پی ایس ایل فائنل لاہور کی لذت
بہت سے دانشوران کرام لاہور میں پی ایس ایل فائنل کروائے جانے کے اس عمل پر معترض تھے
سراسیمگی کے بادل: دہشتگردی کی تازہ ترین کارروائیوں کے نتیجے میں قوم پر جوسوگ کی کیفیت چھا گئی تھی اس کے اثرات کوکم کرنے اوراقوام عالم کو دہشتگردی سے نبرد آزما اپنے قومی آہنی عزم کا پیغام پہچانے کی خاطر پی ایس ایل فائنل مغل شان وشوکت کے شاہکاراور زندہ دلوں کے شہرلاہورمیں منعقد کروایا گیا۔ پی ایس ایل فائنل کے موقعے پرلاہور نے ایک بار پھر دہشتگردی و جارحیت کے خلاف پاکستان کے قومی جذبے کی شگفتگی اورتروتازگی کودنیا پرآشکارکرنے میں اپنا کردار اداکیا ہے، حالانکہ ان دنوں میں یہ شہر ''تخت لاہور'' کی اصطلاح اورسوچ کا مرکزبنا ہوا ہے، لیکن ان باتوں کے باوجود ملک میں حالیہ دہشتگردکارروائیوں خصوصی طور سانحہ سیہون کے باعث قوم پرجوسراسیمگی کے بادل چھائے ہوئے تھے وہ پی ایس ایل فائنل کے باعث اب چھٹ چکے ہیں۔
عالمی کرکٹ، رکاوٹیں: پاکستان اپنے قیام کے پہلے دن سے جارحیت اورانتہا پسندانہ کارروائیوں کا شکار رہتا آیا ہے، لیکن نائن الیون کے تسلسل میں دنیا کے سب سے بڑے انتہا پسند یعنی امریکا بہادرکو اپنے ایئربیس دینے سے لے کر سانحہ سیہون تک پاکستان ہرروزاپنے طاقتوردشمنوں کی نت نئی اورگہری سازشوں کو ناکام بنانے میں سرگرداں رہتا آیا ہے۔اس دورانیے کواگر ہنگامی عرصے کا نام دیا جائے تو شایدکوئی مضائقہ نہ ہوگا۔ ایسے ہی ہنگامی حالات میں سانحہ سیہون نے قوم پر سوگوارکیفیت طاری کردی تھی وہیں دیگر پہلوؤں کے علاوہ عالمی کرکٹ کی پاکستان سے منتقلی کے امکانات کو عملی شکل بھی دینی شروع کردی تھی ،کیونکہ 1987اور 1996کے ورلڈ کپ کی میزبانی کرنے والے ملک پاکستان میں مئی 2002میں نیوزی لینڈ تین ٹیسٹ میچزکھیلنے آئی اور دوسرے ٹیسٹ کے لیے دونوں ٹیمیں کراچی آئیں تو8مئی کوصبح ہوٹل کے باہر بم دہماکے میں 11فرانسیسی انجینئرزہلاک ہوگئے اور نیوزی لینڈ ٹیم واپس چلی گئی اور جب پی سی بی نے آئی سی سی اوردوسرے بوڈزکو پاکستان میں انٹر نیشنل کرکٹ کی بحالی پرآمادہ کرکے انگلینڈ ، بھارت اورجنوبی افریقہ کے خلاف ہوم سیریزکا موقعہ دلایا تو 3مارچ 2009کو لاہور کی لبرٹی مارکیٹ میں سری لنکن ٹیم پر دہشتگردوں کا حملہ ہوا۔ جس میں 6مہمان کرکٹرز، ایک پاکستانی امپائر اورانگلش میچ ریفری زخمی ہوئے ۔اس حملے نے پاکستان میں انٹرنیشنل کرکٹ پر کاری ضرب لگائی اور پی سی بی نے اپنی تمام ہوم سیریزمتحدہ عرب امارات میں کروائیں ۔ٹی ٹونٹی کرکٹ کی مقبولیت کے پیش نظر دیگرملکوں کی طرح پاکستان نے بھی سپرلیگ کا پلان بنایا ۔غیرملکی کرکٹرز، میچ آفیشلز،انٹرنیشنل میڈیا،اسپانسرزاورشائقین کے انکار پراس ایونٹ کی میزبانی بھی یو اے ای میں رکھوائی گئی۔ اولین ایڈیشن کی طرح دوسری بار مقابلے بھی یو اے ای میں کرائے گئے لیکن سانحہ سیہون سمیت دہشت گردی کی حالیہ بھیانک کارروائیوں کے باعث فائنل لاہور میں کروانے کا اعلان کیا گیا۔جس سے دہشتگرد اور ان کے سرپرستوں سمیت پاکستان دشمن قوتوں کو یہ پیغام دینا مقصود تھا کہ وہ دہشتگردی،انتہا پسندی اورجارحیت کے خلاف ہمارے آہنی قومی عزم کو شکست نہیں دے سکتے۔ پی ایس ایل فائنل لاہور میں منعقد کروانے سے انٹرنیشنل کرکٹ کی پاکستان میں واپسی کی راہ ہموارکرنے میں بھی مدد ملی ہے ۔اب دیکھنا صرف یہ ہے کہ پاکستان کی سرزمین پرانٹر نیشنل کرکٹ کی واپسی میں کتنا وقت لگتا ہے اورکون کون سی رکاوٹیں کھڑی ہونے والی ہیں ۔
درست وغلط کی بحث: بہت سے دانشوران کرام لاہور میں پی ایس ایل فائنل کروائے جانے کے اس عمل پر معترض تھے ۔بعض نے تو یہاں تک کہہ دیا تھاکہ اتنی سخت سیکیورٹی کے زیرسایہ شام وعراق میں بھی فائنل کروایا جاسکتا ہے ۔اتنی سخت سیکیورٹی میں اہل لاہوربری طرح متاثرہوئے ہیں۔ لوگوں کے کاروبار زندگی معطل ، روزانہ اجرت پر کام کرنے والے بیروزگارہوئے ، اسکول ،کالجز اور دفاتر میں کام کرنے والے پریشان رہے ۔ان میں سے کئی ایک ملک وقوم کے لیے سب کچھ قربان کردینے کے عزم کا بھی اظہارکرتے رہے، جو کہ بلاشبہ قابل ستائش عمل تھا۔ اس سارے منظرنامے میں لاہور نے کرکٹ شائقین کو پاکستان کامکمل نقشہ پیش کردیا تھا۔ یعنی ایک طرف حکومتی عہدیداران کی خواہ مخواہ کی سخت سیکیورٹی سے نالاں ملکی عوام قومی عزم واستقلال کے اظہار کے لیے جس طرح صبرواستقامت کواپنائے ہوئے تھے ۔اس کے تسلسل کا بہترین مظاہرہ لاہوریوں نے پی ایس ایل فائنل کے وقت کیا ۔دنیا کو جتنا اہم وبنیادی پیغام بھیجا جانا مقصود تھا اس کا سو فی صدی حق ادا کیا گیا۔البتہ جو سیکیورٹی کے ان انتظامات پرمعترض تھے ان کو سمجھنا چاہیے کہ دہشتگردی، انتہا پسندی اورجارحانہ عزائم کے خلاف ہمارے قومی آہنی عزم کے اظہاراوراقوام عالم کو اس ضمن میں مثبت پیغام دینے کے کام میں عام طورپرکرکٹ اورخاص طور موجودہ حالات میں پی ایس ایل فائنل کتنا اہم رول پلے کررہا تھا۔اس پیغام کو سیاسی، سفارتی یا میڈیا کی سطح پرکی جانے والی پروپیگنڈے کے مقابلے جتنے وسائل درکار تھے۔ اس سے کہیں کم سطح پر ہم نے وہ کام اس سے لیا ہے ۔ ریاستی ادارے بھی توقومی عزم واستقلال کے اظہارکے لیے ہوتے ہیں نا ؟ تو اس میں اگر سول اداروں کے ہزاروں عملداروں اور فوج کی کثیرنفری نے اپنے فرائض سرانجام دیے تو اس پر اعتراض کی کیا بات رہ جاتی ہے؟ بلا شبہ پی ایس ایل فائنل بہ احسن انداز میں لاہور میں منعقد کروانے اور اس کوکامیاب کروانے میں کردار نبھانے والے تمام ادارے، پورے ملک سمیت دنیا بھر سے شرکت کرنے والے اور میزبانی کا شرف رکھنے والے لاہوریے قابل ستائش ہیں ۔
اہم پیغام : جس طرح پنجاب پانچ دریاؤں کے خوبصورت ملاپ کی سرزمین ہے اور پنجابی زبان علاقائی زبانوں کوایک دوسرے کے قریب لانے کے بہت سارے اسباب اپنے اندر سمائے ہوئے ان کے درمیان ایک پل کا کردار ادا کرتی آئی ہے۔بالکل اسی طرح زندہ دل وجواں سال پنجابیوں کا شہر لاہور بھی عالم انسانیت کے دواہم ارتقائی مرحلوں کے قدیم انداز کی جدید امتزاجی جلوہ نمائی کا شاہکاردکھائی دیتا ہے ۔ لاہور اور لاہوریوں کا انداز دلربائی اوراپنائیت سے بھرپوراظہار تو ملاحظہ فرمایے کہ کرکٹ سے فارغ ہوتے ہی شائقین ہمارے قومی، تاریخی ورثوں کو دیکھے بغیر لاہور چھوڑنے والے نہیں ہیں /تھے۔ جن میں برصغیرکی تاریخ میں پہلی بار مضبوط مرکزی ریاست کی بنیادیں رکھنے والے مسلمانوں کے عظیم الشان محلات وعمارتیںاور برصغیرکے مسلمانوں کی لازوال نشاۃ ثانیہ کی ابتدائی یادگار یعنی مینار پاکستان کو شامل کرسکتے ہیں ۔جوکہ مضبوط مرکزی ریاست کی اہمیت وضرورت کے نہ صرف ناقابل تردید عظیم ثبوت ہیں بلکہ یہ عمارتیں ہمارے قائدانہ کردار اور صلاحیتوں کے بہترین پیغام کا کام بھی کرتی ہیں ۔یعنی کرکٹ کی معارفت ہم نے دنیا کو اپنے قومی تاریخی ورثے کی جانب بھی متوجہ کرایا جو صدیوں سے انتہا پسندی ،دہشتگردی اورجارحانہ عزائم کے خلاف ڈٹے رہنے کا سبق وحوصلہ دیتا آیا ہے اور یہ ورثہ اس پیارے شہرکے دامن میں بستا ہے کہ جس سے ''جنھے لہور نئیں ویکھیا، او جمیا ای نئیں''جیسی ضرب المثل منسوب ہے۔ پنجابی زبان میں پنجاب ہی کے شہر سے منسوب یہ ضرب المثل پورے ملک میں یکساں چاہت ،لذت اوراندازِ تلفظ کے ساتھ ادا کی اور سنی جاتی ہے ۔ کیونکہ یہ ضرب المثل پانچ دریاؤں کے لذیذ میٹھے پانیوں کی تاثیرکو بھی اپنے اندر سموئے ہوئے ہے جو پنجابی لسان میں بستی ہے ۔ پنجابی زبان کویہ اعزاز حاصل ہے کہ جس کو سننے سے سماعتوں کو پہنچنے والا احساس کسی مٹیارن کی بے فکری اور اتراتی چال کے شاعرانہ گدازکو بھی اپنے اندرسمائے ہوئے ملتا ہے۔ اس لذت کو چکھنے کے لیے انسانوں سے محبت رکھنے والے زندہ دلوں کے شہر لاہور اورلاہوریوں کے اظہار میں دیکھے جانے کا بہترین موقعہ پی ایس ایل فائنل کا تھا۔
عالمی کرکٹ، رکاوٹیں: پاکستان اپنے قیام کے پہلے دن سے جارحیت اورانتہا پسندانہ کارروائیوں کا شکار رہتا آیا ہے، لیکن نائن الیون کے تسلسل میں دنیا کے سب سے بڑے انتہا پسند یعنی امریکا بہادرکو اپنے ایئربیس دینے سے لے کر سانحہ سیہون تک پاکستان ہرروزاپنے طاقتوردشمنوں کی نت نئی اورگہری سازشوں کو ناکام بنانے میں سرگرداں رہتا آیا ہے۔اس دورانیے کواگر ہنگامی عرصے کا نام دیا جائے تو شایدکوئی مضائقہ نہ ہوگا۔ ایسے ہی ہنگامی حالات میں سانحہ سیہون نے قوم پر سوگوارکیفیت طاری کردی تھی وہیں دیگر پہلوؤں کے علاوہ عالمی کرکٹ کی پاکستان سے منتقلی کے امکانات کو عملی شکل بھی دینی شروع کردی تھی ،کیونکہ 1987اور 1996کے ورلڈ کپ کی میزبانی کرنے والے ملک پاکستان میں مئی 2002میں نیوزی لینڈ تین ٹیسٹ میچزکھیلنے آئی اور دوسرے ٹیسٹ کے لیے دونوں ٹیمیں کراچی آئیں تو8مئی کوصبح ہوٹل کے باہر بم دہماکے میں 11فرانسیسی انجینئرزہلاک ہوگئے اور نیوزی لینڈ ٹیم واپس چلی گئی اور جب پی سی بی نے آئی سی سی اوردوسرے بوڈزکو پاکستان میں انٹر نیشنل کرکٹ کی بحالی پرآمادہ کرکے انگلینڈ ، بھارت اورجنوبی افریقہ کے خلاف ہوم سیریزکا موقعہ دلایا تو 3مارچ 2009کو لاہور کی لبرٹی مارکیٹ میں سری لنکن ٹیم پر دہشتگردوں کا حملہ ہوا۔ جس میں 6مہمان کرکٹرز، ایک پاکستانی امپائر اورانگلش میچ ریفری زخمی ہوئے ۔اس حملے نے پاکستان میں انٹرنیشنل کرکٹ پر کاری ضرب لگائی اور پی سی بی نے اپنی تمام ہوم سیریزمتحدہ عرب امارات میں کروائیں ۔ٹی ٹونٹی کرکٹ کی مقبولیت کے پیش نظر دیگرملکوں کی طرح پاکستان نے بھی سپرلیگ کا پلان بنایا ۔غیرملکی کرکٹرز، میچ آفیشلز،انٹرنیشنل میڈیا،اسپانسرزاورشائقین کے انکار پراس ایونٹ کی میزبانی بھی یو اے ای میں رکھوائی گئی۔ اولین ایڈیشن کی طرح دوسری بار مقابلے بھی یو اے ای میں کرائے گئے لیکن سانحہ سیہون سمیت دہشت گردی کی حالیہ بھیانک کارروائیوں کے باعث فائنل لاہور میں کروانے کا اعلان کیا گیا۔جس سے دہشتگرد اور ان کے سرپرستوں سمیت پاکستان دشمن قوتوں کو یہ پیغام دینا مقصود تھا کہ وہ دہشتگردی،انتہا پسندی اورجارحیت کے خلاف ہمارے آہنی قومی عزم کو شکست نہیں دے سکتے۔ پی ایس ایل فائنل لاہور میں منعقد کروانے سے انٹرنیشنل کرکٹ کی پاکستان میں واپسی کی راہ ہموارکرنے میں بھی مدد ملی ہے ۔اب دیکھنا صرف یہ ہے کہ پاکستان کی سرزمین پرانٹر نیشنل کرکٹ کی واپسی میں کتنا وقت لگتا ہے اورکون کون سی رکاوٹیں کھڑی ہونے والی ہیں ۔
درست وغلط کی بحث: بہت سے دانشوران کرام لاہور میں پی ایس ایل فائنل کروائے جانے کے اس عمل پر معترض تھے ۔بعض نے تو یہاں تک کہہ دیا تھاکہ اتنی سخت سیکیورٹی کے زیرسایہ شام وعراق میں بھی فائنل کروایا جاسکتا ہے ۔اتنی سخت سیکیورٹی میں اہل لاہوربری طرح متاثرہوئے ہیں۔ لوگوں کے کاروبار زندگی معطل ، روزانہ اجرت پر کام کرنے والے بیروزگارہوئے ، اسکول ،کالجز اور دفاتر میں کام کرنے والے پریشان رہے ۔ان میں سے کئی ایک ملک وقوم کے لیے سب کچھ قربان کردینے کے عزم کا بھی اظہارکرتے رہے، جو کہ بلاشبہ قابل ستائش عمل تھا۔ اس سارے منظرنامے میں لاہور نے کرکٹ شائقین کو پاکستان کامکمل نقشہ پیش کردیا تھا۔ یعنی ایک طرف حکومتی عہدیداران کی خواہ مخواہ کی سخت سیکیورٹی سے نالاں ملکی عوام قومی عزم واستقلال کے اظہار کے لیے جس طرح صبرواستقامت کواپنائے ہوئے تھے ۔اس کے تسلسل کا بہترین مظاہرہ لاہوریوں نے پی ایس ایل فائنل کے وقت کیا ۔دنیا کو جتنا اہم وبنیادی پیغام بھیجا جانا مقصود تھا اس کا سو فی صدی حق ادا کیا گیا۔البتہ جو سیکیورٹی کے ان انتظامات پرمعترض تھے ان کو سمجھنا چاہیے کہ دہشتگردی، انتہا پسندی اورجارحانہ عزائم کے خلاف ہمارے قومی آہنی عزم کے اظہاراوراقوام عالم کو اس ضمن میں مثبت پیغام دینے کے کام میں عام طورپرکرکٹ اورخاص طور موجودہ حالات میں پی ایس ایل فائنل کتنا اہم رول پلے کررہا تھا۔اس پیغام کو سیاسی، سفارتی یا میڈیا کی سطح پرکی جانے والی پروپیگنڈے کے مقابلے جتنے وسائل درکار تھے۔ اس سے کہیں کم سطح پر ہم نے وہ کام اس سے لیا ہے ۔ ریاستی ادارے بھی توقومی عزم واستقلال کے اظہارکے لیے ہوتے ہیں نا ؟ تو اس میں اگر سول اداروں کے ہزاروں عملداروں اور فوج کی کثیرنفری نے اپنے فرائض سرانجام دیے تو اس پر اعتراض کی کیا بات رہ جاتی ہے؟ بلا شبہ پی ایس ایل فائنل بہ احسن انداز میں لاہور میں منعقد کروانے اور اس کوکامیاب کروانے میں کردار نبھانے والے تمام ادارے، پورے ملک سمیت دنیا بھر سے شرکت کرنے والے اور میزبانی کا شرف رکھنے والے لاہوریے قابل ستائش ہیں ۔
اہم پیغام : جس طرح پنجاب پانچ دریاؤں کے خوبصورت ملاپ کی سرزمین ہے اور پنجابی زبان علاقائی زبانوں کوایک دوسرے کے قریب لانے کے بہت سارے اسباب اپنے اندر سمائے ہوئے ان کے درمیان ایک پل کا کردار ادا کرتی آئی ہے۔بالکل اسی طرح زندہ دل وجواں سال پنجابیوں کا شہر لاہور بھی عالم انسانیت کے دواہم ارتقائی مرحلوں کے قدیم انداز کی جدید امتزاجی جلوہ نمائی کا شاہکاردکھائی دیتا ہے ۔ لاہور اور لاہوریوں کا انداز دلربائی اوراپنائیت سے بھرپوراظہار تو ملاحظہ فرمایے کہ کرکٹ سے فارغ ہوتے ہی شائقین ہمارے قومی، تاریخی ورثوں کو دیکھے بغیر لاہور چھوڑنے والے نہیں ہیں /تھے۔ جن میں برصغیرکی تاریخ میں پہلی بار مضبوط مرکزی ریاست کی بنیادیں رکھنے والے مسلمانوں کے عظیم الشان محلات وعمارتیںاور برصغیرکے مسلمانوں کی لازوال نشاۃ ثانیہ کی ابتدائی یادگار یعنی مینار پاکستان کو شامل کرسکتے ہیں ۔جوکہ مضبوط مرکزی ریاست کی اہمیت وضرورت کے نہ صرف ناقابل تردید عظیم ثبوت ہیں بلکہ یہ عمارتیں ہمارے قائدانہ کردار اور صلاحیتوں کے بہترین پیغام کا کام بھی کرتی ہیں ۔یعنی کرکٹ کی معارفت ہم نے دنیا کو اپنے قومی تاریخی ورثے کی جانب بھی متوجہ کرایا جو صدیوں سے انتہا پسندی ،دہشتگردی اورجارحانہ عزائم کے خلاف ڈٹے رہنے کا سبق وحوصلہ دیتا آیا ہے اور یہ ورثہ اس پیارے شہرکے دامن میں بستا ہے کہ جس سے ''جنھے لہور نئیں ویکھیا، او جمیا ای نئیں''جیسی ضرب المثل منسوب ہے۔ پنجابی زبان میں پنجاب ہی کے شہر سے منسوب یہ ضرب المثل پورے ملک میں یکساں چاہت ،لذت اوراندازِ تلفظ کے ساتھ ادا کی اور سنی جاتی ہے ۔ کیونکہ یہ ضرب المثل پانچ دریاؤں کے لذیذ میٹھے پانیوں کی تاثیرکو بھی اپنے اندر سموئے ہوئے ہے جو پنجابی لسان میں بستی ہے ۔ پنجابی زبان کویہ اعزاز حاصل ہے کہ جس کو سننے سے سماعتوں کو پہنچنے والا احساس کسی مٹیارن کی بے فکری اور اتراتی چال کے شاعرانہ گدازکو بھی اپنے اندرسمائے ہوئے ملتا ہے۔ اس لذت کو چکھنے کے لیے انسانوں سے محبت رکھنے والے زندہ دلوں کے شہر لاہور اورلاہوریوں کے اظہار میں دیکھے جانے کا بہترین موقعہ پی ایس ایل فائنل کا تھا۔