی نوجوان بھی چھپکے چھپکے ان کی صفوں میں آکر شامل ہورہے ہیں جوکہ آیندہ پاکستان کے لیے خطرے کی گھنٹی کے مترادف ہے۔
دریں اثنا یہ اطلاعات بھی موجود ہیں کہ پاکستان کے باخبرعسکری ذرایع نے نئی امریکی انتظامیہ کی فوجی قیادت کو خبردار کردیا ہے کہ اگر امریکا اوربرطانیہ نے افغانستان میں داعش کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کو لگام نہ دی تو آنے والے دنوں میں انھیں کسی ابتر صورتحال سے دوچارہونا پڑسکتا ہے۔ اس کے علاوہ اس قسم کی صورتحال آگے چل کر خود بھارت کے لیے بھی خطرناک ثابت ہوسکتی ہے اور پاکستان اور افغانستان کے علاوہ یہ چین کے لیے بھی مشکلات پیدا کرسکتی ہے۔
لہٰذا حالات کا تقاضا یہ ہے کہ سب کے مشترکہ مفاد میں اس صورتحال پرکڑی نظر رکھی جائے اوراسے بے قابو ہونے سے روکا جائے۔ یہ بات انتہائی باعث اطمینان ہے کہ اس معاملے میں سول اورعسکری قیادت ایک ہی صفحے پر ہیں اور پوری قوم کی قوت اور حمایت ان کی پشت پر ہے۔
جہاں تک افغانستان کے عام شہریوں کا تعلق ہے توان بے چاروں کی حالت انتہائی قابل رحم ہے اور وہ ایک مدت دراز سے حالات کی چکی میں بری طرح سے پس رہے ہیں۔ انھیں اس حقیقت کا احساس ہوجانا چاہیے کہ ان کے موجودہ اورماضی کے حکمرانوں میں سے اکثرکی حیثیت بیرونی قوتوں کے ایجنٹوں کی سی رہی ہے جنھیں اپنے عوام سے نہیں بلکہ اپنے غیر ملکی آقاؤں کے مفاد کے تحفظ سے ہی زیادہ دلچسپی رہی ہے گویا:
اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے
افغان عوام کو اس حقیقت سے بھی آشنا ہوجانا چاہیے کہ پاکستان نے ان کے دفاع کے لیے اپنے وجود تک کو داؤ پر لگادیا اور لاکھوں افغان شہریوں کو مدت دراز سے پناہ دیتا رہا ہے۔ پاکستان کی یہ تمام قربانیاں روز روشن کی طرح عیاں ہیں جنھیں کسی بھی طرح سے جھٹلانا ممکن نہیں ہے۔ افغان شہریوں کو اس حقیقت کا اعتراف بھی کرلینا چاہیے کہ پاکستان اسلامی بھائی چارے کے ناتے بھی ان کا سب سے بڑا مخلص اورخیرخواہ ہے اور اس کا وجود اور استحکام ان کی اپنی بقا اور سلامتی کا ضامن ہے۔
انھیں یہ بھی سوچنا چاہیے کہ جس بھارت میں مسلمان شہریوں کا قتل عام ہورہا ہو اور جس کے ہاتھ مظلوم کشمیریوں کے خون میں رنگے ہوئے ہوں وہ افغانستان اوراس کے عوام سے بھلا کیسے مخلص ہوسکتا ہے۔ پاک افغان کشیدگی بھارت کی بھائی کو بھائی سے لڑوانے کی مکروہ و مذموم سازش ہے جسے ناکام بنانا دونوں برادر ممالک اوران کے عوام کا اولین فرض ہے۔ پاکستان کی حکومت اور عوام اپنے اس فرض سے نہ صرف بخوبی آگاہ ہیں بلکہ صدق دل سے اورعمل سے اس کے لیے ہمیشہ سے کوشاں بھی ہیں۔