85 فیصد شہری پینے کے صاف پانی سے محروم ہیں ماہر ماحولیات
مزید ڈیم نہ بنائے گئے توآبپاشی تو درکنارپینے کے لیے بھی پانی دستیاب نہ ہوگا، پروفیسر ڈاکٹر معین
ISLAMABAD:
پاکستان سمیت دنیا بھر میں22 مارچ بدھ کو عالمی یوم آب منایا جائے گا۔
پانی کا عالمی دن اقوام متحدہ کی کانفرنس برائے ماحولیات و ترقی کی تصدیق کے بعد1993 میں پہلی بار 22 مارچ کو منایا گیا، اس کا مقصد دنیا بھر میں پانی کی اہمیت کو اجاگر کرنا اوراس کی بڑھتی ہوئی کمی کا احساس دلانا تھا اس سال اس دن کو ''پانی اور گندے پانی'' کے عنوان پر منایا جارہا ہے۔
پانی کے عالمی دن کے حوالے سے ماہر موحولیات ڈاکٹر اقبال سعیدخان نے بتایا ہے کہ گلوبل وارمنگ کے باعث دنیا بھر میں گلیشیرز تیزی سے پگھل رہے ہیں جس سے سمندر کی سطح بلند اور پینے کے صاف پانی کی قلت پیدا ہورہی ہے پاکستان کے85 فیصد شہری پینے کے صاف پانی سے محروم ہیں اس وقت دنیا میں 900 ملین سے زائد انسان ایسے ہیں جوکہ پینے کے صاف پانی سے محروم ہیں پاکستان جو کبھی بڑی مقدار میں آبی وسائل سے مالا مال تھا آج پانی کے شدید کمی کا شکار ہے ملک کی آبادی20 کروڑ تک پہنچ چکی ہے کثیر آبادی کو پینے کا صاف پانی میسر نہیں۔
پاکستان کونسل آف ریسرچ آن واٹر ریسورسز (پی سی آر ڈبلیو)کے مطابق پاکستان کی85 فیصد شہری پینے کے صاف پانی سے محروم ہے جبکہ دیہاتوں میں 82 فیصد لوگوں کو پینے کا صاف پانی دستیاب نہیں جس کی وجہ سے ہر سال ہزاروں افراد اسہال، ہیضہ، یرقان اور موذی بیماریوں کا شکار ہوکر لقمہ اجل بن جاتے ہیں۔
ایشین ڈیولپمنٹ بینک کی جولائی2013 کی رپورٹ کے مطابق پاکستان دنیا میں واحد ملک ہے جو تیزی سے پانی کے بحران کی جانب بڑھ رہا ہے چونکہ درجہ حرارت میں اضافے کے باعث پاکستان میں ہمالیائی گلیشیرز پگھل رہے ہیں جس سے دنیا کے بڑے دریا مثلاً دریائے سندھ، گنگا، برہم پترا، سلوین، میکا ونگ، پانگ ژی اور زرد دریا نکلتے ہیں ،جس سے پاکستان، بھارت، چین اور نیپال میں زندگی رواں دواں رہتی ہے گلوبل وارمنگ کی وجہ سے گلیشیرز کے تیزی سے پگھلنے کے باعث دریاؤں میں طغیانی پیدا ہوتی ہیں جس سے دریا کے کناروں پر آباد لاکھوں لوگوں کو سیلاب کا سامنا رہتا ہے اور جب دریاؤں میں پانی کی مقدار کم ہوجائے تو خشک سالی کا عذاب سہنا پڑتا ہے۔
جامعہ اردو کے پروفیسر ڈاکٹر معین کا کہنا ہے کہ پاکستان کے آبی وسائل کے حوالے سے منصوبہ بندی نہ کی گئی اور ڈیم تعمیر نہ کیے گئے تو ملک میں پانی کی قلت اس حد تک بڑھ جائے گی کہ آبپاشی تو درکنار پینے کا صاف پانی بھی پینے کے لیے دستیاب نہیں ہوگا واضح رہے کہ بھارت 114سے زائد ڈیم بناچکا ہے جبکہ پاکستان میں صرف 2 بڑے تربیلا اور منگلا ڈیم ہیںجوکہ مٹی اور ریت سے بھرچکے ہیں اور گنجائش سے کم مقدار میں پانی ذخیرہ کررہے ہیں پاکستان میں پانی کو ذخیرہ کرنے کی گنجائش صرف30 روز تک محدود ہوکر رہ گئی ہیں جس کو ایک ہزار دن تک ایمرجنسی کی صورت میں پانی ذخیرہ کرنے کی گنجائش کا حامل ہونا تھا جبکہ بھارت120سے220 دن تک متعلقہ دریاؤں کو رواں رکھ سکتا ہے۔
ماہرین کے مطابق اگر پاکستانی حکومت پانی کی منصفانہ تقسیم اور آبی ذخائر کے تحفظ کو یقینی بناتا تو پاکستان دنیا کا ترقی یافتہ اور خوشحال ملک بن سکتا تھا مگر حکمرانوں کی ناقص حکمت عملی کے باعث آج ملک پانی کی قلت سے دوچار ہے پاکستان میں زیر زمین سطح پر صاف پانی کی شرح 50 ملین ایکڑ فٹ ہے جس کا75 فیصدپنجاب جبکہ صرف28 فیصد حصہ سندھ میں استعمال ہوتا ہے اس حوالے سے سندھ حکومت کو پنجاب حکومت سے پانی کی منصفانہ تقسیم کے حوالے سے مذاکرات کرنا ضروری ہیں۔
پاکستان سمیت دنیا بھر میں22 مارچ بدھ کو عالمی یوم آب منایا جائے گا۔
پانی کا عالمی دن اقوام متحدہ کی کانفرنس برائے ماحولیات و ترقی کی تصدیق کے بعد1993 میں پہلی بار 22 مارچ کو منایا گیا، اس کا مقصد دنیا بھر میں پانی کی اہمیت کو اجاگر کرنا اوراس کی بڑھتی ہوئی کمی کا احساس دلانا تھا اس سال اس دن کو ''پانی اور گندے پانی'' کے عنوان پر منایا جارہا ہے۔
پانی کے عالمی دن کے حوالے سے ماہر موحولیات ڈاکٹر اقبال سعیدخان نے بتایا ہے کہ گلوبل وارمنگ کے باعث دنیا بھر میں گلیشیرز تیزی سے پگھل رہے ہیں جس سے سمندر کی سطح بلند اور پینے کے صاف پانی کی قلت پیدا ہورہی ہے پاکستان کے85 فیصد شہری پینے کے صاف پانی سے محروم ہیں اس وقت دنیا میں 900 ملین سے زائد انسان ایسے ہیں جوکہ پینے کے صاف پانی سے محروم ہیں پاکستان جو کبھی بڑی مقدار میں آبی وسائل سے مالا مال تھا آج پانی کے شدید کمی کا شکار ہے ملک کی آبادی20 کروڑ تک پہنچ چکی ہے کثیر آبادی کو پینے کا صاف پانی میسر نہیں۔
پاکستان کونسل آف ریسرچ آن واٹر ریسورسز (پی سی آر ڈبلیو)کے مطابق پاکستان کی85 فیصد شہری پینے کے صاف پانی سے محروم ہے جبکہ دیہاتوں میں 82 فیصد لوگوں کو پینے کا صاف پانی دستیاب نہیں جس کی وجہ سے ہر سال ہزاروں افراد اسہال، ہیضہ، یرقان اور موذی بیماریوں کا شکار ہوکر لقمہ اجل بن جاتے ہیں۔
ایشین ڈیولپمنٹ بینک کی جولائی2013 کی رپورٹ کے مطابق پاکستان دنیا میں واحد ملک ہے جو تیزی سے پانی کے بحران کی جانب بڑھ رہا ہے چونکہ درجہ حرارت میں اضافے کے باعث پاکستان میں ہمالیائی گلیشیرز پگھل رہے ہیں جس سے دنیا کے بڑے دریا مثلاً دریائے سندھ، گنگا، برہم پترا، سلوین، میکا ونگ، پانگ ژی اور زرد دریا نکلتے ہیں ،جس سے پاکستان، بھارت، چین اور نیپال میں زندگی رواں دواں رہتی ہے گلوبل وارمنگ کی وجہ سے گلیشیرز کے تیزی سے پگھلنے کے باعث دریاؤں میں طغیانی پیدا ہوتی ہیں جس سے دریا کے کناروں پر آباد لاکھوں لوگوں کو سیلاب کا سامنا رہتا ہے اور جب دریاؤں میں پانی کی مقدار کم ہوجائے تو خشک سالی کا عذاب سہنا پڑتا ہے۔
جامعہ اردو کے پروفیسر ڈاکٹر معین کا کہنا ہے کہ پاکستان کے آبی وسائل کے حوالے سے منصوبہ بندی نہ کی گئی اور ڈیم تعمیر نہ کیے گئے تو ملک میں پانی کی قلت اس حد تک بڑھ جائے گی کہ آبپاشی تو درکنار پینے کا صاف پانی بھی پینے کے لیے دستیاب نہیں ہوگا واضح رہے کہ بھارت 114سے زائد ڈیم بناچکا ہے جبکہ پاکستان میں صرف 2 بڑے تربیلا اور منگلا ڈیم ہیںجوکہ مٹی اور ریت سے بھرچکے ہیں اور گنجائش سے کم مقدار میں پانی ذخیرہ کررہے ہیں پاکستان میں پانی کو ذخیرہ کرنے کی گنجائش صرف30 روز تک محدود ہوکر رہ گئی ہیں جس کو ایک ہزار دن تک ایمرجنسی کی صورت میں پانی ذخیرہ کرنے کی گنجائش کا حامل ہونا تھا جبکہ بھارت120سے220 دن تک متعلقہ دریاؤں کو رواں رکھ سکتا ہے۔
ماہرین کے مطابق اگر پاکستانی حکومت پانی کی منصفانہ تقسیم اور آبی ذخائر کے تحفظ کو یقینی بناتا تو پاکستان دنیا کا ترقی یافتہ اور خوشحال ملک بن سکتا تھا مگر حکمرانوں کی ناقص حکمت عملی کے باعث آج ملک پانی کی قلت سے دوچار ہے پاکستان میں زیر زمین سطح پر صاف پانی کی شرح 50 ملین ایکڑ فٹ ہے جس کا75 فیصدپنجاب جبکہ صرف28 فیصد حصہ سندھ میں استعمال ہوتا ہے اس حوالے سے سندھ حکومت کو پنجاب حکومت سے پانی کی منصفانہ تقسیم کے حوالے سے مذاکرات کرنا ضروری ہیں۔