بھارت کھلے رویے کا اظہار کرے

ضرورت اس بات کی ہے کہ آبی مذاکرات کو تسلسل جاری رہنا چاہیے

ضرورت اس بات کی ہے کہ آبی مذاکرات کو تسلسل جاری رہنا چاہیے . فوٹو : فائل

سندھ طاس معاہدے پر پاکستان اور بھارت کے مذاکرات پیر کو اسلام آباد میں ہوئے جن میں آبی مسائل اور ڈیموں کی تعمیر و ڈیزائن سے متعلق امور زیر غور لائے گئے مگر اہم بریک تھرو 13 مارچ کے دبئی ٹریک ٹو مذاکرات میں مثبت پیش رفت کا عندیہ ہے جس سے امید کی جاسکتی ہے کہ آبی امور پر بات چیت سے برف مزید پگھلے گی اور خطے کے دو ایٹمی ہمسایہ ملک دیرینہ ایشوز کے حل کے لیے ڈائیلاگ کی طرف رجوع کرنے کا سلسلہ جاری رکھیں گے۔

مبصرین کے مطابق پاک بھارت تنازعات کا حل بات چیت میں مضمر ہے اور آج دوطرفہ مذاکرات کو وقت کی اہم ضرورت سمجھتے ہوئے بھارت اپنی روایتی ہٹ دھرمی ترک کردے ، بھارت کور ایشوز پر نیک نیتی سے مذاکرات پر اتفاق کرے تو کوئی وجہ نہیں کہ کشن گنگا ڈیم اور رتلے پاور پروجیکٹ سمیت دیگر متنازع آبی معاملات ،کشمیر میں ظلم اور لائن آف کنٹرول پر جاری بلاجواز کشیدگی ختم نہ ہو، کیا بھارت کو کشمیر کی خونیں صورتحال پسندیدہ لگتی ہے جب کہ یہ انسانیت کے خون سے عبارت تاریخی الم ناکی ہے۔

عالمی حقائق کی کیمسٹری بدل چکی ہے ،آج دنیا اس حقیقت سے واقف ہے کہ کشمیرپاک بھارت تنازعات میں کسی فلیش پوائنٹ سے کم نہیں، اگر پاک بھارت ایٹمی جنگ کے خطرات پر اندیشے اور خوف کے بگولے اٹھتے دکھائی دیتے ہیں تو بھارت پر لازم ہے وہ پاکستان کی امن پسندانہ اور زمینی حقائق سے جڑی ہوئی سفارتی ، سیاسی اور تزویراتی اسپیس سے فائدہ اٹھائے اور جنگجویانہ قوم پرستی، ہندوتوا اور سیکولرازم سے متصادم پالیسیوں کا پرچار نہ کرے ، جنگ کسی مسئلہ کا حل نہیں۔

جارحیت کی کسی دھمکی سے بھارت کو کوئی یک طرفہ ڈپلومیٹک لیوریج نہیں ملے گا اسی طرح اسٹریٹجیکل پیش رفت کی اس کی توقعات بھی پوری نہ ہوسکیں گی، اس لیے بھارت اور پاکستان کے لیے مذاکرات کا جو سنہرا ماحول حالیہ آبی مذاکرات اور دبئی ٹریک ٹو بات چیت کے سیاق وسباق میں پیدا ہوا ہے، اسے آگے جا کر کسی صائب اور منطقی سمت میں نتیجہ خیز ہونا چاہیے، مسئلہ کشمیر کا حل خطے میں دو بڑے ہمسایوں کی تاریخی کشمکش اور مخاصمت سے پیچھا چھڑانے اور امن کے مقصد کو پانے کا زینہ بن سکتا ہے مگر اس کے لیے سفارت کاری اور اوپن ڈائیلاگ پر متفق ہونا ناگزیر ہے جب کہ اہم سیاسی ایشوز اور اعصاب شکن تنازعات کو سنجیدہ رابطوں، ٹھوس ملاقاتوں، بے لوث مفاہمت، دور اندیشی سے حل کرنے کی ضرورت ہے تاکہ برصغیر کے کروڑوں انسانوں کو ان کے خوابوں کی حسین تعبیریں جب کہ کشمیریوں کو حق خودارادیت کے عالمی اصول کے تحت جینے کا اذن ملے۔

پاک بھارت ٹینشن کا ایک سبب متنازع بھارتی ڈیموں کی کشاکش ہے، چنانچہ مودی سرکار کے لیے پاکستان کی امن کے لیے فراخدلانہ پیشکش کو قبول کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں، بھارت پاکستان فوبیا سے خود بھی بچے اور خطے کو بھی جنگجوئی سے بچائے، کیونکہ یہی طرز عمل کئی سالوں کی بے سمت مسافت کا مناسب اور دائمی حل ہے۔


بھارت اپنا فرسودہ اور چانکیائی مائنڈ سیٹ بدلے تو خطے کی ڈائنامکس بدل سکتی ہیں، دونوں ممالک امن عالم اور خطے کے اہم مسائل پر ایک دوسرے کے روبرو بیٹھ کر تصفیہ کا کوئی راستہ نکالیں تو دنیا میں اس ایٹمی خطرے کو ٹالا جاسکتا ہے جس پر عالمی مدبرین ، متعدد امریکی دفاعی حکام اور ماہرین انتباہ کرچکے ہیں، حال ہی میں سابق امریکی وزیردفاع ولیم پیری بھی پاک بھارت ایٹمی خطرہ کا انتباہ دے چکے ہیں۔

ضرورت اس بات کی ہے کہ آبی مذاکرات کو تسلسل جاری رہنا چاہیے، گزشتہ روز پاکستان نے بھارت کے رتلے پن بجلی منصوبے پر اعتراض اٹھاتے ہوئے اس حوالے سے مزید کوئی بات چیت کرنے سے انکار کرتے ہوئے معاملے کو عالمی ثالثی عدالت لے جانے کا عندیہ دیدیا ہے جب کہ بھارتی وفد نے روایتی ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے متنازعہ ڈیموں پر بات کرنے سے انکارکردیا اور موقف اختیارکیا کہ چونکہ اجلاس کے مینڈیٹ میں یہ بات شامل نہیں اس لیے صرف پانی کی تقسیم پر بات کی جائے گی۔

دوسری جانب مذاکرات سے قبل پریس کانفرنس کرتے ہوئیوفاقی وزیر پانی وبجلی خواجہ آصف نے بھارتی وفد کی پاکستان آمد کا خیر مقدم کرتے ہوئے واضح کیاکہ پاکستان پانی پر اپنے مفادات کا تحفظ کریگا، سندھ طاس معاہدے پر عملدرآمد پاکستان اور بھارت دونوں کے مفاد میں ہے، بھارت کے اقتصادی راہداری منصوبے میں شامل ہونے کے لیے کشمیر کا مسئلہ کوئی رکاوٹ پیدا نہیں کرے گا کیونکہ یہ منصوبہ علاقوں کو ایک دوسرے سے ملانے اور جنوبی ایشیاء کے سب لوگوں کی خوشحالی کا ہے، پاکستان اور چین کو چینی صدر کے ون بیلٹ و ن روڈ منصوبے کو کشمیر کے مسئلے کے ساتھ منسلک نہیں کرنا چاہیے۔

چین کے سرکاری اخبار گلوبل ٹائمز میںکہا گیا ہے کہ کشمیر کے مسئلے پر پاکستان اور بھارت کے درمیان تنازعے نے نئی دہلی کو عادتاً بڑے پیمانے پر علاقے میں ہونے والی غیر ملکی ممکنہ سرمایہ کاری کے خلاف حساس بنادیا ہے۔ امید ہے فوائد کو دیکھتے ہوئے بھارت کی آنکھیں کھل جائیں گی اور وہ ان منصوبوں میں شمولیت کے لیے کھلا رویہ اختیار کرے گا۔ اسی کھلے بھارتی رویے کا پاکستان منتظر ہے۔

 
Load Next Story