چہ دلاور است دز دے
ایک طرح سے ہم اسے قیامت کی نشانی بھی قرار دے سکتے ہیں
ویسے تو انگریزوں سے سب لوگوں کی کچھ نہ کچھ شکایت ہوتی ہے مثلاً زیادہ تر لوگوں کو یہ شکایت ہے کہ جانے میں اتنی جلدی کیوں کر گئے اور پھر اگر جانا ہی تھا تو اتنے خالی ہاتھ نہ جاتے اپنے ساتھ اپنا یہ سول سروس، پولیس، محکمہ مال اور تعمیرات وغیرہ بھی لے جاتے بلکہ بہتر ہوتا کہ لیڈروں سمیت سب کچھ ہی لے کر چلے جاتے اور صرف عوام کو یہاں چھوڑ جاتے لیکن ان کم بختوں نے آخر اپنی دشمنی نکال ہی دی جن چیزوں کو لے جانا تھا انھیں چھوڑ گئے اور جنھیں چھوڑ کر جانا تھا وہ لے گئے، ان ہی چیزوں میں وہ اپنی آنکھوں کا ''رنگ'' تو چھوڑ گئے لیکن بینائی لے گئے، چہرے لے گئے زبان چھوڑ گئے، لباس چھوڑ گئے جسم لے گئے۔
خیر یہ ایک لمبا دکھڑا ہے جو رویا جاتا رہے گا، فی الحال ہم چند بہت ہی چھوٹی چھوٹی چیزوں کی بات کرتے ہیں جو بہت آسانی سے لے جائی جا سکتی تھیں لیکن ہمارے سینے پر مونگ دلنے کے لیے چھوڑ گئے، ان چھوٹی چھوٹی اشیائے صرف میں وہ کہاوتیں بھی شامل ہیں جو وہ مدھو مکھیوں کی طرح ہمارے جسم میں چھوڑ چکے ہیں جن میں تو ایک تو یہ کم بخت بدبخت تیرہ بخت ''سوری'' ہے یہ وہ ربڑ ہے جو لکھ لکھتے رہو اور پھر یہ چھوٹی سی ٹکیہ پھیر کر مٹا دو، حالانکہ کوئی تحریر مٹتی کبھی نہیں ہے۔
سیسے کی سیاہی چلی جائے گی لیکن کاغذ پر نشان باقی رہ جاتے ہیں اور پھر ندیدوں کے ہاتھ بٹیر کیا لگ گیا کہ کسی کو گولی بھی مار دو اور سوری کہہ دو معاملہ ختم، لیکن سوری، ہم اصل نشانہ جس کہاوت یا جملے پر باندھنا چاہتے ہیں وہ اور ہے جو انگریزی میں بھی ایک بھونڈا اور فضول سا فقرہ ہے لیکن اردو یا مقامی زبانوں میں ترجمہ ہو کر کچھ اور بھی بے مقصد بے معنی اور بے فضول بن چکا ہے، یوں کہئے کہ کریلا پہلے ہی کیا کم تھا کہ اسے زقوم پر بھی چڑھایا گیا بلکہ ایسے مواقعے کے لیے ہمارے پاس پشتو کا ملامتی جملہ ہے کہ وہ تیرا باپ کیا کم تھا کہ تم نے کتا بھی پال لیا ... وہ جملہ انگریزی میں شاید ''ٹیک کیئر'' ہے اب ذرا سوچیے کہ آخر اس سے کہنے والا کیا جتانا چاہتا ہے یہ نا کہ تم تو پرلے درجے کے احمق الحمقا ہو اس لیے ذرا احتیاط سے ذرا سنبھل کر ذرا دھیان سے۔
ٹیک کیئر پہلے کہنا چاہیے تھا کہ ہم فضول قسم کی اخلاقیات چھوڑ کر تم سے خود کو محفوظ رکھ سکتے جو بات آتے ہی کہنا تھی وہ جاتے ہوئے کہہ رہے ہو، جب ہمارا سارا کھیت اپنی چڑیوں سے چگوا چکے تو اب ٹیک کیئر سے کیا فائدہ، اس ٹیک کیئر کو طرح طرح سے مقامی زبانوں میں ترجمہ کر کے مارا جاتا ہے مثلاً اپنا خیال رکھیے اب کوئی اس ہماری فکر میں فربہ ہونے والے سے پوچھے کہ دنیا میں آج تک ایسا کوئی احمق پیدا ہوا ہے جو اپنا خیال نہیں رکھتا جو تم ہمیں ''اپنا'' خیال رکھنے کو کہہ رہے ہو کیا ہم اس سے پہلے اپنا خیال نہیں رکھ رہے تھے اور اس اپنا خیال نہ رکھنے کی وجہ سے ہمیں کتے بلی کھا گئے جو تم آیندہ کے لیے ہمیں ''توجہ دلاؤ'' نوٹس تھما رہے ہو، ''ٹیک کیئر'' میں تو پھر بھی یہ جواز ملتا ہے کہ ہم کسی کو تھپڑ نہ ماریں، گالی نہ دیں یا ان جیسوں پر کتے نہ چھوڑیں۔
ہمارے ایک دوست (یہ اس کا خیال ہے ورنہ ہماری طرف سے تو دشمنوں کی صف میں ہے) اکثر صرف قرض مانگنے آتا ہے اور ہم بھی چوں کہ اسے جان اور پہچان چکے ہیں اس لیے کبھی اسے کچھ نہیں دیتے وہ بھی جاتے ہوئے اپنا خیال رکھیے ضرور کہتے ہیں احمق کو یہ تک احساس نہیں ہے کہ ہم اپنا خیال ہی تو رکھ کر اسے قرض نہیں دیتے اس سے زیادہ خیال اپنا اور کیا رکھیں گے اصل میں وہ خود ہی اپنا دشمن ہے، جاتے وقت یہ نصیحت کر کے وہ اصل میں اپنے پیروں پر کلہاڑی مارتا ہے یعنی ہم اپنا خیال رکھتے ہوئے آیندہ کے آنے پر کچھ اچھے اچھے بہانے تیار رکھیں
قاصد کے آتے آتے خط ایک اور لکھ رکھوں
میں جانتا ہوں کیا وہ لکھیں گے جواب میں
''اپنا'' کے معنی میں پھر بھی کچھ نہ کچھ ''اپن'' کا اشارہ پایا جاتا ہے یعنی شاید... ''اپنا خیال رکھیے'' والا یہ کہنا چاہتا ہوں کہ اپن کا بھی خیال رکھیے گا صرف اپنا ہی اپنا نہ کیجیے گا، لیکن اس کا جو ترجمہ کیا جاتا ہے اور آج کل تو بہت ہی کیا جاتا ہے اس میں کہنے والے کے لیے کوئی گنجائش ہی باقی نہیں رکھی جاتی، ''زان خیال ساتہ'' 'زان مطلب جان، یا خود یعنی اپنی جان اپنی خود کا خیال رکھیے اب یہ کوئی کہئے کہ سراسر اور کھلم کھلا ''خود غرضی'' کی پرچار ہے یا نہیں ۔ یعنی ۔ سب کو بلکہ سب کی جانوں کو گولی ماریئے صرف اپنی جان کا خیال رکھیے۔
ایک طرح سے ہم اسے قیامت کی نشانی بھی قرار دے سکتے ہیں کیونکہ قیامت کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ان دن نفسا نفسی کا عالم ہو گا کوئی اپنے ماں باپ بیوی بچوں کو نہیں پوچھے گا سب کو صرف جان کی پڑی ہو گی یہ گویا صاف صاف قرب قیامت کی نشانی ہے کہ صرف ''اپنی جان'' کا خیال رکھیے گا وہ تو اچھا ہے کہ لوگ باتوں کو سنجیدگی سے نہیں لیتے ہیں اور خواتین ویسے بھی کچھ زیادہ سمجھ دار نہیں سمجھی جاتیں ورنہ اس وقت اگر اس کی بیوی بھی موجود ہو اور آپ اسے ''اپنی جان کا خیال رکھیے'' کہہ دیں تو وہ سیدھی اپنی پاپوش پر جائے گی کہ تم نے تو میری ''جان'' ہی نکال دی۔
ہمارے ایک دوست جو صحافی ہونے کے ناتے ''دوستی'' کا حق مکمل دشمنی کی شکل میں ادا کرتے ہیں ان کا تو یہ جملہ گویا تکیہ کلام ہو گیا ہے لیکن صرف اسی کے منہ سے یہ جملہ نکل کر بہت زیادہ معنی خیز ہو جاتا ہے کیوں کہ وہ اپنے بارے میں مکمل جان کاری رکھتے ہیں کہ
یہ فتنہ آدمی کی خانہ ویرانی کو کیا کم ہے
ہوئے تم دوست جس کے، دشمن اس کا آسمان کیوں ہو؟
وہ اپنے ہر دوست اور جاننے والے اور خاص طور پر ہمیں بتانا چاہتے ہیں کہ ''اپنی جان کا خیال رکھیے'' یعنی مجھ سے خود کو بچا کر رکھیے اور یہ اتنی بڑی سچی تنبیہ ہے کہ انسان اگر سویا ہوا بھی ہو تو جاگ جائے، دراصل اسے خود پر اتنا بھروسہ ہے کہ وہ جاگی ہوئی ماں سے بھی اس کا بچہ چرا سکتا ہے تو اگر کسی کو جگا دیا اور اپنی طرف محتاط بھی کر دیا تو کوئی فرق نہیں پڑے گا، گویا
بفروغ چہرہ رویت ھمہ شب زند رہ دل
چہ دلاور است دز دے کہ بہ کف چراغ دارد
یعنی اس کی زلفیں، چہرے کی روشنی میں ساری رات دل کی بستیاں لوٹتی ہیں کیا دلیر چور ہے کہ ہاتھ میں چراغ لیے پھرتا ہے۔