ہم زندہ ہیں
ہماری قومی تاریخ سیاست کی تاریخ ہے
سیاستدانوں کی بے عملی سے پریشان سیاسی مزاج کے مالک پاکستانی عوام جو شروع دن سے ہی سیاست کے عادی ہیں بلکہ ان کا غیر نصابی مسئلہ ہی سیاست ہے۔ سیاست اور ریاست دانوں کے ساتھ ان کا کھیل کود مسلسل اور دن رات جاری رہتا ہے اور وہ سیاست دانوں کی بے عملی کو بڑی تشویش اور شدت کے ساتھ محسوس کرتے ہیں۔ جیسے کسی نے ان سے ان کا پسندیدہ کھلونا چھین لیا ہو اور وہ اس کے چھن جانے پر بے زار بیٹھے ہوں۔
ہماری قومی تاریخ سیاست کی تاریخ ہے ایک زبردست سیاسی سرگرمی کے ذریعے ہم نے یہ ملک حاصل کیا تھا اگر جان توڑ کر سیاست نہ کرتے تو ہم ہندوستان کی ایک کمزور سی ریاست ہوتے جو اس بھرے پرے ہندوستان کی قومی سیاست کا ایک کمزور سا حصہ ہوتی جس کے آس پاس ہر طرف غیر مسلم دکھائی دیتے اور ہم ان کا کھلونا بنے رہتے۔ یہ ملک غیر مسلموں کا ملک ہوتا ہمارے پاس ہمارا شاندار ماضی ضرور ہوتا لیکن اس وقت صرف اس کی یادیں ہی ہمارا سہارا ہوتیں یعنی پدرم سلطان بود۔
آج کی دنیا خوابوں اور یادوں پر زندہ نہیں رہتی وہ ٹھوس حقائق طلب کرتی ہے اور ان زندہ حقائق سے طاقت حاصل کرتی ہے ماضی کی تاریخ ذہنی سکون کا ایک سبب ضرور بنتی ہے لیکن وہ ایسے حقائق طلب کرتی ہے جن کی طاقت سے وہ اپنا حال سنوار سکے اور مستقبل کو روشن کر سکے۔ ہم ایک بے رحم زمانے میں زندہ ہیں جو ٹھوس حقائق کو طلب کرتا ہے خواہشوں کو گلے لگا کر خاموش نہیں رہ سکتا۔
آپ آج اور کل کا اخبار ہی دیکھ لیں۔ میرے سامنے پیر 20 مارچ کے اخبار کھلے ہیں۔ سندھ کے وزیراعلیٰ اور دوسرے وزیروں نے یک زبان ہو کر یہ اعلان کیا ہے کہ اگر وفاقی اداروں نے رویہ نہ بدلا تو وہ سندھ سے ان کا بوریا بستر لپیٹ دیں گے، گول کر دیں گے۔ یہ ایک صوبائی حکومت کی طرف سے مرکزی حکومت کو دھمکی ہے۔ کیا ایسی صورت حال کسی ایک محترم ملک میں پیش آ سکتی ہے اس سے تو یوں لگتا ہے جیسے ہم کسی دوسرے ملک کی کوئی حکومت ہیں جو اپنی مرکزی حکومت کو بوریا بستر گول کرنے کی دھمکی دے رہی ہے کہ تم ہماری نا پسند کی کارروائیاں بند کرو ورنہ ہم تمہیں ملک بدر کر دیں گے۔
یہ ایک صوبائی حکومت کے سربراہوں کی بات ہے جو اپنے ہی ملک کی مرکزی حکومت کو دھکی دے رہے رہے ہیں۔ یہ خبر پڑھنے اور ہمت پڑے تو غور کرنے کے بعد ہر پاکستانی کو اپنے اوپر شک گزرتا ہے کہ وہ کس ملک کا باشندہ ہے اور کیوں مرکزی حکومت کو دھمکیاں دے رہا ہے کہ میں تمہارا بوریا بستر گول کر دوں گا۔ ابھی کل کی بات ہے کہ پاکستان مٹانے والے لیڈر اس ملک کے اتحاد و استحکام کی باتیں کر رہے تھے اور اخباری زبان میں ابھی ان کی بات کی سیاسی خشک نہیں ہوئی تھی کہ وہ ملک توڑنے پر اتر آئے ہیں کہ میں اگر ناراض ہو گیا تو فلاں پارٹی کو سندھ سے نکال دوں گا یہ سندھ کے ایک بڑے اور بااختیار لیڈر کی بڑھک ہے۔
کیا ایسی باتیں کسی متحدہ ملک میں کہی جا سکتی ہیں اگر آج کے پاکستان میں اگر کوئی وفاقی حکومت ہے تو وہ ایسے صوبائی لیڈروں کو لگام کیوں نہیں دیتی جو اس کا فرض ہے۔ صوبے جو زبان استعمال کر رہے ہیں وہ کسی متحدہ ملک کے لیڈروں کی نہیں ہے جب ہمارے وفاقی لیڈر ہی پاکستان کے اتحاد پر زبانی کلامی ہی سہی متفق نہ ہوں تو ہم عوام کہاں جائیں اور اپنی پناہ کہاں تلاش کریں۔ میں آزاد ملک کا شہری ہونے پر خوش ہوں مگر اس ملک کو متحد تو رکھیں جس کے اتحاد میں ہماری زندگی ہے۔
ہماری کمزور وفاقی حکومت ملک کو ایک ملک بنا کر رکھنے میں شاید دلچسپی نہیں لے رہی ورنہ یہ سب کیسے ممکن تھا۔ بدقسمتی یہ ہے کہ یہ ملک ایک بڑے ملک کی تقسیم کے نتیجے میں قائم ہوا ایک ملک ٹوٹا اور اس میں سے ایک دوسرا ملک برآمد ہوا اس طرح یہ ایک روایت سی بن گئی کہ کسی ملک کو توڑ کر اس میں سے ایک اور ملک نکالا جا سکتا ہے۔
پہلے پہل ہندوستان میں سب کچھ ہوا اور باامر مجبوری مسلمانوں نے اپنے تحفظ کے لیے نیا ملک بنا لیا جو ایک کامیاب ملک بن کر زندہ ہے بلکہ آج کی دنیا کا ایک ایٹمی ملک ہے جو ایک معمولی بات نہیں ہے اور اس طرح بھارت کے مسلمانوں نے اپنے تحفظ کا جدید ترین بندوبست کر لیا اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اس خطے کے مسلمان ایک نئے عزم کے ساتھ زندگی بسر کر رہے ہیں اور انھیں کسی سے کوئی خطرہ نہیں وہ اب اس خطے کی ایک آزاد قوم ہیں جو آزاد زندگی بسر کر رہی ہے اور کسی بھی خطرے کا مقابلہ کرنے پر تیار ہے۔
اس کا یہ عزم اور اپنے اوپر اعتماد ہی اس کی آزاد زندگی کا نام ہے اور صرف دشمنوں کے سامنے ڈٹ کر کھڑی ہے۔ اس کی اس قومی عزم نے اسے ایک آزاد قوم بنا دیا ہے جس نے دنیا پر اپنی آزادی نافذ کر رکھی ہے۔ اس کا نام پاکستان ہے جس کی آزادی اور عزت کے محافظ خود پاکستانی ہیں کوئی امریکا یا روس نہیں ہیں۔ آج کے دور میں زندہ رہنا پڑتا ہے ورنہ ایک ایٹمی ملک کو کون زندہ و تابندہ دیکھ سکتا ہے۔ اپنے آپ کو دکھانا پڑتا ہے اور پاکستان اگرچہ اپنے پیدائشی دشمن بھارت کے مقابلے پر ہے لیکن اس حیثیت کو باقی رکھنا اس کی ہمت ہے اور یہ مسلسل جدوجہد کا تقاضا کرتا ہے۔ ہمیں اپنی زندگی کو باقی رکھنا ہے اور یہ ایک قومی جہاد ہے جو جاری رہے گا۔
ہماری قومی تاریخ سیاست کی تاریخ ہے ایک زبردست سیاسی سرگرمی کے ذریعے ہم نے یہ ملک حاصل کیا تھا اگر جان توڑ کر سیاست نہ کرتے تو ہم ہندوستان کی ایک کمزور سی ریاست ہوتے جو اس بھرے پرے ہندوستان کی قومی سیاست کا ایک کمزور سا حصہ ہوتی جس کے آس پاس ہر طرف غیر مسلم دکھائی دیتے اور ہم ان کا کھلونا بنے رہتے۔ یہ ملک غیر مسلموں کا ملک ہوتا ہمارے پاس ہمارا شاندار ماضی ضرور ہوتا لیکن اس وقت صرف اس کی یادیں ہی ہمارا سہارا ہوتیں یعنی پدرم سلطان بود۔
آج کی دنیا خوابوں اور یادوں پر زندہ نہیں رہتی وہ ٹھوس حقائق طلب کرتی ہے اور ان زندہ حقائق سے طاقت حاصل کرتی ہے ماضی کی تاریخ ذہنی سکون کا ایک سبب ضرور بنتی ہے لیکن وہ ایسے حقائق طلب کرتی ہے جن کی طاقت سے وہ اپنا حال سنوار سکے اور مستقبل کو روشن کر سکے۔ ہم ایک بے رحم زمانے میں زندہ ہیں جو ٹھوس حقائق کو طلب کرتا ہے خواہشوں کو گلے لگا کر خاموش نہیں رہ سکتا۔
آپ آج اور کل کا اخبار ہی دیکھ لیں۔ میرے سامنے پیر 20 مارچ کے اخبار کھلے ہیں۔ سندھ کے وزیراعلیٰ اور دوسرے وزیروں نے یک زبان ہو کر یہ اعلان کیا ہے کہ اگر وفاقی اداروں نے رویہ نہ بدلا تو وہ سندھ سے ان کا بوریا بستر لپیٹ دیں گے، گول کر دیں گے۔ یہ ایک صوبائی حکومت کی طرف سے مرکزی حکومت کو دھمکی ہے۔ کیا ایسی صورت حال کسی ایک محترم ملک میں پیش آ سکتی ہے اس سے تو یوں لگتا ہے جیسے ہم کسی دوسرے ملک کی کوئی حکومت ہیں جو اپنی مرکزی حکومت کو بوریا بستر گول کرنے کی دھمکی دے رہی ہے کہ تم ہماری نا پسند کی کارروائیاں بند کرو ورنہ ہم تمہیں ملک بدر کر دیں گے۔
یہ ایک صوبائی حکومت کے سربراہوں کی بات ہے جو اپنے ہی ملک کی مرکزی حکومت کو دھکی دے رہے رہے ہیں۔ یہ خبر پڑھنے اور ہمت پڑے تو غور کرنے کے بعد ہر پاکستانی کو اپنے اوپر شک گزرتا ہے کہ وہ کس ملک کا باشندہ ہے اور کیوں مرکزی حکومت کو دھمکیاں دے رہا ہے کہ میں تمہارا بوریا بستر گول کر دوں گا۔ ابھی کل کی بات ہے کہ پاکستان مٹانے والے لیڈر اس ملک کے اتحاد و استحکام کی باتیں کر رہے تھے اور اخباری زبان میں ابھی ان کی بات کی سیاسی خشک نہیں ہوئی تھی کہ وہ ملک توڑنے پر اتر آئے ہیں کہ میں اگر ناراض ہو گیا تو فلاں پارٹی کو سندھ سے نکال دوں گا یہ سندھ کے ایک بڑے اور بااختیار لیڈر کی بڑھک ہے۔
کیا ایسی باتیں کسی متحدہ ملک میں کہی جا سکتی ہیں اگر آج کے پاکستان میں اگر کوئی وفاقی حکومت ہے تو وہ ایسے صوبائی لیڈروں کو لگام کیوں نہیں دیتی جو اس کا فرض ہے۔ صوبے جو زبان استعمال کر رہے ہیں وہ کسی متحدہ ملک کے لیڈروں کی نہیں ہے جب ہمارے وفاقی لیڈر ہی پاکستان کے اتحاد پر زبانی کلامی ہی سہی متفق نہ ہوں تو ہم عوام کہاں جائیں اور اپنی پناہ کہاں تلاش کریں۔ میں آزاد ملک کا شہری ہونے پر خوش ہوں مگر اس ملک کو متحد تو رکھیں جس کے اتحاد میں ہماری زندگی ہے۔
ہماری کمزور وفاقی حکومت ملک کو ایک ملک بنا کر رکھنے میں شاید دلچسپی نہیں لے رہی ورنہ یہ سب کیسے ممکن تھا۔ بدقسمتی یہ ہے کہ یہ ملک ایک بڑے ملک کی تقسیم کے نتیجے میں قائم ہوا ایک ملک ٹوٹا اور اس میں سے ایک دوسرا ملک برآمد ہوا اس طرح یہ ایک روایت سی بن گئی کہ کسی ملک کو توڑ کر اس میں سے ایک اور ملک نکالا جا سکتا ہے۔
پہلے پہل ہندوستان میں سب کچھ ہوا اور باامر مجبوری مسلمانوں نے اپنے تحفظ کے لیے نیا ملک بنا لیا جو ایک کامیاب ملک بن کر زندہ ہے بلکہ آج کی دنیا کا ایک ایٹمی ملک ہے جو ایک معمولی بات نہیں ہے اور اس طرح بھارت کے مسلمانوں نے اپنے تحفظ کا جدید ترین بندوبست کر لیا اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اس خطے کے مسلمان ایک نئے عزم کے ساتھ زندگی بسر کر رہے ہیں اور انھیں کسی سے کوئی خطرہ نہیں وہ اب اس خطے کی ایک آزاد قوم ہیں جو آزاد زندگی بسر کر رہی ہے اور کسی بھی خطرے کا مقابلہ کرنے پر تیار ہے۔
اس کا یہ عزم اور اپنے اوپر اعتماد ہی اس کی آزاد زندگی کا نام ہے اور صرف دشمنوں کے سامنے ڈٹ کر کھڑی ہے۔ اس کی اس قومی عزم نے اسے ایک آزاد قوم بنا دیا ہے جس نے دنیا پر اپنی آزادی نافذ کر رکھی ہے۔ اس کا نام پاکستان ہے جس کی آزادی اور عزت کے محافظ خود پاکستانی ہیں کوئی امریکا یا روس نہیں ہیں۔ آج کے دور میں زندہ رہنا پڑتا ہے ورنہ ایک ایٹمی ملک کو کون زندہ و تابندہ دیکھ سکتا ہے۔ اپنے آپ کو دکھانا پڑتا ہے اور پاکستان اگرچہ اپنے پیدائشی دشمن بھارت کے مقابلے پر ہے لیکن اس حیثیت کو باقی رکھنا اس کی ہمت ہے اور یہ مسلسل جدوجہد کا تقاضا کرتا ہے۔ ہمیں اپنی زندگی کو باقی رکھنا ہے اور یہ ایک قومی جہاد ہے جو جاری رہے گا۔